Home » انسانی زبانوں کی تحدیدات اور مذاہب کے ماوارائی حقاٸق
تہذیبی مطالعات زبان وادب شخصیات وافکار

انسانی زبانوں کی تحدیدات اور مذاہب کے ماوارائی حقاٸق

گل رحمان ہمدرد

کسی بھی انسانی زبان کی اپنی تحدیدات(Limitations )ہیں۔کوئی بھی متکلم اگر بامعنی ابلاغ کرنے کا خواہشمند ہو تو وہ کسی زبان کی تمام تحدیدات سے کُلی طور پر اپنا دامن نہیں بچا سکتا۔زبان کی ایک تحدید یہ ہے کہ زبان کی تشکیل مذہبی پروجیکٹ نہیں بلکہ انسانی پروجیکٹ ہے۔دوسرا یہ کہ زبان کسی شخص کی انفرادی تشکیل کے بجاۓ ثقافتی تشکیل ہے اور اس زبان میں کیۓ گیۓ گفتگو کی تفہیم بھی ثقافتی مظہر ہے۔کیونکہ الفاظ کے مخصوص معانی ثقافت کے پیداکردہ ہوتے ہیں۔ کوٸ بھی متکلم یا مصنف جب اس زبان میں بات کرے گا تو وہ اس زبان کی ان تحدیدات سے دامن نہیں بچا سکتا جو مخصوص ثقافت کے پیدہ کردہ ہوتے ہیں۔اور اگر متکلم و مصنف خداہے جس کا تعارف مذاہب ایک قادرمطلق اور قادرالکلام ہستی کے طور پر کراتے ہیں تو وہ قدرت رکھتا ہے کہ ان تحدیدات کو Transcend کرلے ۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہ جن سے مخاطب ہونا چاہتا ہے وہ مخاطبین انسان ہیں اور وہ ان تحدیدات سے اوپر نہیں اٹھ سکتے ۔جس کی وجہ سے اس کا کلام انسانوں کے لیۓ ناقابلِ فہم بن جاۓگا۔ کیونکہ لوگوں نے زبان کو اسکی تحدیدات کے ساتھ ہی سیکھا ہوتا ہے اور اپنی ثقافت کے فراہم کردہ نظامِ معانی سے باہر اجنبی نظامِ معانی میں کلام کو سمجھنا ان کے لیۓ ناممکن ہوتا ہے۔اس صورت میں خدا کا کلام لوگوں کے لیۓ ناقابل فہم ہوجاۓ گا اور کلام کا مقصد ہی فوت ہوجاۓ گا ۔
دوسرا راستہ یہ تھا کہ خدا زبان کی تحدیدات کا لحاظ رکھتا۔بظاہر یہی لگتا ہے کہ مذاہب عالم کی مذہبی کتابوں میں خدا نے اسی دوسری راہ کو اپنایا۔لیکن اس طریقے میں کلام میں مسلہء یہ تھا کہ ماوارائی حقاٸق اور زبان کے الفاظ ایک دوسرے کا عین نہ ہوسکنے کے باعث ماوارائی حقاٸق کا حقیقی تصور یعنی جیسا کہ وہ حقیقت میں ہیں انسانی ذہنوں میں پیداکرنا ممکن نہیں تھا۔پس مذاہب عالم کی مذہبی کتابوں میں مختلف تمثیلات کا سہارا لیا گیا۔وہ تمثیلات اور ان کے معانی بھی اسی سماج کی پیداکردہ تھیں جن کی زبان میں وہ کتاب پیش کی جارہی تھی۔ساتھ ہی اس نے کہہ دیا کہ یہ متشابھات ہیں۔ان کی کوئی بھی تفہیم ظنی ہی رہے گی یقینی نہیں۔علماۓ شریعت نے خدا کا شخصی تصور قائم کیا جبکہ صوفیاء نے غیر شخصی تصور قاٸم کیا۔ یہ دونوں متشبھات کی تاویلات ہیں ۔ یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ ان میں سے کونسی تاویل درست ہے اور کونسی غلط ؟
لہذا ہمیں ماننا پڑے گا کہ تمام ماوارائی حقاٸق اصل میں کیا ہیں اور ان کے اصل نام کیا ہیں, ہمیں معلوم نہیں۔دنیا کے ہر پیغمبر کو اس کی قوم کی زبان میں ان حقائق کا تعارف کرایا گیا ۔اسلام نے حقیقت اولیٰ کو ”اللہ“ کے نام سے متعارف کرایا ہے۔اور اسکی صفات کو بھی دیگر انسانی ایجاد کردہ الفاظ سے متعارف کرایا ہے۔ایک سوال یہ بھی پیداہوتا ہے کہ زبان تو انسانوں کی بنائی ہوئی ہے۔جب زبان میں یہ الفاظ ابھی تخلیق نہیں ہوۓ تھے تو حقیقت مطلقہ یا حقیقت اولیٰ کو کس نام سے پکارا جاتا ہوگا؟۔سوال یہ بھی ہے کہ اگر انسانوں نے”اللہ“ کا یہ لفظ ایجاد ہی نہ کیا ہوتا تو اس وقت حقیقت اولیٰ کا متبادل نام کیا ہوتا؟۔بلکہ حقیقت اولیٰ کا مختلف زبانوں اور مختلف مذاہب میں نام مختلف آیا ہے۔اسلیۓ صوفیاء مذاہب عالم کی ظاہری اصطلاحات کے بجاۓ اسکے باطنی مفہوم پر توجہ مرکوز کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انسانی ساختہ کوئی زبان موجود ہو یا نہ ہو ماورائی حقائق بہر حال اپنی جگہ موجود ہوتےہیں۔ وہ کہتے ہیں بے آواز گویائی بھی ایک زبان ہے۔اور اصل زبان وہی ہے۔مولانا روم کا قول ہے کہ خاموشی خدا کی زبان ہے اور جو کچھ گویائی کی صورت میں موجود ہے وہ اس خاموشی کا ایک ناقص ترجمہ ہے۔۔۔۔نہیں بھولنا چاہیۓ کہ خدا نے ماورائی حقائق کو بیان کرنے کےلیۓ انسانی زبان کے الفاظ کا سہارا لیا ہے۔انسانی زبان کے الفاظ ماوارائی حقاٸق کا اصل نام و تعارف نہیں ہیں۔اسلیۓ جن آیات میں ماورائی حقائق بیان کیۓ گیۓ ہیں ان کو متشابھات کہا گیا ہے اور ان سے کوئی ایسا مفہوم اخذ کرنے سے مذہب نے منع کیا ہے جس کو آپ قطعی سمجھتے ہوں۔انسانوں کےلیۓ ان کی زبانوں میں مانوس الفاظ و ترجیحات کا سہارا لیکر ہر مذہب کی مذہبی کتاب میں ماورائی حقائق انسانو ں کے ذہنوں میں اتارنے کی کوشش کی گئی ہے۔اس کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہیۓ۔۔۔۔۔۔اصل حقیقت انسانی زبان سے ماوراء ہے۔

مذاہب عالم کو صرف زبان کی تحدیدات کا مسلہء درپیش نہیں تھا۔اس کو کسی خاص زمانے کے لوگوں کے شعور کی تحدیدات اور جغرافیہ کی تحدیدات کا بھی سامنا تھا۔ان دونوں تحدیدات کو بھی مذاہب کو قبول کرنا پڑا جسکی وجہ سے تمام مذاہب کے ظاہری رسوم واعمال ایک دوسرے سے مختلف ہوگیۓ۔ بیسویں صدی کے معروف ماہر مذہبیات اور مفسر قرآن مولانا ابوالکلام آزاد مذاہب عالم کے اکابر صوفیاء کی طرح مذاہب کودرپیش اس طرح کی تحدیداتی امور کا بہت گہرائی میں ادراک رکھتے تھے۔فروری 1920میں(یعنی گاندھی جی سے اپنی پہلی ملاقات اور کانگریس میں اپنی باقاعدہ شمولیت کے ٹھیک ایک مہینے بعد) ابوالکلام نےاپنی ایک تقریر میں فرمایا:

”دنیا کے تمام نزاعات اوراختلافات کی ایک سب سے بڑی علت حقیقت کی وحدت اور اسماء و مصطلحات کی کثرت ہے۔طلبِ صداقت کےاکثر جھگڑے حکایتِ شہد وعسل سے زیادہ نہیں۔یعنی سچائی ہر جگہ اور ہر گوشہ عمل میں حقیقت اور مسمیٰ کے اعتبار سے ایک ہی ہے ,لیکن بھیس مختلف ہوگیۓ ہیں۔مصیبت یہ ہے کہ دنیا معانی کی جگہ لفظوں کی پرستش کرتی ہے۔اور گو سب طلب گار و پرستار ایک ہی حقیقت کے ہیں لیکن محض ناموں کے اختلاف کی وجہ سے باہم دیگر لڑ رہے ہیں۔۔۔اگر کبھی ہوسکے کہ ظواہر واسماء کے تمام پردے اٹھادیۓ جاٸیں اور حقیقت بے نقاب ہوکر سامنے آجاۓ تو یکایک دنیا کے تمام نزاعات ختم ہوجائیں اور تمام لڑنے والے دیکھ لیں کہ سب کا مطلوب ایک ہی ہے اگرچہ بھیس مختلف ہیں اور سب کا مقصود ایک ہی ہے اگرچہ نام مختلف ہیں۔۔“

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گل رحمان ہمدرد صاحب فلسفہ اور تصوف میں دلچسپی رکھنے والے اسکالر اور باچا خان یونیورسٹی چارسدہ میں فلسفہ کے استاد ہیں۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں