Home » ۔”میرا لال تیرا نیلا”: ادراک کی حقیقت
مدرسہ ڈسکورسز

۔”میرا لال تیرا نیلا”: ادراک کی حقیقت

بعض حضرات کہتے ہیں کہ لسانیات اگر اشیا کے نام رکھنے سے عبارت ہے تو یہ کیسے معلوم ہوگا کہ جسے میں اور میرا دوست لال کہتے ہیں وہ ایک ہی شے کا نام ہے؟ ایسا کیوں ممکن نہیں کہ اس کا لال میرا نیلا ہو لیکن میں اسے لال کہتا ہوں؟ اس سے وہ یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ مشاہدے سے حاصل ہونے والا علم قطعیت کے ساتھ قابل بیان (communicable) نہیں۔ کچھ دوست اس بات کو مزید بڑھا چڑھا کر اس بات کے لئے دلیل بنانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہمارے علمی قضایا (propositions) کی معروضی بنیاد (objective        foundation) کے لئے ہمیں کلی ماہیات (universal        essences        or         forms) کے خارجی وجود کے نظرئیے کو قبول کرلینا چاہئے (معلوم نہیں کہ یہ اس مسئلے کو کیسے حل کرے گا، خیر یہ الگ موضوع ہے)۔
یہ سوال دراصل ادراک (perception) سے متعلق اس غلط نظرئیے پر قائم ہے کہ ادراک اشیا کی ذہن پر منعکس یا منطبع (impress) ہونے والی شبیہات و مظاہر (appearances) کے علم کا نام ہے، اس بنا پر ناقد کا یہ سوال کھڑا ہوتا ہے کہ ایسے میں مجھے کسی شخص کے ذہن میں قائم ہونے والی شبیہات کے بارے میں یہ قطعیت کیسے حاصل ہوسکتی ہے کہ اس نے میرے ذہن میں قائم ہونے والی شبیہات سے یکساں شبیہات کا نام میرے ناموں جیسا رکھا ہے، کیونکہ نہ وہ میرے ذہن میں جھانکتا ہے اور نہ میں اس کے ذہن میں؟ حسی ادراکات سے متعلق اس نظرئیے کو رپریزنٹیشنل ازم (representationalism) کہتے ہیں جس کے مطابق ذہن کی شبیہات خارجی حقائق اور میرے مابین واسطے (mediation) کا کردار ادا کرتی ہیں۔ اسلامی فلسفے میں یہ نظریہ علامہ ابن سینا وغیرہ کا تھا، متکلمین اشاعرہ و ماتریدیہ نے اس نظرئیے کو پرتکلف و متعدد مسائل کا شکار قرار دیتے ہوئے رد کیا (اس کے دلائل دینا یہاں مقصود نہیں)۔
ادراک کے بارے میں درست نظریہ یہ ہے کہ یہ مدرِک (perceiver) اور شے (یعنی مدرَک یا perceived) کے مابین براہ راست ربط کا نام ہے، یعنی ادراک کے عمل کے دوران میں اس شے اور اس کی صفات ہی کو جانتا ہوں جو خارج میں موجود ہیں اور ادراک کی ماہیت و حقیقت (essence) میں ذہنی تصویر کا منطبع ہونا شامل نہیں۔ جدید اصطلاح میں اسے direct         realism کہتے ہیں۔ انسان کے ادراکی علم کی بنیاد اس کے ذہن سے خارج ہے (یہاں تک کہ ذہنی صفات بھی ایک خارج ہے)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس صفت کا نام میں نے لال رکھا، وہ درحقیقت خارج میں ایک خاص ڈھب پر موجود شے کا نام ہے اور شے کا اس ڈھب پر ہونا میرے دیکھنے (vision) کی بنا پر نہیں ہے بلکہ دیکھنے کا عمل اس شے کو اس ڈھب پر جاننے کا نام ہے اور اسی کو ادراک (veridical        perception) کہتے ہیں۔ پس وہ شے جس ڈھب پر میرے لئے ہے اسی ڈھب پر میرے دوست کے لئے ہے۔ اب اگر میں نے اس کا نام لال رکھا اور میرے دوست نے نیلا رکھا تو ہم ایک ہی شے کا نام مختلف رکھ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب میں کسی شخص کو کہوں کہ “جاؤ جا کر لال رنگ کا پھول لے آؤ” اور وہ مثلا ایسی صفت کا پھول لے آئے جس کا نام میں نے نیلا رکھا تو پہلے مجھے شک گزرے گا کہ شاید اس نے ٹھیک سے میری بات نہ سنی ہو، پھر اگر دوبارہ وہ نیلا ہی لے آئے تو اب مجھے شک گزر سکتا ہے کہ ممکن ہے یہ شخص کلر بلائینڈ ہو (اور یا پھر یہ کہ اسے یا مجھے حسی فریب لاحق ہے) لیکن اگر وہ اسی کے لال ہونے پر اصرار کرے تو کچھ تجربات کے بعد مجھے معلوم ہوجائے گا کہ اس نے ایک ایسی شے کا نام لال رکھا ہے جسے میں نیلا کہتا ہوں اور یوں ہمارے مابین فصل نزاع ہوجائے گا۔ یہی وہ عمل ہے جس سے ہم دنیا کی دیگر زبانیں سیکھ کر ایک دوسرے سے خطاب کرکے اپنی بات ایک دوسرے کو پہنچا پاتے ہیں اور یہی وہ بنیاد ہے جس کی بنا پر کسی ایک زبان بولنے والے لاکھوں کروڑوں افراد بلامبالغہ ہر روز بلا کسی تردد لین دین کے لاکھوں کروڑوں معاملات کرپاتے ہیں۔ اس کی توجیہہ کے لئے کسی ذہنی تصویر یا ذہنی ساخت وغیرہ کو متعارف کرانے کی ضرورت نہیں۔
یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ الفاظ کی معنی پر دلالت وضعی (by        way        of         stipulation) ہوتی ہے، اگر لفظ وضع کرنے والوں نے اس “مخصوص خارجی صفت” کے لئے مثلا لفظ “پیلا” خاص کیا ہوتا جسے ابھی ہم “لال” کے نام سے پہچانتے ہیں تو اسے پیلا ہی کہا جاتا اور واقفین زبان میں سے کسی کو بھی بات سمجھنے میں ابہام نہ ہوتا کہ عین اسی شے کو صرف پیلا نام دے دیا گیا ہے، نام کی اس تبدیلی سے اس صفت میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوتی اور نہ ہی اس سے متعلق ہمارے ادراک میں۔ اس سے یہ بات بھی صاف ہوجاتی ہے کہ حسی ادراک سے متعلق بیانات خارجی حقائق سے متعلق معروضی بیانات ہیں اور انہیں موضوعی (subjective) بمعنی نرے ذہنی تخلیات قرار نہیں دیا جاسکتا (اس نظرئیے پر حسی فریب (illusion) و ہذیان (hallucination) کی بنا پر جو شبہ وارد کیا جاتا ہے اسے بھی متکلمین نے ایڈریس کیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حسی فریب و ہذیان کا سوال رپریزینٹیشنل ازم میں مزید مشکلات کھڑی کردیتا ہے، خیر یہ الگ موضوعات ہیں)۔
موضوع سے کچھ ہٹ کر سہی، لیکن یہاں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ ادراک کے بارے میں یہ موقف متکلمین نے الل ٹپ نہیں لیا۔ جہاں اس کا تعلق عقلیات، انسانی تجربے و لسانیات سے ہے، وہیں اس کا تعلق دینیات سے بھی ہے۔ اس ضمن میں چار اشارات کئے جاتے ہیں:
1) اگر ادراک کی ماہیت و حقیقت میں شے کی صورت کا منعکس و منطبع ہونا شامل ہے اور یہ شبیہات واسطے کا کام کرتی ہیں تو پھر خدا کے لئے سمع و بصر جیسی صفات کی نسبت کرنے کا کوئی معنی باقی نہیں رہتا کیونکہ صورت کا انطباع حدوث ہے جس سے خدا ماوراء ہے۔ یہ ایک وجہ ہے جس کی بنا پر علامہ ابن سینا اس بات کی جانب گئے کہ خدا کو جزیات کا علم حاصل نہیں، وہ جزیات کو بطور کلیات جانتا ہے اس لئے کہ جزیات کا علم ان کے مطابق ادراک سے متعلق ہے اور ادراک ان کے نزدیک انطباع کا نام ہے۔ یاد رہے اگر یہ کہا جائے کہ ادراک کی حقیقت اس دنیا میں ہمارے لئے تو شے کی صورت کا انطباع ہی ہے لیکن خدا کے لئے کچھ اور ہے، تو ایسا کہنے کی صورت میں خدا کے لئے سمع و بصر صفات متشابہات میں سے ہوں گی جن کی لفظ ید و عین وغیرہ کی طرح تفویض معنی کرنا واجب ہوگی (اور یا پھر ان کی تاویل کرنا ہوگی)۔
2) معتزلہ ادراک کی درج بالا تشریح کے قائل نہ تھے لیکن ادراک کے ضمن میں انہیں یہ مشکل پیش آئی کہ انہوں نے بصارت کی حقیقت میں شے کا روبرو اور جہتی فاصلے پر ہونا اور جسم ہونا اور روشنی کا جسم و آنکھ پر منعکس ہونے وغیرہ کو شامل قرار دیا، اور اس لئے انہوں نے خدا کے بصری مشاہدے کو محال کہا اس لئے کہ خدا ان امور سے ماورا ہے۔
3) معتزلہ کے برعکس شیخ ابن تیمیہ نے خدا کے قابل بصارت ہونے کو ممکن کہنے کے لئے گروہ مجسمہ کے اس مقدمے کو قبول کیا کہ خدا مکانی جہت میں ہے۔ یعنی معتزلہ نے اگر یہ کہا کہ بصری ادراک کی بنیاد جہت و جسم ہونا ہے اور خدا چونکہ ان سے ماورا ہے لہذا اس کی بصارت محال ہے، تو شیخ ابن تیمیہ نے بصارت کو ممکن کہنے کے لئے یہ قرار دیا کہ اس بصارت کی بنیاد خدا کے لئے ثابت ہے۔
4) ائمہ اہل سنت (اشاعرہ و ماتریدیہ) نے کہا کہ:
الف) ادراک کی بنیاد شے کا جسم ہونا نہیں بلکہ شے کا موجود ہونا ہے اور یہ بات طے ہے کہ موجود ہونا جسمیت میں بند نہیں، پس خدا کی بصارت ممکن ہے (تفصیلی دلائل کے لئے کتب کلام ملاحظہ کرنا چاہیے)
ب) ادراک کی ماہیت میں شے کی صورت کا ذہن پر منطبع ہونا شامل نہیں، یعنی وہ نظریہ رپریزنٹیشنل ازم کو رد کرتے ہیں
اس طرح وہ ان مسائل سے بچ رہے جو ادراک کی بحث میں دیگر کو پیش آئے۔
یہاں سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ جدید دور میں جو لوگ علم کلام کے پرانے مباحث کو (بغیر پڑھے ہی) غیر متعلق سمجھتے ہوئے نیا اجتہاد کرنا چاہتے ہیں، انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ اس کے بعد انہیں عقیدے سے متعلق متعدد امور کو بھی ری اوپن کرنا ہوگا۔ یہ محض خوش فہمی ہے کہ جن عقائد کو وہ اپنی زبان سے دھرا رہے ہیں ان کا ان اصولوں سے کوئی تعلق نہیں جو متقدمین نے اختیار کیے۔ اسی طرح یہ بات کہنا بھی سادہ لوحی پر مبنی ہوگی کہ دینی حقائق کا اعتبار کرنے کے لئے ہمیں ادراک وغیرہ سے متعلق ایسی بحثوں کی ضرورت نہیں اس لئے کہ اس بحث کا براہ راست تعلق ذات باری کی صفات کی تصدیق کی نوعیت سے متعلق ہے۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں