Home » کشمکشِ عقل و نقل: امام رازیؒ اور علامہ ابن تیمیہ ؒ
اسلامی فکری روایت شخصیات وافکار کلام

کشمکشِ عقل و نقل: امام رازیؒ اور علامہ ابن تیمیہ ؒ

 

مولانا محمد بھٹی

متکلمینِ اہل سنت کی علمی یورش کے سامنے معتزلہ و فلاسفہ کے ہیبت ناک عقلی قلعے فرشِ راہ بن چکے تھے۔اعتزال و فلسفہ کی فلک بوس عمارت زمیں بوس کر دی گئی تھی۔اہل سنت کے دونوں ذی احتشام امام حجۃ الاسلام غزالیؒ اور فخرالدین رازیؒ وصالِ حق سے شرف یاب ہو چکے تھے۔ایسے میں اہلِ اسلام کے علمی افق پر ایک اور بڑا نام علامہ ابنِ تیمیہ الحرانیؒ نمودار ہوتا ہے۔علامہ صاحب کی رفعتِ علمی اور وسعتِ معلومات میں شاید ہی کسی کو کلام ہو۔آپ کی بسیار نویسی اور مانندِ آب رواں قلم ضرب المثل ہیں۔لیکن یہ بھی سچ ہے کہ علامہ صاحب اپنے مخصوص معتقدات اور تفردات کے باعث تاریخ اسلام کی چند بڑی متنازعہ شخصیات میں سے ایک ہیں۔آپ نے اہل سنت کے کئی ایک اعتقادی مسلمات اور فقہی متفقات سے ہٹ کر جداگانہ روش اپنائی۔آپ ائمہ اہلسنت پر نہایت بے باکانہ انداز میں تنقید کرتے ہیں اور وفورِ نقد میں اکثر اوقات حدِ اعتدال پھاند جاتے ہیں۔آپ نے فلاسفہ و معتزلہ کو بھی ہدفِ تنقید بنایا ہے لیکن جیسا کہ پیش ازیں عرض کیا کہ اُس سمے فلسفہ و اعتزال کی حیثیت تنِ نیم مردہ سے زیادہ نہ تھی لہذا ان پر کی جانے والی تنقید کی حیثیت بھی بیکار کی بیگار بھرنے جیسی ہی تھی۔

علامہ صاحب کی انتقادی سرگرمی کے موردِ اصلی متکلمینِ اہل سنت ہیں اور اس انتقادی پیکار کا منتہائی ہدف صفاتِ متشابہات بابت اپنے مخصوص مذہب کا دفاع ہے،باقی سب زیبِ داستان ہے۔عقل و نقل کی کشمکش ہو یا لغت و بلاغت کے مسائل ہوں،سب اسی غرض کی براری کے لیے خام مال کے طور پر کام میں لائے گئے ہیں۔آپ کی کتاب ‘درء تعارضِ العقل و النقل’ کا ہدفِ اصلی بھی صفات کے باب میں اپنے ‘مائل بہ تجسیم’ موقف کا دفاع اور متکلمینِ اہلسنت کی تردید تھا جس کی حیثیت محض ایک خام آرزو کی ہی رہی۔علامہ صاحب کے احترامات فراواں کے باوجود یہ کہنا ناگزیر ہے کہ مذکورہ بالا کتاب میں بھی آپ نے جذبات کی رَو میں بہہ کر دامنِ انصاف کو ہاتھ سے جانے دیا ہے۔فرطِ جذبات و جوشِ انتقاد کی اثر آفرینی ملاحظہ ہو کہ متکلمین اہل سنت جوینی،رازی اور باقلانی رحمہم اللہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

“فالنصاری اقرب الی تعظیم الانبیاء والرسل من ھؤلاء” (درء تعارض العقل و النقل 1/7)

“سو انبیاء و رسل کی تعظیم میں تو نصاری ان(متکلمین) سے کہیں بڑھ کر ہیں”

کوئی علامہ ابن تیمیہ کا کتنا ہی عاشقِ زار کیوں نہ ہو،اگر وہ متکلمینِ اسلام کی گراں مایہ کاوشاتِ علمی اور بیش بہا خدماتِ دینی سے ہلکا سا بھی مس رکھتا ہے تو یہ کہنے پر خود کو مجبور پائے گا کہ علامہ صاحب کے کلمات نہایت جسارت آمیز ہیں۔

آمدم برسر مطلب!علامہ صاحب آغازِ کتاب میں قرآنی آیات و نبوی احادیث کے ‘قابلِ استدلال و ناقابلِ استدلال ہونے بابت’ ایک ‘قانونِ کلی’ بیان فرماتے ہیں اور اسے متکلمین بالخصوص امام رازی  کی طرف منسوب کر کے بھرپور انداز میں ‘زورِ تردید’ صرف کرتے ہیں۔لیکن سوال یہ ہے کیا واقعی امام رازی  نے ‘ایسا’ کوئی ‘قانونِ کلی’ بنایا ہے جس کی رو سے وہ آیات و احادیث کو ‘ناقابلِ استدلال قرار دیتے ہوں’ یا پھر یہ اتہام بھی علامہ صاحب  کے جوشِ تردید و تنقید ہی کا شاخسانہ ہے؟اس سوال کی جواب براری موقفِ رازی  اور انتقادِ ابن تیمیہ  کی تفصیلی تحلیل کی مقتضی ہے۔

امام رازی رحمہ اللہ کا موقف

علامہ ابن تیمیہ کے جارحانہ نقد کی درست نوعیت جاننے اور موقفِ رازیؒ کے راست ادراک کے لیے ضروری ہے کہ امام صاحب کی کتاب “اساس التقدیس” کا مختصر تعارف نذرِ قارئین کر دیا جائے۔یہی وہ کتاب ہے جس کی ایک فصل کو لے کر علامہ صاحب نے امام رازی اور متکلمین پر الزامات کی بوچھاڑ کی ہے۔امام فخرالدین رازی رحمہ اللہ نے یہ کتاب فرقہ مجسمہ و مشبہہ کے رد میں تصنیف فرمائی ہے۔اس کتاب میں امام صاحب نے نہ صرف مجسمہ و مشبہہ کے فاسد دلائل کا بسط و تفصیل سے تنقیدی جائزہ لیا ہے، بلکہ گراں مایہ تفسیری و کلامی اصول بھی ارزاں فرمائے ہیں۔کتاب چار حصوں/ابواب میں منقسم ہے اور ہر حصہ متعدد فصول پر مشتمل ہے۔علامہ ابن تیمیہ کے ‘مائل بہ تجسیم’ ہونے کے باعث یوں تو پوری کتاب ہی آپ کے زیرِ عتاب رہی ہے اور ذوقِ تردید کی تسکین کے لیے آپ نے الگ سے بھی اس کتاب کا ایک ‘رد’ لکھ رکھا ہے تاہم ‘درء تعارض العقل و النقل’ میں آپ نے ‘اساس التقدیس’ کے حصہ/باب دوم کی بتیسویں فصل پر خصوصی مشقِ تنقید فرمائی ہے۔

گزارش ہے کہ کلام کی راست معنویت تک رسائی کے لیے سیاقِ کلام،روئے کلام،تناظرِ کلام اور اس علمی چوکھٹے سے آشنائی ناگزیر ہے جس سے صاحبِ کلام نسبتِ فکری رکھتا ہو۔لہذا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ امام رازی کی مذکورہ بالا کتاب کے بابِ دوم کا اجمالی تعارف قارئین کے روبرو پیش کر دیا جائے۔

بابِ اول میں امام صاحب نے قرآنِ پاک کی محکم آیات سے اہلِ سنت کے موقف کا اثبات کیا ہے،جبکہ دوسرے باب میں آپ متشابہات کو زیرِ بحث لائے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اس باب کا عنوان “فی تاویل المتشابہات من الاخبار و الآیات” یعنی ‘متشابہ اخبار و آیات کی تاویل کے بیان میں’ رکھا گیا۔جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے،اس باب میں امام رازیؒ نے محکمات یا بالفاظِ دگر قطعی الدلالۃ آیات سے صرف نظر کرتے ہوئے محض متشابہات یا ظنی منقولات سے تعرض فرمایا ہے(خواہ وہ ظن ثبوت میں ہو یا دلالت میں)اور انہی کے احکام بیان فرمائے ہیں۔اس باب میں آپ نے متشابہات کی تاویل کے اصول و قواعد اور امثلہ تحریر فرمائی ہیں۔امام صاحب نے بتیسویں فصل کا عنوان پیرایہ سوال میں “البراھین العقلیۃ اذا صارت معارضۃ بالظواھر النقلیۃ فکیف یکون الحال فیھا” رکھا ہے۔(یعنی جب قطعی عقلی دلائل اور منقول کے ظاہری معنی میں تعارض واقع ہو جائے تو رفعِ تعارض کی صورت کیا ہوگی)۔ذیل میں آپ ارقام فرماتے ہیں:

“اعلم ان الدلائل العقليۃ القطعيۃ اذا قامت علی ثبوت شيء, ثم وجدنا ادلۃ نقليۃ يشعر ظاہرہا بخلاف ذلك،فہناك لا يخلو الحال من احد امور اربعۃ : اما ان يصدق مقتضي العقل والنقل، فيلزم تصديق النقيضين وہو محال،واما ان يبطل فيلزم تكذيب النقيضين وہو محال, واما ان يصدق الظاہر النقليۃ ويكذب الظواہر العقليۃ، وہو باطل،لأنہ لا يمكننا ان نعرف صحۃ الظواہر النقليۃ الا اذا عرفنا بالدلائل العقليۃ اثبات الصانع وصفاتہ، وكيفيۃ دلالۃ المعجزۃ علی صدق الرسول صلی اللہ عليہ وسلم،ولو جوزنا القدح فی الدلائل العقليۃ القطعيۃ صار العقل متہما غير مقبول القول،ولو كان كذلك لخرج ان يكون مقبول القول فی ہذہ الاصول ،واذا لم تثبت ہذہ الاصول خرجت الدلائل النقليۃ عن كونہا مفيدۃ، فثبت ان القدح فی العقل لتصحيح النقل يفضی الی القدح فی العقل والنقل معا،وأنہ باطل، ولما بطلت الاقسام الاربعۃ، لم يبق الا ان يقطع بمقتضی الدلائل العقليۃ القاطعۃ بان ہذہ الدلائل النقليۃ، اما ان يقال اہا غير صحيحۃ، او يقال انہا صحيحۃ الا ان المراد منہا غير ظواہرہا ثم ان جوزنا التاویل اشتغلنا علی سبیل التبرع بذکر تلك التاويلات علی التفصيل وان لم تجوز التاويل فوضنا العلم بہا الی اللہ فہذا ہو القانون الكلی المرجوع اليہ فی جميع المتشابہات”

ترجمہ:”جان لیجئے کہ جب دلائل عقلیہ قطعیہ کے ذریعے کوئی بات پایہ ثبوت کو پہنچ جائے اور ادلہ نقلیہ کا ‘ظاہری معنی’ اس کے برعکس معلوم ہوتا ہو تو اس وقت عملا کل چار صورتیں بنتی ہیں:

اول: یہ کہ عقل اور (ظاہرِ) نقل ہر دو کے اقتضاء کو درست قرار دیا جائے۔تو (یہ درست نہیں کیونکہ دریں صورت) اجتماع نقیضین لازم آئے گا جو کہ محال ہے۔

دوم: یہ کہ عقل اور (ظاہرِ) نقل ہر دو کے اقتضاء کو غلط ٹھہرا دیا جائے تو(یہ بھی درست نہیں کیونکہ دریں صورت) ارتفاعِ نقیضین لازم آئے گا اور یہ بھی محال ہے۔

سوم:یہ کہ نقل کے ظاہری معنی کی تصدیق کی جائے اور دلائل عقلیہ قطعیہ کی تکذیب کر دی جائے تو یہ سراسر غلط ہے کیونکہ ظواہرِ نقلیہ کی درستی کی پہچان ہمیں جبھی تو ہوتی ہے جب ہم وجود و صفاتِ صانع اور صداقتِ رسول پر معجزہ کی دلالت کو دلائل عقلیہ کے ذریعے پہچان لیتے ہیں۔

چہارم: (یہ کہ ہم دلائل عقلیہ قطعیہ کو مطعون کریں) تو اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو عقل مشکوک اور ناقابلِ اعتبار ہو جائے گی اور یوں ان اصولِ (دین) کے اثبات میں بھی یہ ناقابلِ اعتبار ٹھہرے گی۔تو جب اصولِ دین ہی پایہ ثبوت کو نہ پہنچیں گے تو دلائل نقلیہ بھی فائدہ رساں نہ رہیں گے۔بنا بریں ثابت ہوا کہ (ظاہرِ) نقل کی درستی کے لیے عقل(قطعی) کو مطعون کرنا نقل و عقل دونوں کو مشکوک ٹھہرا دیتا ہے اور یہ سراسر غلط ہے۔

جب یہ چاروں صورتیں باطل ٹھہریں تو ایک ہی صورت باقی بچتی ہے اور وہ یہ کہ دلائل عقلیہ قطعیہ کے مقتضا کو حتمی قرار دیا جائے۔(دریں صورت دو ہی احوال ممکن ہیں) یا تو(ظاہر معنی پر بے جا اصرار کیا جائے اور) یہ کہہ دیا جائے کہ منقول صحیح نہیں ہے۔یا پھر یہ کہا جائے کہ یہ منقولات تو صحیح ہیں لیکن ان سے یہ (بادی النظر میں دکھائی دینے والا) ظاہری معنی مراد نہیں ہے۔پھر اگر ہم تاویل کو روا رکھیں کو ازراہ تبرع اس تاویل کو تفصیلا ذکر کریں گے اور اگر تاویل کو سندِ جواز نہیں بخشی جاتی تو پھر ہم ان آیات کے حققیقی معنی کو اللہ کی طرف تفویض کریں گے۔تمام تر ‘متشابہات’ کے باب میں یہی قانونِ کلی ہے جس کی طرف رجوع کیا جائے گا”۔ (اساس التقدیس 220،221)

مذکورہ بالا اقتباس،اقتباس کے سیاق،سیاق سے پیدا شدہ تناظر اور عنوانِ باب سے امام صاحب کا موقف نکھر کر سامنے آ جاتا ہے اور یہ بات واشگاف ہو جاتی ہے کہ امام صاحب کا کلام منقولات قطعیہ بابت نہیں ہے بلکہ آپ کی مراد ذومعنی متشابہات ہیں۔امام صاحب نے صراحت کے ساتھ ازخود بیان کیا ہے کہ یہ ‘قانونِ کلی’ قطعیات یا محکمات بابت نہیں ہے بلکہ متشابہات کے بارے ہے۔اس قانون کی رو سے اگر متشابہ یا منقولِ ظنی کی بادی النظر میں دکھائی دینے والی مراد اور دلیل عقلی قطعی میں کشا کشی کی نوبت آ جائے تو منقول ظنی میں تاویل کی جائے گی یعنی اس منقول کے دیگر احتمالی معانی(مجازی یا محاوراتی) میں سے کسی معنی پر اسے محمول کر دیا جائے گا یا پھر اس آیت یا خبر کے درست معنی کا علم اللہ تعالی کی طرف تفویض کر دیا جائے گا۔یہاں یہ عرض کر دینا مناسب ہو گا کہ متکلمینِ اہل سنت تاویل صرف بوقتِ ضرورت اور بقدرِ ضرورت کرتے ہیں کہ جب فلاسفہ سے پالا پڑے اور ان کے اعتراضات کے جواب کی نوبت آئے وگرنہ متشابہات بارے اہل سنت کا اصل موقف تفویض ہے۔

گزارش ہے کہ متشابہات کا ظنی ہونا اہلِ علم کے ہاں قطعی ہے اور مبحثِ اصول میں پیش پا افتادہ ہے نیز متشابہ سے مراد ایسا کلام ہے کہ جس کا قطعیت کے ساتھ کوئی معنی متعین کرنا دشوار ہو۔گویا امام صاحب رفعِ تعارض کے لیے اسی متشابہ آیت یا حدیث کے کئی ایک احتمالی معانی میں سے ایک معنی کو درجہ احتمال میں ہی تجویز فرما رہے ہیں۔مزید براں یہ بات قابلِ غور ہے کہ امام صاحب نے عقل و نقل کو موردِ تعارض نہیں بنایا بلکہ تعارض کو عقل اور نقل کے ظاہری معنی کے مابین موڑ دیا ہے۔گویا امام صاحب نے کمالِ فراست کے ساتھ تعارضِ عقل و نقل کا سوال ہی فنا کے گھاٹ اتار دیا ہے۔آپ نے فلاسفہ کی تمام تر چاندماریوں کی(کہ جو قرآن حکیم کو خلافِ عقل باور کرواتی تھیں) گویا یہ کہہ کر بیخ کنی کر دی ہے کہ جسے تم عقل و نقل میں تعارض قرار دے رہے ہو وہ تو عقل اور نقل کے محض ایک احتمالی اور ظاہری معنی کے درمیان تعارض ہے۔بلاشبہ ایسی ژرف نگاہی فخر الدین رازی کے ہی شایان شان ہے اور یقینا اس پر آپ بے پناہ داد کے مستحق ہیں۔گزارش ہے کہ یہ مقام ان لوگوں کے لیے خصوصا لائقِ اعتناء ہے جو کلامِ امام کے سوءِ فہم کے باعث امام صاحب پر یہ الزام دھرتے ہیں کہ آپ نے تعارضِ عقل و نقل کا قول اختیار کر کے نقل پر عقل کو ترجیح دی ہے۔

امام رازی رحمہ اللہ کے کلام کو بنظرِ غائر دیکھا جائے تو عقل قطعی و ظاہرِ نقل کی باہمی آویزش کی صورت میں عملا ہمارے پاس دو ہی راستے بچتے ہیں۔اول یہ کہ ہم نقلِ متشابہ کے ظاہری اور احتمالی معنی کو اس کا لازمی معنی قرار دے کر اس تعارض کو عقل و نقل کا تعارض بنا لیں اور معاندین کو یہ کہنے کا موقع فراہم کر دیں کہ ‘شرع خلافِ عقل ہے’۔دوم یہ کہ ہم اس تعارض کو عقل قطعی اور نقل کے احتمالی معنی کے مابین کشاکشی کا ہی عنوان دیں اور نقل متشابہ بابت تاویل یا تفویض کا طور اپناتے ہوئے تعارض کے بیشہ خارزار سے نقل کو صحیح و سلامت نکال لے جائیں۔امام فخرالدین رازی نے یہی ڈگر اپنائی اور معاندین کی تمام پھبتیوں کا گلا گھونٹ دیا۔

آویزشِ عقل و نقل اور کلامی نظامِ فکر

جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ کلامِ مصنف کی راست معنویت کے تعین میں اس علمی چوکٹھے اور فکری نظام کا کردار طاقِ نسیاں کی زینت نہیں بنایا جا سکتا جس سے مصنف نسبتِ فکری رکھتا ہو۔بنا بریں کلامِ رازی کی صائب تفہیم کے لیے بھی اشعری اور کلامی اقلیمِ فکر کا سفر ناگزیر ہے۔گزارش ہے کہ متکلمین کے ہاں یہ اصول مسلم ہے کہ منقول قطعی اور معقول قطعی کے مابین آویزش محال ہے۔چنانچہ کلام کی امہات کتب کے مطالعہ سے یہ مسئلہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتا ہے۔امام غزالیؒ اپنی شہرہ آفاق کتاب ‘الاقتصاد فی الاعتقاد’ میں رقم طراز ہیں:

“لایتصور ان یشتمل السمع علی قاطع مخالف للمعقول”

“یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ شرع کسی ایسی  قطعی دلیل پر مشتمل ہو جو عقل (قطعی) کے مخالف ہو۔”  (ص 367)

منقولِ قطعی بابت متذکرہ بالا کلام نہایت بے لاگ ہے۔رہی بات متشابہ یا ظنی کی تو اس کے اور عقل قطعی کے مابین واقع ہونے والے اختلاف کی نوعیت کیا ہوگی؟اس کا جواب ہمیں امام غزالی ؒ کے رسالہ ‘قانون التاویل’ کی اس جامع عبارت سے مہیا ہوتا ہے:

“بین المعقول و المنقول تصادم فی اول النظر او ظاھر الفکر” (قانون التاویل 15)

یعنی امام صاحب کے نزدیک معقول و منقول کے مابین کشاکشی سرسری نگاہ اور بادی النظر کا شاخسانہ ہے۔ان عبارات سے متکلمین کا یہ موقف واشگاف ہو جاتا ہے کہ نقل صحیح و عقل قطعی کے مابین حقیقی تعارض ممکن نہیں اور جو نقل ظنی کا عقل قطعی سے تعارض کا شبہ واقع ہوتا ہے اس کا منشاء سرسری و سطحی نگاہ ہے اور وہ محض ظاہری تصادم ہے۔چنانچہ امام غزالی ‘الاقتصاد’ کے خطبہ میں مذہبِ متکلمین بیان فرماتے ہوئے نہایت دو ٹوک پیرائے میں ارقام فرماتے ہیں:

“لا معاندۃ بین الشرع المنقول والحق المعقول”

“شرع منقول اور قطعی معقول میں کوئی تصادم نہیں ہے”

پھر اس موقف کو مزید نکھارتے ہوئے فلاسفہ و معتزلہ کی کج روی کی مذمت کچھ یوں فرماتے ہیں:

“ان من تغلغل من الفلاسفۃ و غلاۃ المعتزلۃ فی تصرف العقل  حتی صادمو بہ قواطع الشرع،ما اتوا الا من خبث الضمائر”

فلاسفہ و غالی معتزلہ نے تصرفاتِ عقل میں غوطہ زنی کی اور محض اپنے  خبث باطن کی وجہ سے قواطعِ شرع سے جا بھِڑے”

عرض ہے کہ گزشتہ سطور میں محولہ رسالہ ‘قانون التاویل’ اپنے موضوع پر ایک شاندار رسالہ ہے جس میں امام غزالیؒ نے تصادمِ عقل و نقل بابت کلامی موقف کے رخ و رخسار کی دلکشی اہل علم کے رو بہ رو کی ہے اور تاویلِ نقل سے متعلق کئی گہر ہائے یک دانہ بساطِ بحث پر بکھیر دیے ہیں۔اسی رسالہ میں آپ جادہ اعتدال پر گامزن گروہ(متکلمین) کا موقف بیان کرتے ہوئے ان کی ایک صفت یہ بیان فرماتے ہیں:

“المنکرۃ لتعارض العقل والشرع” (ص 19)

“جو عقل و شرع میں تعارض کے منکر ہیں”

طرفہ یہ ہے کہ علامہ ابن تیمیہؒ نے اسی ‘گروہ’ پر تنقید کی بنا اس مقدمہ پر کی ہے کہ یہ عقل و نقل کے مابین تعارض کا اثبات کرتے ہیں(نقدِ ابن تیمیہ پر مفصل کلام آئندہ سطور میں آئے گا۔ان شاءاللہ)۔

امام رازی کا تصورِ محکم و متشابہ

پیش ازیں محکم و متشابہ کی قرآنی تقسیم بابت اہل سنت کا تصور اجمالا ذکر کیا جا چکا ہے مگر احباب ہنوز اسے تشنہ وضاحت قرار دے رہے ہیں۔بعض کرم فرما ناقدین نے امام صاحب کے کلام کو اس کے درست سیاق و تناظر سے کاٹ کر امام صاحب کے تصورِ محکم و متشابہ کو محلِ شبہات بنانے کی کوشش کی ہے۔لہذا ناقدین کے التباس کو زائل کرنے اور احباب کے رَم کو کم کرنے کے لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ امام رازی کے ہی کلام سے تصور محکم و متشابہ کی وضاحت نذرِ احباب کر دی جائے۔امام رازی کے نظام فکر میں محکم و متشابہ کوئی الل ٹپ اصطلاحات نہیں ہیں نہ ہی یہ کوئی خالی ظروف ہیں کہ جن میں جس کا جو جی چاہے بھرتا چلا جائے۔آپ نے ‘اساس التقدیس’ ہی میں محکم و متشابہ  کی وجہِ حصر بیان کی ہے۔امام صاحب فرماتے ہیں کہ لفظ کے اولا دو احوال ہیں۔جس معنی کے لیے اسے وضع کیا گیا ہے، اس کے علاوہ اس میں کسی دوسرے معنی کا احتمال پایا جائے گا یا نہیں پایا جائے گا۔اگر وہ لفظ معنی دگر کا محتمل نہیں ہے تو وہ نص ہے اور اگر معنی دگر کا محتمل ہے تو یا تو تمام معانی دوش بہ دوش محتمل ہوں گے یا پھر کوئی ایک معنی راجح ہو گا۔اگر کوئی ایک معنی راجح ہے تو راجح کی طرف نسبت کرتے ہوئے اسے ظاہر کہا جائے گا اور مرجوح کی طرف نسبت کرتے ہوئے اسے موول کہا جائے گا۔اگر تمام معانی برابر محتمل ہیں تو دریں صورت ان سب کی نسبت سے اسے مشترک قرار دیا جائے گا اور ہر ایک کی طرف جداگانہ نسبت کو پیش نگاہ رکھتے ہوئے مجمل کہا جائے گا۔وجہ حصر بیان کرنے کے بعد امام صاحب نے وضاحت فرمائی ہے کہ نص(جس میں دوسرے معنی کا چنداں احتمال نہیں) اور ظاہر(جس میں ایک معنی راجح ہے) کو محکم کہا جاتا ہے اور مجمل اور موول کو متشابہ کہا جاتا ہے۔ (اساس التقدیس 231،232)

امام صاحب کی بیان کردہ محکم و متشابہ کی یہ تعریف ظنی الدلالہ و قطعی الدلالہ کی اس تعریف کے مماثل ہے جو فقہاء اور اصولیین کے ہاں مسلم ہے کہ جس کلام میں کسی دلیل سے معنی دگر کا احتمال پھوٹے اسے ظنی کہتے ہیں اور اس کے برعکس کو قطعی کہتے ہیں۔لہذا یہ محض دروغ بے فروغ ہے کہ امام صاحب قطعیات کو بھی متشابہ میں شامل سمجھتے ہیں۔

ایک اشکال کا دفعیہ

بعض ناقدین امام صاحب کے اس موقف کو بغرض اشکال پیش فرما رہے ہیں کہ امام صاحب نقل کی قطعیت کے لیے اس کے مدمقابل کسی قطعی عقلی معارض کا نہ ہونا ضروری قرار دیتے ہیں۔گزارش ہے کہ امام صاحب کے اس موقف کو بھی ان کے قائم کردہ مجموعی تناظر اور کلامی  کینوس سے جدا کر کے حیطہ فہم میں نہیں لایا جا سکتا۔نیز اس کلام کی صائب تفہیم کے لیے امام صاحب کے ‘روئے سخن’ سے چشم پوشی بھی نہیں کی جا سکتی کیونکہ کلام کی راست تفہیم ‘روئے کلام’ کی تشخیص کا تقاضہ کرتی ہے جیسا کہ پیش ازیں معروض ہوا۔اصولی و تمہیدی نکات کے بعد عرض ہے کہ امام صاحب کا یہ موقف دراصل معتزلہ و مجسمہ کے رو بہ رو ‘پیرایہِ جدال’ میں اسی مسلمہ اصول کا اظہار ہے کہ عقل قطعی اور نقل قطعی میں تعارض ممکن نہیں۔امام صاحب نے زیر بحث باب کا عنوان کچھ یوں باندھا ہے:”الطریق الذی یعرف بہ کون الآیۃ محکمۃ اور متشابہۃ” یعنی “وہ طریقہ جس سے آیت کا محکم و متشابہ ہونا پہچانا جائے”۔پھر امام صاحب ازخود وضاحت فرماتے ہیں کہ اس باب اور اس طریقہ کے بیان کی نوبت کیوں آئی؟آپ فرماتے ہیں:

“لان کل واحد من اصحاب المذاہب یدعی ان الآیات الموافقۃ لمذھبہ محکم والآیات الموافقۃ لمذھب الخصم متشابہ فالمعتزلی یقول ۔۔۔ الخ” (اساس التقدیس 234)

“کیونکہ مختلف فرق و مسالک میں سے ہر ایک یہ دعوی کرتا ہے کہ جو آیات اس کے  مذہب کے موافق ہیں وہ محکم ہیں اور جو خصم کے مذہب کے موافق ہیں وہ متشابہ ہیں سو  معتزلی یہ کہتے ہیں کہ فمن شاء فلیومن و من شاء فلیکفر محکم ہے جب کہ اہل سنت  کہتے ہیں کہ وما تشاءون الا ان یشاء اللہ محکم ہے۔”

اس باب کے قائم کرنے یا اس طور کے بیان کرنے کی یہ وہ توجیہ ہے جو امام صاحب نے بہ قلم خود بیان فرمائی ہے۔اس توجیہ و توضیح سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ امام صاحب کا مقصود معتزلہ سے مجادلہ ہے۔آپ کے کلام کا مرام مجالِ جدال ہی میں اہل سنت اور فرق باطلہ کے مستدلات کے مابین ایک ‘فارق’ قائم کرنا ہے۔بنا بریں آپ نے ‘بغرض جدال’ اسی مسلمہ اصول( قطعیات میں تعارض ممکن نہیں) کو محکم و متشابہ کے مابین وجہِ امتیاز اور ان کی پہچان کا طریقہ بنا دیا۔آپ نے معتزلہ و مجسمہ وغیرہ پر گویا یہ کہہ کر تاخت کی ہے کہ تمہارے مستدلات اگر محکم ہیں تو پھر عقل قطعی کے مخالف کیوں ہیں؟غور کیا جائے تو یہ اسی مسلمہ اصول کے اظہار کی ایک مختلف تعبیر ہے۔بہ الفاظ دگر آپ کے سامنے سوال یہ تھا کہ معتزلہ،مجسمہ اور دیگر فرق باطلہ بھی تو اپنے اپنے مواقف پر ظواہرِ آیات سے استدلال کر کے انہیں محکم قرار دیتے ہیں لہذا ان کی تردید کیونکر کی جائے گی؟محکم و متشابہ کے مابین مابہ الامتیاز کیا ہو گا؟امام صاحب نے اسی سوال سے تعرض کرتے ہوئے یہ ‘جدالی اصول’ بیان کر دیا کہ فرقِ باطلہ کے مستدلات کی ظنیت طشت از بام کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ اس مستدل کے معارض کوئی قاطع عقلی ہے یا نہیں۔اگر کوئی قاطع عقلی اس کے مقابل موجود ہے تو لازم ہے کہ ان کا وہ مستدل قطعی و محکم نہیں بلکہ ظنی و متشابہ ہے کیونکہ “عقل قطعی اور نقل قطعی کے مابین آویزش محال ہے”۔گزارش ہے کہ یہ وہی موقف ہے جس کا اظہار کتب فقہاء میں جا بہ جا موجود ہے کہ ظنی الدلالہ وہ ہوتا ہے جس میں ‘ناشی عن الدلیل’ معنی دگر کا احتمال ہو اور قطعی الدلالہ وہ ہوتا ہے جس میں ایسا کوئی ‘ناشی عن الدلیل’ احتمال نہ ہو۔یہ وہی موقف ہے جسے شاطبیؒ نے موافقات میں یوں بیان فرمایا:

“الأدلۃ الشرعيۃ لا تنافي قضايا العقول، لو نافتھا لم تكن  أدلۃ للعباد علی حكم شرعي” (الموافقات 3/208)

“ادلہ شرعیہ عقلی قضایا کے منافی نہیں ہو سکتے،اگر وہ عقلی قضایا کی نفی کریں  گے تو لوگوں کے لیے حکم شرعی پر دلیل نہ رہیں گے”

بلکہ یہ وہی موقف ہے جس کا اظہار علامہ ابن تیمیہ نے ‘رسالہ تدمریہ’ میں اثباتِ عقیدہ کے دوران فرمایا،آپ رقمطراز ہیں:

“سمع قد دل عليہ، ولم يعارض ذلك معارض عقلي  ولا سمعي،فيجب إثبات ما أثبتہ الدليل السالم  عن المعارض المقاوم” (الرسالۃ التدمريۃ  34)

“اس پر سمع دلالت کناں ہے دراں حالیکہ کوئی عقلی و سمعی دلیل اس کے  معارض نہیں ہے۔بنا بریں ایسے(عقیدہ) کا اثبات ضروری ہے جو معارض و مزاحم (عقلی و سمعی) سے پاک دلیل کے ذریعے پایہ ثبوت کو پہنچا ہے”

معلوم ہوا کہ علامہ ابن تیمیہ خود بھی دلیل سمعی کے واجب القبول ہونے کے لیے اس کے مقابل ‘معارض عقلی’ نہ ہونے کو بہ طور دلیل پیش فرما رہے ہیں۔یعنی علامہ صاحب کے نزدیک بھی دلیل سمعی کا قبول کرنا اس وقت ضروری ٹھہرتا ہے جب اس کے مقابل کوئی معارض عقلی موجود نہ ہو۔اگر ‘معارض عقلی’ کے ہونے یا نہ ہونے سے نقل کی صحت و قطعیت پر کوئی فرق مرتب نہیں ہوتا تو پھر ‘معارض سے سلامتی’ کو بہ طور دلیل پیش کرنے کی کوئی معنویت باقی نہیں رہ جاتی۔اگر یہ کہا جائے کہ علامہ صاحب نے محض معاندین پر اتمام حجت کے لیے اس کو بہ طور دلیل پیش فرمایا ہے تو یہی بات تو ہم کلامِ رازی بابت کہتے ہیں کہ آپ نے بھی مجسمہ و معتزلہ کی سٹی گم کرنے واسطے تعارض عقل و نقل بابت مسلمہ قانون کو آہنگِ جدال میں دہرایا ہے۔

گزارش ہے کہ موقفِ رازیؒ کی درست تفہیم کے لیے دریں باب متکلمین کے تصور عقل سے شناسائی بھی ضروری ہے۔متکلمین جس عقل کو ‘فیصلِ تعارض’ اور ‘مجاز تاویل’ ٹھہرا رہے ہیں وہ کانٹ کی عقلِ محض یا لاک کی عقل تجربی نہیں ہے،نہ ہی وہ کسی ملحد کی عقل انکاری ہے۔متکلمین کے ہاں ‘عقل سلیم’ کا باقاعدہ تصور پایا جاتا ہے۔یہ وہ عقل ہے جو درِ ایمان پر سرِ نیاز خم کر چکی ہے،جس کے پیش قیاسی قضیہ جات ہدایت ربانی سے ماخوذ ہیں،جس نے ایمان کے سامنے زانوئے تلمذ طے کر کے ‘لیس کمثلہ شیئ’ کا درس لیا ہے،جو تنزیہہ و تشبیہ کے جملہ امتیازات ازبر کر چکی ہے۔

انتقادِ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ

موقفِ رازی کی سیاحی کے بعد اب وقت آن پہنچا ہے کہ انتقادِ ابن تیمیہ کی طرف زمام کشی کی جائے۔علامہ صاحب کا ‘موردِ تنقید’ اور ‘ہدفِ تنقید’ آغازِ تحریر میں خاصی حد تک بیان کیا جا چکا ہے۔آپ کی انتقادی سرگرمی دو مراحل میں منقسم ہے۔پہلے مرحلہ میں آپ نے امام رازی اور متکلمین کے نظامِ فکر پر تردیدی تاخت فرمائی ہے اور دوسرے مرحلہ میں آویزشِ عقل و نقل بابت اپنے حاصلاتِ فکر منصہ شہود پر لائے ہیں۔دونوں مراحل التباس،اختلال اور چند در چند داخلی تناقضات کا شاہکار ہیں۔

تردیدِ امام رازی و متکلمین:

علامہ صاحب  آغازِ کتاب میں امام رازی کے بیان کردہ ‘قانونِ کلی’ کو خاصی تحریف شدہ حالت میں ذکر فرماتے ہیں اور پھر اس تحریف کو ‘دوآتشہ’ کرتے ہوئے کارِ تردید کا در کچھ یوں وا کرتے ہیں:

“وھذا الكلام قد جعلہ الرازی واتباعہ قانونا كليا فيما يستدل بہ  من كتب اللہ تعالی , وكلام انبيائہ عليھم السلام , وما لا يستدل بہ” (درء تعارض العقل والنقل 1/4,5)

“یہ وہ کلام ہے جسے رازی اور ان کے پیروکاروں نے کتب الہی اور کلام انبیاء بابت ‘قانونِ کلی’ قرار دیا ہے کہ کتب الہی اور کلام انبیاء کے کس  حصے سے استدلال کیا جائے گا اور کس حصے سے استدلال نہیں کیا جائے”

بلاشبہ علامہ صاحب نے مذکورہ عبارت میں متکلمین پر نہایت سنگین الزامات چسپاں کیے ہیں۔آپ نے نہایت رواروی سے ‘متشابہات’ بابت بیان کردہ قانون کلی کو پہلے تو محکم و متشابہ دونوں سے نتھی کر دیا اور بعد ازاں اس قانون کی ماہیت و نوعیت کو یوں بدل کر رکھ دیا کہ جو قانون سراسر ‘متشابہات’ کے احتمالی معانی میں سے ایک کے ‘امکانی اختیار’ یا کلی تفیوض بابت تھا اسے متکلمین کی طرف سے قرآن و سنت کے قابلِ استدلال ہونے یا نہ ہونے کا پیمانہ قرار دے دیا۔گویا آپ نے امام رازیؒ اور متکلمین پر یہ اتہام جڑا ہے کہ ان کے نزدیک قرآن و سنت دو حصوں میں تقسیم پذیر ہے،ایک وہ حصہ جو قابلِ احتجاج ہے اور دوسرا وہ جو ناقابلِ احتجاج ہے۔پھر آپ صریح الفاظ میں اس اتہام کا اعادہ یوں فرماتے ہیں:

“ولھذا ردوا الاستدلال بما جاء بہ الانبياء والمرسلون فی صفات اللہ تعالي” (ایضا 1/5)

“اور اسی بنا پر انہوں نے صفات الہی بابت انبیاء کرام کی لائی  گئی ہدایت سے استدلال کو مردود ٹھہرا دیا ہے”

ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:

“فی ھذا الکتاب بینا فساد القانون الفاسد  الذی صدوا بہ الناس عن سبیل اللہ” (ایضا 1/20)

“اس کتاب میں ہم نے اس قانونِ فاسد کا فساد عیاں کر دیا ہے  جس کے ذریعے یہ(متکلمین) لوگوں کو راہِ خدا سے روکتے ہیں”

یعنی تجسیم و تشبیہ کے مردود خیالات و اوہام کی راہ کو بذریعہ تاویل و تفویض(جو کہ شیوہ سلف رہا ہے) مسدود کر دینا راہ خدا سے روکنا ہے؟اور متشابہات یا ظنیات کے احتمالی معانی میں سے ایک کو اختیار کرنا قرآن و سنت کو رد کرنا ہے؟اگر ایسا ہے،پھر تو سلف کی ایک کثیر تعداد بھی معاذاللہ اس جرم عظیم کی مرتکب رہی ہے۔امام شافعیؒ نے تو ‘الرسالہ’ میں باقاعدہ ایک باب اس عنوان سے قائم کیا ہے کہ “الصنف الذی یدل لفظہ علی باطنہ دون ظاہرہ” یعنی “قرآن و سنت کی وہ صنف کہ جس کا لفظ اس کے ظاہری معنی کی بجائے پوشیدہ معنی پر دلالت کناں ہے”۔تو کیا امام شافعیؒ بھی دربارِ ابن تیمیہ رح سے ‘خلعتِ جرم’ پائیں گے یا پھر متکلمین کا قصور فقط یہ ہے کہ انہوں نے اس کارِ تاویل کو منضبط قاعدہ و قانون کی صورت میں ایک مضبوط اساس مہیا کر دی؟گزارش ہے کہ علامہ صاحب کی یہ عبارت بلکہ آپ کی پوری تصنیف ہی اس شدت آمیز ‘حرفیت پرستی’ (Literalism  ) کا شاخسانہ ہے جس کے بنیاد گزاروں میں علامہ صاحب کا نام نہایت نمایاں ہے۔

تاویل کا نزاع:

ممکن ہے بعض شیفتگانِ ابن تیمیہؒ ‘تاویل’ سے متعلق علامہ صاحب کے قائم کردہ مبحث کی طرف اشارہ فرمائیں کہ علامہ صاحب نے تو سلف اور متکلمین کی ‘تاویل’ میں ‘فرق’ بیان کیا ہے۔بنا بریں بہتر ہو گا کہ علامہ صاحب کے بیان کردہ ‘فرق’ کو اختصارا طشت از بام کر دیا جائے۔علامہ صاحب اپنے جملہ مواقف کو کچھ اس شِکَوہ سے سلف کا موقف باور کرواتے ہیں اور فریقِ مخالف کے ہر موقف کو کچھ اس جلالت سے مخالفتِ سلف کی سند عطا کرتے ہیں گویا موقفِ ابن تیمیہ کا موقفِ سلف ہونا پیش تنقیدی (pre-critical ) قضیہ یا بدیہی الثبوت مسلمہ ہے۔مبحثِ تاویل میں بھی آپ اسی شکوہِ کاذب کو بروئے کار لائے ہیں۔آپ نے قرآن و سنت میں اپنی کی گئی تاویلات کو ‘منہجِ سلف’ سے جواز یافتہ قرار دیتے ہوئے متکلمین کی تاویلات کو یہ کہہ کر بہ یک جنبشِ قلم مسترد کر دیا ہے کہ یہ تاویلات سلف کے متعین کردہ نہج پر استوار نہیں ہیں۔علامہ صاحب لفظ تاویل کے کئی ایک معانی بیان کرتے ہوئے سلف سے نقل شدہ تاویل کا وہ معنی بیان کرتے ہیں کہ جس کے متکلمین قائل ہیں یعنی ‘لفظ کو ظاہری معنی سے کسی دوسرے پوشیدہ معنی کی طرف پھیر دینا’۔لیکن پھر عجیب و غریب ‘تاویل’ کے ذریعے متکلمین اور سلف کی مراد و مقصود میں یہ فرق بیان کرتے ہیں کہ تاویل سے سلف کا مقصود ‘دفع معارض’ نہیں بلکہ ‘منشائے متکلم’ کی تلاش تھا اور متکلمین کا مقصود ‘منشائے متکلم’ نہیں ‘دفعِ معارض’ ہے۔یعنی یہاں علامہ صاحب نے یہاں یہ خود ساختہ مفروضہ قائم کر لیا ہے کہ سلف کو ‘دفعِ معارض’ سے کوئی کام نہیں اور متکلمینِ کو ‘منشائے متکلم’ سے کوئی غرض نہیں۔یہ فرق علامہ صاحب کی مکمل انتقادی سرگرمی ہی کی مانند انتہائی رکیک اور اپنے دامن میں انتہائی اختلال و التباس لیے ہوئے ہے۔

گزارش ہے کہ تاویل کی جولان گاہ میں اولین قلانچ بھرنے کا اولین مقصد ‘منشائے متکلم’ کی جویائی ہی ہوا کرتا ہے لہذا یہ کہنا نری مغالطہ آمیزی  اور آنکھوں میں دھول جھونکنا ہے کہ موول کو ‘منشائے متکلم’ سے چنداں غرض نہیں ہے۔متکلمین تو کجا معتزلہ یا فلاسفہ بھی جب دشتِ تاویل میں قدم زن ہوتے ہیں تو یقینا ‘منشائے متکلم’ ہی کی تلاش کر رہے ہوتے ہیں۔رہے ‘معارض’ اور ‘دفعِ معارض’ تو یہ سب ‘منشائے متکلم’ کی تلاش کے لیے مہمیز اور اس کے تعین میں ممد و معاون اوزار کی طرح ہوتے ہیں۔سلف نے بھی یقینا بعض خارجی عوامل ہی کی بدولت تاویل کے اکھاڑے میں قدم رنجہ فرمایا ہے۔سوال یہ ہے کہ ظاہری معنی کے عیاں ہونے کے باوجود ‘منشائے متکلم’ کی ‘تلاش’ کی نوبت ہی کیوں آتی ہے۔کچھ ‘معارض’ کا پیش آ جانا اور پھر ان کے دفعیہ کے لیے کمر بستہ ہو جانا ہی تو اس ‘تلاش’ کا باعث بنتا ہے۔ظاہری معنی میں کوئی اختلال،کوئی احتمال،کوئی اضمحلال نظر آتا ہے تبھی تو موول و مفسر کا ماتھا ٹھنکتا ہے کہ یہاں ‘منشائے متکلم’ وہ نہیں جو سامنے دکھائی دے رہی ہے بلکہ وہ ہے جو درونِ لفظ نہاں اور ورائے ظاہر عیاں ہے۔

علامہ صاحب کے حاصلاتِ فکر:

ایک سنجیدہ قاری کے لیے انتقادِ ابن تیمیہؒ کی خشت اول ہی آنے والی تردید اور علامہ صاحب کے حاصلات فکر کی پیش بینی کر دیتی ہے۔سنگین الزامات کے بعد علامہ صاحب سلسلہ تردید کو مزید بڑھاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ موقفِ متکلمین کی اساس تین مقدمات ہیں۔پہلا مقدمہ عقل و نقل کے مابین تعارض کا اثبات ہے۔دوسرا مقدمہ تعارض کو (قانون کلی میں بیان شدہ)چار صورتوں میں ہی منحصر گرداننا ہے۔اور تیسرا مقدمہ یہ ہے کہ ان چار صورتوں میں سے تین صورتیں باطل ہیں۔بعد ازاں علامہ صاحب فیصلہ صادر فرماتے ہیں کہ یہ تینوں مقدمات باطل ہیں۔پھر آپ کشمکشِ عقل و نقل بابت اپنے حاصلات فکر افشا کرتے ہیں،جس کا ماحصل یہ ہے کہ عقل و نقل دونوں اپنے دامن میں قطعیت لیے ہوئے ہوں گے یا دونوں لبادہ ظنیت میں ملبوس ہوں گے یا پھر عقل،ظنی ہوگی اور نقل قطعی ہوگی یا پھر معاملہ اس سے برعکس ہوگا۔آپ فرماتے ہیں کہ پہلی دو صورتوں میں تو تعارض ممکن ہی نہیں اور دوسری صورت میں راجح کو اختیار جائے گا۔تیسری صورت میں نقل قطعی مختار ہو گی اور چوتھی صورت میں عقل قطعی کو نقل ظنی پر ترجیح دی جائے گی۔علامہ صاحب کی عبارت حسبِ ذیل ہے:

“قولہ “اذا تعارض العقل والنقل” اما ان يريد بہ القطعيين , فلا نسلم امكان التعارض حينئذ , واما ان يريد بہ الظنيين , فالمقدم ھو الراجح مطلقا,واما ان يريد بہ ما احدھما قطعی ,فالقطعی ھو المقدم مطلقا ,واذا قدر ان العقلی ھو القطعی,كان تقديمہ لكونہ قطعيا , لا لكونہ عقليا۔” (ایضا 1/78،86،87)

انتقاد کی اساس ایک بے اساس مفروضہ!

علامہ صاحب نے صراحتا یہ تاثر دیا ہے کہ امام رازی اور متکلمین علی الاطلاق عقل و نقل کی آویزش کے قائل ہیں اور علی الاطلاق عقل کو نقل پر مقدم مانتے ہیں چنانچہ آپ انتقاد کا حتمی نتیجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

“فعلم ان تقديم العقلی مطلقا خطأ” (ایضا)

“معلوم ہوا کہ عقل کو علی الاطلاق مقدم ٹھہرانا غلطی ہے”

آپ نے اسی مفروضہ کو اپنے بلند و بالا کاخِ انتقاد کی نیو  بناتے ہوئے متکلمین کو “راہ خدا سے روکنے والے” اور “قرآن و سنت سے استدلال کو رد کرنے والے” ایسے القاب سے نوازا ہے۔پیش ازیں یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ امام رازیؒ اور متکلمین کا بیان کردہ ‘قانون کلی’ محض متشابہات/ظنیات سے متعلق ہے نیز قطعیات میں تعارض کو متکلمین محال قرار دیتے ہیں جبکہ ظنیاتِ شرع اور عقل قطعی کے مابین تعارض کو بھی وہ سرسری نگاہ اور بادی النظر کی کارستانی قرار دیتے ہیں۔علامہ صاحبؒ نے امام رازیؒ کے کلام کو نہ صرف اس کے مجموعی تناظر سے محروم کیا ہے بلکہ کلامِ رازی ہی میں صراحت سے مذکور ‘عقل قطعی’ اور ‘متشابہات’ ایسے الفاظ کو بھی پس پشت ڈال دیا ہے۔عرض ہے کہ اس تمام تر وضاحت کے بعد امام صاحب کے اس الزام کی کیا اخلاقی و علمی حیثیت باقی رہ جاتی ہے کہ متکلمین نہ صرف عقل و نقل میں تعارض کو ثابت کرتے ہیں بلکہ علی الاطلاق عقل کو نقل پر ترجیح بھی دیتے ہیں؟یقینا یہ ایک بے اساس مفروضہ ہے۔یعنی امام صاحب جس مقدمہ کو متکلمین کا مقدمہ فرض کر کے اس پر تابڑ توڑ حملے فرما رہے ہیں وہ متکلمین کا مقدمہ سرے سے ہے ہی نہیں۔ایسے بے سر و پا نقد سے ‘مورد نقد’ پر کوئی سوال اٹھے یا نہ اٹھے،صاحبِ نقد کی علمی پاسداری ضرور محلِ سوال بن جایا کرتی ہے۔

تقسیم ابنِ تیمیہ بمقابلہ تقسیم رازی؟

امام رازی کی بیان کردہ حصری تقسیم کے ‘مقابلہ’ میں علامہ صاحب کا اپنی تقسیم سامنے لانا بھی دنیائے علم کا نرالا واقعہ ہے۔ان دونوں کا تقابل کیونکر ہو سکتا ہے کہ امام رازی تو محض نقل ظنی اور عقل قطعی کے مابین آویزش کی صورتیں بیان فرما رہے ہیں جبکہ علامہ صاحب علی الاطلاق تعارضِ عقل و نقل کو حیطہ تحریر میں لا رہے ہیں۔گزارش ہے کہ علامہ صاحب کی بیان کردہ تقسیم کو امام رازی کی تقسیم کے مد مقابل لے آنا تو یقینا انوکھا کارنامہ ہے تاہم علامہ صاحب کی تقسیم فی نفسہ جہانِ علم کا کوئی نیا ظاہرہ نہیں ہے اور نہ ہی یہ علامہ صاحب کی ذاتی اپج ہے۔قعطیات میں تعارض ممکن نہیں اور ظنیات میں راجح مقدم ہے،یہی امام رازی اور متکلمین کا مذہب ہے۔عقل ظنی اور نقل قطعی میں نقل راجح ہو گی،یہی امام صاحب اور متکلمین کا مذہب ہے۔رہی آخری صورت کہ نقل ظنی پر عقل قطعی مقدم ہو گی تو اس باب میں امام رازی رح اور متکلمین کا شیوہِ بیان احوط ہے کہ وہ اس تعارض کو عقل قطعی اور نقل ظنی کے ایک احتمالی معنی کی کشا کشی بنا چھوڑتے ہیں جبکہ علامہ صاحب تو یہ کشٹ اٹھانے سے بھی گریز پا رہے۔شاید اس کی وجہ علامہ صاحب کی وہی شدت آمیز ‘حرفیت پرستی’ (Literalism )ہے جو نقل کے احتمالی مگر ظاہری معنی کو نقل کا اٹوٹ انگ قرار دیتی ہے۔اس حرفیت پسندی کو یہ تو گوارا ہے کہ رفعِ تعارض کے لیے ناچار عقل کو نقل پر ترجیح دے دی جائے لیکن یہ قبول نہیں کہ ظاہری معنی کو نقل سے الگ بیان کر دیا جائے۔یہاں یہ وضاحت کر دینا ضروری ہے کہ علامہ صاحب نے جہاں عقل قطعی کو  نقل ظنی پر تقدیم سے نوازا ہے وہیں پہلو بہ پہلو یہ پرلطف نکتہ بھی ارزاں کیا ہے:

“كان تقديمہ لكونہ قطعيا , لا لكونہ عقليا” (ایضا 1/87)

“عقلی دلیل کو قطعی ہونے کی وجہ سے مقدم کیا جائے گا نہ کہ  عقلی ہونے کی بنا پر”

لیکن سوال یہ ہے کہ اس سے نفس الامر میں کیا فرق پڑتا ہے۔دلیل عقلی کی ترجیح و تقدیم تو بہرصورت برقرار رہتی ہے۔علاوہ ازیں،پیرایہ اطلاق میں بیان کردہ اس ابطال کا کیا ہوا کہ نقل و عقل میں تو تعارض ممکن ہی نہیں؟علامہ صاحب کے اس بیان کی پشت پر بھی آپ کا وضع کردہ وہی بے بنیاد مفروضہ کارفرما ہے کہ امام رازی اور متکلمین علی الاطلاق عقل کو نقل پر راجح قرار دیتے ہیں۔گزشتہ سطور میں اس مفروضہ کا بے اساس ہونا بیان کیا جا چکا ہے۔اپنی فکر ارزاں کرنے کے بعد علامہ صاحب نے امام رازی رح کے اس موقف پر تاز فرمائی ہے کہ ‘سمع کا اثباتِ علمی چونکہ عقل قطعی پر موقوف پر لہذا عقل قطعی کو ظاہرِ نقل پر فوقیت دی جائے گی’۔علامہ صاحب اس موقف کی تردید میں خاصا زور صرف فرماتے ہیں اور پھر آپ کی تردید کی تان یہاں آن کر ٹوٹتی ہے کہ تمام معقولات پر نہیں بلکہ صرف چند ایک معقولات پر سمع موقوف ہے۔سوال پھر یہی ہے کہ اس سے نفس الامر میں کیا فرق مرتب ہوا؟چند کہیں یا تمام،موقوف تو آپ بھی عقل پر ہی قرار دے رہے ہیں۔نیز متکلمین یا امام رازی نے یہ دعوی کیا ہی کب ہے کہ تمام معقولات پر شرع کا علم موقوف ہے؟گزارش ہے کہ اس تمام تر بحث کے پیچھے بھی علامہ صاحب کا وہی بیان کردہ بے بنیاد مفروضہ کام کر رہا ہے۔

حاصلِ بحث

آخرش عرض ہے کہ انتقادِ ابن تیمیہ کے مطالعہ کے بعد یہ فیصلہ کرنا دشوار ہو جاتا ہے کہ آیا یہ علامہ صاحب کا اپنا نظام فکر ہے یا پھر متکلمین کے نظام فکر پر مہر تصدیق ہے کیونکہ آویزش عقل و نقل بابت علامہ صاحب نے جو “نیا نظامِ فکر” پیش فرمایا ہے، وہ تو پہلے سے ہی متکلمین کی کتب میں جا بہ جا بکھرا پڑا ہے۔علامہ صاحب نے پورے شکوہ کے ساتھ متکلمین پر مشقِ تردید تو فرمائی ہے لیکن اس تردید کا نتیجہ تصویب کی صورت میں برآمد ہوا ہے۔’تصویب بہ رنگ تردید’ کی یہ سرگرمی یقینا بہت دلچسپ ہے جس میں انتقاد تو پورے کروفر کے ساتھ موجود ہے لیکن حاصلِ انتقاد رفوچکر ہو چکا ہے۔خیر وقت آن پہچا ہے کہ رہوارِ قلم کو روک لیا جائے اور بساطِ بحث کو لپیٹ دیا جائے۔خاکسار نے مقدور بھر سعی کی ہے کہ متکلمین اور امام رازی رحمہم اللہ کے موقف کے پیش منظر،پس منظر اور تہِ منظر کو قارئین کے رو بہ رو پیش کر دیا جائے اور پہلو بہ پہلو علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے انتقاد کی راست حیثیت بھی واضح کر دی جائے تاکہ غبار چھٹ جائے اور منظر واضح ہو جائے۔اگر مقصود بر آیا ہے تو فضلِ یزدانی ہے اور اگر کہیں جھول رہ گیا ہے تو اپنی ہیچ مدانی ہے۔خداوند متعال سمجھنے کی توفیق ارزانی فرمائے۔آمین

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں