Home » واقعۂ اسرا و معراج کی نوعیت
تاریخ / جغرافیہ تفسیر وحدیث زبان وادب شخصیات وافکار

واقعۂ اسرا و معراج کی نوعیت

سید منظور الحسن

معروف کالم نگار جناب یاسر پیرزادہ نے اپنے ایک حالیہ کالم میں اِس موقف کو اختیار کیا ہے کہ “اسرا و معراج” کا واقعہ عالم رؤیا میں روحانی طور پر نہیں، بلکہ عالم بیداری میں جسمانی طور پر پیش آیا تھا۔ اِس ضمن میں اُنھوں نے استاذِ گرامی جناب جاوید احمد غامدی کے موقف پر تنقید کی ہے اور اُن کے موقف کو علمی لحاظ سے غلط قرار دیا ہے۔ “واقعۂ معراج، خواب یا حقیقت؟” کے عنوان اور اُس کے تحت جملہ مندرجات سے واضح ہے کہ فاضل مصنف اسرا و معراج کے علمی مباحث سے کما حقہ آگاہ نہیں ہیں۔ اُن کی تحریر سے یہ تاثر نمایاں ہے کہ نہ جسمانی سفر کے قائلین کے نقطۂ نظر کو سمجھا گیا ہے اور نہ روحانی سفر کے قائلین کے موقف کی تحقیق کی گئی ہے۔ سرسری مطالعے اور سطحی فہم پر اکتفا کرتے ہوئے ایک ایسی بحث پر کلام کیا ہے، جس کا تعلق قرآن و حدیث اور زبان و بیان کے اعلیٰ علمی موضوعات سے ہے۔ اُن جیسے بالغ نظر اور صاحبِ علم و دانش سے اِس تغافل اورعدم توجہی کا اظہار خلافِ توقع ہے۔ اِس پر مستزاد چند عامیانہ تبصرے ہیں، جن کی آمیزش نے اسلوب ِ بیان اور طرزِ استدلال کے سقم میں اضافہ کیا ہے۔
استاذِ گرامی نے “23 اعتراضات کی سیریز” میں اِس موضوع پر مفصل بحث کی ہے۔ اُسی بحث کی روشنی میں راقم نے “اسرا و معراج: غامدی صاحب کا موقف” کے زیرِ عنوان ایک کتاب مرتب کی ہے۔ اُس میں نہ صرف استاذِ گرامی کے موقف کو نقل کیا ہے، بلکہ جسمانی معراج کے قائل جلیل القدر علما کے موقف کو من و عن درج کر کے اُس کے بارے میں اپنی معروضات پیش کی ہیں۔ فاضل مصنف اگر استاذ کی مفصل گفتگو کو سن لیں یا مذکورہ کتاب کا مطالعہ کر لیں تو قوی امید ہے کہ وہ اِس موضوع پر اپنے اتفاق و اختلاف کو سادہ تاثرات سے بلند ہو کر محکم دلائل پر قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ان شاء اللہ العزیز۔
برسبیلِ تعارف متعلقہ مباحث اور اُن کے بارے میں استاذِ گرامی کے موقف کا اجمالی بیان پیشِ خدمت ہے۔

”اسرا و معراج” کی حقانیت مسلمان اہلِ علم کے مابین مسلم ہے۔ وہ بالاتفاق یقین رکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک رات مسجدِ حرام سے مسجد ِ اقصیٰ لے جایا گیا تھا۔ اِس کا مقصد اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کا مشاہدہ کرانا تھا۔ واقعے کے احوال کے بارے میں، البتہ اُن کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ بیش تر علما اِسے بیداری کےجسمانی سفر پر محمول کرتے ہیں، جب کہ بعض کا موقف ہے کہ یہ سفر روحانی طور پر عالم رؤیا میں کرایا گیا تھا۔ امام ابنِ کثیر نے اِس اختلاف کو “تفسیر القرآن العظیم” میں اِن الفاظ میں بیان کیا ہے:
ثم اختلف الناس: هل كان الإسراء ببدنه عليه السلام وروحه، أو بروحه فقط؟ على قولين، فالأكثرون من العلماء على أنه أسري ببدنه وروحه يقظة لا منامًا، ولا ينكرون أن يكون رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم رأى قبل ذلك منامًا ثم رآه بعد يقظةً، لأنه كان عليه السلام لا يرى رؤيا إلا جاءت مثل فلق الصبح. . . . (5/ 41- 39)
”پھر اِس میں بھی لوگوں نے اختلاف کیا ہے کہ اسرا (لے جانے) کا واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اور روح، دونوں کے ساتھ ہوا تھا یا صرف روح کے ساتھ ہوا تھا؟ اِس بارے میں دونوں طرح کی آرا پائی جاتی ہیں۔ اکثر علما کی راے تو یہی ہے کہ یہ واقعہ جسم اور روح، دونوں کے ساتھ بیداری کے عالم میں ہوا تھا۔یعنی آپ سو نہیں رہے تھے۔ البتہ، وہ اِس امکان کا انکار نہیں کرتے کہ بعینہٖ یہ واقعہ پہلے آپ کو خواب میں دکھایا گیا ہو اور بعد میں بیداری میں بھی رونما ہوا ہو۔ اِس کی وجہ یہ ہےکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو خواب دیکھتے تھے، وہ دن کی روشنی کی طرح واضح ہوتا تھا. . .۔”

استاذِ گرامی جناب جاوید احمد غامدی قرآنِ مجید کے نصوص کی بنا پر اِسے عالم رؤیا کا واقعہ سمجھتے ہیں۔ تاہم، اُن کےنزدیک اِس رؤیا سے وہ خواب مراد نہیں ہے، جو انسانوں کا روز مرہ تجربہ ہے۔ اِس کی نوعیت اُس رؤیا کی ہے، جو وحی الٰہی کی ایک قسم ہے اور جس سے صرف انبیاے کرام ہی مستفیض ہو سکتے ہیں۔ انبیاے کرام کو اِس طریقے سے جو مشاہدہ کرایا جاتا ہے، وہ مبنی بر حقیقت ہوتا ہے اور بعض اوقات بیداری میں بہ چشم سر دیکھنے سے بھی زیادہ واضح اور آشکار ہوتا ہے۔

اِس موضوع پر اُن کے مجموعی موقف کا خلاصہ یہ ہے کہ ”اسرا و معراج” کے زیرِ عنوان جن احوال کو بیان کیا جاتا ہے، وہ ایک واقعہ نہیں، بلکہ چار مختلف واقعات ہیں، جو الگ موقعوں پر، الگ صورتوں میں اور الگ حالتوں میں وقوع پذیر ہوئے ہیں۔ قرآن و حدیث کے متعلقہ مقامات اِن کی تفریق اور انفرادیت کو پوری طرح واضح کر دیتے ہیں۔ اِسی طرح یہ بھی درست نہیں ہے کہ یہ تمام واقعات عالم بیداری میں پیش آئے۔ اصل یہ ہے کہ اِن میں سے دو عالم رؤیا میں اور دو عالم بیداری میں رونما ہوئے ہیں۔

اِن میں سے ایک، ”واقعۂ اسرا” ہے، جو قرآنِ مجید کی سورۂ بنی اسرائیل(17) کی آیات 1 اور 60 میں بیان ہواہے۔یہ عالم رؤیا میں پیش آیا ہے ۔
دوسرا ، ”واقعۂ سدرہ”ہے، جو سورۂ نجم (53) کی آیات 1 تا12 میں مذکور ہے۔ یہ عالم بیداری میں پیش آیا ہے۔
تیسرا ، ”واقعۂقاب قوسین” ہے، جو سورۂ نجم (53) ہی کی آیات 13تا18میں درج ہے۔ یہ بھی عالم بیداری میں پیش آیا ہے۔
چوتھا، ”واقعۂ معراج‘‘ ہے، جو صحیح بخاری کی روایت، رقم 7517 اور بعض دیگر روایتوں میں نقل ہوا ہے۔ یہ عالم رؤیا میں پیش آیا ہے۔

یہ چاروں واقعات من جانب اللہ ہیں۔ اِن کی نوعیت آیات ِ الہٰی کی اور اِن کی حقیقت وحی و الہام کی ہے۔ اِن میں مذکور اخبار و اطلاعات اور واقعات و مشاہدات کا تعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منصبِ نبوت و رسالت سے ہے۔ لہٰذا اِنھیں اُسی کے تناظر میں سمجھنا چاہیے اور اِسی اعتبار سے اِن کی شرح و تفسیر کرنی چاہیے۔

اِن میں سے جہاں تک ”واقعۂ اسرا” کا تعلق ہے تو یہ قرآنِ مجید میں اِن الفاظ میں نقل ہوا ہے:
سُبْحٰنَ الَّذِيْۤ اَسْرٰي بِعَبْدِهٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَي الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِيْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِيَهٗ مِنْ اٰيٰتِنَا. اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ. (بنی اسرائیل 17 :1)
’’ہر عیب سے پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو ایک رات مسجدِ حرام سے اُس دور کی مسجدتک لے گئی، جس کے ماحول کو ہم نے برکت دی ہےتاکہ اُس کو ہم اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں۔ بے شک، وہی سمیع و بصیر ہے۔‘‘

اِس آیت سے درج ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں:
1۔یہ واقعہ رات کے اوقات میں رونما ہوا۔
2۔ اِس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجدِ حرام میں موجود تھے۔
3۔ اللہ تعالیٰ آپ کو مسجدِ حرام سے ایک دور کی مسجد، یعنی بیت المقدس میں لے گئے۔
4۔ اِس لے جانے کا مقصد آپ کو اللہ کی کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرانا تھا۔
5۔کم و بیش 80 دنوں کی مسافت کا یہ سفر اور اللہ کی نشانیوں کا مشاہدہ ایک ہی رات میں مکمل ہوا۔

اگر واقعۂ اسرا کے حوالے سے قرآن ِ مجید کے بیان کو بنی اسرائیل (17) کی مذکورہ آیت (1) ہی میں منحصر سمجھا جائے تو اِس کے بارے میں جسمانی اور روحانی سفر، دونوں کے احتمالات قرینِ عقل ہیں۔ یعنی اِسے حالت بیداری میں جسمانی معراج بھی سمجھا جا سکتا ہےاور عالم رؤیا کا سفر بھی قرار دیا جا سکتا ہےــــ رؤیا کا امکان اِس لیے پیدا ہوتا ہے کہ قرآن و حدیث اور سابق الہامی صحائف کی بنا پر یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ رؤیا وحی کے ذرائع میں سے ایک ذریعہ تھا اور اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں کو نیند کی حالت میں بھی حقائق کے مشاہدات کراتے تھے۔ ــــــ چنانچہ بات اگر آیت 1 ہی میں محصور ہوتی تو ’سبحان‘،’اسری‘ اور ’عبد‘ کے اشاراتی دلائل اصل قرار پاتے اور اِن کی روشنی میں دونوں آرا میں سے کوئی ایک راے قائم کر لی جاتی۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ بات آیت 1 تک محدود نہیں ہے۔ آگے آیت 60 میں اِس کے بارے میں یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ یہ واقعہ عالم رؤیا میں پیش آیا تھا۔ ارشاد فرمایا ہے:
وَمَا جَعَلْنَا الرُّءْيَا الَّتِيْ اَرَيْنٰكَ اِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ.
”اور ہم نے جورؤیا تمھیں دکھایا، اُس کو بھی ہم نے (اِن کے اِسی رویے کی وجہ سے) اِن لوگوں کے لیے بس ایک فتنہ بنا کر رکھ دیا۔”

قرآنِ مجید کی اِس صراحت کو اِس معاملے میں قطعی اور فیصلہ کن دلیل کی حیثیت حاصل ہے۔ چنانچہ درج ذیل نکات اِس کا لازمی نتیجہ ہیں:
1۔ لفظ ’الرؤیا‘ کو بنیادی دلیل کی حیثیت حاصل ہو گی اور باقی تمام دلائل اِس کے توابع کی حیثیت رکھیں گے۔
2۔ ’الرؤیا‘ کا معنی و مفہوم عربی زبان کے عرف کے مطابق طے کیا جائے گا۔
3۔عربی زبان میں ’رؤیا‘ کے معروف معنی نیند میں یا خواب میں دیکھنے کے ہیں، اِس لیے واقعے کو جسمانی نہیں، بلکہ روحانی قرار دیا جائے گا اور باقی تمام احتمالات کو رد کر دیا جائے گا۔
4۔ سورۂ بنی اسرائیل کی آیت 1 میں مذکور ’سبحان‘،’اسری‘ اور ’عبد‘ جیسے اشاراتی دلائل کی تفسیر بھی’الرؤیا‘ کے معنی و مفہوم کو ملحوظ رکھ کر کی جائے گی۔
5۔ واقعۂ اسرا سے متعلق تمام احادیث و آثار کو اِسی حتمی دلیل کی روشنی میں سمجھا جائے گا اور جو بات اِس کے خلاف ہو گی، اُسے خلافِ قرآن قراردے کر رد کر دیا جائے گا۔

اِس تفصیل سے واضح ہے کہ ’الرؤیا‘ کی قرآنی نص کو استاذِ گرامی کے نزدیک حجتِ قاطع کی حیثیت حاصل ہے۔ اِس نص کی بنا پر ان کا موقف یہ ہے کہ یہ واقعہ عالم رؤیا میں پیش آیا تھا۔

اِس موقف کو رد کرنے کے دو ہی راستے ہیں:
اول یہ کہ اِس بات کو ثابت کر دیا کہ جائے کہ بنی اسرائیل کی آیت 60میں لفظ رؤیا جس واقعے سے منسوب ہے، وہ واقعۂ اسرا نہیں ہے۔
دوم یہ کہ یہ مبرہن کر دیا جائے کہ آیت میں لفظ رؤیا سے مراد عالم خواب نہیں، بلکہ حالتِ بیداری ہے۔
استاذِ گرامی کے نزدیک نظم کلام اور زبان و بیان کی رو سے اِن میں سے کوئی بات بھی پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچتی، لہٰذا وہ اُن اہل علم کی راے کو درست نہیں سمجھتے، جو اِسے عالم بیداری کے جسمانی واقعے پر محمول کرتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سید منظور الحسن صاحب جی سی یونیورسٹی سے ایم فل اسلامیات ہیں اور ادارہء علم و تحقیق المورد فیلو اور ماہنامہ اشراق امریکہ کے مدیر ہیں ۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں