تحریر:۔عبدالغنی محمدی
انسانی فکر ہردور میں ارتقاء پذیر رہی ہے اور فکری ارتقاء کے اثرات ہمیشہ عملی زندگی پر مرتب ہوتے ہیں ۔یہ اثرات جہاں بہت سی نعمتوں ، فوائد اور ایجادات کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں، وہیں اس سے فکری و عملی ہر دو طرح کی تحدیات بھی پیدا ہو جاتی ہیں ۔ موجودہ دور میں انسان کی فکر کی پرواز نے بہت سی غیر مترقبہ نعمتوں کے دروازے مجموعی انسانیت کے لیے کھول دیے ہیں ، لیکن اس کے ساتھ اس نے ہر خطہ کے انسانوں کے لیے لا ینحل مسائل کا نہ ختم ہونےوالا سلسلہ بھی شروع کر دیا ہے ۔ موجو دہ دور کی ایجادات ، سہولیات اگر سابقہ زمانوں میں اپنی نظیر نہیں رکھتیں تو ایسے پیچیدہ چیلنجز کا بھی شاید انسانیت کو پہلے کبھی سامنا نہ ہوا ہو ۔
تہذیب جدید کے لیے مغربی تہذیب کالفظ شایدہر لحاظ سے موزوں نہ ہو ۔ اتنی بات تو درست ہے کہ دور جدید میں اس کی نشو ونما مغرب میں ہوئی ہے لیکن اس کی فکری بنیادیں بہت پہلے ملتی ہیں۔اور اب ان فکری بنیادوں کی قبولیت صرف مغرب تک محدود نہیں، بلکہ دنیا کی تمام تہذیبیں ، ادیان اور مذاہب جدیدیت سے متاثر ہیں اور جدیدیت کے کھڑے کردہ مسائل ان سب کے لیے چیلنج بنے ہوئے ہیں ۔ اس لیے اس کو ایک عالمگیراور گلوبل چیلنج کہا جا سکتا ہے ۔ ہم اس کو تسلیم نہ کرنے کی آخری حد تک جا سکتے ہیں، لیکن چیلنج تو رہے گا اور اس کے اثرات بھی رہیں گے اور خاموش تبدیلی کے تحت اس جدیدیت کے تمام اثرات کو آہستہ آہستہ قبول کر لیا جائے گا ۔ اس لیے اس چیلنج کو چیلنج سمجھنا ہوگا ،صرف اپنی چار دیواری میں بند رہنے سے یہ کشمکش ختم نہیں ہو جائے گی۔
اس چیلنج کو اب تک جس انداز میں دیکھا گیاہے، وہ منطقی اور حقیقت پسندانہ نہیں ہے ۔ جدیدیت کی بات کرنے والا ایک طبقہ ان لوگوں کا ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ قدیم علمی روایت کا گلا دبا کر ہی شاید کسی نئی چیز کی طرف پہنچا جا سکتا ہے۔ بعض لوگ جدیدیت کو جہالت جدیدہ سے تعبیر کرتےہیں ۔ بعض لوگ جدیدیت کے نام سے ایسے خائف ہیں کہ ان کو جدیدیت کے لفظ سے ہی کسی سازش کی بو آنا شروع ہو جاتی ہے اور وہ بلاتوقف ایسے لوگوں کو جو جدیدیت کی بات کرتے ہیں،مغرب کا ایجنٹ قرار دیتے ہیں اور اپنی ساری توانائیاں اسی کے اثبات میں صرف کرنے لگتے ہیں ۔مغرب یا تہذیب جدید کی ہر چیز کو اسلام سے ہم آہنگ بنانے کے شوقین بھی کم نہیں ہیں۔ یہ لوگ ہرچیز کو اسلام کا جامہ پہنانے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ یہ لوگ اسلام کی شکل و حلیہ تو بگاڑتے ہی ہیں، اس کے ساتھ سائنس اور رفلسفہ کی بنیادوں پر بھی نہ چاہتے ہوئے تیشہ چلا دیتے ہیں ۔
اس چیلنج کے حل کے لیے ہمیں منطقی بنیادوں پر خالص اور ٹھوس کوششیں کرنا ہوں گی ۔ بے سرو سامانی کے عالم میں ہم ان مسائل کے حل کے لیے جو کچھ کر سکتے ہیں، اس کے لیے ہمیں چند چیزوں کو مدنظر رکھ کر کوشش کو آگے بڑھانا ہوگا ورنہ ہمارے وفور جذبات ، مضبوط ہمتوں اور کوششوں سے قربانی تو ہو جائے گی، لیکن بعد میں معلوم ہوگا کہ قربان کوئی اور ہوا پڑا ہے ۔
- اس چیلنج کی نوعیت کو سمجھنا انتہائی اہم اور ضروری ہے ۔ یہ چیلنج انسانوں کے کسی خاص گروہ نے کسی سازش کے تحت پیدا نہیں کر دیا ، بلکہ انسانی ذہن اور فکری ارتقا کے نتیجہ میں وجود میں آیا ہے ۔ اس لیے کسی خاص گروہ کو تاعمر کوستے رہنے کے بجائے اس فکری تبدیلی اور اس کے مضمرات کو منطقی بنیادوں پر گہرائی کے ساتھ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں رد عمل کی کیفیات سے نکلنا ہوگا ،۔ضروری نہیں کہ مغرب سے آنے والی ہر چیز اور جدیدیت سے پھوٹنے والی ہر فکر ہماری دشمن ہو ۔ اس رد عمل کی کیفیت میں ہم بہت سی ایسی چیزوں کا بھی انکار کر دیتے ہیں جو ہمارے لیے نعمت ثابت ہو سکتی ہیں ۔ہمیں صرف ان مسائل اور چیلنج سے نمٹنا ہے جو اس تہذیب جدید نے ہمارے لیے لیے لا کھڑے کیے ہیں ، اس کے علاوہ کوئی بھی بات قبول کرنے میں حجا ب نہیں ہونا چاہیے۔ہم نہ صرف اس کو قبول کریں بلکہ انسانیت کی بھلائی اور مفاد کے لیے اس کی ترقی میں اپنا حصہ بھی ڈالیں ۔ ہم شاید ایک مشترکہ ثقافت تو پیدا نہ کر سکیں،لیکن ایک دوسرے سے سیکھ کر اچھی پیش رفت ضرور کر سکتے ہیں، انسانیت کے فکر ی ارتقاء میں اس کے ممد و معاون ضرور ہو سکتے ہیں ۔ اس تمام عمل میں مرعوبیت کی بجائے حقیقت پسندی اور منطقی انداز فکر غالب ہونا چاہیے ۔
- ہمیں کمتری اور برتری کے احساس سے باہر آنا ہوگا ۔ ہمیں آگے بڑھنے سے روکنے والی چیز صرف احساس کمتری ہی نہیں بلکہ برتری بھی ہے۔ مختلف طبقات میں ان دو قسم کے احساسات نے ہمارے سفر کو روکا ہوا ہے ۔ اپنی تہذیب ، روشن ماضی اور کارہائے نمایاں کے حوالے سے برتری کا احساس ہمارے اندر تحریک پیدا کرنے کی بجائے ہمیں جامد ومنجمد کرچکے ہیں ۔ مغرب کی کسی بھی بات کو قبول کرنا یا ان سے ہم آہنگی کی کوئی بھی کوشش کیا خطرناک نتائج پیدا کرےگی اور الحاد کی طرف لے کر جائے گی اور اس کو مغربی غلام ذہنیت اور مرعوبیت سے تعبیر کیا جائے گا ؟ کسی بھی دوسری قوم سے اخذو استفادہ کیا اسلام کے کامل و مکمل ہونے کے منافی ہے اور یہ اس میں نقص کی علامت ہے ؟ حیرت تو یہ ہے کہ ہم اس رویے کو اسلامی علمی روایت سمجھ بیٹھے ہیں اور خود کو اس روایت کے امین ۔ اسلامی علمی روایت اور مسلمانوں کا ماضی ایسا کبھی نہیں رہا ۔ ہم نے عہد زریں اور اپنے سنہر ی وروشن دور میں باوجود غالب ہونے کے ایسا کبھی نہیں کیا ۔
- یہ چیلنج چونکہ عالمگیر اور ہمہ گیر ہے تو اس کے حل کی طرف کی جانے والی کسی بھی پیش رفت میں قبل عالمی حالات اور ذہن کو مد نظر رکھا جانا ضروری ہے ۔ اگر صرف اپنے خطے یا اپنے مخصوص مسائل کو دیکھا جائے اور دنیا کے تمام خطوں کو نظر انداز کر دیا جائے تو بات کے اثرات صرف ایک علاقے تک ہی محدود رہیں گے، عالمگیر کبھی نہیں ہو سکتے ۔ کسی بھی مسئلہ کے حل کے لیے کی جانے والی کوششیں مجموعی انسانیت کے لیے بلا تفریق مذہب و قوم ہوں ۔
- موجودہ دور کی کوئی بھی فکر یا کا وش جو کسی خاص میدان میں نظر آرہی ہو، وہ دوسری بہت سی فکروں سے مربوط ہوتی ہے اور اس کے اثرات صرف ایک متعین میدان میں نہیں ہوتے، بلکہ اس کے علاوہ دیگر میدانوں میں بھی ظاہر ہوتے ہیں ۔ اس لیے اس کے حل کے لیے مذہبی نصوص کے علاوہ دیگر ادبی نصوص کو بھی سامنے رکھناچاہیے ۔ سائنس یا فلسفہ کے جس قدر تصورات یا نتائج فکر ہیں، وہ عقلی اور حسی بنیادوں پر ہیں ۔وہ مذہب یا روحانیت کو چھوڑنے کی وجہ سے ہو سکتا ہے ادھورے ہوں اور اس چیز کا انہیں بھی شاید بہت گہر ااحساس ہے اور ا س کے تدارک کے لیے وہ کوششیں بھی کرتے ہیں ۔ عمرانیات ، بشریات اور سوشل سائنسز کا پورا فریم ورک شاید اسی کمی کو پوراکرنے کے لیے ہے۔ لیکن ہم اپنی فکر کو عقلی اور حسی افکار سے روک کر ایک ادھوری فکر کا شکار نہیں ہو سکت،اس لیے ہمیں قرآن و سنت کے علاوہ دیگر نصوص سے بھی فائدہ اٹھانا ہوگا اور قرآن و سنت کو بھی بڑی تصویر میں دیکھنا ہو گا جس میں چھوٹے مسائل خود بخود فٹ بیٹھ جائیں ۔
- موجودہ دور کی تفہیم بہت حد تک معاشی افکار وحرکیات سے وابستہ ہے، اس لیے ان کو سمجھنا بھی بہت ضروری ہے ۔ شروع میں انسان نے شکار وغیرہ پر انحصار کیا ، ا س کے بعد جب ا س کو فصلیں اگانے کا طریقہ معلوم ہوگیا تو وہ ایک جگہ پرٹھہرنے لگا اور ایک نئے دور میں اس نے قدم رکھا ۔ اس دورکی ضروریات بھی اور تھیں اور تقاضے بھی ، اس دور میں انسانی سماج جاگیر داری اور قبائلی نظام پر قائم تھا جبکہ اس کے بعد اس دور کی جگہ صنعتی دور نے لے لی۔ اب مابعدصنعتی دور ہے، اس لیے اس دور کی بڑی تبدیلیا ں تفہیم مسائل کے لیے اساسی اہمیت کی حامل ہیں ۔
- موجودہ چیلنج کو حل کرنے کے لیے خالص لبر ل ازم کی بجائے اگر سیاسی لبر ل ازم کا سہا را لیا جائے جس میں لبر ل ازم کو مطلق اچھائی ماننا لازم نہیں تو شاید یہ بہت مفید رہے گا۔ ویسے بھی جب کوئی قدر کسی دوسرے معاشرے میں جاتی ہے تو بہت حد تک اپنا خالص پن کھو چکی ہوتی ہے اور وہ معاشرہ اس کو اپنی روایت اور ماحول کے مطابق ڈھالنے اور اس کو قبو ل کرنے کے لیے اس میں بہت سی تبدیلیا ں کردیتا ہے ۔
- ان تمام باتوں سے یہ نہیں سمجھ لینا چاہیے کہ تہذیب جدید کا مل و مکمل ہے۔ جدیدیت کو بھی چیلنجز کا سامنا ہے۔ مغربی معاشروں میں مذہب، آسمانی تعلیمات سے دوری اور روحانی قدروں کی کمی یافقدا ن سے پیدا ہونے والے خلا کا احساس مغربی اہل فکر کو بھی ہے۔ انہوں نے مذہبی اقدار کا متباد ل تلاش کرنے کی کوششیں کی ہیں، لیکن وہ زیادہ بامعنی یا نتیجہ خیز نہیں ہے بلکہ ان اقدار کو چھوڑنے کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل بڑھتے جارہے ہیں ۔ مذہب یا مذہبی فکر کا اصل میدان یہی ہے کہ آج دنیا کو ان اقدار کی اہمیت اور ان کو چھوڑنے کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل سے آگاہ کیا جائے۔ یہی وہ چیز ہے جس میں مذہب، جدید انسانی ذہن کی راہ نمائی کر سکتا ہے ۔ مذہبی اہل فکر کو اپنی دعوت اور اس کے فوائد و نتائج کا کما حقہ ادراک اور اس پر یقین کامل ہونا چاہیے ، اور اس کو خوب سے خوب تر انداز میں پیش کرنے کا ملکہ بھی پیدا کرنا چاہیے،تبھی جدید اذہان کی اس جہت میں راہ نمائی کی جا سکتی ہے۔
جدید مغربی فکر کو سمجھنے کیلئے کس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہئے؟