میں کچھ دن پہلے طلبہ سے عرض کر رہا تھا کہ شریعت کے بہت سے اخلاقی احکام ایسے ہیں جنھیں فقہا نے اپنی کتابوں میں نہیں لکھا، اس کی وجہ ان کا غیر اہم ہونا نہیں ہے بلکہ بہت واضح ہونا ہے، جیسے فقہا عام طور پر متون میں مستقلاً یہ مسئلہ ذکر نہیں کرتے کہ جھوٹ بولنا گناہ ہے، کیونکہ مسئلہ بہت واضح ہے۔ لیکن حالات کے پیشِ نظر بعض اوقات ضرورت ہوتی ہے کہ ایسی تعلیمات کو بھی فقہی احکام کے ساتھ ذکر کیا جائے۔ اس کی ایک اہم مثال یہ ہے کہ فقہا نے طلاق دینے کے طریقے میں یہ تو ذکر کیا ہے کہ طلاق بیوی کی پاکی کی حالت میں دینی چاہیے اور ایک طہر میں صرف ایک دینی چاہیے وگرنہ طلاق بدعی ہو جائے گی۔ مگر طلاق دینے کے طریقے کے بارے میں کچھ قرآنی احکام یہاں پر شاید واضح ہونے کی وجہ سے ذکر نہیں ہوئے، مگر اب ضرورت ہے کہ انھیں بھی مذکورہ بالا احکام کی طرح ہی ذکر کیا جائے اور یہ بتایا جائے کہ وگرنہ طلاق سُنی کی بجائے بدعی ہو جائے گی۔
قرآن کی رو سے سب پہلی بات تو یہی ہے کہ طلاق دینے کا یہ کوئی طریقہ نہیں ہے کہ کسی وقت جلال میں آکر اور کسی بات پر بر افروختہ طلاق کا فائر کھول دو. یہ در حقیقت ہماری مرد کی خاص قسم کی بالادستی کی ذہنیت کا شاخسانہ ہوتا ہے۔ قرآن سب سے پہلے سراح جميل کا کہتا ہے، یعنی احسن انداز سے رخصت کرنا، یہ تبھی ہوگا جبکہ طلاق سوچا سمجھا فیصلہ ہوگا۔
دوسری بات اللہ نے اپنے نبی سے اپنی بیویوں کو جو کچھ کہلوایا اس میں پہلا لفظ “تعالین” یعنی “آؤ” کا ہے۔ یہ اس مفروضے پر کہلوایا جا رہا جبکہ ازواج مطہرات یہ کہتیں کہ ہمیں اللہ اور رسول کی بجائے دنیا کی خوش حالی چاہیے، ظاہر ہے کہ انھوں نے ایسا نہیں کہا نہ ہی انھوں نے کہنا تھا مگر بالفرض وہ یہ کہہ دیتیں تو اللہ کے نبی کیا کہتے، یہ قرآن بتا رہا ہے۔ جو کچھ کہتے اس میں پہلا لفظ آؤ کا ہوتا. فرض کریں میری آپ کی بیوی کہہ دے میں نہیں رہنا چاہتی آپ کے ساتھ تو ہمارا ردعمل کیا ہوگا اور ہمارا پارا کہاں تک پہنچے گا، ہم یہی کہیں گے جلدی سے دفع ہو جا یہاں سے۔ مگر اللہ کے نبی کہہ رہے ہیں اگر تم نے اسی آپشن کو لیا ہے (پتا چلا اگر وہ ایسا کرتیں تب بھی وہ مباح ہی ہوتا) تو آؤ بیٹھ کر اسی پر بات کر لیتے ہیں کہ جدائی کے اس آپشن کا عملی طریقِ کار کیا ہوگا، یعنی ان کی طرف سے استغنا کے اظہار کے باوجود جاؤ سے پہلے آؤ ہے، ہمارے ہاں شاذونادر ہی جدائی کا یہ طریقہ اختیار کیا جاتا ہوگا کہ باقاعدہ بیٹھ کر جدائی کا طریقہ وغیرہ طے کیا جائے۔
تیسری بات یہ کہ اللہ کے نبی سے کہلوایا گیا “أمتعکن” یعنی تمھیں کچھ دے دلا کر رخصت کریں گے۔ یہ اس بات کا اظہار بھی ہے کہ تم نے اگر دنیا کی جائز خوش حالی کے لیے ہمیں چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے تو ہمیں اس پر کوئی رنج نہیں ہے، بلکہ اس مقصد کے حصول کے لیے پہلی اینٹ ہم رکھ دیتے ہیں۔ دوسرے، بیوی جدا ہو کر مالی سہارے سے محروم ہو رہی ہے تو نئی زندگی میں پہلا سہارا آپ کی طرف سے ہو، تاکہ وہ مالی طور پر سنبھل سکے.۔تیسرے کچھ تحفہ دے کر رخصت کرنا اگلی زندگی کے لیے نیک تمنا اور خوش اسلوبی سے جدائی کی ایک علامت ہوگی، یہ اس کی سمبالک اہمیت ہے۔
یعنی تین چیزیں ہو گئیں خوش اسلوبی سے رخصت کرنا، اس مقصد کے لیے مل بیٹھنا اور رخصت کرتے ہوئے “متاع” پیش کرنا۔
ان احکام کو بھی طلاق کے جزو لا ینفک احکام کی طرح پیش کیا جانا چاہیے، جب کسی عالم سے کوئی طلاق کا طریقہ پوچھنے آئے تو اس کی تربیت ایسی ہو کہ وہ سب سے پہلے یہ قرآنی احکام بیان کرے۔ بد قسمتی سے ہمارے ہاں عائلی قوانین آرڈیننس کی ایک اوٹ پٹانگ دفعہ کے علاوہ طلاق کا قانون سرے سے موجود ہی نہیں ہے. ایک تو طلاق کا مفصل قانون ہونا چاہیے، دوسرے طلاق دینے کے طریقہ کار کی مخالفت پر مناسب تعزیر ہونی چاہیے۔
طلاق دینے کے کچھ نظر انداز شدہ قرآنی احکام

کمنت کیجے