Home » حضرت امام محمد الجواد   رض :سنی مصادر کی روشنی میں 
تفسیر وحدیث شخصیات وافکار

حضرت امام محمد الجواد   رض :سنی مصادر کی روشنی میں 

علی حمزہ افغان

آپ علیہ السلام امام سیّدنا علی بن موسیٰ الرضا علیہما السلام کے بیٹے تھے۔ آپ “ ابن الرضا” اور “التقی” کے القاب سے بھی جانے جاتے ہیں۔ اثنیٰ عشری شیعہ کے نزدیک آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نویں امامِ معصوم ہیں جبکہ اہل سنت اور زیدیہ کے یہاں بھی آپ کو عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ مشہور سنی محدث امام الذہبی رحمہ اللہ تعالیٰ آپ کے بارے میں لکھتے ہیں :

وَابْنُهُ مُحَمَّدٌ الجَوَادُ: مِنْ سَادَةِ قَوْمِهِ، لَمْ يَبْلُغْ رُتْبَةَ آبَائِهِ فِي العِلْمِ وَالفِقْهِ.

“ اور آپ (امام علی الرضا ع) کے صاحبزادہ محمد الجواد اپنی قوم کے معزز سرداروں میں سے تھے۔ گوکہ علم و فقہ میں اپنے آبا کے درجے تک نہیں پہنچے۔”

(سیر اعلام النبلاء : ١٢١/١٣، ط: الرسالة)

امام ذہبی رحمہ اللہ کے آپ کے علم کے بارے میں تبصرہ سے یقیناً اختلاف کیا جاسکتا ہے اور ایک باحث کو اسکا مکمل حق حاصل ہے مگر آپ نے دیکھا کہ وہ امام الجواد (ع) کے مقام اور خاندان میں آپ کی عزت و شرف کا اعتراف کررہے ہیں۔

خطیب البغدادی رحمہ اللہ نے اپنی “تاریخِ بغداد” میں آپ کا ترجمہ قائم کیا ہے اور لکھتے ہیں:

قدم من مدينة رسول الله ﷺ إلى بغداد وافدا على أبي إسحاق المعتصم ومعه امرأته أم الفضل بنت المأمون، فتوفي في ببغداد ودفن في مقابر قريش عند جده موسى بن جعفر، وحملت امرأته أم الفضل بنت المأمون إلى قصر المعتصم فجعلت مع الحرم، وقد أسند محمد بن علي الحديث عن أبيه.

“ آپ مدینہِ رسول سے بغداد ابواسحاق المعتصم (عباسی خلیفۂ وقت) کے پاس وفد کی صورت میں تشریف لائے اور آپ کے ساتھ آپ کی اہلیہ ام الفضل بنت مامون بھی تھیں۔ آپ کا انتقال بغداد میں ہی ہوا اور آپ کو قریش کے مقابر میں آپ کے دادا موسیٰ بن جعفر کے ساتھ دفن کیا گیا جبکہ آپ کی اہلیہ ام الفضل بنت مامون کو محل میں بلالیا گیا اور وہ حرم میں رہنے لگیں۔ محمد بن علی نے اپنے والد سے حدیث روایت کی ہے۔”

نیز اپنی سند سے لکھتے ہیں :

عن محمد بن سنان، قال: مضى أبو جعفر محمد بن علي وهو ابن خمس وعشرين سنة وثلاثة أشهر واثني عشر يوما، وكان مولده سنة مائة وخمس وتسعين من الهجرة، وقبض في يوم الثلاثاء لست ليال خلون من ذي الحجة سنة مائتين وعشرين.

“ محمد بن سنان سے روایت ہے وہ کہتے ہیں: ابوجعفر محمد بن علی کا وصال ۲۵ برس ، ۳ ماہ ، ۱۲ دن کی عمر میں ہوا۔ آپ کی ولادت سن ۱۹۵ ہجری میں ہوئی جبکہ آپ کا وصال منگل کے دن ذی الحج سے ۶ رات قبل سن ۲۲۰ میں ہوا۔”

(تاریخ بغداد ، رقم الترجمہ:۱۲۶۱، ط: دار الغرب الاسلامی)

علامہ ابن حجر الہیثمی نے بھی “ الصواعق المحرقہ” میں آپ کا مختصر ترجمہ ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ امام علی الرضا رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پانچ بیٹے اور ایک بیٹی تھیں اور ان میں سب سے زیادہ مکرم محمد الجواد تھے مگر آپ کی عمر کافی کم رہی یعنی جوانی میں ہی وصال ہوگیا پھر یہ بھی لکھا ہے کہ کہا جاتا ہے کہ آپ کو بھی زہر دیا گیا تھا۔

(الصواعق المحرقہ، ص:۲۵۴-۲۵۵، ط : العصریہ)

خطيب البغدادی نے آپ کی سند سے ایک حدیث بھی ذکر کی ہے:

أخبرنا الحسن بن أبي طالب، قال: حدثنا محمد بن عبد الله الشيباني، قال: حدثنا محمد بن صالح بن الفيض بن فياض، قال: حدثنا أبي، قال: حدثنا عبد العظيم بن عبد الله الحسني، قال: حدثنا أبو جعفر محمد بن علي بن موسى، عن أبيه علي، عن أبيه موسى، عن آبائه، عن علي، قال: بعثني النبي ﷺ إلى اليمن فقال لي وهو يوصيني: يا علي ما خاب من استخار ولا ندم من استشار، يا علي عليك بالدلجة فإن الأرض تطوى بالليل ما لا تطوى بالنهار، يا علي اغد باسم الله فإن الله بارك لأمتي في بكورها.

“ عبدالعظیم بن عبداللہ الحسنی روایت کرتے ہیں کہ ان سے ابو جعفر محمد بن علی بن موسیٰ نے روایت بیان کی ، اپنے والد علی سے، ان کے والد موسیٰ روایت کرتے ہیں اپنے آبا سے کہ علی (ع) سے روایت ہے فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے یمن بھیجا تو مجھے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: اے علی! وہ بندہ کبھی ناکام نہیں ہوتا جو استخارہ کرتا ہے اور وہ کبھی نادم نہیں ہوتا جو مشورہ کرتا ہے۔ اے علی! تم پر رات کا سفر لازم ہے کیونکہ رات کو زمین سمٹ جاتی ہے جوکہ دن کو نہیں ہوتا، اے علی! دن کا آغاز اللہ کے نام سے کرو کیونکہ اللہ نے میری امت کے لئے انکے صبح کے وقت میں برکت رکھی ہے۔”

(تاریخ بغداد: ۸۹/۴)

اس کے تمام راوی ہی ثقات ہیں سوائے محمد بن عبداللہ الشیبانی کے۔ اس راوی کے بارے میں ابن المنظور نے مختصر تاریخ دمشق میں خطیب بغدادی سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے:

بان كذبه، فمزقوا حديثه، وأبطلوا روايته

“ اسکا جھوٹا ہونا واضح ہوگیا تو لوگوں نے اسکی روایت کردہ احادیث مزق کردیں اور اس سے روایت کو باطل قرار دے دیا۔”

(مختصر تاریخ دمشق: ٣٢٤/٢٢، ط: دارلفکر)

خطیب البغدادی نے حافظ ابونعیم سے روایت کرتے ہوئے امام جواد سے ایک حدیث کی تشریح بھی ذکر کی ہے:

أخبرنا أبو نعيم الحافظ، قال: حدثنا أحمد بن إسحاق، قال: حدثنا إبراهيم بن نائلة، قال: حدثنا جعفر بن محمد بن مزيد، قال: كنت ببغداد فقال لي محمد بن منده بن مهربزد: هل لك أن أدخلك على ابن الرضا؟ قلت: نعم. قال: فأدخلني فسلمنا عليه وجلسنا، فقال له حديث النبي ﷺ إن فاطمة أحصنت فرجها فحرم الله ذريتها على النار، قال: خاص للحسن والحسين.

“ جعفر بن محمد بن مزید کہتے ہیں: میں بغداد میں تھا تو مجھ سے محمد بن مندہ بن مہربزد نے کہا: کیا تم ابن الرضا سے ملنا چاہتے ہو؟ میں نے کہا: جی۔ وہ کہتے ہیں :  تو ہم ان کے پاس گئے اور انہیں سلام کیا۔ پھر ہم نے ان سے عرض کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جو یہ حدیث ہے کہ فاطمہ نے چونکہ اللہ کی خاطر اپنی پاکدامنی کی حفاظت کی لہٰذا اللہ نے انکی اولاد پر جنہم حرام کردی ہے (اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟) تو انہوں نے فرمایا : یہ حسن و حسین (ع) کے لئے خاص ہے۔”

(تاریخ بغداد : ۸۹/۴)

یہ امام محمد بن علی الجواد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مختصر احوال سنی مصادر کی روشنی میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو ہم اکابر آئمہ اہل بیت کے حالات تحقیق کے ساتھ ایک کتاب میں جمع کریں گے تاکہ اس سے استفادہ  کیا جاسکے۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں