Home » مرد کی قوامیت
تفسیر وحدیث سماجیات / فنون وثقافت فقہ وقانون

مرد کی قوامیت

رضوان اسد خان

سورۃ النساء کی آیت 34 کے مطابق اگر کسی کی بیوی نشوز کی مرتکب ہو تو اللہ نے اسکی تادیب کے 3 مراحل بتائے ہیں۔

لیکن ٹھہریں۔ یہاں ذرا رک کر دوبارہ غور کریں کہ کس کی تادیب، کس کے ذمے لگائی جا رہی ہے اور بااختیار کون ہے۔

اچھا یہ بھی مدنظر رکھیں کہ ان مراحل کا کوئی ٹائم فریم نہیں دیا گیا۔ ایک مرحلے پر چند گھنٹے بھی لگ سکتے ہیں اور کئی ہفتے بھی۔ اور یہ شوہر کی دانشمندی، نبض شناسی اور قائدانہ صلاحیتوں پر منحصر ہے کہ وہ اپنی بیوی کے خاندانی پس منظر، تعلیم، سمجھ بوجھ، مزاج، شخصیت، نفسیات اور ان سب کو متاثر کرنے والے اندرونی اور بیرونی عوامل کی جانچ کے بعد کس سٹیج پر کتنا وقت لگاتا ہے اور اس میں صبر کا مادہ کتنا ہے۔

اور آپ سمجھ رہے تھے کہ قوام بننا کوئی عیاشی ہے؟!!!

شیکسپیئر سے ماخوذ، انگریزی کی کہاوت ہے:

Heavy            is           the            head            that            wears       the crown

خیر، ہم یہ عرض کر رہے تھے کہ یہ ایسا زبردست سولیوشن ہے جو صرف اور صرف کائنات کا خالق و مالک ہی دے سکتا تھا۔ یعنی یہ بیک وقت انتہائی مخصوص بھی ہے اور اس میں انتہا درجے کا عموم بھی ہے۔

مخصوص اس طرح کے یہ مردوں کیلئے ہے، صرف اپنی بیویوں کے بارے میں۔ یہ نہیں کہ ہر دوسری عورت پر اس طریقے سے حکمران بنتے پھریں۔ اور پھر یہ ہدایات عام چھوٹے موٹے لڑائی جھگڑوں کیلئے نہیں بلکہ صرف “نشوز” کی صورت میں ہیں۔ نشوز کی وضاحت ہم پہلی قسط میں کر آئے ہیں۔

اور عموم اس طرح کہ دنیا کہ ہر مسلمان جوڑے پر بہترین طریقے سے فٹ بیٹھ سکتا ہے، خواہ انکے تنازع کی نوعیت میں کتنا ہی تنوع کیوں نہ ہو۔۔۔!!!

1۔ وعظ و نصیحت

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بہت ساری غلط فہمیاں آپس میں مل بیٹھ کر آزادانہ فضا میں بات چیت کرنے سے ہی دور ہو جاتی ہیں۔ بیگم صاحبہ کو لانگ ڈرائیو پر یا کسی رومنٹک ریسٹورنٹ میں یا کسی خوبصورت پارک میں ڈیٹ پر لے جائیں اور کھل کر ہلکے پھلکے انداز میں اپنے شکوے سنائیں اور ان کی شکایتیں سنیں۔ ہاں، اس سے قبل دو نفل پڑھ کر اللہ سے خصوصی دعا کریں تو کیا ہی بات ہے۔

یقین کریں زیادہ تر مسائل غلط فہمیوں کی وجہ سے ہوتے ہیں جو افہام و تفہیم اور کچھ لو، کچھ دو کی پالیسی سے حل ہو جاتے ہیں۔

اس معاملے میں خصوصاً بچوں پر پڑنے والے برے اثرات، نفسیاتی مسائل مثلاً ڈپریشن، غصہ وغیرہ اور مرد کی کام میں اور بیوی کی گھر پر کارکردگی اور ایفیشینسی متاثر ہونے کو ڈسکس کیا جائے اور جلد از جلد کسی حل تک پہنچنے کی ضرورت پر زور دیا جائے۔ سسرال اور رشتے داروں کی انوالومنٹ سے نبٹنے کے بارے میں متفقہ اصول بنائے جائیں اور ان پر سختی سے عمل اور ایک دوسرے پر مکمل اعتماد اور بھروسے پر زور دیا جائے۔ شرعی احکامات کی اہمیت اور انکی بجا آوری کی ضرورت کو اس ایجنڈے میں سر فہرست رکھا جائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فیصل تسلیم کیا جائے۔ صحابہ اور اسلاف کی مثالیں دی جائیں لیکن جان بوجھ کر انہیں اپنی مرضی اور مفاد کا مطلب دئیے بغیر۔ اس سلسلے میں کسی ایسے عالم/عالمہ سے مشاورت پر اتفاق کیا جائے جس پر دونوں کو اعتماد ہو۔ خاندان کے کسی بڑے/بڑوں کو بھی ثالثی کیلئے نامزد کیا جا سکتا ہے جس کے تجربے اور دانش پر دونوں کو بھروسہ ہو۔

اچھا ادھر ہی ہم دوسرا سیناریو بھی دیکھ لیتے ہیں:

فرض کریں کہ شادی کے وقت آپ اتنے محتاط نہ تھے، یا محبت میں اندھے ہو گئے تھے، یا والدین سے انتخاب میں خطا ہو گئی، یا آپکو اس بات کا شعور ہی نہ تھا اور کوئی کٹر قسم کی فیمنسٹ آپ کے گلے پڑ گئی۔ تو اب چونکہ آپ نے شادی سے پہلے کوئی شرائط طے نہ کی تھیں کہ فیمن ازم کا داخلہ گھر میں ممنوع ہے، تو اب یہ ایک مشکل اور پیچیدہ صورتحال ہے۔ بالخصوص اس صورت میں کہ پہلے آپکو فیمن ازم کے بارے میں ادراک ہی نہیں تھا اور اب آپ کے تجربے اور مطالعے نے آپکی آنکھیں کھول دی ہیں۔

میرے خیال میں اس صورت میں بہت زیادہ صبر و تحمل کے ساتھ اس وعظ و نصیحت والے مرحلے کو کافی طول دینا چاہیے اور دعا، دلیل اور جذباتی و نفسیاتی ہر قسم کے حربے آزما لینے کے بعد ہی اگلی سٹیج پر جانا چاہیے۔

اس سلسلے میں میرا افسانہ “آئی ایم ٹرننگ” کا مطالعہ مفید ہو گا، ان شاءاللہ۔ لنک کمنٹ میں دے دیا جائے گا۔

2۔ بستر کی تنہائی:

۔۔۔۔۔۔۔

اس مرحلے پر جانے سے پہلے اس بات کا فیصلہ کر لیں کہ کیا آپکی بیوی کے دل میں اب بھی آپکی قدر اور محبت موجود ہے یا اس فتنے کی آگ میں جل کر بھسم ہو چکی ہے۔۔۔ کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ اس حد تک “آزاد” ہو چکی ہو کہ اسے اب آپکی کوئی پروا ہی نہ ہو بلکہ الٹا وہ اس سزا کو انجوائے کر رہی ہو۔

اگر حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں، مذاکرات ناکام ہو چکے ہیں، تو پھر تو اگلی سٹیج پر جانے کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔ پھر بہتر یہی ہے کہ طلاق کا آپشن استعمال کریں اور راستے جدا کر لیں۔

لیکن اگر ابھی محبت باقی ہے تو ناراضگی کے اظہار کیلئے اپنا بستر الگ کر لیں۔ صورتحال، سہولیات اور اپنے اور بیوی کے مزاج کے حساب سے اسکی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں:

۔ اسی کمرے میں الگ بستر لگا لیں

۔ کمرہ الگ کر لیں

۔ اسے میکے بھیج دیں

۔ خود کہیں اور شفٹ ہو جائیں

ظاہر ہے یہ تدبیر عارضی ہے اور اسکا دورانیہ بھی آپ نے خود حکمت اور حکمت عملی سے طے کرنا ہے۔ مخصوص کیسز میں اس کے ساتھ ہی دوسری شادی کا ذکر بھی فائدہ مند ہو سکتا ہے اور اسکی تاثیر بھی ان حالات میں زیادہ ہو گی۔ لیکن کچھ کیسز میں اسکا نقصان زیادہ ہو سکتا ہے اور بجائے ندامت کے، بیوی میں مزید بغاوت پیدا کر سکتا ہے۔ لہذا یہ فیصلہ بھی بہت زیادہ دانشمندی کا متقاضی ہے۔

یہ ایک نفسیاتی حربہ ہے، محض جنسی لذت سے محروم کرنا نہیں ہے۔ ویسے بھی عموماً جنسی تعلقات کی رغبت مرد میں عورت سے زیادہ ہوتی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ عورت ہمیشہ سے ساتھی کے قطع تعلق کو بہت سنجیدگی سے لیتی ہے خواہ وہ اسکی عزیز سہیلی ہو، عزیز رشتے دار یا پھر شوہر، خواہ ان سے لڑائی ہی کیوں نہ ہو۔۔۔

تو ممکن ہے بہت سی خواتین اس قطع تعلقی کو برداشت نہ کریں۔ اور پھر خواہ شوہر نے ایسی کوئی بات نہ بھی کی ہو تو بھی اسکی دوسری شادی کی آپشن عورت کے دماغ پر تلوار بن کر لٹکتی رہتی ہے اور شوہر کو قوام تسلیم کرنے پر مجبور کر سکتی ہے۔

اس مرحلے پر شوہر کو چاہیے کہ کچھ سمجھدار خواتین کو بیوی کے پاس اسے سمجھانے کیلئے بھیجے۔ لیکن بیوی کو پتا نہ چلے کہ انہیں شوہر نے بھیجا ہے اور نہ ہی وہ عورتیں شوہر کی وکالت کریں۔ بس اس خاتون کو تنہائی اور معاشرے میں تنہا رہ جانے کے نقصانات سے آگاہ کریں۔ دوسری طلاق یافتہ عورتوں کی پریشانیوں کی مثالیں دیں۔

اس دوران شوہر کو ادھر ادھر تاک جھانک کرنے کی بجائے اللہ سے تعلق مضبوط بنانا چاہیے اور دعاؤں کا سلسلہ جاری رکھنا چاہیے

3۔ مارنا:

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قرآن کی یہ آیت اور اس آیت کا یہ مرحلہ حقیقتاً “فرقان” ہے۔ یہ وہ مرحلہ ہے جو اللہ سے ڈرنے والی اور اسکے احکامات پر سر تسلیم خم کرنے والی عورتوں کو، ہر اس عورت سے چھانٹ کر الگ کر دیتا ہے جس کے دل میں رتی برابر بھی فیمن ازم کی آلودگی موجود ہو۔۔۔!!!

یہ آیت ان معنوں میں ایک معجزہ ہے کہ اللہ کو پتا تھا کہ ایک دور آنے والا ہے جب اسکے اس حکم پر عمل تو دور کی بات، اسے دل سے تسلیم کر لینا ہی ہاتھ میں انگارہ پکڑنے سے زیادہ مشکل ہو جائے گا۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی/حجابی فیمنسٹس اور معذرت خواہ اور سمپ قسم کے “سکالرز” اسکی عجیب عجیب تاویلات کرتے ہیں۔

بہرحال تیسرا مرحلہ ہے کہ اگر تنہا چھوڑ دینے اور عارضی قطع تعلقی سے بھی عورت کو سمجھ نہیں آئی تو پھر اسے مارنے کی بھی اجازت ہے۔

لیکن اول تو یہ یاد رکھیں کہ یہ صرف اجازت ہے، کوئی فرض نہیں، سنت نہیں، حتی کہ مستحب تک نہیں۔

اور دوسرا یہ کہ اسکی شرائط ہی ایسی کڑی ہیں کہ نشان نہ پڑے، نازک جگہوں پر نہ مارا جائے، منہ پر نہ مارا جائے، کہ گویا مارنا، نہ مارنا ایک برابر ہو گیا۔

یہاں یہ بات اہم ہے کہ اس معاملے میں معاشرے اور زمانے کے عرف کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔ اس دور میں اور کچھ معاشروں میں ممکن ہے کہ یہ ویسے ہی ایک “نارم” ہو جیسے بچوں کی پٹائی ہمارے ہاں ایک نارم ہے۔ اور اس طرح سے جیسے بچے اپنی سخت قسم کی نقصان دہ شرارتوں سے باز آ جاتے ہیں، ویسے ہی عورتوں کی بغاوت میں سختی میں بھی کمی آ جاتی ہو۔۔۔

لیکن آجکل جس طرح اس عمل کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے(اور اسکے ناپسندیدہ ہونے میں تو کوئی شک بھی نہیں) اور جیسے باقاعدہ ڈومیسٹک وائلنس پر قانون سازی کی جا چکی ہے، تو پوری شرائط کے ساتھ مارنے کا بھی فائدے کی بجائے نقصان ہی ہو گا۔ عورت سدھرے گی نہیں، مزید سرکش ہو گی اور آپکو پورے معاشرے میں بدنام بھی کرے گی اور ممکن ہے کہ بڑھا چڑھا کر پولیس کیس بھی کر دے۔۔۔(نشان چھوڑنے والی مار کی ممانعت کی حکمت۔۔۔ابتسامہ)۔۔۔!!!

لیکن یہ آپشن استعمال نہ کرنے کا محرک ہرگز ہرگز اسکا انکار یا اس سے کراہت و نفرت نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس سے ایمان زائل ہونے کا خطرہ ہے، کہ بہرحال یہ اللہ کا کلام ہے کوئی عام بات نہیں۔

تو دوستو، اگر پہلا اور دوسرا مرحلہ، دونوں مرحلے ناکام ہو جائیں اور خاتون آپ کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد سے دستبردار ہونے پر راضی نہ ہو، تو پھر آپ بھی “ہم اِدھر، تم اُدھر” کا نعرہ لگائیں اور اللہ سے کسی بہتر شریک سفر کی امید پر پھر سے کمر کس لیں۔

اللہ المستعان

احباب اور بالخصوص علماء اس تحریر میں ترمیم و اضافے کی تجاویز دے سکتے ہیں تاکہ  آئندہ آنے والی ممکنہ کتاب کا حصہ بنایا جائے۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں