Home » قومی ریاستوں کا مستقبل
تاریخ / جغرافیہ تہذیبی مطالعات

قومی ریاستوں کا مستقبل

کہا جاتا ہے کہ ما قبل از تاریخ دور سے چار ہزار سال قبل مسیح تک قبائلی سیاسی نظام رائج تھا کہ جس میں کسی مرکزی حکومت یا ریاست کا تصور موجود نہ تھا۔ انسان قبیلوں کی صورت میں رہتا تھا کہ جس کا ایک سردار ہوتا جو قبائلی رسوم ورواج کی بنیاد پر انصاف اور عدل کے تقاضے پورے کرتا تھا۔ اس وقت یہی رسوم ورواج ہی قانون تصور ہوتے تھے اور قبیلے کا سردار بادشاہ ہوتا تھا۔

اس کے بعد سیاسی ارتقا ہوا اور شہری ریاستیں (city        states) وجود میں آئیں جیسا کہ عراق میں اُر (Ur) کی شہری ریاست کہ جس سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تعلق تھا اور یونان کی ایتھنز (Athens) کی شہری ریاست۔ بابل (Babylon) اور اسپارٹا (Sparta) بھی اسی دور کی مثالیں ہیں۔ ہر شہر کی اپنی حکومت، آرمی، قانون اور مذہب ہوتا تھا۔ یہ قبائلی نظام سے اگلے درجے کا ایک سیاسی ڈھانچہ تھا۔

شہری ریاستوں کے سلطنتوں (Empires) کا دور آیا جیسا کہ رومن ایمپائر اور پرشین ایمپائر جو کہ اسلام کی آمد کے وقت موجود تھیں اور اسلام نے انہیں فتح کیا۔ ایمپائرز کی کوئی جغرافیائی حدود نہیں ہوتی تھیں اور یہ بدلتی رہتی تھیں۔ بادشاہ جو کہ سلطنتوں کے حکمران ہوتے تھے اور عموما ایک مذہبی طبقے مثلا کاہن، پادری وغیرہ کی مدد سے حکمرانی کر رہے ہوتے تھے، اپنی سلطنت کی جغرافیائی حدود میں تبدیلی کرتے رہے تھے۔ مختلف قوموں، زبانوں، نسلوں اور ثقافتوں کے لوگ ایک ہی بادشاہ کی رعایا ہوتے تھے۔ یہ سیاسی ڈھانچہ پندرہویں صدی عیسوی تک مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں میں قائم رہا جیسا کہ انڈین مغل ایمپائر اور عثمانی سلطنت اس کی بہترین مثالیں ہے۔

مارٹن لوتھر کی تحریک کے نتیجے میں جب عیسائیوں کا پروٹسٹنٹ فرقہ وجود میں آیا اور وہ کیتھولک فرقے سے ٹکرایا تو ان کی آپسی جنگیں ہوئیں کہ جس کے نتیجے میں لاکھوں جانیں ضائع گئیں۔ 1648ء میں ویسٹ فیلیا کا معاہدہ ہوا کہ جس کے نتیجے میں ریاستوں کی جغرافیائی حدود اور خود مختاری (Sovereignty) کو تسلیم کیا گیا۔ یہ معاہدہ جدید قومی ریاست (modern        nation        state) کی بنیاد بنا۔ ایمپائر کی کوئی جغرافیائی حدود نہیں ہوتی تھی لہذا بادشاہ جب چاہتے، دوسری قوموں پر حملہ کر کے انہیں اپنا مطیع اور فرمانبردار بنا لیتے اور جو علاقہ چاہتے، اپنی سلطنت میں ملا لیتے تھے۔ اس معاہدے کے نتیجے میں دوسری قوموں کی جغرافیائی حدود کو تسلیم کیا گیا اور یہ بھی کہ کوئی بیرونی طاقت ان کو تبدیل کرنے کے لیے مداخلت نہیں کرے گی تا کہ پائیدار امن حاصل ہو سکے۔

اٹھارہویں اور انیسیویں صدی عیسوی میں نیشن سٹیٹ کے تصور میں مزید ارتقا ہوا اور یہ کہا جانے لگا کہ ریاست عوام کی ملکیت ہے، بادشاہ کی نہیں۔ فرد اور ریاست کے مابین ایک سوشل کانٹریکٹ کی بات ہوئی اور شہریت (Citizenship) سامنے آیا۔ ایمپائرز میں بادشاہ کی رعایا (subjects) ہوتے تھے لیکن اب ریاست کے شہری (citizen) ہونے کی بات ہو رہی تھی۔ رعایا کے کوئی سیاسی حقوق نہیں تھے یعنی بادشاہ کے انتخاب میں ان کا کوئی کردار نہیں تھا۔ لیکن ریاست کے شہری کے سیاسی حقوق تھے کہ وہ حکمران کا انتخاب کرنے میں اپنا حق محفوظ رکھتے تھے۔ ایمپائر میں بادشاہ، فرد کا مالک تصور ہوتا تھا لیکن نیشن سٹیٹ میں ریاست کو فرد کا خادم قرار دیا گیا۔ ایمپائر میں بادشاہ عموما قانون سے بالاتر ہوتا تھا بلکہ قانون کا مصدر ہوتا تھا لیکن نیشن سٹیٹ میں سب شہری قانون کے پابند ہوتے تھے۔ اس مرحلے میں ایک جیسی زبان، ثقافت اور تاریخ رکھنے والوں کو ایک قوم قرار دیا گیا جیسا کہ جرمن۔

بیسویں صدی عیسوی میں پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد نیشن سٹیٹ کے تصور میں مزید ارتقا ہوا اور اب ایک جیسی زبان، ثقافت اور تاریخ رکھنے والے ایک قوم نہ تھے بلکہ ایک جغرافیائی حدود میں کسی ریاست کی شہریت رکھنے والے ایک قوم کہلائے جیسا کہ برٹش نیشنیلیٹی اب مختلف زبان، تاریخ، مذہب اور ثقافت رکھنے والے گروپس مثلا ہندو، سکھ، عیسائی، مسلمان، بدھ، چینی وغیرہ کو مل رہی تھی۔ مزید یہ کہ جدید ریاست کا فرد کی زندگی میں عمل دخل بہت بڑھ گیا کہ اب وہ یہ طے کر رہی ہے کہ آپ نے اسکول میں کیا پڑھنا ہے اور کیا نہیں پڑھنا ہے، کیا پہننا ہے اور کیا نہیں، کیا بولنا ہے اور کیا نہیں، بلکہ کیا سوچنا ہے اور کیا نہیں، یہ بھی ریاست طے کر رہی ہے۔ یہ اس وقت پدری ریاست (Paternalistic        State) بن چکی ہے کہ جس میں بہت سے معاملات میں فرد کی آزادی ختم ہو چکی ہے۔ یہ نیشن اسٹیٹس کے عروج کا زمانہ ہے جو اب زوال کی طرف جا رہا ہے۔

یونائیٹڈ نیشن، آئی ایم ایف، ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور یورپی یونین جیسے ادارے اب ایک گوبل سیاسی ڈھانچے یا نظام کی تلاش میں ہیں۔کئی ایک نیشن سٹیٹس کے مابین پاسپورٹ اور ویزہ فری پالیسی اور ایک مرکزی کرنسی جاری کرنے کے نتیجے میں جغرافیائی حدود اور سرحدوں کی اہمیت مٹ رہی ہے اور اب گلوبل سٹیزن شپ کی بات ہو رہی ہے۔ یورپین یونین کے بعد خلیجی ممالک کی مثال ہم دیکھ سکتے ہیں جو اسی نوعیت کے سفر پر گامزن ہیں۔ دوسری طرف نیشن سٹیٹ کا پرانا تصور دوبارہ ابھر رہا ہے کہ قوم کی بنیاد ایک زبان، نسل اور تاریخ ہے جیسا کہ بعض یورپی ممالک میں بھی رائٹس ونگز کی سیاسی جماعتیں اب امیگرینٹس کو وحشت اور اجنبیت کی نظر سے دیکھ رہی ہیں اور انہیں واپس بھیجنے اور ملک بدر کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔

دنیا کا سیاسی مستقبل اب ماضی کی شہری ریاستیں ہیں؟ یا مذہبی ایمپائرز ہیں؟ یا انیسیویں صدی کی نیشن اسٹیٹس ہیں؟ یا ایک نیو ورلڈ سٹیٹ ہے؟ اور اس میں بھی سب سے اہم سوال کہ مسلمان قومیں کہاں کھڑی ہیں؟ کیا ان کا ذہن کسی سیاسی ڈھانچے کے حوالے سے واضح ہے کہ یہ اسلام کا سیاسی ڈھانچہ ہے؟ اور اگر واضح ہے تو اس جدید سیاسی نظام میں کیا وہ اس قابل ہیں کہ اپنے سیاسی نظام کی پخ لگا سکیں؟ کیا مسلمان اس قابل ہیں کہ خلافت کا نام استعمال کیے بغیر اسلام کے سیاسی ڈھانچے کو جدید سیاسی تعبیرات اور اصطلاحات کے مطابق بیان کر سکیں تا کہ جدید ذہن کی تفہیم میں آسانی رہے؟

واضح رہے کہ کتاب وسنت نے خلافت کا نام استعمال کیا ہے۔ خلافت بطور ایک سیاسی نظام کے، یہ ما بعد کے مسلمان سیاسی مفکرین کی دریافت ہے۔ مدینہ کی ریاست کی مثال ایک سٹی سٹیٹ کی سی تھی جبکہ خلافت راشدہ مذہبی ایمپائر کے سیاسی ڈھانچے پر استوار تھی۔ تاریخ اسلام کے مختلف ادوار کے سیاسی ڈھانچوں کے مطالعہ کے بعد یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس کے لیے مناسب ترین اصطلاح (Transcendent        Constitutional        Polity) کی ہے یعنی ایک ایسا سیاسی نظام جو ماورائی اور اخلاقی بنیادوں پر قائم ہو۔ ان الفاظ کی جامعیت اس قدر ہے کہ ان سے ہم اپنے شرعی مفاہیم بھی مراد لے سکیں اور پبلک آرڈر میں وحشت بھی پیدا کرنے کا سبب نہ بنیں۔ لیکن اس موضوع پر کوئی حتمی بات کرنا مشکل ہے۔ مزید بحث کے دروازے کھلے رہنے چاہییں۔

واللہ اعلم بالصواب

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر دینی علوم کے معروف اسکالر ہیں اور رفاہ یونیورسٹی لاہور میں تدریسی خدمات انجام دیتے ہیں۔

mzubair.is@riphah.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں