Home » شرک، توحید اور انسانی فطرت
ادیان ومذاہب تاریخ / جغرافیہ تہذیبی مطالعات فلسفہ

شرک، توحید اور انسانی فطرت

عمران شاہد بھنڈر

”بعض مفکرین کا خیال ہے کہ خیر کے مختلف نظریات کے علاوہ خیر کا ایک ایسا تصور بھی ہے جو خیر کے تمام نظریات سے بالا اور ان نظریات میں موجود ہے۔ ان تمام آرا کو جانچنا شاید بے کار عمل ہے، اس لیے بہتر یہی ہے کہ ان تصورات پر بحث کی جائے جو سب اقوام میں یکساں ہیں اور قابلِ بحث ہیں۔“ ارسطو (اخلاقیات)

ارسطو کے ان اہم الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ کچھ تصورات مختلف اقوام میں تو یکساں ہو سکتے ہیں، لیکن ان کی مشترک مذہبی بنیاد نہیں ہو سکتی۔ وجہ اس کی یہ کہ مختلف مذاہب کے نیکی و بدی، خیر و شر اور پاکیزگی و پلیدی کے تصورات مختلف ہیں، جو مخصوص سماجی، ثقافتی، معاشی اور سیاسی حالات کا نتیجہ ہیں، نہ کہ وہ کوئی مستقل بنیاد رکھتے ہیں جو تمام مذاہب میں مشترک ہو اور جسے “انسانی فطرت” کا تقاضا کہا جا سکے۔ مختلف مذاہب کے خدا بھی مختلف ہیں۔ اور ہر خدا کا ایک من پسند گروہ ہے اور اس سے باہر اسے باقی سب خدا باطل دکھائی دیتے ہیں۔ ان سب کے عبادت، رہن سہن، ثقافت، نیکی اور بدی کے مختلف پیمانے ہیں جن کا تعلق انسان کی فطرت سے نہیں بلکہ ان تصورات سے ہے جو مخصوص حالات میں پیدا ہوئے تھے۔ میں اگلی چند سطور میں انہی کا مختصر تجزیہ پیش کروں گا۔

جدید محققین کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ انسان ایسی کوئی مشترک صفت نہیں رکھتا کہ جس کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہو کہ یہ انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ بیشتر محققین تو یہ سمجھتے ہیں کہ ”انسانی فطرت“ نام کی کوئی شے موجود نہیں ہے۔ یعنی نیکی، بدی، اعلیٰ و ادنیٰ اور پاک و پلید ایسے تصورات ہیں جن کا کوئی بھی یونیورسل تصور قائم نہیں کیا جا سکتا۔ اور اگر ان میں یونیورسل تصور موجود نہیں ہے تو یہ کہنا کہ یہ تصورات ”انسانی فطرت“ میں موجود ہیں، انتہائی غیر معقول رویہ ہوگا۔ ایسا ہی ایک تصور خدا کے بارے میں قائم کیا جاتا ہے۔ تاہم خدا کا تصور بھی یونیورسل نہیں ہے چہ جائیکہ ”توحید“ کے تصور کو انسان کی فطرت سے جوڑ دیا جائے اور دیگر مذاہب کے بارے میں غیر فطری ہونے کا فیصلہ دے دیا جائے۔ انسان کوئی بھی تصور اپنے ساتھ لے کر پیدا نہیں ہوتا، اس کے پاس صرف چند جبلتیں ہوتی ہیں۔ جن میں کھانا، پینا، جنس، غصہ، نفرت، محبت، ہنسنا، رونا وغیرہ شامل ہیں۔ لیکن کھانا کیا ہے اور پینا کیا ہے، یہ مخصوص ماحول میں طے ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایک معاشرے میں سور کا گوشت کھانا ممنوع ہے تو دوسرے معاشروں میں سور کا گوشت پورا لطف لے کر کھایا جاتا ہے۔ اسی طرح جنس کی جبلت تمام انسانوں میں پائی جاتی ہے، لیکن جنسی عمل کی تسکین کیسے کرنی ہے، اس کے لیے کوئی یونیورسل اصول قائم نہیں کیا جا سکتا۔ غصہ کس پر کرنا ہے اور کیوں؟ نفرت کس سے کرنی ہے اور کیوں؟ یہ سب اضافی تصورات ہیں، نہ کہ مطلق، کہ جن کی ایک مشترک بنیاد ”انسانی فطرت“ میں دریافت کی جا سکے۔ کچھ انسان بہادر ہوتے ہیں، کچھ بزدل ہوتے ہیں، کچھ بہادر مخصوص حالات میں بزدل بن جاتے ہیں اور کچھ بزدل مخصوص حالات میں بہادر بنتے ہیں۔ اسی طرح ”پاکیزگی“ اور ”پلیدی“ انسان کے تشکیل کردہ اضافی تصورات ہیں، جو کسی بھی سطح پر ”انسانی فطرت“ نہیں ہیں کہ انہیں ”مطلق“ کہا جا سکے۔ اور جو ”مطلق“ نہیں ہے، یعنی جو ایک مشترک معیار کے طور پر انسان نے اختیار نہیں کر رکھا، وہ اضافی کہلاتا ہے۔ جیسا کہ قرآن کہتا ہے کہ مشرکوں کو اپنی مساجد میں نہ آنے دو، کیونکہ یہ ”پلید“ ہیں، کیا اس سے یہ سمجھا جائے کہ وہ واقعی ”پلید“ ہیں؟ اس سوال کا جواب یہی ہے کہ مشرکوں کو “پلید” کہنا قرآن کا قائم کیا گیا تصور ہے، جو عہد جدید میں غیر متعلق ہے، جس کی مذہبی بنیاد تو ہے، لیکن عقلی نہیں! عرب میں جس نظریے کی بنیاد رکھی جا رہی تھی، ”مشرکوں کا عمل“ اس نظریے کی بنیادوں سے متصادم تھا، لیکن مشرکوں کو ”پلید“ کہنے کی سرے سے کوئی ایسی مشترک بنیاد نہیں ہے جسے ”انسانی فطرت“ کہا جا سکے۔ دنیا کا ہر مذہب، ہر نظریہ، ہر فلسفہ صرف اس حوالے سے ”اضافی“ نہیں ہوتا کہ اس سے اُلٹ نظریات، مذاہب، فلسفے موجود ہیں، بلکہ ہر نظریہ، فلسفہ، مذہب اپنے اندر سے ”اضافی“ رجحان کا حامل ہوتا ہے۔ جیسا کہ بعض اسلامی مفسرین قرآن کی آیات کے بارے میں زور دے کر کہتے ہیں کہ یہ مخصوص تناظر میں صحیح ہیں اور اس تناظر سے باہر ان کا اطلاق نہیں ہوتا، اس طرح وہ احکامات اپنے اندر سے ”مطلق“ نہیں، بلکہ اضافی ہوتے ہیں۔ جبکہ مختلف عقائد کے درمیان قائم کیے گئے تصورات ہمیشہ ہی اضافی ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر اسلام میں کثیرالازواجی قانونی طور پر جائز ہے، جبکہ باقی تقریباََ تمام ممالک میں کثیرالازوجی غیر قانونی۔ یہ اہم بات اچھی طرح سے ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ جن اقدار کو ”انسانی فطرت“ میں تلاش کیا جاتا ہے وہ انسان کے قائم کیے ہوئے تصورات ہیں جو نوعیت کے اعتبار سے مختلف سماجوں اور ثقافتوں میں مختلف ہیں۔ اگر کوئی نظریہ اور مذہب دوسری اقوام کے قائم کیے گئے علمیاتی، سماجی، ثقافتی اور فنی تصورات و اقدار کو ”غیر فطری“ کہتا ہے تو اس کا واحد مطلب یہ نکلتا ہے کہ وہ نظریہ اور مذہب ایک ”غیر انسانی“ اور غیر اخلاقی عمل کا ارتکاب کر رہا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اس نظریے کے ماننے والے بھی دوسری اقوام اور مذاہب سے اس بنیاد پر نفرت کرتے ہیں کہ وہ ”غیر فطری“ ہیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں دوسری اقوام، مذاہب اور ان کے نظریات سے نفرت کرنا سکھایا جاتا ہے۔ ہر وہ فعل جس میں انسان کا ارادہ شامل نہ ہو، اور اسے بذریعہ جبر اور تشدد وہ عمل کرنے پر مجبور کیا جائے وہ ایک ”نظریاتی“ اور ”مذہبی“ فعل تو کہلا سکتا ہے، لیکن اسے ایک ایسا فعل نہیں کہا جا سکتا کہ جو کسی فطری رجحان کا حامل ہے۔

بعض احباب کا یہ خیال ہے کہ ان کا مذہب ”انسانی فطرت“ پر استوار ہے۔ یہ قطعی طور پر بے بنیاد دعویٰ ہے۔ کیونکہ تاریخ شاہد ہے کہ جبلتیں جبراََ سکھائی نہیں جاتیں۔کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ انسان نے بطخ کو پانی میں تیرنا سکھایا ہے؟ کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انسان نے چڑیا کو اُڑنا سکھایا ہے؟ تیرنا اور اڑنا وہ اعمال ہیں جن کی بنیاد پر مختلف انواع میں تفریق قائم کی جاتی ہے۔ مذہب کا معاملہ یکسر مختلف ہے۔ اگر ہم اس نکتے پر زور دیں کہ توحید فطری ہے تو ہمارے پاس اس کے حق میں اس وقت تک کوئی دلیل نہیں ہو سکتی جب تک ہم اسے ”انسانی فطرت“ کی اس”مطلق“ یعنی مشترک بنیاد میں دریافت نہ کر لیں۔ لیکن ہم تو اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ دنیا میں نہ صرف یہ کہ توحید کے ماننے والوں میں توحید سے متعلق مختلف تصورات پائے جاتے ہیں، بلکہ اتنی ہی اکثریت کے ساتھ تثلیث، شرک اور الحادی تصورات بھی موجود ہیں۔ جدید تحقیق یہ واضح کرتی ہے کہ جدید اور ترقی یافتہ معاشروں میں الحاد تیزی سے پھیل رہا ہے، لیکن چند صدیاں پہلے کے مغربی ممالک کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ان ممالک میں ”مرکزی“ حیثیت خدا کے تصور کو حاصل تھی۔ جہاں خدا کے احکامات سے انحراف جرم تصور کیا جاتا تھا۔ لیکن آج ان تصورات کا شیرازہ بکھر چکا ہے۔ تو کیا یہ دعویٰ کر دیا جائے کہ”انسانی فطرت“ غیر فطرت میں تبدیل ہو چکی ہے؟ ایسا دعویٰ مضحکہ خیز تصور کیا جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان میں تصورات کی تشکیل کی استعداد پائی جاتی ہے۔ وہ اس استعداد کے تحت ان تصورات کو توسیع دیتا رہتا ہے، اور وہ تصورات مختلف شکلیں اختیار کرتے رہتے ہیں۔ تصورات کی تشکیل کی استعداد ہی وہ ”مطلق“ رجحان ہے جو تمام انسانوں میں پایا جاتا ہے، لیکن ان تصورات کی نوعیت کیا ہوگی، اس کا تعین ہر سماج کے سیاسی، معاشی، فلسفیانہ پس منظر میں ہوتا ہے۔

بعض مذہبی مفسرین اس باطل دعوے کے حصار میں ہیں کہ ان کا مذہب ”انسان کی فطرت“ پر استوار ہے۔ اور اگلے ہی لمحے وہ کہتے ہیں کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیا انسان کی فطرت کے مطابق ان کو تربیت دینے کے لیے آئے تھے۔ اس دعوے میں غیر سنجیدگی، غیر ذمہ داری اور انسانی سماجوں اور ان کے درمیان اقدار کی تبدیلی و ارتقا کے عمل سے متعلق مکمل طور پر عدم تفہیم کا عنصر غالب ہے۔ فطرت اپنا اظہار جبر سے نہیں اپنی آزادانہ حیثیت میں کرتی ہے۔ ان مفسرین کی اس بات کا مطلب یہ ہے کہ وحدانیت کا تصور اور چند اقدار انسان کی فطرت میں ودیعت کر دیے گئے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیا کی ضرورت ہی نہ پڑتی، کیونکہ انسان خود ہی اپنی فطرت سے آگاہ ہو جاتا۔ یہ انتہائی غیر معقول امر ہے کہ یہ تصورات انسان کی فطرت میں رکھ دیے گئے ہوں اور پھر لاکھوں کی تعداد میں انبیا انسان کو انسان کی فطرت سمجھانے کی کوشش کرتے رہیں، اور اس دوران انسان کو صرف سکھائیں ہی نہیں بلکہ انسانوں کی گردنیں کاٹ دیں۔ اب ظاہر ہے جن لاکھوں انسانوں کی گردنیں کاٹ دی گئیں ان کو تو یہ بھی نہ سمجھایا جا سکا کہ ان کی فطرت کیا ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنی فطرت جانتے، وہ اپنے مذاہب کے دفاع کرتے ہوئے قتل ہو گئے۔ میں اوپر واضح کر چکا ہوں فطرت نام کی کوئی چیز انسان میں موجود نہیں ہے اور جہاں تک جبلتوں کا تعلق ہے تو انہیں “نفیس” تو بنایا جا سکتا ہے، لیکن ان کو پیدا نہیں کیا جا سکتا۔ ابتدائی انسان کچا گوشت کھاتا تھا، بعد ازاں پکا کر کھانے لگا، اور آج انسان سبزی خور ہے اور جانوروں کے حقوق کے لیے سینکڑوں تنظیموں کی تشکیل کر چکا ہے۔ یہ سب بدلتے تقاضوں کے تحت ہے، کیونکہ انسان کے اندر کوئی مشترک فطری بنیاد موجود نہیں ہے۔

جدید محققین کا یہ خیال ہے انسان کا ابتدائی مذہب شرک تھا، جبکہ توحید ارتقا کا نتیجہ ہے، لیکن شرک آج بھی اتنی ہی قوت کے ساتھ موجود ہے جتنی قوت کے ساتھ یہ ماضی میں موجود تھا۔ مفسرین کو جتنا توحید کا تصور انسانی فطرت سے ہم آہنگ لگتا ہے، اتنا ہی مشرکین کو اپنا شرک فطرت کے ساتھ مطابقت رکھتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ کوئی ایک بھی ایسی دلیل موجود نہیں ہے کہ شرک کو خلاف فطرت اور توحید کو فطرت کے مطابق قرار دیا جا سکے۔ ایک موحد کے لیے شرک غیر حقیقی ہے۔ ایک مشرک کے لیے توحید غیر حقیقی ہے، اور ایک ملحد کے لیے شرک اور توحید دونوں غیر حقیقی ہیں۔ آزاد محققین تحقیق کی اہمیت سے آگاہ ہوتے ہیں۔ وہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ہر مذہب کے ماننے والے اپنے مذہب کو سچا اور دوسرے مذاہب کو جھوٹا گردانتے ہیں۔ یہاں فطری اور غیر فطری کی بحث کی سرے سے کوئی بنیاد ہی نہیں ہے۔ جو بچہ مشرکوں کے گھر میں جنم لیتا ہے، اس کی تعلیم و تربیت انہی خطوط پر ہوتی ہے۔ جو بچہ توحید پرستوں کے گھر میں جنم لیتا ہے اس کی تعلیم و تربیت بھی انہی خطوط پر ہوتی ہے۔ اگر ایک مشرک بچے کی تعلیم و تربیت موحد کے گھر کی جائے تو وہ موحد بن جائے گا۔ اسی طرح موحد کے بچے کو شرک کی تعلیم دی جائے تو وہ مشرک ہو جائے گا۔ اس میں ”انسانی فطرت“ کہاں ہے؟

میں آخر میں یہ واضح کرتا چلوں کہ کسی بھی مذہب اور نظریے کے تحت متعین کی گئیں سزائیں اس مذہب اور نظریے کے ماننے والوں کے گھناؤنے کردار کا عکس ہوتی ہیں، اور فطرت کو کبھی سزا سے تشکیل نہیں دیا جا سکتا۔ کیا یہ کہنا معقول ہے کہ گھناؤنی سزائیں نافذ کر کے انسان کو اس کی فطرت سمجھائی جا رہی ہے؟ یعنی انسان اپنی فطرت کو جانتا نہیں بلکہ اس کو یہ سمجھایا جا رہا ہے کہ اس کی فطرت یہ ہے۔ انسان کسی بھی طرح کی نیکی اور رجحان (علمی، اخلاقی، فنی) کی استعداد ارتقائی سفر کے دوران پیدا کرتا ہے، اور بعد ازاں اس کا اکتساب کرتا ہے اور اکتساب کا عمل سماجی تشکیل ہے جو کسی فطری عمل کی ضرورت کو پورا نہیں کرتا، بلکہ سماجی ضرورت کی تکمیل کرتق ہے۔ کسی بھی عمل کو دہرانے سے اس میں مہارت پیدا ہوتی ہے، تصورات کی تشکیل کا عمل صدیوں کی انسانی فکر کے ارتقا کا نتیجہ ہے۔ اگر علمیات و جمالیات کے تقاضے سب انسانوں میں یکساں سطح پر پائے جاتے ہیں تو پھر مقدس ہستیوں میں علمیات، منطق اور فن کا فقدان کیوں ہے؟

مذہب پرستوں کو چاہیے کہ وہ مختلف سماجوں کے مختلف ادوار کی سیاسی، علمیاتی، اخلاقی اورفنی تاریخ کا مطالعہ کریں، تاکہ وہ سمجھ سکیں کہ انسان اپنی سرشت میں، سوائے اس کے بدلتے وجود کے، کچھ نہیں ہے۔ وہ یقیناََ اسی نتیجے پر پہنچیں گے کہ انسان کی کوئی مستقل فطرت موجود نہیں ہے۔ انہیں اندازہ ہو سکے گا کہ اسلامی معاشروں میں ارتداد کی سزا ختم کر دی جائے، ان معاشروں میں ہجوم سے مارے جانے کا خوف ختم ہو جائے تو دیکھیں گے کہ الحاد کس تیزی سے پھیلتا ہے۔ ان کے اپنے مذہب کی کتابوں میں جو کچھ موجود ہے وہ دلیل نہیں ہے، بلکہ ان کا عقیدہ ہے۔ دلیل کی خواہش ہو تو مختلف سماجوں کا تقابلی مطالعہ و تجزیہ کر کے کسی نتیجے پر پہنچنا چاہیے۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں