اسلامی علم الکلام کی روایت کے جدلیاتی فریق، عقلیات کے دائرے میں، عموماً معتزلہ اور اشاعرہ کو شمار کیا جاتا ہے، جبکہ متصوفانہ رجحان، عقلیت کے بجائے کشف وعرفان پر ارتکاز کے باعث، ایک الگ دھارا تصور کیا جاتا ہے۔ ماتریدیہ مستقل فکری خصوصیات کا حامل مکتب فکر ہے، تاہم منہجی لحاظ سے بنیادی طور پر ’’تطبیقی’’ رجحان رکھنے کے باعث اسے زیادہ نمایاں شناخت نہیں مل سکی۔ بہرحال اسے کسی نہ کسی درجے میں ایک مکتب فکر گنا ضرور جاتا ہے۔
زیادہ نظر انداز کیا جانے والا مکتب فکر، ابن تیمیہ کا مکتب فکر ہے جس کا علم الکلام کی تاریخ میں کوئی ذکر اذکار ہی نہیں ملتا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ابن تیمیہ نے کلامیات میں محدثین کے رجحان کو نہ صرف ایک مکمل عقلی پیرایہ اور ایک پورا نظام استدلال مہیا کیا ہے، بلکہ جدلیاتی منہج کے تحت تمام بنیادی مباحث میں فلاسفہ، معتزلہ، اشعری متکلمین اور اہل تصوف کے انداز فکر پر بھرپور نقد بھی پیش کیا ہے۔
ابن تیمیہ پر اپنے ہی دور میں بعض نزاعی مذہبی مباحث کے باعث ایک خاص طرح کی چھاپ لگ گئی جو اب تک قائم ہے۔ دور جدید میں، فکری مرجع کے طور پر ان کا حوالہ دینے والے سلفی مکتب فکر میں چونکہ خود عقلیات سے کوئی مناسبت نہیں پائی جاتی، اس لیے ان کے ذریعے سے بھی ابن تیمیہ کا ایک محدود اور سطحی امیج بنتا چلا گیا ہے۔
اسلامی علم الکلام کی روایت کے بنیادی فریق دو نہیں، بلکہ تین تھے، یعنی محدثین، معتزلہ اور اشاعرہ۔ محدثین نے عموماً عقلی بحثوں سے اجتناب برتا جس کی وجہ سے وہ بحث کے میدان سے باہر تصور کیے گئے، لیکن ابن تیمیہ نے اس کلامی روایت کے کم وبیش آخر میں اس کی تلافی بھرپور انداز میں کی ہے، اور یوں وہ اس کے حق دار ہیں کہ ان کے کنٹری بیوشن کو زیر بحث لائے بغیر کلامی روایت کی تاریخ کو مکمل شمار نہ کیا جا سکے۔
سردست اس حوالے سے عربی میں لکھے جانے والے بعض تحقیقی مقالات اور اردو میں مولانا محمد حنیف ندوی کی ’’عقلیات ابن تیمیہ’’ کے علاوہ زیادہ مطالعات دستیاب نہیں، جن کی نوعیت ابتدائی اور تمہیدی ہے۔ ہم نے بعض عقلی مباحث کے حوالے سے ابن تیمیہ کے مطالعہ کو مدرسہ ڈسکورسز کا حصہ بنایا ہے اور امید ہے کہ موجودہ یا آنے والے شرکاء میں سے بعض حضرات ضرور اس کی توسیع میں دلچسپی محسوس کریں گے۔
کمنت کیجے