یہ نقد اکثر جدید لوگوں کی جانب سے کیا جاتا ہے کہ روایتی لوگ نئی چیزوں اور نئے آئیڈیاز کی راہ میں روڑے اٹکاتے ہیں۔ اسی لیے جدیدیت یا کسی بھی جدید ایجاد پر نقد کو دقیانوسیت وغیرہ جیسی باتوں سے جوڑا جاتا ہے۔ اکثر یہ بات کی جاتی ہے کہ روایتی لوگ ہمیشہ ہر نئی بات کا انکار کرتے ہیں اور بعد میں اسی جدید چیز کو انہیں مجبورا قبول کرنا پڑتا ہے۔ اس طرح جدید لوگ مسیحا اور روشن خیال کے طور پر اُبھرتے ہیں جن کو تاریخ میں ہمیشہ روایتی لوگوں کی طرف سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا رہا ہے۔ یوں جدت ایک مقدس فریضہ جبکہ اس پر نقد کرنے والا ہر شخص دقیانوس اور جاہل بن جاتا ہے۔ پھر جدید لوگ خود کو درد دل رکھنے والا گروہ مانتے ہیں جو سماج کی بھلائی چاہتے ہیں جبکہ روایتی لوگ وہ ظالم و جاہل قوم ہے جو اس سماج کی شکست و ریخت کا کام کر رہے ہیں۔ اس طرح معاشرے میں “انکار کرنے والے” اور “تعمیر نو کرنے والے” گروہوں سے متعلق ایک رومانویت پھیلائی جاتی ہے۔ اس مسئلے کو لکاتوش کے کام سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا ہر جدید چیز کو فوری نہ مان لینا اور پرانی بات پر اڑے رہنا “غیر منطقی” اور غیر ضروری ہے؟
لکاتوش نے پاپر کے کام میں موجود خلاوں یا خامیوں کو واضح کرتے ہوئے اسے آگے بڑھایا ہے (لکاتوش کے ہاں پاپر کی بہت تحسین ہے وہ پاپر کو کم و بیش وہی درجہ دیتا ہے جو کانٹ نے ہیوم کو دیا)۔ ایک مسئلہ جو لکاتوش کے کام میں باقی رہا اور جس کو فائر آبنڈ اور باقی لوگ تنقید کا نشانہ بناتے رہے وہ لکاتوش کے
degenerating research program
ہے۔ لکاتوش کا کہنا تھا کہ سائنس مختلف ریسرچ پروگرامز کی شکل میں کام کرتی ہے۔ یہ ریسرچ پروگرامز کسی ایک سائنسی مسئلے کے مختلف جواب ہوتے ہیں۔ مثلا اگر دس سائنس دانوں کو یہ کام دیا جائے کہ وہ اس سوال کا جواب تلاش کریں کہ کیا زمین گول ہے۔ تو ممکن ہے دس کے دس سائنس دان، دس مختلف طریقوں سے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کریں۔ اس سے دس تھیوریز سامنے آسکتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ کیسے طے ہوگا کہ کونسا جواب درست ہے یا کونسی تھیوری درست سمت میں پیش رفت کر رہی ہے۔ کیونکہ جس دن تھیوری پیش کی جاتی ہے اسی دن اس کو ٹیسٹ کرکے کام نہیں نمٹایا جاسکتا۔ اسے بہت سے مراحل سے گزرنا ہوتا ہے پھر ہر تھیوری کا ٹیسٹ کیا جانا بہت مہنگا مرحلہ ہے۔ سو “درست سمت” کی پیش رفت کے بارے میں جاننا نہایت ضروری ہے بصورت دیگر سائنسدان نسل در نسل کسی ایک تھیوری کے پیچھے لگے رہیں گے اور معلوم ہوگا کہ سو سال بعد اتنے ریسورسز اور اتنا سب کچھ صرف ضائع ہوگیا۔ اسی طرح وقتی مسائل کا شکار ہر تھیوری ہوتی ہے۔ یہ کیسے طے کیا جائے کہ تھیوری “مسائل” کا شکار ہے یا اس کا رخ ہی غلط سمت میں ہے۔
اس کا جواب لکاتوش نے یہ دیا کہ ایک دوسرے کے مد مقابل تھیوریز اس وقت تک مقابلہ کرتی رہتی ہیں جب تک ایک تھیوری یا ریسرچ پروگرام واضح برتری حاصل نہ کرلے اور دوسرا پروگرام قدرتی طور پر (اس صورت میں کہ اسے کوئی تجرباتی کامیابی حاصل نہ ہو اور اس صورت میں کہ اس میں سائنس دان دلچسپی لینا چھوڑ دیں وغیرہ) آہستہ آہستہ ختم نہ ہوجائے (اس کی مزید تفصیل ہے جس کا محل نہیں ہے)۔ لیکن ظاہر ہے اس سے ثابت نہیں ہوتا کہ وہ تھیوری “لازما غلط” تھی۔ عین ممکن ہے کہ اگر اس سمت میں دو سال مزید پیش رفت ہوتی رہتی تو کوئی بریک تھرو ہوجاتا۔ یہ “عین ممکن” سالہا سال اور عرصہ دراز تک چلتا ہے اور چل سکتا ہے۔ اعتراض یہ تھا کہ سائنس دان کو کیسے پتہ چلے گا کہ اب اس کا پروگرام ڈی جنریٹ ہو رہا ہے یا ختم ہو رہا ہے اور اب اسے چھوڑ دینے کا وقت ہے۔ کیونکہ عین ممکن ہے کہ اگر وہ دو سال مزید کام کرے تو کامیاب ہوجائے۔ پھر یہ سوال کہ کیا وہ یہ فیصلہ کرسکتا ہے کہ نہیں میں اپنے کام کو اس کے باوجود جاری رکھوں گا؟ اس کے باوجود کہ میرے پاس کوئی ثبوت نہیں ہیں، اس کے باوجود کہ میری تھیوری مسائل کا شکار ہے، کیا وہ اس پروگرام کو جاری رکھ سکتا ہے۔ اس آس پر کہ شاید کوئی بریک تھرو ہوجائے اور یہ تھیوری، دوسری تھیوری کے مدمقابل زیادہ اہم بن جائے۔ کیا یہ فیصلہ منطقی ہوگا؟ لکاتوش کا جواب تھا بلکل یہ منطقی ہے اگر کوئی سائنس دان اس ریسرچ پروگرام پر اپنا کام جاری رکھنا چاہے تو اس صورت میں رکھ سکتا ہے کہ وہ اسے پبلک نہیں کرے گا بلکہ ایک پرائیوٹ کام کے طور پر جاری رکھے گا۔
غور کرنے کی بات ہے کہ اپنے کام پر اڑے اس سائنس دان کو لکاتوش “غیر منطقی” اور “دقیانوس” نہیں کہہ رہا۔ ظاہر ہے فلسفہ سائنس کی اس بحث کو بعینہ جنرلائز نہیں کیا جاسکتا لیکن یہاں سے ایک اہم بات سمجھی جاسکتی ہے کہ روایت اور جدت کے اس کھیل میں یہ حق روایت کو حاصل ہے کہ وہ روڑے اٹکائے تاکہ ہر نئی چیز بہترین تنقیح سے گزرے اور جدت کرنے والا اس قدر بے باک نہ ہوجائے کہ اس کو راہ کھلی ملے۔ سو یہ جدت کرنے والے پر فرض ہے کہ وہ اپنے کام کی بہترین سے بہترین وضاحت کرتا چلا جائے اور محض اپنے کام کے ساتھ جدت جدت لگا کر اسے خدمت خلق بیان کرنا بند کرے۔ جدت کو فی نفسہ ایک اچھا کام مان لینا اور پھر اس کی رومانویت میں مبتلا ہوجانا خطرناک ہے۔ اگر آپ اپنے کام پر مطمئن ہیں تو محض کام کردینا آپ کا کام نہیں ہے بلکہ اس کو مخالفت کے باوجود پیش کرتے رہنا اور لوگوں کی دقیانوسیت پر رحم کھائے بغیر اس کو پیش کرتے رہنا آپ کی ذمہ داری ہے۔ خود کو جدید تصور کرنا اور دوسرے کو دقیانوس تصور کرنا صرف ایک بہتر اخلاقی پوزیشن ہے۔ جس نوعیت کی پوزیشن ہمارے ہاں جنگ کے دنوں میں لی جاتی رہی ہیں جہاں ایک گروہ خود کو نرم دل مانتے ہوئے دوسروں کے وحشی ہونے پر آنسو بہا رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد حسنین اشرف صاحب بیلیفیڈ یونیورسٹی جرمنی میں ایم ۔اے فلسفہ و تاریخ سائنس کے طالب علم ہیں ۔
کمنت کیجے