
ڈاکٹر فرخ نوید
قرآن مجید میں مختلف مقامات پر شہاب ثاقب کا تذکرہ فرمایا گیا ہے مثلا سورۃ الحجر میں ارشاد فرمایا کہ
وَ لَقَدْ جَعَلْنَا فِی السَّمَآءِ بُرُوْجًا وَّ زَیَّنّٰهَا لِلنّٰظِرِیْنَ (16)وَ حَفِظْنٰهَا مِنْ كُلِّ شَیْطٰنٍ رَّجِیْمٍ(17)اِلَّا مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَاَتْبَعَه شِهَابٌ مُّبِیْنٌ(18)
ایسے ہی سورۃ الصافات میں ارشاد فرمایا کہ
اِنَّا زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنْیَا بِزِیْنَةِ ﹰالْكَوَاكِبِ(6)وَ حِفْظًا مِّنْ كُلِّ شَیْطٰنٍ مَّارِدٍ(7) لَا یَسَّمَّعُوْنَ اِلَى الْمَلَاِ الْاَعْلٰى وَ یُقْذَفُوْنَ مِنْ كُلِّ
جَانِبٍ(8)دُحُوْرًا وَّ لَهُمْ عَذَابٌ وَّاصِبٌ(9)اِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَطْفَةَ فَاَتْبَعَه شِهَابٌ ثَاقِبٌ(10)
ان آیات میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قریب ترین آسمان کو ستاروں کی زینت سے آراستہ کیا ہے اور انہیں ایک ایسے نظامِ حفاظت کا حصہ بنایا ہے جو سرکش اور نافرمان جنّات و شیاطین کو عالمِ بالا تک رسائی سے روکتا ہے۔ یہ شیاطین جب ملاءِ اعلیٰ کی باتیں چُرانے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں ہر طرف سے دھتکار دیا جاتا ہے اور آسمانی نظام کی قوتیں انہیں دور بھگاتی ہیں، یہاں تک کہ اگران میں سے کوئی ایک جھپٹ کر آسمان کی کوئی خبر سن بھی لے تو فوراً ایک روشن اور تیز شعلہ—جسے قرآن "شِہَابٌ ثَاقِبٌ" کہتا ہے—اس کا پیچھا کرتا ہے اور اسے بھگا دیتا ہے۔ گویا قرآن مجید کے بیان کے مطابق شہاب ثاقب شیاطین و جنات کو بھگانے کا کام دیتے ہیں ۔
جہاں تک جدید فلکیاتی سائنس کا تعلق ہے تو اس کے مطابق شہاب ثاقب کسی ماورائی مخلوق کو بھگانے کا کام انجام نہیں دیتے بلکہ ان کے بننے اور کام کرنے کا عمل مکمل طور پر طبعی اور فلکیاتی قوانین کے تحت ہوتا ہے۔شہاب ثاقب دراصل خلا میں موجود چھوٹے پتھریلے یا دھاتی ذرات ہوتے ہیں جنہیں سائنسی زبان میں meteoroids کہا جاتا ہے۔ یہ ذرات کبھی کسی ٹوٹے ہوئے سیارچے (asteroid) سے نکلتے ہیں، کبھی کسی دمدار ستارے (comet) کی دم سے جدا ہوتے ہیں اور کبھی سیاروی ٹکراؤ کے نتیجے میں خلاء میں بکھر جاتے ہیں اور سورج کے گرد اپنے مخصوص مداری راستوں پر حرکت کرتے رہتے ہیں۔ جب ان میں سے کوئی ٹکرا زمین کے مدار کے قریب آتا ہے تو زمین کی کششِ ثقل اسے اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ جیسے ہی یہ ٹکرا بے حد تیز رفتاری کے ساتھ—جو عموماً سیکڑوں کلومیٹر فی سیکنڈ تک ہو سکتی ہے—زمین کی بالائی فضا میں داخل ہوتا ہے تو ہوا کے ساتھ شدید رگڑ اور دباؤ کے باعث اس کا درجۂ حرارت لمحوں میں ہزاروں ڈگری تک پہنچ جاتا ہے۔ اس شدید حرارت کے نتیجے میں وہ روشن ہو اٹھتا ہے اور آسمان پر ایک تیز چمکتی ہوئی لکیر کی صورت دکھائی دیتا ہے، جسے عمومی طور پر شہابِ ثاقب کہا جاتا ہے۔
اگر یہ شہابی ٹکرا نسبتاً چھوٹا ہو تو فضا ہی میں مکمل طور پر جل کر تحلیل ہو جاتا ہے لیکن جب اس کا حجم بڑا اور ساخت مضبوط ہو تو وہ پوری طرح نہیں جل پاتا۔ ایسے میں اس کا کچھ حصہ زمین تک پہنچ جاتا ہے جسے meteorite کہا جاتا ہے۔ یہ گرنے والے شہابی ٹکڑے بعض اوقات زمین کی سطح پر چھوٹے گڑھے بھی بنا دیتے ہیں اور ان کے اندر موجود معدنیات، مرکبات اور دھاتی عناصر سائنسی تحقیق کے لیے غیر معمولی اہمیت رکھتے ہیں۔اس طرح شہابِ ثاقب کا پورا عمل زمین کی فضا، شدید حرکی توانائی اور رگڑ سے پیدا ہونے والی حرارت کے باہمی تعامل سے تشکیل پاتا ہے جو ایک مکمل طور پر
سائنسی اور قابلِ مشاہدہ طبعی مظہرہے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآنِ مجید میں تو شہابِ ثاقب کا وظیفہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ شیاطین کو بھگانے اور انہیں عالمِ بالا تک رسائی سے روکنے کے کام آتے ہیں یعنی اس مظہر کا اظہار انہی ماورائی قوتوں کو بھگانے کے نتیجے میں دیکھنے کو ملتا ہے جبکہ جدید فلکیاتی سائنس کے مطابق شہاب ثاقب دراصل خلائی پتھروں کے وہ ذرات ہیں جو فطری حرکی اصولوں کے تحت زمین کے ماحول میں داخل ہو کر رگڑ کے باعث روشن لکیر کی صورت نمودار ہوتے ہیں اور کششِ ثقل کے قوانین کے مطابق اپنے مداری راستے پر حرکت کرتے ہیں۔ لہذا جب سائنس شہاب ثاقب کے ظاہری، مادی اور مشاہداتی اسباب کو مکمل طور پر بیان کر دیتی ہے تو پھر قرآن میں ان کی نسبت شیاطین کو روکنے جیسے ماورائی عمل کی طرف کیوں کی گئی ہے، اور
ان دونوں بیانات کو کس طرح ہم آہنگ یا مربوط طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔
یہ سوال دراصل قرآن کے غیبی بیان اور سائنس کے مادی و طبیعیاتی مظاہر کے درمیان تعلق کے بارے میں ہے۔ قرآن میں جہاں شہابِ ثاقب کے شیاطین کو بھگانے کے لیے استعمال ہونے کا ذکر کیا گیا ہے تو اس کا مقصد عالمِ غیب اور آسمانی حفاظتی نظام کی حقیقت کو واضح کرنا ہے۔ یعنی یہ بتانا ہے کہ پرودگار عالم نے عالم بالا اور آسمانوں پرایسا مضبوط حفاظتی نظام بنایا ہے کہ کوئی جن یا شیطان ملا اعلی کی باتیں نہیں چرا سکتا جس سے اس حقیقت کا اظہار مقصود ہے کہ قرآن مجید پوری حفاظت سے نازل فرمایا گیا ہے۔ تاریخی اور تفسیری مصادر کے مطابق یہ آیات کفار قریش کے اس خیال کی تردید کے لئے نازل ہوئی ہیں۔
جہاں بعض سرداران قریش اور مشرکین کا خیال تھا کہ جن یا شیاطین آسمان کی خبریں چرا کر اللہ کے رسول ﷺ کو پہنچاتے ہیں اور اسی بنیاد پر وہ یہ الزام لگاتے تھے کہ قرآن خدا کا نازل کردہ نہیں بلکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو نعوذ باللہ شیاطین و جنات سے یہ کلام سیکھتے ہیں اور پھر لوگوں کو یہ باور کرواتے ہیں کہ یہ خدا کا کلام ہے۔ قرآن نے اس خیال کو رد کرتے ہوئے واضح کیا کہ آسمان ایک محفوظ اور منظم نظام حفاظت کے تحت ہے جہاں شیاطین کی مداخلت ممکن نہیں۔ اور اگر ان میں سے کوئی آسمانی خبریں سننے کے لئے عالم بالا کی طرف جائے تو شہاب ثاقب کے ذریعے ان کو بھگا دیا جاتا ہے۔
دوسری طرف جدید فلکیات شہابِ ثاقب کو ایک مکمل طور پر طبیعی اور مشاہداتی مظہر کے طور پر دیکھتی ہے جس کی تشکیل اور حرکت مادی قوانین، حرکی توانائی، فضا کے دباؤ اور رگڑ کی شدت کے تحت ہوتی ہے۔ یعنی سائنس اس عمل کو ایک واضح فزیکل واقعہ کے طور پر بیان کرتی ہے جو طبعی قوانین (Physical laws) کے تحت رونما ہوتا ہے ۔ تاہم قرآن میں اسی مظہر کو ایک اور زاویے سے بیان فرمایا گیا ہے جہاں اللہ تعالیٰ اسے شیاطین کی مداخلت روکنے کے لیے بروئے کار لاتا ہے۔
اس طرح یہ دونوں زاویے ایک دوسرے کے متضاد نہیں ہیں بلکہ حقیقت کے دو مختلف پہلو ہیں: ایک اس مظہر کی مادی اور طبیعیاتی وضاحت اور دوسری اس مظہر کے غیبی اور حکمت پر مبنی مقصد کی تشریح۔ لہٰذا یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک ہی شہابِ ثاقب، مادی قوانین کے تحت زمین میں داخل ہو کر روشن لکیر پیدا کرتا ہے اور ساتھ ہی اللہ کے حکم سے کسی مخصوص غیبی مقصد کے لیے بھی کام آ سکتا ہے۔
لہذا قرآن مجید شہاب ثاقب کے صرف اس پہلو کو بیان فرماتا ہے کہ پرودگار عالم ان سے شیاطین کو بھگانے کا کام لیتا ہے لیکن وہ اس کا تذکرہ نہیں فرماتا کہ یہ بنتے کیسے ہیں، حرکت کیسے کرتے ہیں، کسی سیارے پر گرتے کیسے ہیں اور اس کے کیا اثرات و نتائج ہوتے ہیں۔ گویا شہاب ثاقب کی پیدائش اور حرکت توطبعی قوانین فطرت(physical laws of nature) کے تحت ہی ہوتی ہے لیکن اس سے ضمنا کچھ دوسرے کام بھی لے لئے جاتے ہیں۔ جس طرح مثال کے طور پر زلزلے، طوفان، بارشیں وغیرہ تو قوانین فطرت کے تحت ہی رونما ہوتے ہیں تاہم ان سے پرودگارکبھی کبار کسی قوم کی ہلاکت و تباہی کا کام بھی لے لیتے ہیں جیسے کہ قوم نوح اور قوم عاد و ثمود وغیرہ پر عذاب کے ضمن میں لیا گیا۔ لہذا قرآن مجید کی ان آیات کا جدید فلکیاتی
سائنس سے کوئی تعارض لازم نہیں آتا ۔یہ تعارض تب ہوتا جب قرآن مجید شہاب ثاقب کے کسی ایسے مادی پہلو (مثلا اس کی پیدائش و حرکت وغیرہ) کا ذکر کرتا جو فلکیاتی اسباب و علل سے متضاد ہوتا۔ لیکن جب دونوں (قرآن و سائنس) ایک ہی مظہر کو دو مختلف زاویوں سے بیان کریں تو ان میں کوئی تعارض باقی نہیں رہتا۔
عموما قرآنی بیانات اور جدید سائنسی مظاہر کی تفھیم و تشریح میں جو تضاد بظاہر محسوس ہوتا ہے وہ اس غلط فہمی کا نتیجہ ہے کہ قرآن مجید کو سائنس کی کوئی کتاب سمجھا جاتا ہے اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ جس طرح دوسرے سائنسی علوم کسی مادی مظاہر کی طبعی قوانین کے تحت تشریح کرتے ہیں ایسے ہی قرآن مجید بھی کرتا ہو گا۔ حالانکہ قرآن کا اصل موضوع انسان کی ہداہت اور آخرت کی نجات ہے تاہم وہ ضمنا کئی مادی مظاہر کی جانب بھی انسان کی توجہ مبذول کرواتا ہے تاہم وہاں اس کا مقصد مادی اسباب و علل کے تحت اس مظہر کی تشریح و وضاحت کرنا نہیں ہوتا بلکہ صرف خدا کی قدرت و حکمت کی جانب توجہ مبذول کروانا ہوتا ہے۔ یہ فرق اگرذہن نشین رہے تو اس ضمن مٰیں پیدا ہونے والی بہت ساری الجھنوں اور غلط فہمیوں سے بچا جا سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر صاحب نے مینجمنٹ سائنسز میں پی ایچ ڈی کی ہے ائیر یونیورسٹی اسلام آباد سے۔ ان کے تخصص کا میدان فنانس ہے خصوصا اسلامک و کارپوریٹ فنانس اور اس میں مختلف مقالات بھی تحریر فرمائے چکے ہیں جو موقر بین الاقوامی ریسرچ جرنلز میں شائع ہوئے ہیں۔ علوم اسلامیہ میں درس نظامی کے بھی فاضل ہیں۔ آج کل رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی فیصل آباد میں مینجمنٹ سائنسز کے شعبہ میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر خدمات انجام دے رہے ہیں۔




کمنت کیجے