Home » بوئے گُل نالہ دِل دودِ چراغِ محفل: شورش کاشمیری
اردو کتب شخصیات وافکار مطالعہ کتب

بوئے گُل نالہ دِل دودِ چراغِ محفل: شورش کاشمیری

شورش کاشمیری خطیب ، سیاست دان، شاعر اور ادیب تھے۔ وہ متعدد کتابوں کے مصنف تھے جن کا بیشتر موضوع پاکستان کی سیاسی تاریخ اور اس سے منسلک حالات و واقعات ہیں۔ “بوئے گُل نالہ دِل دودِ چراغِ محفل” ان کی آپ بیتی ہے۔ جس کا دورانیہ ان کی پیدائش یعنی ۱۹۱۷ سے لیکر پاکستان کے بننے تک کا ہے۔ یہ تقریباً پچیس سال کے دورانیے پر مشتمل کتاب ہے۔جس کو شورش نے بیان کیا ہے۔ یہ سال برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں کافی ہنگامہ خیز ثابت ہوئے بالخصوص آخری دس سال، پھر شورش خود عملی طور پر سیاست و خطابت میں شامل تھے۔ تو بطور عینی شاہد ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے تجربات، مشاہدات کے ساتھ ساتھ انہوں نے تجزیہ بھی پیش کیا ہے۔۵۳۲ صفحات پر مشتمل اس کتاب کو الفیصل پبلشرز نے شائع کیا ہے

شورش کاشمیری نے شروع میں اپنا خاندانی تعارف کروایا ہے۔ ان کے پردادا سری نگر سے امرتسر آئے جبکہ دادا لاہور آ گئے۔ والدہ جلد انتقال کر گئیں تو ان کی زیادہ تر نگہداشت ان کی دادی نے کی۔شورش کی اپنی دادی اماں سے محبت کو ہم جگہ جگہ محسوس کر سکتے ہیں ان کی وفات پر الگ سے انہوں نے ایک باب لکھا ہے اور ان کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔
شورش نے اپنی ابتدائی تعلیم کے بارے میں لکھا کہ اس وقت اساتذہ خود طلبہ کو سکول میں داخل کرنے پر زور دیتے تھے۔ شورش کا پہلا داخلہ ایک دیو سماجی سکول میں ہوا۔ دیو سماج ہندوؤں کا ایک کم عمر فرقہ تھا۔ اس کا مرکز فیروز پور کی تحصیل موگا تھا۔ یہ خدا کے وجود کے قائل نہیں تھے یہ سب کچھ نیچر اور آواگون کو مانتے تھے۔ ان کے مطابق جو لوگ اس جنم میں اچھے عمل نہیں کرتے اگلے جنم وہ جانوروں کے جنم میں لوٹتے ہیں۔ شورش کہتے ہیں کہ ان میں انکساری بہت پائی جاتی تھی۔ یہاں پر تعلیم کے ساتھ تربیت کا انتظام بھی ہوتا تھا۔ آغاز وعظ کے پیریڈ سے ہوتا تھا جس میں اخلاقی تربیت کے ساتھ ساتھ گوشت نہ کھانے کی تعلیم بھی دی جاتی تھی اور ست دیو کی جے کہہ کر سلام کیا جاتا تھا۔ شورش کہتے ہیں انہوں نے گوشت کھانا چھوڑ دیا اور ست دیو کی جے کہہ کر گھر میں سلام کرنا شروع کیا تو ان کا اسکول تبدیل کرا دیا گیا اور ایک ایسے سکول میں داخل کروایا گیا جہاں کے اساتذہ مسلمان تھے مگر وہاں پر پہلی جماعت کے مولوی صاحب کا وتیرہ الگ تھا جو طالب علم کوئی شے لیکر آتا تو پہلے ان کی نذر کرنا ہوتا۔ وہ بچوں کو مارتا بھی بہت تھا ایک دن شورش کو بھی مارا جس پر ان کے جسم پر نیل پڑ گئے۔ اگلے دن شورش کے دادا غصے میں سکول گئے تو ہیڈ ماسٹر اور مولوی صاحب دونوں نے معافی مانگی مگر شورش کہتے ہیں کہ ان کا دل کھٹا ہو چکا تھا ان کو دوبارہ داخلہ دیوسماجی سکول میں کروا دیا گیا۔ شورش کہتے ہیں کہ اس وقت اُردو ہندی کا کوئی تنازعہ نہیں تھا۔ہندو بھی اُردو پڑھتے ، ہندی اختیاری مضمون تھا مگر بہت کم ہی کوئی اس کو پڑھتا۔ شورش کاشمیری کہتے ہیں کہ اس زمانے میں سکولوں میں اخلاقی تربیت پر بہت زور دیا جاتا تھا۔ اس کا اثر شورش پر بھی ہوا بالخصوص ہر طرح کے نشے سے وہ محفوظ رہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک زمانے تک وہ تمباکو نوشوں کے ہاتھوں کھانا نہیں کھاتے تھے۔ شورش کہتے ہیں کہ ان کو لڑکوں کے ساتھ گلیوں میں پھرنے، گلی ڈنڈا کھلنے، تاش اور پتنگ بازی سے طبعی نفرت تھی حتیٰ کہ انہوں نے کبھی سائیکل بھی نہیں چلائی۔ مصنف کہتے ہیں کہ اس وقت کے اساتذہ شرافت کی تصویریں تھے وہ بچوں کو رٹانے سے زیادہ سبق کا شوق پیدا کرتے تھے۔
شورش کہتے ہیں کہ انہوں نے چوتھی جماعت سے ہی زمیندار پڑھنا شروع کیا۔ ان کے دادا مولانا ظفر علی خان کے شیدائی تھے اس لیے ان کے گھر زمیندار آتا تھا۔ زمیندار کے ساتھ دیگر غیر نصابی کتابوں کا مطالعہ دسویں جماعت تک چلتا رہا۔

شورش کاشمیری کی پیدائش ۱۹۱۷ میں ہوئی ، ان کے لڑکپن داخل جانے سے قبل دنیا اور برصغیر کے منظر نامے پر کئی اہم واقعات ہو چکے تھے۔ جنگ عظیم اول اختتام پذیر ہوئی تھی ، پھر جلیانوالہ باغ کا واقعہ ہو چکا ، تحریک ہجرت اور تحریک خلافت چل کر ختم ہو چکی تھیں۔ یہ سب شورش کے ہوش سنبھالنے سے پہلے کے واقعات ہیں۔ بھگت سنگھ کا واقعہ شورش نے لکھا اور بتایا ہے کہ یہ انگریز سامراج کے خلاف ایک چنگاری تھی۔ اس وقت انہوں نے محسوس کیا کہ لوگوں سے سامراج کا خوف نکل رہا ہے۔ علم الدین کا راجپال کو قتل کرنے کا واقعہ بھی شورش کا آنکھوں دیکھا ہے، وہ کہتے ہیں علم الدین کو راجپال کو قتل کر کے چھپتے انہوں نے دیکھا بعد میں علم الدین کی پھانسی اور پھر ان کے جنازے کے بارے میں لکھا کہ یہ لاہور کی تاریخ کا بڑا جنازہ تھا۔ اس کو بڑا مسلم اجتماع بھی کہا گیا۔ ہندو اور مسلم اخبارات کے بارے میں بھی لکھا ہے کہ اس میں فرقہ وارانہ مسائل کو بہت زیادہ جگہ دی جاتی تھی۔ ہندو اخبارات ہندوؤں کو مظلوم جبکہ مسلمانوں کو ظالم قرار دیتے مسلم اخبارات کا معاملہ اس کے برعکس تھا۔ ہندو مسلم کا یوں تو یہ مسئلہ پورے برصغیر کا تھا مگر پنجاب میں یہ تین قومی مسئلہ تھا۔ یہاں سکھ بھی بڑی تعداد میں تھے۔ اس لیے پنجاب کا فرقہ وارانہ مسئلہ دیگر برصغیر سے زیادہ پیچیدہ تھا۔
اس وقت برصغیر کے افق پر ایک اور تبدیلی یہ آ رہی تھی کہ نئی ہندو اور مسلم قیادت سامنے آ رہی تھی۔ کرم داس گاندھی ، مولانا محمد علی جوہر اور مولانا ابوالکلام آزاد سامنے آ رہے تھے۔ جواہر لعل نہرو کے والد موتی لعل کا پہلے سے ہی ایک بڑا نام تھا تو جواہر لعل کے تعارف کے لیے ان کا حوالہ بھی کافی تھا۔ ہندو مسلم مسائل ہونے کے باوجود کانگریس ہی اس وقت برصغیر کی بڑی اور قابلِ ذکر سیاسی جماعت تھی۔ جو مسلم مسئلہ پر کم ہی بات کرتی تھی مگر مسلمانوں کے لیے اس کے علاوہ کوئی اور بڑا پلیٹ فارم نہیں تھا۔ پنجاب کی حد تک احرار وجود رکھتے تھے مگر ان کا وجود باقی برصغیر میں نہیں تھا۔ جبکہ مسلم لیگ اس وقت امراء کی جماعت تھی۔

لڑکپن سے ہی شورش احتجاجی سیاست میں شریک ہونے لگے۔ پہلے دفعہ وہ ایک ہندو کے ساتھ بم بنانے کے الزام میں گرفتار ہوئے۔ ان کو پولیس تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ شورش کہتے ہیں کہ پہلی گرفتاری کے بعد ہی سے پولیس کے لیے ان کے دل سے احترام ختم ہو گیا۔ بالخصوص جس طرح سے پنجاب پولیس کے مسلمان افسران اور اہلکاروں کا رویہ انتہائی چاپلوسانہ تھا۔ وہ اپنے مالکوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ہر طرح کا تشدد اور ٹارچر کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ یہ تقسیم سے قبل کی پنجاب پولیس کی حالت ہے جبکہ تقسیم کے بعد پنجاب پولیس نے اپنی اس ہی روش کو بطور وراثت اپنا حصہ بنایا۔ آج بھی ہم پنجاب پولیس کو دیکھیں تو یہ طاقتوروں کی کاسہ لیس ہے۔ یہ ان کی خوشنودی کے لیے چادر اور چار دیواری کا خیال نہیں کرتی ، اس کو اگر بچوں اور عورتوں پر تشدد کرنا پڑے تو یہ بلا جھجک کرتے ہیں۔ لوگوں کی جان لینا تو ان کے لیے کبھی کوئی مسئلہ رہا ہی نہیں۔ شورش کاشمیری نے جو حالات پنجاب پولیس اور اس کے چاپلوس مسلمان اہلکاروں کے تقسیم سے قبل کے بیان کیے ہیں تقسیم کے بعد بھی ان میں فرق نہیں آیا۔ بلکہ شورش نے ایک جگہ لکھا کہ پنجاب پولیس کے ہندو اور سکھ اہلکار اپنے ہم مذہب قیدیوں کا پھر بھی کچھ دید لحاظ کرتے تھے مگر مسلمان اہلکار اپنے ہی ہم مذہبوں پر فرعون بن کر ٹوٹتے تھے۔ شورش مجموعی طور پر پنجاب کے اوپر سامراجی گرفت اور پھر اہل پنجاب میں سے بہت سے لوگوں کے سامراج سے تعاون پر بات کی ہے اور اس پر وہ پنجاب پر تنقید بھی کرتے ہیں لیکن اس بات کا احساس انہیں بھی ہیں کہ انگریزی سامراج نے یہاں پر بہت مضبوط پاؤں جمائے اور وہ کسی صورت بھی پنجاب کو اپنے ہاتھوں سے نکلتا نہیں دیکھ سکتے تھے۔ اس لیے اس نے یہاں پر اپنی گرفت کی مضبوطی کے لیے سرمایہ کاری کی ،یہاں کے بہت سے لوگوں نے اپنی وفاداری پیش کرکے ان کے عزائم کو مزید آسان بھی بنا دیا۔ اس نے اپنے وفاداروں میں جاگیریں بانٹیں۔ جاگیر داروں کے خلاف شورش نے متعدد جگہ اپنے قلم سے غصہ نکالا ہے اور ان کے کردار پر اظہار افسوس کیا ہے۔ شورش کہتے ہیں کہ استعمار کو اپنے قدم جمانے کے لیے سپاہی اور جاسوس پنجاب کی سرزمین سے ملے۔ مرزا غلام احمد اس ہی سرزمین سے اٹھے جنہوں نے مسلمانوں کے اندر رخنہ ڈالنے کے لیے اپنی خدمات پیش کی۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں برطانوی فوج کو سپاہی بھی یہاں سے ملے۔ پنجاب پر سامراجی گرفت کے عوامل کافی گہرے ہیں اب بھی جب تقسیم کے بعد سامراج کا چہرہ تبدیل ہوا تو مقامی سامراج کا سب سے بڑا اثاثہ بھی اس صوبے میں ہے۔ مقامی سامراج ملک کے باقی علاقوں سے بیشک لاپروا ہو جائے مگر پنجاب کے اوپر اس کو اپنی گرفت میں ہلکی سے کمزوری بھی قبول نہیں اس کا وہ پوری طاقت سے ناصرف دفاع کر رہا ہے بلکہ اپنے قبضے کو مزید وسعت دے رہا ہے۔ یہ تاریخی صورتحال پیش نظر رکھی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ماضی میں بھی احرار اور خاکسار جیسی تحریکیں اگر اٹھی بھی تو ان کو جلد دبا دیا گیا اور اب بھی اگر اس صوبے میں کوئی آواز مقامی سامراج کے مفادات کے خلاف اٹھے تو اس کو برداشت نہیں کیا جاتا۔ پنجاب کے حوالے سے شورش نے ایک دلچسپ بات لکھی ہے

‘پنجاب نے حالی پیدا کیا، اقبال کو جنم دیا، ظفر علی خان کو جنا،سید عطاءاللہ شاہ بخاری اٹھے لیکن اس کا تاج دوسروں کے سر پر چمکتا رہا ، پانی اس کا تھا کھیت باہر کے سیراب ہوتے گئے ،ہر تحریک یہاں سے اٹھی ملک کی سیاسی تبدیلیوں کا ہر انقلابی عہد یہیں سے شروع ہوا لیکن منزل دوسروں کے ہاتھ چلی گئی۔ سیاسیات کی طرح ادبیات میں بھی جتنے موڑ آئے پنجاب ہی محرک ک
و موید رہا، لیکن سیادت کے اعتبار سے پنجاب بانجھ ہو گیا۔
پنجاب نے جگردار انقلابی پیدا کیے، بہترین مقرر نکلے، شاعری کے نئے رہبروں کی جنم بھومی بنا مثلاً حالی، اقبال، فیض، میرا جی۔ پھر وہ تمام انشاءپرداز، مکالمہ نویس اور افسانہ نگار اس خاک سے اٹھے کہ ان سے ادب و انشاء کی نئی راہیں کھلیں ،لیکن پنجاب کی محرومیاں جوں کی تو رہیں، پنجاب نے کبھی آغوش اعتراف وا نہ کیا اس کی وجہ کوئی بیرونی افتاد یا خارجی سازش نہ تھی بلکہ پنجاب کے وفادار خاندان ہی تھے جن کے ‘خنجر بکف’ ہاتھ عوام کی شہ رگ پر رہے تھے’

کشمیر میں ڈوگرہ شاہی کے خلاف تحریک کے بارے میں بھی شورش نے کچھ واقعات لکھے ہیں اس میں شیخ عبداللہ عوامی امنگوں کا مظہر بن کر سامنے آئے۔کشمیر کمیٹی میں جماعت احمدیہ کے سربراہ مرزا بشیر الدین محمود کے کردار کے حوالے سے بھی شورش نے لکھا کہ وہ سب کچھ انگریزوں کی ایما پر کر رہے تھے۔ علامہ اقبال بھی اس کو بھانپ گئے تھے اس لیے انہوں نے اس سے استعفیٰ دے دیا۔ جماعت احمدیہ کے خلاف شورش کاشمیری کی جدوجہد بعد از تقسیم بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ اس مذہب اور اس کے بانی کی انگریز دوستی اور مسلم دشمنی کے بارے میں کئی مقامات پر لکھا ہے اور بتایا ہے کیسے انہوں نے مسلمانوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپا اور اپنے آقاؤں کے مفادات کا تحفظ کیا۔ کشمیر کمیٹی میں بھی مرزا بشیر الدین محمود کے کردار کو شورش شک کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس تحریک میں ان کی دلچسپی اس لیے تھی کہ وہ کشمیر کو اپنی مذہبی سرگرمیوں کا مرکز بنانا چاہتے تھے اور مرزا غلام احمد نے بھی یہ پیش گوئی کر رکھی تھی کہ مسیح ناصری کا مدفن کشمیر ہے۔ شورش نے پہلے پاکستانی وزیر خارجہ چوہدری ظفر اللہ خان کے بارے میں بھی بات کی اور کہا کہ تقسیم کے بعد بھی ان کا کردار مشکوک تھا وہ پاکستان سے زیادہ اپنی جماعت سے وفادار تھے اور سفارتی محاذ پر بھی انہوں نے پاکستان کا مقدمہ صیح طریقے سے نہیں لڑا۔ جماعت احمدیہ کی پھرتیاں احرار کی تحریک کشمیر میں مداخلت کا سبب بنی کیونکہ احرار کے سامنے کشمیر کے سیاسی مسئلہ کے ساتھ اب یہ ایک مذہبی مسئلہ بھی بن چکا تھا۔ وہ احمدیوں کو کشمیری مسلمانوں کے ایمان سے کھیلنے نہیں دے سکتے تھے۔ شورش کہتے ہیں کہ مسلمانوں نے احرار کا سیاسی طور پر ساتھ نہ دیکر اچھا نہیں کیا۔ اگر تحریک کشمیر میں احرار کا ساتھ دیا جاتا تو نتائج مختلف ہوتے۔ شورش کہتے ہیں کہ مہاتما گاندھی نے بھی احرار کو فرقہ وارانہ جماعت کہہ کر اس کی حمایت سے پہلو تہی کی۔
احرار کے حالات اور اس کے عروج و زوال اور پھر اس کے اندر مختلف راہنماؤں کے کردار کے بارے میں شورش کاشمیری نے اس کتاب میں مفصل طور پر ذکر کیا ہے۔ یہ ایک الگ روداد ہے جس میں اس جماعت کی سیاسی پوزیشن اور پھر اس کے المیے کو سمجھا جا سکتا ہے۔ احرار کے بارے میں شورش کی یہ مشاہدات اور تجربات ایک الگ بحث کے متقاضی ہیں۔

شورش کاشمیری نے بیس اور تیس کی دہائی لاہور کے دو بڑے ادبی حلقوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ ایک نیاز مندانہ لاہور کا حلقہ تھا جس میں ایم ڈی تاثیر ، عبد المجید سالک ، پطرس ، مجید ملک ، تبسم ، ہری چند اور حفیظ جالندھری وغیرہ پر مشتمل تھا یہ کوئی باقاعدہ حلقہ نہیں تھا دوستوں کا مجمع تھا جس کا شیوہ اہل زبان سے الجھنا تھا۔ ان کی پشت پناہی “انقلاب” کر رہا تھا جبکہ دوسرا حلقہ علامہ تاجور نجیب آبادی کا تھا ان کے حلقے میں نامور لوگ تو شامل نہیں تھے مگر ان کے قلم میں نیاز مندان لاہور کی نسبت زیادہ جان تھی۔ان۔کے پاس وسائل کی کمی تھی جس کی وجہ سے ابھر کر سامنے نہیں آ سکے۔اس حلقے میں وقار انبالوی ، روش صدیقی ، اختر شیرانی اور احسان دانش وغیرہ شریک تھے۔ اس کے ساتھ اس وقت کے ادبی رسائل جو لاہور سے نکلتے تھے ان میں سے بھی چند کے بارے میں ذکر کیا ہے، شورش کہتے ہیں یوں تو پورے ہندوستان سے ادبی جرائد نکل رہے تھے مگر اکیلے لاہور سے نکلنے والے ادبی رسائل باقی ہند سے زیادہ تھے۔ مولانا ظفر علی خان اور عبد المجید سالک کے مابین ادبی معرکہ آرائیوں کا بھی شورش نے ذکر کیا ہے۔ احسان دانش کی ادبی اٹھان اس زمانے میں ہوئی اور بہت جلد انہوں نے اپنا نام پیدا کر لیا مگر احسان دانش کو کچھ لوگوں کے حسد کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ اس زمانے میں محمد دین تاثیر کا بڑا نام تھا احسان دانش نے اپنا مجموعہ تاثیر کو نظر ثانی کے لیے بھیجا مگر وہ مدتوں ان کے پاس پڑا رہا انہوں کہیں اصلاح کی تو اچھے شعروں کو مجروح کر دیا۔ نیاز مندان لاہور میں شامل لوگوں کا نام ضرور بڑا تھا مگر مولانا ظفر علی خان اور علامہ تاجور ان کا بھرپور مقابلہ کیا۔

مسجد شہید گنج کا واقعہ بھی شورش کی نوجوانی کا تھا۔ اس واقعے سے لاہور میں مسلم سکھ کشیدگی پیدا ہوئی مقامی انتظامیہ نے سکھوں کی مکمل سہولت کاری کی جس کی وجہ سے وہ مسجد کو منہدم کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اس واقعے سے مسلمانوں کے اندر غم و غصّے کی لہر دوڑ گئی۔ مصنف کہتے ہیں کہ شہید گنج پر سکھوں کا دعویٰ تاریخی طور پر غلط تھا۔ اس وقت لاہور میں مسلمانوں کے مرکزی رہنما مولانا ظفر علی خان اور ان کے بیٹے اختر علی خان تھے جبکہ سکھوں کے دو گروہ تھے ایک قیادت ماسٹر تارا سنگھ جبکہ دوسرے کی قیادت سردار سندر سنگھ کے ہاتھوں میں تھی۔ اس واقعے میں جہاں مسلمانوں میں غصے کی لہر دوڑی تو مسلمان متحرک بھی نظر آئے۔ اس پر مجلس اتحاد ملت قائم ہوئی جس کے امیر پیر جماعت علی شاہ محدث علی پوری کو بنایا گیا۔ شورش پیر صاحب کے کردار کے حوالے سے بالکل بھی مطمئن نظر نہیں آتے انہوں نے لکھا کہ پیر صاحب نے عملی اقدامات نہیں کیے حالانکہ یہ موقع تھا کہ مسلمان ایک قوت بن کر سامنے آئے تھے تو وہ اپنے مطالبات بآسانی منوا سکتے تھے لیکن اتحادملت کی قیادت کو اس سے زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔ شورش کاشمیری نے پیر جماعت علی شاہ کے بارے میں یہ بھی لکھا کہ وہ ان مشائخ میں شامل تھے جنہوں سانحہ جلیانوالہ باغ کے قاتل جنرل ڈائر کو سپاس نامہ پیش کیا۔ جنگ عظیم اول میں انہوں نے اپنے مریدین کو برٹش آرمی میں شامل کیا اور ان کو تعویذ کہ ان کی برکت سے عثمانیوں کی گولیاں ان پر اثر نہیں کریں گی۔ شورش کاشمیری اور ان کے کچھ دوستوں نے پیر جماعت علی شاہ کی قیادت پر عدم اعتماد کا اظہار ان کے سامنے بھی کیا۔مگر پیر صاحب کے مریدین کی وجہ سے اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا۔ شورش کاشمیری اور دیگر نوجوان چاہتے تھے مسلمان جلوس اور طاقت کے زور پر بھی مسجد کا قبضہ لیں جبکہ پیر صاحب کے حامیوں کی رائے یہ ہے پیر صاحب نے کہا کہ احتجاج کی صورت میں مسجد کا قبضہ بھی نہیں ملے گا اور مزید لوگ جیلوں میں جائیں گے اور جانی نقصان بھی ہو گا۔ وہ چاہتے تھے قانونی جنگ لڑ کر اس کو حاصل کیا جائے۔ شورش کہتے ہیں کہ مسجد شہید گنج کا یہ واقعہ ایک منظم پلان کے تحت احرار کے خلاف ایک سازش تھی۔ احرار اس کو بھانپ گئے اس لیے وہ اس معاملے سے دور رہے مگر ان کی لاتعلقی نے ان کو مزید نقصان پہنچایا مسلمان عوام کے دلوں میں ان کے لیے شکوک پیدا ہو گئے اور ان کی قبولیت میں کمی آئی۔ بعد میں بھی احرار کو اپنی اس عدم شمولیت کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ شورش اس وقت تک احرار میں شامل نہیں ہوئے تھے مگر وہ بھی یہی بات کہتے ہیں کہ اس واقعے سے احرار کو پھنسانے کی کوشش ہوئی اور ان کا اس وقت شامل نہ ہونے کا فیصلہ درست تھا۔ احرار اور اتحاد ملت کے درمیان مخاصمت کو بھی سامنے رکھنا چاہیے اس لیے پیر جماعت علی شاہ یا پھر اتحاد ملت کے خلاف شورش کی رائے ایک فریق کی رائے ہے۔ اس پر دوسرے فریق کی رائے مختلف ہو گی۔ مگر یہ بات درست ہے کہ اس مسجد کی خاطر مسلمانوں نے اپنی جان کی قربانی دی اور اس کا نتیجہ بھی ان کے حق میں برآمد نہیں ہوا۔

شورش کاشمیری نے تقسیم سے قبل اور بعد میں بھی جیل میں قید ہوئے۔ اپنی جیل کی روداد پر انہوں نے الگ سے کتاب ‘پس دیوار زنداں ‘ لکھی ہے۔ لیکن اس کتاب میں بھی جیل کی سختیوں کو بیان کیا ہے اور لکھا ہے کہ اس کے نظام میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے لکھا ہے

‘جیل خانوں کی غایت اصلاح نہیں سزا ہے اور سزا بھی انتقام کی حد تک بے رحمانہ ۔کوئی شخص قیدیوں کو انسان نہیں سمجھتا، انہیں جانور سمجھ کر ہانکتے اور ان سے اس قسم کی مشقت لی جاتی ہے جس سے ان میں عزت نفس کا احساس ہی نہ رہے ۔وہ خود اپنے آپ کو جانور سمجھیں۔ جس شخص نے جیل مینول تصنیف کیا غالباً اس کا کوئی بچہ نہیں تھا، لازماً اولاد سے محروم ہوگا۔ ایک آفیسر کا خیال تھا کہ جیل خانے کی ملازمت یقیناً وہی شخص کرتا ہے جسے ماں باپ کی بددعا ہو، جیل مینول سے زیادہ بھدی اور بڑی کتاب آج تک کسی نے تصنیف نہیں کی۔ پسماندہ ریاستوں میں اتنے اختیارات راجوں ،مہاراجوں، نوابوں اور خانوں کو حاصل نہیں رہے جتنے اختیارات جیل مینول کی رو سے سپرنڈنٹنٹ اور جیلر کو حاصل ہیں۔ جیل خانہ کے حکام اپنے ہونٹوں کی ہر جنش کو قانون سمجھتے اور قیدیوں کو یوں گردانتے ہیں گویا وہ لوگ کبھی انسان نہیں تھے’

شورش نے یہ کتاب غالباً ۱۹۶۸ میں لکھی تھی اور جیل کے بارے میں ان کا یہ مشاہدہ تیس کی دہائی کا ہے۔ یوں دیکھا جا سکتا ہے کہ جیلوں کی صورتحال جیسی تقسیم ہند سے قبل تھی اس طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ بری ہے۔ کسی صاحب اقتدار کو جیل اصلاحات کی طرف توجہ کرنے کی فرصت نہیں ملی حالانکہ ہمارے کئی وزیراعظم اقتدار میں آنے سے پہلے جیل میں رہ چکے ہیں۔
جیل نے جہاں شورش کاشمیری کی زندگی میں مشکلات پیدا کیں وہیں جیل ہی کے دنوں میں شورش نے بہت دلجمعی سے مطالعہ کیا جس نے اس کو فائدہ دیا۔ شورش ۱۹۳۹ سے ۱۹۴۴ تک جیل میں رہے تو کہتے ہیں کہ اس دوران انہوں نے اُردو کا تقریباً سارا اہم مواد پڑھ ڈالا۔
شورش نے بتایا کہ ان کے اوپر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وہ مذہب سے بیزار ہو چکے تھے اور وہ مارکسزم کی طرف مائل ہو چکے تھے۔ ان کو مذہب کی طرف واپس لانے والی ایک کتاب سید سلیمان ندوی کی ‘خطبات مدراس ‘ دوسری مولانا ابوالکلام آزاد کی ترجمان القرآن اور تیسرا علامہ اقبال کا کلام تھا جس نے ان کا رشتہ دوبارہ دین سے جوڑا۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ یہ تینوں شخصیات شورش کاشمیری کی محسن تھیں۔ ان میں علامہ اقبال اور سید سلیمان ندوی کا ذکر تو اس کتاب میں کم ہے مگر مولانا آزاد کا جہاں کہیں بھی شورش نے ذکر کیا ہے ان کے قلم سے احترام محسوس ہوتا ہے۔ مولانا آزاد کے ساتھ جو لیگ کے معاملات ہوئے اس پر بھی انہوں نے مولانا آزاد کی طرف سے صفائی پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔

شورش نے ۱۹۳۷ کے انتخابات اور اس کے بعد کے حالات پر بھی بات کی ہے۔ انگریز نہیں چاہتا تھا کہ کسی صوبے میں بھی کانگریس یا لیگ حکومت بنائے۔ اس کے لیے اس نے چند جماعتوں کو کھڑا کیا۔ پنجاب میں یونینسٹ پارٹی تھی۔ اس کے سربراہ سر فضل حسین کے بارے میں شورش کہتے ہیں کہ وہ باوقار انسان تھے ۔ ان کے بارے میں نہرو نے کہا کہ وہ ہندوؤں کے مقابلے میں مسلمان اور انگریزوں کے مقابلے میں ہندوستانی تھے۔ ان کی لیگ اور اس کے قیادت سے اچھے تعلقات نہیں تھے۔ شورش نے ان کی ذہانت کی تعریف کی ہے۔ لیکن انتخابات سے قبل ہی سر فضل حسین چل بسے تو سکندر حیات ان کے جانشین بنے۔انتخابات میں یونینسٹ پارٹی نے غیر معمولی کامیابی حاصل کی۔ مسلم لیگ پنجاب سے بمشکل دو نشستیں جیت پائی ایک ملک برکت علی اور دوسرے راجہ غضنفر ، مگر راجہ غضنفر نے سیاسی وفاداریاں تبدیل کر لیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ سیاسی وفاداریوں کی تبدیلی کا یہ کلچر کافی پرانا ہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر عالم کے بارے میں اور ان کی سیاسی قلا بازیوں کے حوالے سے بھی اس باب میں شورش نے دلچسپ معلومات فراہم کی ہیں۔وہ یونینسٹ پارٹی میں شامل ہو گئے تھے قائد اعظم نے ان کو لیگ میں شمولیت کی دعوت دی تو انہوں نے کہا کہ میں سوچ کر بتاؤ گا تو قائد نے کہا کہ عالم! تمہیں بھی کسی پارٹی میں آنے جانے کے لیے سوچنے کی ضرورت ہے؟
یونینسٹ حکومت نے بھی احرار کو اپنا حریف جانا اور ان پر عرصہ حیات تنگ کرنے کے لیے حکومتی وسائل کا استعمال کیا۔ سکندر حیات کے ساتھ شورش نے اپنے تعلقات جن کی یادیں خوشگوار نہیں کو لکھا ہے۔ اس دوران انہوں نے محسوس کیا کہ کئی مسلم راہنما لوگوں کو استعمال کر رہے تھے وہ خود جیل میں جانے سے ڈرتے تھے اور کسی اور کے کندھوں پر بندوق رکھ کر گولیاں چلا رہے تھے۔ اس ہی چیز کی وجہ سے ان کا دل اتحاد ملت سے کھٹا ہوا۔ وہ مولانا ظفر علی خان کے بارے میں کوئی بری رائے نہیں رکھتے مگر ان کے اردگرد جو لوگ تھے بشمول ان کے بیٹے مولانا اختر علی خان کے ان کے بارے میں شورش کی رائے زیادہ مثبت نہیں تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ یہاں ان کو احساس ہوا کہ احرار کے خلاف اتحاد ملت اور یونینسٹ پارٹی اپنے مفادات کی وجہ سے تھے ان میں کہیں بھی ملت کا مفاد نہیں تھا۔ وہ احراریوں کو اپنے لیے سیاسی خطرہ سمجھتے تھے مگر انہوں نے مذہب کی آڑ میں ان کی مخالفت کی تاکہ ان کے بارے میں عوامی رائے عامہ کو اپنے حق میں استعمال کیا جا سکے۔ مسلم لیگ بھی شہید گنج واقعے کے شروع میں خاموش تھی مگر بعد میں اس نے بھی اس کو اٹھا لیا اور ملک برکت علی کی جیت میں لیگ کے اس مؤقف نے اہم کردار ادا کیا۔

شورش کی خطابت کا زور اس وقت خوب زوروں پر تھا۔سکندر حیات کے خلاف بھرپور تقریریں کیں ایک تقریر میں انہوں نے سکندر حیات کی کوٹھی پر جتھا لے کر جانے کی بات بھی کی۔ اس کے بعد ان کی سکندر حیات سے ملاقات کی کوششیں بھی کروائی گئیں۔ بعد میں ان سے منسوب ایک بیان جس میں انہوں سکندر حیات کی کوٹھی پر جتھا لے جانے والی بات سے انکار کیا شائع ہوا تو اہل محلہ اور اہل علاقہ میں ان پر لعن طعن ہوئی۔ شورش نے اس خبر کی اشاعت پر زمیندار کے دفتر میں جا کر احتجاج کیا۔ مولانا ظفر علی خان نے اعتراف کیا کہ خبر انہوں نے شائع کی بعد میں ان کی وساطت سے سکندر حیات سے ملاقات بھی ہوئی مگر اس تردیدی بیان کے خلاف شورش نے ایک تقریر کی اور زمیندار میں اپنی جانب منسوب بیان کو غلط قرار دیا۔
نواب افتخار حسین ممدوٹ کے ساتھ اپنی کچھ ملاقاتوں کے احوال لکھے ہیں اور شورش نے بتایا ہے کہ نواب صاحب نے ان کو لیگ میں شمولیت کی دعوت دی ساتھ مالی تعاون کی بھی پیشکش کی۔ مگر شورش نے احرار میں شمولیت اختیار کر لی۔ احرار میں شمولیت کی دو بنیادی وجوہات تھیں ایک انگریزی استبداد کی مخالفت اور دوسری اسلام پسندی ، یہ دونوں چیزیں فقط احرار میں تھیں ،اتحاد ملت میں واپس جانا ممکن نہیں تھا جبکہ مسلم لیگ اس وقت امراء کا پلیٹ فارم تھا۔ احرار خطابت میں ویسے بھی مشہور تھے اور شورش بھی خطابت میں نام پیدا کر چکے تھے یوں ان کی شمولیت کے بعد احرار کے جلسوں میں خطابت کے حوالے سے ایک اور اضافہ ہو گیا۔ شورش نے لکھا کہ ایک جلسے میں مولانا عطاءاللہ شاہ بخاری نے ان سے سرعام شکوہ کیا۔ بعد میں ایک دوسرے جلسے میں شاہ صاحب نے اس پر شورش سے معذرت بھی کی۔ شورش نے چودھری افضل حق اور سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے بارے میں بہت سی خوشگوار یادیں قلمبند کی ہیں اور احرار میں ان دو شخصیات کے بارے میں ہر جگہ ان کے مدح ہی نکلتی ہے۔ چودھری افضل حق کو انہوں نے قرن اول کے صحابہ کی یادگار قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کو میدان اس طرح سے نہیں مل سکا ورنہ سیاسی شعور اور سوچ میں وہ سردار پٹیل سے ہرگز کم نہیں تھے۔

دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ کے کودنے اور اس کے بعد پے در پے ہونے والے واقعات نے برصغیر میں انگریزی اقتدار کے خاتمے کی نوید سنا دی تھی۔ اس بات کو کانگریس اور لیگ کی قیادت محسوس کر رہی تھی۔پھر سبھاش چندر بوس نے آزاد ہند فوج بنا کر الگ سے انگریزوں کو چوٹ پہنچائی تھی۔ ہندو اور مسلم مسئلہ اپنی جگہ قائم تھا اور اس کا کوئی تصفیہ نکلتا نظر نہیں آ رہا تھا۔ ہندؤ کو ناصرف عددی برتری حاصل تھی بلکہ ان کا مجلسی، معاشی اور تعلیمی نظام بھی مسلمانوں سے بہتر تھا۔ دوسری طرف جناح کی بھی ہندؤ قیادت کے حوالے سے تلخ یادیں تھیں پھر مسلمانوں میں رجعت پسند عناصر سے بھی وہ آگاہ تھے جو حالات سے واقف نہیں تھے۔ ان سب چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کے نصب العین کو انہوں نے چنا اور اپنے موقف پر ایسے ڈٹے کہ انہیں ہٹانا یا جھکانا ناممکن ہو گیا۔ جو ہندو انتہا پسند قائدین مسلمانوں کے مسائل کو سنجیدہ نہیں لیتے اب ان کو بھی کچھ سمجھ آ گئی تھی۔ اب گاندھی جی بھی اس مسئلہ کو تسلیم کر رہے تھے اور قائد اعظم سے کسی حل کے خواہاں تھے مگر قائد کے نزدیک اب پلوں کے نیچے بہت سا پانی بہہ چکا تھا۔ اب تقسیم کے بغیر اس مسئلے کا کوئی حل نہیں تھا۔ حالانکہ قائد اعظم شروع میں لفظ پاکستان کے استعمال میں محتاط تھے مگر ہندؤ پریس نے جب اس کا ہوا کھڑا کیا تو اس ناؤ کے ملاح بن گئے۔ انہوں نے اس لفظ کو اس گرمجوشی سے اپنایا کہ پاکستان اور قائد اعظم ہم معنی ہو گئے۔ مسلمانوں کی بڑی تعداد ان کے ساتھ شامل ہوتی گئی۔ کانگریس کی طرف سے مسلم قوت کو اپنے حق میں استعمال کرنے کے کچھ اقدامات ہوئے مگر وہ کامیاب نہ ہو سکے، قائد اعظم کی طاقت بڑھتی اور مسلم لیگ کا ذہن پھیلتا گیا۔ گاندھی نے خوبصورت لفظوں میں جناح کو مخاطب کر کے منانے کی کوشش کی مگر شورش کہتے ہیں کہ قائد اعظم حروف کے بنے ہوئے نہیں تھے کہ شکار ہوتے ، گاندھی جی کی ہر ملاقات ان کے مطالبے کو مستحکم کرتی گئی

قائد اعظم اور مسلم لیگ جس طرح مسلمانوں میں مقبول ہو رہے تھے اور پاکستان کا مقدمہ مضبوط ہو رہا تھا اور لیگ کے مقابلے میں دیگر مسلم جماعتیں اور قیادت کی حالت کیسے کمزور ہو رہی تھی۔ اس کا نقشے شورش کے الفاظ میں دیکھا جا سکتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں

‘قائد اعظم نے مسلمان عوام کی عصبیت کو اتنا مضبوط کر دیا کہ ان کے سامنے ابو الکلام کا تبحر ،حسین احمد کا تقوی، عطا اللہ شاہ کی خطابت اور علامہ مشرقی کی عسکریت کا ٹھہرنا ناممکن ہو گیا۔ان سب کے چراغ کجلا گئے۔ پاکستان کے مطالبے میں اتنا سحر تھا کہ قربانی و ایثار اور جرات و استقامت کا جادو بھی اس کا مقابلہ نہ کر سکا۔ قائد اعظم نے ان سب کو ہرا دیا۔
علامہ مشرقی بڑے جوش و خروش سے خاکسار تحریک لے کر اٹھے نوجوانوں کا ایک دیوانہ مزاج حلقہ ان کے گرد جمع ہو گیا۔ مسلمان چاہتے تو اس تحریک سے بڑا کام لے سکتے خود علامہ محض آمر نہ ہوتے تو اس تحریک کو بے محل تصادم سے بچا کر منزل مقصود تک لے جاتے۔ وہ بہترین تنظیمی صلاحیتوں کے مالک تھے ان کے قلم میں الفاظ کا سحر تھا ،لیکن اپنی آمریت کے زور پر ایک ایسی حکومت سے ٹکر لی جو اس وقت جنگ عظیم میں دو بڑے آمروں سے ٹکرا رہی تھی۔ لاہور میں لیگ سیشن سے پہلے خاکساروں کا تصادم کوئی معمولی سانحہ نہ تھا۔ بڑا زبردست معرکہ تھا لیکن ایک بڑی خونریزی کے باوجود سرد پڑ گیا۔علامہ صاحب قید میں چلے گئے مدراس میں رہے کسی مسلمان حلقے سے ان کی رہائی کے متعلق کوئی تحریک نہ ہوئی لیگ کو ان معاملات سے دلچسپی نہ تھی ‘

خاکسار کے بارے میں مزید شورش لکھتے ہیں

‘خاکسار ایک خالص مسلم تحریک تھی جب تک اس کا ہدف ہندو یا نیشنلسٹ مسلمان رہے مسلمان اخبار اور مسلمان اشرار ان کی قصیدہ خوانی کرتے رہے جو ہی انگریزی حکومت سے ان کی ٹکر ہوئی تو سب سے پہلے اسی گروہ نے آنکھیں پھیر لیں’

شورش مزید لکھتے ہیں

‘مولانا ابوالاعلیٰ مودودی اس زمانے میں ٹھیک ٹھیک اسی فکر کے نمائندہ تھے جس پر پاکستان کی تحریک کا انحصار تھا ایک اسلامی ریاست ہی کیوں؟ کا صحیح صحیح جواب اگر اس عہد کی تحریروں سے مل سکتا ہے تو صرف مولانا ابو الاعلی مودودی کی تحریروں ہیں لیکن انہیں وہ مقام و مرتبہ حاصل نہیں تھا جو قائد اعظم کو مسلمانوں میں پاکستان کے نصب العین کی بدولت حاصل ہو گیا تھا۔ جماعت اسلامی ان دنوں کسی تحریک کا نہیں ایک ذہن کا نام تھا جو پڑھے لکھے مسلمانوں میں ابھر رہا تھا’

ایک اور اقتباس جس میں نیشنلسٹ مسلم قیادت کی عدم مقبولت اور حالات کی نبض سے ناآشنائی کے ساتھ ساتھ لیگ کے پرجوش نوجوانوں کی طرف سے کچھ زیادتیوں کو بھی شورش نے ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں

‘صیحح راستہ تو یہ تھا کہ استعمار دشمن مسلمان جو ہندو مسلم مسئلہ سے پہلے انگریز اور ہندوستان کا حل چاہتے تھے۔ اپنی روش پر نظر ثانی کرتے قائدا اعظم کی سیادت قبولنا اگر ان کی انا کو ہلکا کرتا تھا تو ان کے مطالبے کی مخالفت نہ کرتے۔ قائد اعظم کا مطالبہ ان مسلمانوں سے نہیں تھا، بلکہ ہندوؤں سے تھا۔مہاتما گاندھی خود مسئلے کی موجودگی کو تسلیم کرتے اور قائد اعظم سے بات چیت کرتے تھے ،بات چیت ٹوٹی تو انہیں غیر لیگی مسلمان یاد آ جاتے، غیر لیگی مسلمانوں کا فرض تھا کانگرس پر زور دیتے کہ وہ مسلمانوں سے تصفیہ کرے۔جب قائد اعظم سے بات چیت کرتی ہے تو بات چیت کے ٹوٹنے پر ان کا نام کیوں لیتی ہے۔کانگرس خود کوئی حل پیش نہ کر سکی، نیشنلسٹ مسلمانوں کے حل کو تسلیم نہ کیا بلکہ وزارتی پلان کے دنوں میں ان کے فارمولے کو پاکستان سے بڑھا ہوا قرار دیا۔ لیگ سے صلح کی خواہش اور جنگ کا رویہ قائم رکھا،ظاہر ہے مسلم لیگ مسلمانوں کی خواہشوں اور امیدوں کا محور و مظہر ہو گئی تھی۔ نیشنلسٹ مسلمانوں کے پاس لیگ کی مخالفت کے جتنے ہتھیار تھے سب کے سب کند ہو چکے تھے۔ لیکن وہ اپنی کچی پکی دیواریں لے کر لیگ کے سیلاب کو روکنا چاہتے تھے۔ اگر نیشنلسٹ مسلمان اس وقت صورتحال کے اس نقشے پر غور کرتے اور نتیجے تک پہنچ جاتے تو یقیناً حالات مختلف ہوتے۔ پاکستان ایک ناگزیر نصب العین تھا اب مسلمان عوام اس سے ہٹ نہیں سکتے تھے۔ انہوں نے اپنا سب کچھ حتی کہ دل و دماغ تک قائد اعظم کے حوالے کر دیا تھا اور قائد اعظم بنیان مرصوص بن کر کھڑے تھے ۔ قائدا اعظم اس مقام پر تھے کہ انہوں نے مولانا ابوالکلام آزاد پر تبری کر دیا ۔وہ ہر شخص سے متابعت چاہتے تھے۔ مولوی اے کے فضل الحق نے حکم عدولی کی تو انہیں بیک بینی دوش نکال دیا۔ مسٹر جی ایم سید راندہ درگاہ ہو گئے، پنجاب میں ملک خضر حیات ٹوانہ کو لیگ بدر کر دیا۔ اب احرار ہوں یا خاکسار جماعت اسلامی ہو یا جمعیتہ العلماء وہ انہیں اس حد تک کمزور کر چکے تھے کہ ان کا لیگ میں شامل ہونا یا لیگ سے دور ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا تھا۔ وہ صرف غیر مشروط وفاداری کے خواں تھے۔ خان عبدالقیوم خان یہی کر چکے تھے۔ مولانا داؤد غزنوی نے یہی کیا۔اسلامیہ کالج لاہور کے گراؤنڈ میں جلسہ ہو رہا تھا علامہ مشرقی قائد اعظم کے پاس پاکستان کا مطلب پوچھنے گئے ابھی پہنچے ہی تھے کہ طلبہ نے پٹائی شروع کر دی اتنا مارا کہ الو بنا دیا۔ یہ تھے وہ حالات جن سے برعظیم گزر رہا تھا طاقتیں تین ہی تھیں انگریزی حکومت، کانگرس اور لیگ’

شورش لیگی نہیں تھے احراری تھے۔ ان کا یہ اقتباس بہت سے حقائق سے آشنائی فراہم کرتا ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ مسلمانوں کے تحفظات ایک حقیقت تھے اور لیگی قیادت تو ایک طرف کانگریس کی قیادت نیشنلسٹ مسلمانوں کو بھی اس پر پوری طرح مطمئن نہیں کر پائی تھی۔ پھر تقسیم کا مطالبہ بھی انگریزوں اور ہندوؤں سے تھے اس میں نیشنلسٹ مسلمانوں کی طرف سے کھلم کھلا مخالفت نے لیگ کے مقدمے کو اتنا نہیں بگاڑا جتنا ان لوگوں کی پوزیشن کو بگاڑ ڈالا۔ اس لیے جب تقسیم کے بعد پاکستان میں جب بھی ان لوگوں نے عملی سیاست میں حصہ لیا ان کی یہ مخالفت ان کے لیے مسئلہ بن گئی۔ نیشنلسٹ مسلمان قیادت حالات سنگینی کو سمجھ ہی نہیں پا رہی تھی۔ وہ عجیب قسم کے زعم میں مبتلا تھے۔ ایک دلچسپ واقعہ جو شورش نے لکھا ہے جب وزارتی مشن ہندوستان آیا تو ان سے نیشنلسٹ مسلمانوں کے متحدہ محاذ جس میں جمعیتہ العمائے ہند سے مولانا حسین احمد مدنی ، مجلسِ احرار سے شیخ حسام الدین ، مومن کانفرنس سے شیخ ظہیر الدین اور مسلم مجلس کے خواجہ عبد المجید پر مشتمل چار رکنی وفد کی مشن سے ملاقات ہوئی۔ یہ ملاقات مولانا ابوالکلام آزاد کی کوششوں سے ہو رہی تھی۔ اس وفد نے سر کرپس کے سامنے اپنا نقطہ نگاہ پیش کیا تو اس نے پوچھا کہ ان کی جماعت کے کتنے متبعین ہیں۔ مولانا مدنی کی ترجمانی مولانا ابرہیم کر رہے تھے انہوں نے اپنے متعبین کی تعداد دو کروڑ ، شیخ ظہیر الدین نے ساڑھے تین کروڑ مسلمانوں کی قیادت کا دعویٰ کیا، خواجہ عبد المجید نے اپنے معتبین کی تعداد دو کروڑ بتائی ۔شیخ حسام الدین نے کہا اپنے پچاس لاکھ پیروکار بتائے۔ کرپس نے مسکرا کر ان سے کہا کہ آپ چاروں کی بتائی ہوئی کل تعداد ملا کر آٹھ کروڑ بنتی ہے اگر یہ صیح ہے تو پھر مسٹر جناح کس خطے کے نمائندگی کرتے ہیں؟۔ یہ واقعہ بتاتا ہے کہ نیشنلسٹ قیادت کسی بہت بڑی بھول کا شکار تھی یا پھر وہ اپنے آپ کو دھوکا دے رہے تھے۔
قائد اعظم کے بلند ہمتی اور پاکستان کے بارے میں جو مقدمہ لیکر مسلمانوں میں اٹھے اس کو مسلسل قبولیت مل رہی تھی۔ شورش کا ایک مختصر اقتباس ملاحظہ فرمائیں اس کے اندر بہت سی باتیں چھپی ہوئی ہیں

‘انگریزوں کا ذہنی جھکاؤ کانگرس کی طرف تھا اور وہ چاہتے تھے کہ ہندوستان چھوڑنے سے پہلے ہندوستان کی قومی لیڈرشپ کے دوست بن جائیں، لیگ میں ایک ہی شخصیت تھی اور وہ قائد اعظم تھے۔ مایوسیوں کا ایک طوفان، ایک زلزلہ، اور ایک سیلاب چاروں طرف سے امڈ آیا ،تھا لیکن قائد اعظم اس قدر مضبوط اعصاب کے انسان تھے کہ وہ ہر معرکے، ہر مورچے، ہر موڑ ، ہر محاذ پر ایک ہی نعرہ دے رہے تھے پاکستان اور صرف پاکستان۔
انہوں نے نہ صرف اپنے اعصاب کے غیر متزلزل ہونے کا معجزانہ ثبوت دیا، بلکہ مسلمانوں کی عصبیت کو اتنا مضبوط کر دیا کہ ان کے دل دماغ اور زبان پر صرف دو لفظ تھے۔ قائد اعظم اور پاکستان’

اس اقتباس سے یہ بات صاف واضح ہوتی ہے کہ پاکستان کوئی انگریزوں کا منصوبہ نہیں تھا۔ قائد اعظم کی قائدانہ صلاحیتیں غیر معمولی تھیں اور اس وقت ان کے سوا مسلم قیادت میں اتنی مضبوط اعصاب کی مالک نہیں تھی۔

شورش نے ایک اور بات کی طرف توجہ دلائی ہے جو کہ تاریخی حقیقت بھی ہے کہ مسلم لیگ کی بڑھتی مقبولیت کے ساتھ بہت سے مفاد پرست عناصر اس کا حصہ بنتے گئے کیونکہ انہوں نے محسوس کر لیا تھا کہ تقسیم نوشتہ دیوار ہے ان کا سیاسی مستقبل اگر محفوظ ہو سکتا تھا تو وہ مسلم لیگ میں تھا۔ کیونکہ مسلم لیگ کی جدوجہد کی کوئی تاریخ نہیں تھی۔ وہاں پر قائد اعظم محمد علی جناح ہی محور و مرکز تھے۔ ان کے سوا کوئی بڑی قد آور شخصیت نہیں تھی۔ دوسری طرف کانگریس کی قیادت بہت زیادہ فعال ہونے کے ساتھ اپنی جدوجہد کی تاریخ رکھتی تھی۔ وہاں پر ان لوگوں کو آخری صف میں بھی جگہ نہیں تھی۔ ان میں خان عبدالقیوم خان اور ملک فیروز خان نون کا خصوصیت سے شورش نے ذکر کیا ہے۔ بلکہ قیوم خان کے بارے میں یہ بھی لکھا کہ تقسیم کے بعد خان عبد الغفار خان اور قائد اعظم محمد علی جناح کے درمیان غلط فہمیاں بھی انہوں نے پیدا کیں۔ بھابھڑہ کے سانحہ کا مرکزی کردار قیوم خان تھے۔ ایسے ہی ملک فیروز خان نون کی بھی انگریزوں سے وفاداری کی ایک تاریخ تھی انہوں نے کبھی بھی کوئی ایسا قدم لاشعوری طور پر بھی نہیں اٹھایا جس سے انگریز سرکار کے ماتھے پر شکن آئے لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ اب تقسیم ناگزیر ہو چکی ہے تو وہ بھی لیگ میں شامل ہو گئے۔
کانگریسی قیادت میں مولانا ابوالکلام آزاد کے شورش شدید مداح تھے بلکہ مولانا تو ان کے محسن بھی تھے۔ سردار پٹیل کی سیاسی سوجھ بوجھ کی بھی وہ تعریف کرتے ہیں مگر اس کے ساتھ ان میں ہندوانہ تعصب کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ جبکہ گاندھی جی کے بھی وہ معترف ہیں ان کی انتظامی صلاحیت کی ایک اچھی تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے لیکن ان کی شخصیت میں تضاد کو بھی باخوبی محسوس کیا جا سکتا ہے مثلآ سبھاش چندر بوس کے ساتھ جو کچھ گاندھی نے کیا مصنف نے اس کو ذکر بھی کیا۔ پھر لیگ کی قیادت سے بھی ان کے رویہ میں دوغلا پن ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ احرار جو کہ سیاسی طور پر ان کے قریب تھے سے وہ اس لیے دوری رکھتے کے اس کے اوپر مذہب کی چھاپ تھی۔ تقسیم کے موقع پر بہار میں فسادات کے حوالے سے جیسے مقامی انتظامیہ اور مقامی کانگرسی قیادت ان کے دورے سے خائف تھی یہ بتاتا ہے کہ ان کی کانگریس پر گرفت بہت مضبوط تھی مگر بعد میں یہی گاندھی سردار پٹیل کے مقابلے میں بے بس نظر آتے ہیں۔ جواہر لعل نہرو کے اندر ایک کٹر نیشنلسٹ ہندوستانی نظر آتا ہے جو کہ مذہبی لحاظ سے تو آزاد خیال ہے مگر سماجی لحاظ سے مکمل ہندو تھے۔۔جواہر لعل کے بارے میں شورش کا یہ اقتباس بہت اہم ہے

‘میرا خیال ہے پنڈت جی کسی اصول، موقف، عقیدے، نظریے، تصور، خیال، شے، وجود اور تحریک سے اس لیے محبت یا نفرت نہیں کرتے تھے کہ اس کی تردید یا تائید ان کے آبائی مذہب سے ہوتی ہے۔ ان کے مخصوص ذہنی عقائد تھے۔ انہی کے تحت وہ محبت اور نفرت کرتے تھے۔ وہ پیدائشی طور پر ہندو تھے لیکن مذہباً نہیں ،ان کا معاشرہ ہندوستانی تھا، تہذیباً وہ ہندو ،مسلمان، عیسائی سب کچھ تھے۔ ان کے علم پر یورپ کے خیالات کی چھاپ لگی ہوئی تھی۔ وہ اردو بولتے تھے، انگریزی میں لکھتے تھے، اور ہندی چاہتے تھے۔ ان کا سیاسی نظریہ کئی نظریوں کا مجموعہ تھا۔وہ جمہوری بھی تھے اور اشتراکی بھی، چین سے انہیں بہت انس تھا، چین آزاد ہوا تو اس ہی چین سے ان کی ٹھن گئی۔ وہ ایک بڑے باپ کے بڑے بیٹے تھے۔ موتی نے جواہر پیدا کیا تھا۔ جب تک ہندوستان آزاد نہیں ہوا وہ ہندو یا مسلمان ہو کر نہیں سوچتے تھے بلکہ ایک انسان کی طرح سوچتے تھے۔ جوں ہی ہندوستان آزاد ہو گیا ہندوستان کے نقطہ نگاہ سے سوچنے لگے، ظاہر ہے کہ قومیت و وطنیت کے تصور میں خیالات محدود ہو جاتے ہیں۔ وزیراعظم کا عہدہ ان کے لیے باعث فخر نہ تھا وہ اس عہدے کے لیے باعث فخر تھے، لیکن اس عہدے نے ان کی شخصیت کو محصور کر دیا وہ محدود ہو گئے ہندوستان ان پر صدیوں فخر کرتا رہے گا۔ وہ گاندھی جی کے بعد سب سے بڑے ہندوستانی لیڈر تھے، یہ ایک المیہ ہے کہ ان کے عہد میں ہندوستانی مسلمانوں کو جانگداز حالات سے گزرنا پڑا وہ ابھی تک سنبھالا نہیں لے سکا ،لیکن نہرو خود خنجر نہیں تھے ان کے گرد و پیش خنجر ہی خنجر تھے۔
جس شخص کی وصیت یہ ہو کہ میری موت کے بعد میری راکھ ملک کے کھیتوں میں طیاروں سے پھینک دی جائے اور میرے پھول ملک کے سب ہی دریاؤں میں بہا دیے جائیں اپنے ملک سے اس کی محبت میں کسے کلام ہو سکتا ہے۔ ۱۹۲۹ میں لاہور کا کانگرس کے موقع پر ان کا ستارہ ابھرا، ۱۹۶۴ میں ہندوستان کے افق سے آفتاب کی طرح ڈوب گیا۔ ۳۵ سال تک ان کا اقتدار رہا بادشاہوں کی کہانیوں میں خاندانوں کی حکومت پڑھی ہے، لیکن جمہوری نظام میں خاندان کی حکومت صرف نہرو خاندان کا حصہ رہی ہے۔ موتی لعل سے کانگرس کی صدارت جواہر لعل کے ہاتھ آئی ،وہ بارہا صدر بنتے رہے، ہندوستان ازاد ہو گیا تو وزیراعظم ہو گئے ، موت تک وزیراعظم رہے۔ شاستری کے بعد یہ اختیار ان کی بیٹی اندرا گاندھی کو منتقل ہو گیا’

احرار کی ایک اہم شخصیت مولانا مظہر علی اظہر کے بارے میں بھی شورش نے بہت کھل کر اور تفصیل سے باتیں کی ہیں وہ ان کی دلیری کے معترف ہیں مگر ان کی سیاسی قلا بازیوں پر تو الگ سے تحریر لکھی جا سکتی ہے۔ انہوں نے قائد اعظم کو کافر اعظم کہا، ان کے نکاح پر سوال اٹھائے۔ اس پر احرار ہی میں سے شیخ حسام الدین اور مولانا عطا اللہ شاہ بخاری کو رنج پہنچا۔ انہوں نے مظہر علی اظہر پر زور ڈالا کہ وہ اس پر معذرت کریں ۔ انہوں نے رتن بائی مرحومہ کے بارے میں غلیظ الزامات لگائے بعد میں یہ الزامات بھی غلط ثابت ہوئے۔ اخبارات کی پرانی فائلز سے ثابت ہوا کہ جناح نے رتن بائی کو باقاعدہ مسلمان کرکے ان سے مسلم قانون کے تحت شادی کی ہے۔ مظہر علی اظہر ایک عجیب کردار تھے، وہ خضر حیات ٹوانہ کے خلاف تھے مگر جب جناح اور ٹوانہ میں ان بن ہوئی تو وہ ٹوانہ کے ساتھ ہو گئے۔ وہ الیکشن ہار گئے تھے حالانکہ وہ ان کی مضبوط نشست تھی مگر اس کے باوجود وزارت حاصل کرنے کے لیے پر تولتے رہے۔ احرار کی اپنی تحقیقات سے ثابت ہوا انہوں نے انتخابات میں کانگریس سے پیسے لیے تھے۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاری انتخابات میں حصہ لینے کے حق میں نہیں تھے مگر مظہر علی اظہر نے احرار کو میدان انتخاب میں اتار دیا۔ شورش نے لکھا کہ ۴۶ کے انتخابات سے پہلے لیگ کے صوبائی رہنماؤں نے احرار سے مفاہمت کی کوشش کی مگر مولوی مظہر نے اس کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔ مولانا مظہر علی اظہر کی شخصیت کا خاکہ شورش نے خوب بیان کھینچا ہے۔ ان کا چہرہ کوئی اچھا تاثر نہیں چھوڑتا۔ ان کی سیاست مفادات کے اردگرد گھومتی نظر آتی ہے ، حالانکہ ان کے اندر ایک بھرپور احتجاج پسند چھپا ہوا تھا مگر وہ پاور پالیٹکس کرتے اور عہدوں کی خاطر اپنے سیاسی موقف پر بھی قائم نہیں رہتے تھے۔

شورش نے کمیونسٹوں اور ترقی پسند ادیبوں کے بارے میں بھی لکھا۔ کمیونسٹوں کے ساتھ وہ کافی وقت رہے ان کے بارے میں ان کا تجریہ تلخ ہے ۔ ان کے نزدیک دوستانہ وفا نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ ان کے جھوٹ اور سچ کے پیمانے مصنوعی ہیں۔ ان کے بارے میں شورش اپنا تجربہ بیان کرتے ہیں کہ
‘فرد کے خلاف ہوں تو اس کو سی آئی ڈی کا ایجنٹ کہہ دیتے ہیں ، جماعت کے خلاف ہوں تو اسے رجعتی طاقت کہہ دیتے ہیں. جیت جائیں تو جنتا کی فتح,ہار جائیں تو جاگیرداروں یا سرمایہ داروں کی سازش، ان کے پراپیگنڈے کی مشینری بڑی طاقتور ہوتی ہے’

جبکہ ترقی پسند ادیبوں کے حوالے سے ان کا یہ اقتباس کافی ہے

‘ترقی پسند مصنفین میں سے ایک بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس نے پاکستان کی تحریک میں اپنے فن کے ساتھ حصہ لیا، پنجاب میں فیض احمد فیض اور احمد ندیم قاسمی ترقی پسندوں کے سرخیل سمجھے جاتے تھے ۔ان کے قلم سے تحریک پاکستان کے بارے میں کوئی مواد نہیں،جن اہل قلم کا دعویٰ تھا کہ وہ اس دور میں شعر و انشاء کی نمائندگی کرتے ہیں اور ان کا قلم عوام کا قلم ہے ان کے قلم سے سٹالن لینن کارل مارکس وغیرہ پر تو شاعری کے ذخیروں میں بہت کچھ جمع ہوگا لیکن قائد اعظم کی رحلت پر بھی ان کا گنگ رہا، پاکستانی قومیت کی نشونما میں ان کے ادب نے کبھی دلچسپی نہیں لی یہ گویا پاکستان کے اشتراکی فرزند تھے’

ایک باب معاصرانہ چشمک کے بارے میں ہے۔یہ پورا باب پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ جس میں مختلف شخصیات جو کہ ایک عہد میں تھی کے درمیان معاصرانہ چشمک رہی۔ شورش نے میر تقی میر ،سوز، غالب ، حالی، شبلی ، محمد حسین آزاد ، قائد اعظم ، گاندھی ، سردار پٹیل اور نہرو ، سرفضل حسین اور قائد اعظم ، مولانا محمد علی جوہر اور قائد اعظم ، گاندھی اور سبھاش چندر بوس سمیت کئی لوگوں کی معاصرانہ مخالفت کا ذکر کیا ہے۔ اس میں ادب اور سیاسی میدان میں باہم برسرِ پیکار بڑے ناموں کا پتہ چلتا ہے۔

تقسیم ہند کے وقت جو فسادات ہوئے اور بے گناہ انسان قتل ہوئے اس کی تفصیلات بھی شورش نے فراہم کی ہیں جو کہ کافی افسوناک ہیں۔ ان کو پڑھنے کے بعد ممکن نہیں کہ کسی کا دل نہ دکھے۔ گو کہ ان فسادات میں مسلمانوں کا قتل عام زیادہ ہوا لیکن وہ علاقے جہاں پر ہندو اور سکھ اقلیت میں تھے وہاں پر ان کے اوپر بھی مظالم کے پہاڑ توڑے گئے۔ شورش نے فسادات میں سب سے زیادہ الزام انگریزوں کو دیتے ہیں جنہوں نے ان فسادات کو روکنے میں کوئی قدم نہیں اٹھایا ، ان کی برصغیر سے دلچسپی ختم ہو چکی تھی۔ جس عجلت سے وہ برصغیر سے نکلنا چاہتے تو وہ بھی ایک وجہ تھی ان کی غفلت کی۔ شورش نے متاثرہ علاقوں بالخصوص بہار وغیرہ کا دورہ کیا وہاں پر متاثرین سے ان کی داستانیں سنیں اور جو کچھ رقم کیں ان کو بیان کرنا ممکن نہیں۔ مگر شورش نے ان مناظر کی جو تفصیلات بیان کی ہے وہ بہت بھیانک ہیں۔

اس کتاب میں اور بھی بہت سی مباحث ہیں جن پر مزید بات ہو سکتی ہے۔ بالخصوص تقسیم سے قبل کے آخری تین سالوں کی روداد میں شورش نے بہت سے مزید پہلوؤں پر نشاندھی کی ہے اور ان پر دعوت فکر دی ہے۔ ۱۹۴۶ کے انتخابات کے ماحول پھر اس کی انتخابی مہم ، جماعتوں کا جوڑ توڑ ، انتخابات کے بعد اراکین جو اپنے حق میں کرنے کے جماعتوں کی بھاگ دوڑ، اس کے بعد وزارتی مشن جس کو لیگ نے قبول کر لیا اور تقسیم مؤخر ہوتی نظر آئی مگر نہرو کے بیان کی وجہ سے تقسیم کے مطالبہ میں نئی جان پڑ گئی۔ اس سمیت مزید واقعات کو شورش نے ذکر کیا ہے۔ شورش کی یہ کتاب فقط ان کی سوانح حیات نہیں بلکہ دو دہائیوں کی سیاسی تاریخ ہے اور ایک سیاسی بیانیہ بھی ہے۔ اس کو احرار کی عروج و زوال کی داستان بھی کہا جا سکتا ہے۔ یہ کتاب کسی لیگی کے قلم سے نہیں بلکہ ان کے حریف کے قلم سے لکھی ہے مگر اس نے بہت سے معاملات پر لیگ کے سیاسی موقف کو درست بھی مانا ہے۔ ایسے بہت سی باتیں لیگ کے مؤقف کے خلاف بھی ہیں اور احرار کی طرف سے صفائی بھی ہے۔ ان سب باتوں کو ہم ایک فریق کے مؤقف کے طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ کیونکہ اب تقسیم ہو چکی ، اس کے صیح یا غلط ہونے کی بحث پر کبھی حتمی نتیجہ نہیں نکل سکتا۔ ہر فریق اپنے حالات کے مطابق اس کی تشریح و توجیہ کرتا ہے۔ اس کتاب میں بھی ان حالات کو بیان کیا گیا ہے جس کے بعد یہ واقعہ رونما ہوا۔ ممکن ہے شورش نے واقعات کو قلمبند کرتے ہوئے کہیں مبالغہ آرائی سے کام لیا ہو یا پھر کسی فریق کے بارے میں ضرورت سے زیادہ حسن ظن کا مظاہرہ کیا ہو یا پھر کسی پر ناجائز نقد کیا ہو لیکن سماجی مطالعہ کے لیے ایسی کتابیں معاون ثابت ہوتی ہیں جن سے واقعات کو سمجھنے کے لیے ایک اور زوایہ میسر آتا ہے۔ اس کتاب کو آپ کانگریس کا نقطئہ نظر کہہ سکتے ہیں نہ ہی مسلم لیگ کا، بلکہ یہ ایک اور فریق کا بیان ہے جو ان واقعات کا عینی شاہد بھی ہے جس کی سیاسی وابستگی بھی ایک جماعت سے ہے۔ قطع نظر اس کا تقسیم کے وقت کیا نظریہ تھا مگر بعد میں پاکستان کے وجود کو ناصرف انہوں نے تسلیم کیا بلکہ اپنے سیاسی و صحافتی میدان کے لیے انہوں نے اس ملک کا ہی انتخاب کیا اور یہاں پر ہی اپنی خدمات پیش کیں۔اس کتاب کی تمام مباحث کا احاطہ ممکن نہیں تھا۔ سوا پانچ سو صفحات کی اس کتاب میں شورش نے بہت سے موضوعات کو سمویا ہے مگر اس پر گفتگو کرتے ہوئے ہر موضوع پر بات کرنا مشکل ہے۔

راجہ قاسم محمود

راجہ قاسم محمود پیشے کے اعتبار سے اکاونٹنٹ ہیں اور مختلف علمی وفکری موضوعات پر اظہار خیال کرتے ہیں۔
rajaqasimmehmood@gmail.com

ا کمنٹ

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں