Home » اسلام دوراہے پر
اردو کتب تہذیبی مطالعات شخصیات وافکار مطالعہ کتب

اسلام دوراہے پر

محمد رؤف 

زیر تبصرہ  کتاب بعنوان ” اسلام دوراہے پر“             کے مصنّف محمد اسد ہیں  جنہوں  نے یہودیت کو چھوڑ کر اسلام  قبول کیا اور جولائی 1900ء میں یوکرین کے شہر لیویو  میں پیدا  ہوئے سابق نام لیو پولڈ ویز تھاموصوف ایک سفارت کار ،مصنّف ،ناول نگار اور صحافی  ہو گزرے ہیں یوں بہت سی کتب تصنیف کیں ان میں سے ایک انفرادی حیثیت کی حامل زیر نظر کتاب بھی شامل ہے جو کہ انگریزی زبان میں تحریر کی گئی تھی  لیکن پروفیسر احسان الرحمن صاحب نے اسکا اردو ترجمہ کیا ۔موصوف  کو تین ملکوں کی شہریت بھی حاصل تھی جن میں سے آسٹریا ،پاکستان اور برطانیہ قابل ذکر ہیں  فروری 1992ء میں وفات پاگئے نیز ماریبا کے علاقہ میں مدفون ہیں ۔

تعارفِ کتاب  

زیر نظر کتاب  بعنوان ” اسلام دوراہے پر“             کی مختلف  عنوانات پر مشتمل فہرست  ہی اس کی افادیت   کی عکاسی کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے  مصنّف  نے  بڑی باریک بینی سے ان عنوانات پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے جنکا تعلق اسلام  اور مغربی افکار و نظریات سے ہے کتاب ھذا میں انہوں نے اپنے مسلمان ہونے کا  تذکرہ بھی  کیا ہے  کہ وہ اسلام  کی حقانیت اوراسکی  سماجی اورثقافتی تعلیمات  سے متاثر ہوکر مسلمان ہوئے تھے۔جس کا وہ مغرب کے معاشرتی اور ثقافتی نظام سے موازنہ کرتے رہے ۔بعد ازاں دونوں نظاموں میں غوروفکر کے،شعوری طور پر اسلام کی دولت سے مالامال ہوئے۔ نیز ایک جامع تجزیہ پیش کرتے ہوئے یوں گویا ہوتے ہیں کہ مسلمانوں کے مضبوط نظام عقائد وتعلیمات کے باوجود انحطاط اور تنزّلی کا شکار کیوں ہیں؟  تو مختلف پہلوؤں سے اسبات میں غور فکر کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ مسلمانوں نے  اسلامی تعلیمات کی روح کو بتدریج عمل سے خارج کردیا ہے۔

مصنّف نے اپنی کتاب ”اسلام دوراہے پر“ میں آٹھ ابواب میں  مختلف عنوانات   کے بارے سیر حاصل گفتگو کی ہے جن میں باب اوّل  شارع اسلام ،ایک کشادہ شاہراہ،باب دوم روح مغرب،باب سوم  صلیبی جنگوں کے سائے ،باب چہارم تعلیم کے بارے ،باب پنجم  تقلید ، مغرب،باب ششم حدیث وسنّت  باب ہفتم سنّت کی روح   باب ہشتم حاصل مطالعہ شامل ہیں ۔  لیکن یہاں ہر ایک  عنوان کے بارے مصنّف کے پیش کردہ خیالات کا مختصر جائزہ پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

کتاب  کے مندرجات پر تنقیدی نظر

باب اوّل:           شارع اسلام ،ایک کشادہ شاہراہ

اس عنوان کے تحت مصنّف نےاسلامی تہذیب  اور مغربی تہذیب میں فرق بیان کیا ہے کہ  مغربی تہذیب  کا اصل ہدف مادیت پسندی اور قومیت کی طرف گامزن  کرناہے جبکہ اسلامی تہذیب   کا مقصدمادیت پسندی کا حصول ہی نہیں  بلکہ روحانیت کا حصول بھی ہے اگر بنظر غایت  دیکھا جائے تومغربی تۃزیب رومی تہذیب کا ہی ڈاھانچہ ہے جوکہ قوت کے بل بوتے قائم تھی لیکن جونہی رومیوں  کا تختِ اقتدار  اُلٹا  تو ساری طاقتوں اور قوتوں کا وجود  بھی ختم ہوگیا  ساتھ ہی مسیحیت  کے وہ باطل نظریات  جو خلافِ فطرت چلے آرہے تھے جن میں سے ایک یہ ہے کہ انسان پیدائشی ہی گنہگار ہے اور اسے تکمیل کیلئے پیدائش اور اموات کے کئی سلسلوں سے گزرناہے دوسرا یہ کہ برائی کی قوت شیطان کی اور بھکائی کی عیسی مسیح کی ۔اور شیطان جسمانی لالچ دے کر انسانی روح کوا رتقاء اور اور حیاتِ ابدی سے روکتا ہےاس لیے نجات کا واحد راستہ یہ ہےکہ اس گوشت پوست کی دنیا سے نجات حاصل کی جائے اور مستقبل کی روحانی  دنیا   پر نظر رکھی جائے جہاں عیسی ٰ مسیح نے صلیب پر جان دے کر تمام انسانی گناہوں کا کفارہ ادا کردیا ہے جبکہ اسلام ہمیں ایسے کسی بنیادی گناہ کا سبق نہیں دیتا ۔اللہ کےعدل وانصاف کے  مطابق ہم اسے غیر متعلق سمجھتے ہیں ۔اللہ تو بچے کو اسکے باپ کے گناہ کا ذمہ دار قرار ہی نہیں دیتا تو پھر کسے بیشمار انسانوں کو آدم کی نافرمانی کا ذمہ دار ٹھہرایا جا یا سکتا ہے اور اسلام میں چونکہ کوئی وراثتی گناہ نہیں اس لیے ہمہ گیر نجات کا تصوّر بھی نہیں ۔نجات اور گرفت دونوں انفرادی

ہیں جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:                     ”لھا ماکسبت وعلیھا مااکتسبت“[1]

ترجمہ:” اس کیلئے  وہ ہے جو اس نے کمایا اور اس کے خلاف بھی وہی ہے جو اس نے کمایا ۔“

اسی طرح رہبانیت جوکہ بڑی طاقت تو بنی لیکن تہذیب پر اس  نے  خاطر خواہ نتائج نہ دئیے ۔جبکہ اسلامی تہذیب  بنیادی طور پر موافق فطرت اور دینی تہذیب ہے جو کہ صدیاں گذرجانے کے باوجود  آج بھی انسانی  معاشرے کے جملہ پہلوؤں کی کامل رہنمائی کرتی دکھائی  دیتی ہے۔

باب دوم :          روح ِمغرب

اس باب میں مصنّف مغربی روحانی  اور اسلامی روحانی ارتقاء میں فرق واضح کرتے ہوئے کہتا ہے۔کہ  مغرب  انسان کے تدریجی روحانی ارتقاء پر یقین رکھتا ہے لیکن اسلام نے کبھی یہ قبول نہیں کیا کہ انسانی فطرت پودے کی  طرح لازماً بتدریج ارتقاء پارہی ہے کیونکہ روح کی بنیاد حیاتیاتی نہیں ہے یورپی سوچ کی بنیادی غلطی یہ ہے کہ مادی علم اور آسائش کے ارتقاء  کو اخلاقی اور روحانی ارتقاء  کیساتھ ملادیا جاتا ہے ۔ اسلام وضاحت کیساتھ مادی تروقی کے امکان کو مانتا ہے اور اسکی خواہش کو تسلیم کرتا ہے مگر اتنی ہی  وضاحت کیساتھ انسانیت کی اجتماعی روحانی ترقی سے انکار کرتا ہے جو اجتماعی کامیابیوں سے حاصل کی جائے روحانی ترقی کا حرکی عنصر ہر فرد تک محدود ہے اور اس اخلاقی وروحانی  ارتقاء کے مدارج ہر فرد  پیدائش اور موت کے درمیان طے کرسکتا ہے اجتماعی راستہ سےتکمیل کی منزل تک پہنچنا ممکن نہیں ۔ہر شخص یہ روحانی مقصد ایک فرد کی حیثیت سے حاصل کرتا ہے اور ہر شخص اپنے آپ سے ابتدا کر کے خود ہی اختتام تک پہنچتا ہے۔مذہبی رجحان ہمیشہ اس یقین پر مبنی ہوتا ہے کہ ایک تسلیم شدہ ماوراءی اخلاقی قانون موجود ہے اور ہم پر اسکا ماننا واجب ہے مگر جدید مغربی تہذیب معاشی اور قومی ضرورتوں کے سوا  کسی قانون  ِ تسلیم ورجا پر تقین نہیں رکھتی ۔اس کا خدا ”آسائش “ہے اور اسکا روحانیت سے کوئی تعلق نہیں ۔اس کی زندگی کا حقیقی فلسفہ قوت بذریعہ قوت ہے یہ دونوں اسے رومی تہذیب سے ورثہ سے ملی ہیں۔روحانی تہذیب قرون ِ وسطی کے سیکولر نظریات کی تاریکیوں سے نجات پاکر آزاد یورپ میں پھلنے پھولنے لگی ہے راصل اٹھارہویں صدی کے آواخر اور انیسویں صدی  کی ابتداء میں  ہم یورپ کی  ؑظیم اور طاقتور اور روحانی شخصیات  کو فلسفہ  ،ادب فنون اور سائنس کے میدان میں مصروف ِ عمل پاتے ہیں البتہ روحانی اور دینی تصور حیات صرف کچھ افراد تک محدود رہا ۔طویل عرصے تک مذہبی قوانین اور تصورات میں جکڑے  رہنے کے سبب یورپی اقوام کا زندگی کی عملی جدوجہد سے  کوئی تعلق نہ تھا ۔

اس کتاب کا مقصد عیسائیت اور جدید  مغربی  تہذیب  کے نجی تعلقات  کی گہرائی میں جانا نہیں ہے مصنف نے تین وجوہات اس بات کے پیش نظر   بیان کی ہیں  پہلی وجہ یہ رومی تہذیب ہے جس نے مغربی تہذیب کا رویہ انسانی اور بنیادی اقدار  کے حوالے سے انتہائی مادہ پرستی پر مبنی بنادیا ۔دوسری وجہ انسانی فطرت کا وہ ردّعمل تھا جو مسیحیت کے نظریات یعنی ترک ِ دنیا اور جائز  انسانی خواہشات  اور کوششوں سے بھی انکار کے خلاف رونما ہوا ،تیسری اور سب سے بڑی اور آخری وجہ خدا بشری پیکر دینے کا عقیدہ تھا۔

مغرب آج کل جس ہمہ گیر تبدیلی ماہیت  ِ قلب سے گزر رہا ہے اس میں سب سے زیادہ اہمیت مادی اخلاقیات رکھتی ہیں جن کی بنیاد نفع و ضرر پر مبنی تمام اشیاء پر رکھی گئی ہے لیکن ان تمام مادی اخلاقی خوبیوں میں سے ماں باپ  سے محبت یا جنسی وفاداری اپنی اہمیت کھو رہی ہیں کیونک وہ معاشرے کے مادی فوائد میں بظاہر کوئی حصہ نہیں ڈالتیں ۔

لہذا مغرب اخلاقیات کا ایسا فریبی تصور دینی تربیت  کیساتھ کوئی تعلق نہیں رکھتا اس لیے جدید مغربی دنیا کی اخلاقی بنیاد اسلام کے ساتھ چلنے کے قابل نہیں ۔

باب  سوم:           صلیبی جنگوں کے سائے

اس باب میں مصنّف  نے ایک ھقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اسلام دشنی اور نفرت پر قائم رہا سب سے زیادہ اس بات کا ظہور صلیبی جنگوں میں ہوا۔کیا صدیوں  سے یورپی لوگوں  کی مخاصمت جو آرہی تھی ختم ہوگئی ہے؟مصنّف کہتا ہے ایسا ہرگز نہیں کیونکہ یورپین کو اپنی طاقت کے زور پر پورا ناز ہے دوسری طرف مسلمانوں کو کمزور سمجھتے ہوئے یہ تصور بھی پختہ ہوچکا کہ یہ کچھ بھی نہیں کرسکتے ۔اور یہ بھی کہ مغربی تہذیب نے کسی بھی ظرح سے اپنا خاص مذہبی رویہ نہیں بدلا یہ آج بھی زندگی کیلئے مذہبی نقطۂ نگاہ کا اتناہی مخالف ہے جتنا پہلے تھا ۔اسکی بڑی وجہ قوم پرستی ہے نہ کہ مذہب پرستی۔

باب چہارم:       تعلیم کے بارے

اس  باب میں مصنّف نے ایک حقیقت سے حجاب دور کیا ہے کہ مسلمانوں کا موجودہ نظام تعلیم انہیں مغربی مرعوبیت سکھا رہا ہے کیونکہ اس کی بنیاد اسلامی نظام تعلیم کے بالکل برعکس ہے یہی وجہ ہےمغربی نہ صرف  تعلیم مسلمانوں کو پیغام ِ رسول ﷺ کی جڑ کاٹنے پر مجبور کرتی ہے بلکہ اٰن کی اس قوت اردی کو مجروح کرتی ہے جس سے وہ اس روحانی تہذیب ِ اسلامیہ  کے علمبردار  ہونے میں فخر محسوس کریں ۔یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ مغربی خطوط پر تعلیم پانے والے دانشورون میں دینی یقین تیزی سے ختم ہورہا ہے ۔اس کا مطلطب یہ ہرگز نہیں کہ غیر تعلیم یافتہ لوگوں  میں اسلام نے اپنی عظمت برقرار رکھی ہے ۔بگر اتنا ضرور ہے کہ اسلامی پکار کے جواب میں دانشوروں کے مقابلے میں ہم اُن کے اندر ایک بڑا جذباتی ردعمل پاتے ہیں وہ بہتر ردعمل کا اظہار ہیں ۔اس بیگانگی کا مطلب یہ نہیں کہ مغربی سائنسی علوم نے ہمارے دین کے خلاف کوئی عقلی بحث کی ہے بلکہ جدید مغربی تہذیب کا ماحول اتنا شدید نخلاف مذہب ہے کہ یہ مسلم  نوجوان کی پوشیدہ مذہبی قوتوں کو ختم کرکے رکھ دیتا ہے۔

یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ سائنسی تحقیق سے طویل  عرصہ کی بیگانگی  نے ہمیں مغربی زرائع کا محتاج بنادیا ہے ۔اگر ہم نے وہ بنیادی اسلامی اُصول اپنایا ہوتا جس کے مطابق ہر مسلمان پر علم کا حصول فرض ہے تو ہم جدید  سائنس کیلئے آج یورپ کی طرف یوں نہ دیکھ رہے ہوتے جیسے کوئی پیا سا  سارب کی طرف دیکھتا ہو۔مگر چونکہ مسلمانوں نے نے طویل عرصہ تک ترقی و تحقیق  کے مواقع کو جائع کیا ہے تو آج وہ جہالت وغربت  کے غار میں گھرے ہوئے ہیں جبکہ یورپ نے آگے کی سمت ایک بڑی جست لگای ہے ۔اس فرق کو مٹانے کیلئے  میں بڑا وقت لگے گا اور اس وقت تک ہمیں مجبوراً علم کو اُن کے توسط سے ہی سے قبول کرنا پڑے گا مگر ہمیں صرف سائنسی مواد پر ہی قناعت کرنی چاہیے۔ دوسرے لفظوں میں  ہمیں سائنس کو مغربی خطوط پر پڑھنے میں کوئی عار نہیں مگر ان کا فلسفہ کبھی بھی قابل قبول نہیں۔

باب  پنجم:                    تقلید ِ مغرب

اس باب میں موصوف محمد اسد نے اہل اسلام کی دین سے دوری یا دین کو ثانوی حیثیت دینے کی بڑی وجہ مغرب کے لٹریچر سے متاثر ہونا اور اسے ہی اپنانا ہے۔مغربی تہذیب  سے پیدا ہونے والا طبقہ سیکولراسٹ ہے دین کو ایک طرف رکھ کر دنیا کے دیگر ترقی یافتہ  ملکوں  کی نقالی کی جائے اگرچہ نظریات کو ایک طرف رکھنا بڑا مشکل ہے۔مغربی تقلید کا رجحان اہل اسلام میں اپنی احساس کمتری کے نتیجے میں وجود میں آیا ۔وہ مسلمان جو آج مغربی تہذیب کی تقلید کا شکار ہیں وہ  مغربی قوت ،اسکے تکنیکی فن اور چمکتی سطح کا مقابلہ مسلمانوں کی زوال  پذیری سے کرتے ہیں۔وہ یقین کرلیتے ہیں کہ ہماری ترقی یافتہ ہونے کا واحد ذریعہ مغرب کی تقلید ہی ہے ۔دوسری طرف اسلام کو اپنی کوتاہیوں کا ذمہ دار ٹھہرانا ایک فیشن بن چکا ہے جبکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ ہر مسلمان کے اندر یہ احساس  ہونا چاہیے کہ وہ دنیا میں مختلف اور سب سے ممتاز حیثیت کے مالک ہیں ۔آج کے مسلمان  کا مسٔلہ ایسا ہی ہے جیسے مسافر دوراہے پر ۔وہ جہاں کحڑا ہے وہاں کھڑا رہ تو سکتا ہے مگر اس صورت میں اسے فاقہ یا موت کا خطرہ ہے ۔

باب ششم:        حدیث وسنّت

اس باب میں موصوف نے حدیث و سنّت کو موضوع سخن بنا تے ہوئے ایک حقیقت کو واضح کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ تیرہ سو سال پہلے  اسلامی عروج کا راز سمجھنے  کیلئے بھی سنّت نبوی کلیدی حیثیت رکھتی ہے اور آج ہمارے انتشار کو سمجھنے  کے لیے بھی ۔سنت کی اتباع  اسلامی وجود و ارتقاء کے لیے ضروری ہے اور سنّت کو نظر انداز کنا اسلامی زوال اور انتشار کے مترادف ہے بلکہ سنت  اسلامی قلعہ کا فوالادی ڈھانچہ تھا اور ہے ۔

مزید یہ کہ وہ چیز جو اسلام کو دیگر الہامی مذاہب  سے ممتاز کرتی ہے وہ زندگی کے مادی اور اخلاقی پہلوؤں میں مکمل مصالحت ہے اسلام کی یہ امتیازی خصوصیت واضح کرتی ہے کہ حضور اکرم ﷺ  انسانیت کی رہبری کے لیے انسانی زندگی  کے مادی وروحانی پہلوؤں کو اتنی اہمیت کیوں دیتے تھے اس لیے  کہ یہ اسلامی بصیرت نہ ہوگی کہ اگر  حضورﷺ کے ایک قول روحانی معاملات اور دوسرے کو معاشرتی  زندگی کیساتھ متعلق قرار دیں  تو اس نظریہ کے پس منظر  میں مقام ِ مصطفی ﷺ کی اہمیت کو کم کرنے والی ذہنیت کارفرما ہے ۔

حالانکہ  جس طرح حیات ِ مسلم اُن اصولوں پر مبنی ہونی چاہیے جس میں انسان کی جسمانی اور روحانی خاصیتوں میں مکمل  معاونت ہو  اسی طرح اخلاقی ،علمی ،انفرادی  و سماجی  ہر لحاظ سے ہمارے رہبر  پیغمبر اسلام ﷺ کی حیات  پاک میں کامل نظر آتی ہیں یہی  سنت کے جامع معنی ہیں ۔اور اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں سنت کے  اس جامع مفہوم کو یوں ارشاد

فرمایا:      ومااتاکم الرّسول فخذوہ ومانھاکم عنہ فانتھوا [2]

ترجمہ:” اور جو رسول کریم ﷺ تمہیں دیں اور جس سے منع فرمائیں اس سے رک جاؤ۔“

مذکورہ بالا آیت کے علاوہ متعدد مقامات پر  اللہ تعالیٰ سنّت کو مفہوم کوواضح کیا ۔لہذا یہ کہنا حقیقت پر مبنی ہے کہ قرآن کے بعد سنّت ِ رسول ﷺ سماجی وانفرادی طرزِ حیات اسلامی قانون کا دوسرا منبع ہے بلکہ قرآن مجید کی تشریح ،سنّت  کو ہی تسلیم کرنا پڑےگا ۔اسی لیے حضو رعلیہ السلام نے حجۃ الودع کے موقع پر    دوچیزوں کو قیامت تک تھام کررکھنے کی امّت کو تلقین   فرماگئے اور گمراہی سے نجات کا مثردہ سنا گئے۔

چناچہ ارشاد فرما یا:

ترجمہ :”لوگو!  میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ ے جارہا ہوں  اگر ان کو مضبوطی سے تھامے رکھو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہوں گے۔(اُن میں ایک چیز)کتاب اللہ یعنی قرآن مجید  اور (دوسری چیز) سنّت رسول ﷺ ۔“

دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ موجودہ دور میں مغربی تہذیب کا اثر مسلم ممالک میں زیادہ ہوتا جارہا ہے اور کہا جاتا ہے کہ مغرب کے طریق ِحیات کو اپنا کر سنّت کے مطابق رہنا ناممکن ہے تو مغربیت ہی  سب سے بڑا سبب  ہے،ارشادات ِ محمد ﷺ اور اُن کیساتھ سنّت  کے پورے ڈھانچے  کے غیر مقبول ہونے  کا۔سنّت اتنی واضح طور  سے مغرب کے بنیادی  نظریات سے تکر کھاتی ہے کہ وہ لوگ جو اس سے متاثر  ہیں اس مشکل سے نکلنے کی کوئی راہ  نہیں پاتے سوائے اس کے کہ سنّت کو غیر مستند روایات پر مبنی  قرار دے کر غیر متعلق  اور غیر ضروری بنادیا جائے  اوراسلام   سے اسے غیر منسلک کردیں ۔اس کے بعد آسان ہوجاتا ہے کہ قرآن  کی تعلیمات کو اس طرح سے گھما پھرا دیا جائے کہ اسلامی تعلیمات کو غیر مستند قرار دیا جاسکے اور مغربی تہذیب  کیساتھ چلا جائے۔جبکہ یہ سب  سنت کیساتھ تعصب رکھنے کے مترادف ہے اور کچھ نہیں حالانکہ  رسول اللہﷺ کا طرزِ حیات ہر دور کے مسلمان کیلئے نہ صرف دنیاوی ثمرات بلکہ اُخروی نجات کیلئے کامل نمونہ کی حیثیت رکھتا ہے۔

باب ہفتم:         سنّت کی روح

اس باب میں مصنّف   نے اسلام کی حقانیت  کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ اسلام کی بنیاد قرآن مجید اور سنّت رسول  دو چیزیں  ہیں۔اور یہ کہ اسلام  زندگی کےپہلوؤں  کی نشونما  ایک اکائی   کی طرح کرنے کی  طرف ہماری رہنمائی کرتا ہے اس مقصد کے حصول کیلئے ایک ذریعہ ہونے کے ناطے یہ دین مجموعی تصوّرِ حیات پیش کرتا ہے جسمیں نہ کچھ گھٹایا جا سکتا ہے اور نہ ہی بڑھایا ۔اسی  لیے تو دین اسلام کی کاملیت  کا اللہ تعالیٰ نے یوں ذکر فرمایا:

”الیوم اکملت لکم  دینکم واتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا“[3]

ترجمہ: ”    آج کے دن  میں نے تم پر تمہارا دین مکمل  کردیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کردی اور تمہارے لیے بطور دین اسلام کو پسند کرلیا۔“اس لیے اسلام میں کسی کو اختیار کی کوئی گنجائش نہیں ہے جب کبھی  قرآن یا حضورﷺکی جانب سے کسی تعلیم کا  اظہار ہوتا  ہےتو ہمیں اسے من وعن ماننا ہوتا ہے جبکہ عقلیت کا دعوی یہ ہے کہ اسلام ایک عقلی دین ہے تو یہ اپنی تعلیمات کو انفرادی اختیار کیلئے چھوڑ دیتا ہے یہ سراسر باطل ہے  کیونکہ اسلام نام ہے اپنی تمام تر خواہشات اور عملی سرگرمیوں کو اسکے مطابق ڈھالنے کا۔نہ اسکو اپنی عقل  کے تابع کرنے کا نام  ہے۔اسی بے سروپا عقلیت پسندی ہی  کے نتیجے میں  آج کا  جدید مسلم اپنے آپ کو حضور اکرم ﷺ کی ہدایات و تعلیمات   کے حولاے کرنےمیں ہچکچاہٹ محسوس کرتا ہے مگر آج ہمیں یہ یقین دلانے کیلئے  کسی قسم کا ڈر اور خوف نہیں  کہ انسانی  عقل بہت شدت سے اپنے امکانات میں محدود ہے ۔

یہی وجہ ہے  ہمارا ذہن  اپنی فطرت کے لحاظ سے نظریہ مجموعیت سے قاصر ہے  ۔کیونکہ  ہم چیزوں کو اُن کی تفصیل میں دیکھتے ہیں ۔ہم نہیں جانتے   کہ لا محدو دیت  اور ابدیت  کیا چیز ہیں ؟بلکہ ہم تو یہاں تک نہیں جانتے   کہ زندگی کیا ہے؟اس لیے الہمامی مسائل میں ہمیں ایک ایسے رہبر کی ضرورت ہے جس کا ذہن اور دائرہ علم  ،عام منطق اور داخلی معقولیت سے آگے بڑھ کر بھی  کچھ رسائی  رکھتا ہو ۔دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہمیں ایک ایسے شخص  کی ضرورت   ہے جس پر وحی آئی ہو یعنی وہ ہے ذات پیغمبر  ﷺ ۔

لہذا اگر ہمارا ایمان ہے کہ قرآن اللہ  کے الفاظ ہیں اور محمد ﷺ اللہ  کے پیغمبر ہیں تو ہم پر نہ صرف اخلاقی بلکہ  عقلی طورپر  لازم ہوجاتا ہے کہ ہم  آپﷺ کی ہدایات پر آنکھ بند کرکرے چلیں یعنی بلا کسی چون وچرا  آپ ﷺ کی جملہ تعلیمات   خواہ ان کا تعلق انفرادی زندگی سے ہو یا اجتماعی سے،سماجی ،معاشی ،سیاسی  البتہ کسی بھی شعبہ ٔ حیات سے ہو،کو  ماننے یا قبول کرنے میں ہماری عقل آڑے آئے پھر بھی  پیغمر اسلام ﷺ کے اقوال وافعال کو اپنانے میں کبھی  تاخیر نہ  کی جائے۔ بلکہ یہ فرض اور لازم ہے کہ اللہ کی اطاعت وفرمانبرداری کیساتھ ساتھ رسول اللہ ﷺ کی فرمانبرداری  کو بجا لایا جائے۔یہی ایمان کی اصل اور حقیقت ہے۔

لہذا یہ کہاجاسکتا ہے چار دانگ ِ عالم میں اسلام کے عروج کی وجہ بھی سنّت ِ رسول ﷺ کی پیروی ہے اور آج زوال بھی اتباع ِ رسول ﷺ کوترک کی نے کی بنا پرہے۔اسی باب کے آخر میں مصنّف نے سنّت کو بحیثیت ادارہ ہونے کی تین وجوہات کو ذکر کیا ہے جنکا خلاصہ یوں پیش کیا جاتا ہے۔پہلی وجہ  یہ ہے کہ انسان کی  ایک خاص انداز میں  تربیت   کرنا ہےکہ وہ مستقلاً شعور میں رہے جاگتا رہے اور خود اپنی نگرانی کرتا رہے تو اس مستقل خود احتسابی کو حضرت عمر بن خطاب ؓ  نے بڑی خوبصورتی  سے بیان فرمایا ہے:

حاسبو اانفسکم  قبل ان تحاسبوا

ترجمہ:” اپنا احتساب  کرو اس سے قبل  کہ آپ کا حساب کیا جائے۔“

اور پیغمرِ اسلامﷺ نے ارشاد فرمایا : اعبد ربّک کانّک  تراہ                          ( صحیح بخاری)

”کہ اپنے رب کی عبادت  اسطرح کرو جیسے تم اسے دیکھ رہےہو۔“

یہ ہے سنّت کا اصل اور انفرادی پہلو اور اسکا دوسرا پہلو اسکی  سماجی اہمیت اور افادیت ہے۔چنکہ سماج میں ہر ایک مزاج اور طور طریقے مختلف ہوتے ہیں جس وجہ سے سماجی اختلافات   بہت سے سماجی مسائل کا سبب بنتے ہیں تو اس  سلسلہ میں پیغمرِ اسلام ﷺ کی  سنّت یعنی سماجی طرزِ زندگی ہر ایک شخص کیلئے مثالی اور کلیدی  حیثیت رکھتی ہے۔یہ معاشرے کومضبوط اور مربوط بناتی دکھائی دیتی ہے۔

لہذا یہ کہاجاسکتا ہے  کہ قرآن نے جو تصویر پیش کی ہے کہ سب مسلم ایک ٹھوس  دیوار کی طرح (بنیان مرصوص)ہیں یہ بعید از حقیقت نہیں ۔یہی وہ اصول  ہے جس کے پیش نظر تمام مسلمان غیر اسلام کیلئے اپنی تماتر کوششوں کو صرف کرنے میں کرتے جبکہ آپس میں جسد واحد کی طرح رہنے کا جذبہ رکھتےہیں

المختصر ہم اسلام کو تمام مذاہب ِعالم سے ممتاز سمجھتے ہیں اس لیے کہ یہ پوری زندگی کو مجموعی نظر سے دیکھتا اور بیان کرتا ہے ۔یہ دنیا و آخرت ،روح وجسم ،اور فرد اور معاشرہ  کو برابر توجہ دیتا ہےیہ نہ صرف انسانی فطرت کے بلند امکانات پر نظر رکھتا ہے بلکہ اسکی مجبوریوں اور کمزوریوں کو بھی پیش نظر رکھتا ہے۔یہ ہم ناممکن عمل  لاگو نہیں کرتا بلکہ ہمیں اپنے امکانات سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی سمت لے جاتا ہے۔

باب ہشتم:     حاصل مطالعہ

اس باب میں مصنّف نے مغربی تہذیب  اور اسلام کے موجودہ حالات کا ایک تفصیلی جائزہ پیش کیا ہے۔کہ سابقہ تمام ابواب میں اس حققیت کوواضح کیا ہے کہاسلام اپنے حقیقی معنوں میں مغربی تہذیب  کے اندر ضم ہوکر فیضیاب نہیں ہوسکتا  مگر دوسری طرف حال یہ ہے عالم ِ اسلام میں قوت کی اتنی کمی ہے کہ وہ کوئی مزاحمت نہیں کرسکتا ۔استفہامی لہجہ اختایر کرتے ہوئے یوں گویا ہوتے ہیں  کہ اسلام کیساتھ کیا ہوگیا ہے ؟کہ وہ کچھ دینا چاہتا تھا اسلام وہ دے گیا؟کیا اسلام کیساتھ بھی دیگر تہذیبوں کی طرح ہوا ہے پیدا ہوئیں ،پھلی پھولیں پھر زوال پذیر ہوگئیں؟

اگر ہم سمجھتے ہیں کہ اسلام محض دیگر ثقافتوں کی طرح  ایک ثقافت نہیں ، یہ انسانی  سوچ کا نتیجہ نہیں بلکہ قوانین خداوندی  کا یسا مجموعہ ہے جو  تمام انسانوں  کیلئے اور تمام وقتوں کیلئے ہے تو نقطۂ نظر بدل جاتا ہے ۔جو کچھ اسلام  کے زوال کی صورت  میں نظر آتا ہے دراصل  ہمارے دلوں کا  کھوکھلا پن ہے  جو اتنے سست اور کاہل ہیں  کہ ابدی  آواز سننے کے قابل نہیں ۔لہذا ہمیں اسلا م کی اصلاح کی ضرورت نہیں  جیسا کہ بہت سے مسلمان سمجھتے ہیں کیونکہ اسلام تو کامل ہے بلکہ ہمیں اسلام کے  مطابق اپنے رویہ ،اپنی سستی اور اپنی کوتاہ  نظری کو اصلاح کی ضرورت ہے ۔اسلام کے احیاء کیلئے نئے اُصولوں کی ضرورت نہیں بلکہ ہمیں پرانے ہی بنے ہوئے اسلامی اصولوں پر عمل کی ضرورت ہے  لہذا اسلام ایک روحانی اور سماجی ادارہ ہے جسے بہتر نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ پہلے بہترین ہے جب سب کچھ عیاں ہے تو پھر آج کا مسلم  مغربی تہذیب کا خواہاں کیوں ہے اور اس سے مرعوب کیوں ہے؟

تو ان سب  شکوک وشبہات  سے نجات اور نکا حل  تب ہی ممکن ہے جب ہم  درج ذیل اقدامات کو عملی طور پر بجا لائیں گے۔

1۔ہمارا پہلا قدم اسلا م  کیلئے اپنے نادمانہ رویہ سے نجات حاصل  کرنا ہونا چاہیے جو اصل میں عقلی شکست کا دوسرا نام ہے  یہ اپنے شک کو چھپانے کے مترادف ہے جو اسلام کے بارے ہمیں پیدا ہوگیا ہے ۔؎

2۔دوسرا قدم حضورﷺ  کی سنّت کا شعوری اور ارادۃً  اتباع ہے کیونکہ سنت اسلا کی عملی شکل کے سوا کچھ اور نہیں ۔

اسے  زندگی کے ہر گوشے میں ایک جانچ کی حیثیت سے استعمال  کرتے ہوئے  ہم آسانی سے جان لیں گے کہ کون سے محرکات ہیں جو ہم اپنی ضروریات  ِ زندگی کیلئے مغرب سے لے سکتے ہیں اور کون سے محرکات ہمیں مسترد کردینے چاہیے۔

آج کل کے حالات میں اسلام ایک ڈوبتا ہوا سفینہ ہے اور جہاز میں موجود تمام حضرات  کی مدد  اس سفینہ کو ڈوبنے سے بچانے کیلئے  درکار ہے یہ سفینہ ناسی وقت بچ سکتا ہے جب آجکا مسلمان  قرآن کی یہ آواز سنے اور سمجھے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے: لقد کان لکم فی رسول اللہ أسوۃ حسنۃ لمن کان یرجواللہ والیوم الاخر[4]

ترجمہ:” بے شک تمہارے لیے پیغمرﷺ بہترین مثال ہیں ان لوگوں کے لیے جو اللہ اور قیامت کے دن کے طلبگار ہیں ۔“

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]القرآن الکریم،البقرہ286:2

[2]الحشر7:59

[3] المائدہ 3:5

[4] الاحزاب 21:33

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں