Home » مدرسہ ڈسکورسز میں فکری مباحث کا منہج
اسلامی فکری روایت مدرسہ ڈسکورسز

مدرسہ ڈسکورسز میں فکری مباحث کا منہج

All-focus

 

مولانا مفتی امانت علی قاسمی 

۲۴ دسمبر ۲٠۱۹ء کو طے شدہ پروگرام کے تحت قطر کے لیے روانگی ہوئی ۔ یہ سفر علمی و فکری ارتقاءاورتحقیق کے بند دریچوں کو کھولنے کے لیے تھا ۔ علم کی کوئی انتہاءنہیں ہے ، علم کی معراج ”لا ادری“ ہے، یعنی جب انسان علم کی معراج کو پہنچتاہے تو معلوم ہوتا ہے مجھے کچھ نہیں معلوم ہے۔ علم کی نہ کوئی حد ہے اور نہ ہی کوئی منزل۔حدیث میں ہے : الحکمۃ ضالۃ المومن حیث وجدھا فہو احق بہا (سنن الترمذی حدیث نمبر ۷۸۶۲) : “حکمت مومن کی متاع گم گشتہ ہے وہ جہاں مل جائے وہی اس کا حقدار ہے” ۔ اس لیے ایک مسلمان کو خاص کر علم کے متلاشی اور میدان علم کے آبلہ پا کو اس کی پوری کوشش ہونی چاہیے کہ علم و حکمت کے جو بھی دروازے ہیں، ان کی تلاش کی جائے اور اپنے لیے اس دروازے کو وا کرنے کی سعی کی جائے ۔ علم و فکر کے جنگلات میں صحرا نوردی کی جائے اور وہاں موجود عودو عنبر کی خوشبو سے فائدہ اٹھایا جائے ۔علم کے جویا کے لیے لازم ہے کہ سفینہ علم میں بیٹھ کر سمندر کے سیر کرے اور وہاں موجود صدف سے اپنے آپ کو مالا مال کرے ۔علم کا یہ حق ہے کہ ہر گلستاں کی سیر کی جائے اور وہاں موجود نسرین و نسترن کی خوشبووں سے اپنے قلب و جگر کو معطر کیا جائے۔یہی وہ جذبہ تھا جس نے مجھے مدرسہ ڈسکورسز کی دہلیز تک پہنچادیا۔

ڈاکٹر وارث مظہری صاحب میرے استاذ ہیں ،ان سے میں نے بہت کچھ سیکھا ہے اور آج بھی علمی موضوعات پر میں ان سے مشورہ لیتا ہوں ۔ڈاکٹر صاحب نے مدرسہ ڈسکورسز کا تذکرہ کیا اور دہلی میں ہونے والے ایک پروگرام کا تذکرہ کیا چنانچہ ۲۳  جولائی۲٠۱۹ء کو ہوئے اس پروگرام میں میں نے شرکت کی ۔ہندوستان بھر سے حضرات اہل علم نے اس میں شرکت کی تھی۔ حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب نے اس میں کلیدی خطبہ دیااور فکراسلامی کو اس وقت کیا چیلنجز درپیش ہیں اور کس نہج پر کام کرنے کی ضرورت ہے، اس پر مولانا نے مفصل روشنی ڈالی ۔مولانا نے جن باتوں کی طرف خاص طور پر توجہ دلائی تھی ،ان میں چند اہم باتیں یہ تھیں :

  • ہمارے دینی مدارس کے فضلاءاور عصری دانش گاہوں کے لوگوں کے درمیان جو ایک خلا ہے، وہ ختم ہونا چاہیے ، ہم دونوں ایک دوسرے کے قریب آئیں تاکہ غلط فہمیاں ختم ہوں ۔
  • ہماری شریعت کے دو پہلو ہیں، ایک علم کلام اور دوسرے شریعت جسے فقہ اسلامی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ہم لوگوں نے فقہ اسلامی کی جانب تو خوب توجہ دی ہے، لیکن علم کلام اور فکر اسلامی کی طرف جس قدر توجہ دینی چاہیے تھی نہیں دی گئی ۔ علم کلام پر ہمارے مدارس میں صرف شرح عقائد پڑھائی جاتی ہے ۔
  • جدید علم کلام میں متعدد اہم موضوعات کو شامل کرنے کی ضرورت ہے : احکام شریعت خاص طور پراسلام کے تعزیراتی قوانین، اسلام او ر بین المذاہب تعلقات ۔ اس موقع پر انہوں نے ایک اہم نکتہ یہ ارشاد فرمایا کہ اس وقت استشراق کی طرح استغراب کی ضرورت ہے۔یعنی مغربی ارباب دانش نے مشرقی علوم وثقافت کو پڑھنے اورسمجھنے کی کوشش کی، اسی طرز پر مسلمانوں کو مغربی علوم وثقافت اور نظریات کو پڑھنے کی ضرورت ہے۔

پروگرام کایہ ابتدائیہ بڑا دلچسپ تھا ،اس لیے میں نے اس پروگرام میں شامل ہونے کا فیصلہ کرلیا ،اور تین ماہ آن لائن کلاسوں میں بھی شریک ہوا جس میں کل بارہ کلاسیں ہوئیں جس میں بڑے دلچسپ فکری اور کلامی مباحث پر گفتگو ہوئی ۔علم کی ایک دنیا سے روشناس ہونے کا موقع ملا۔ آن لائن کلاسوں کی ترتیب بھی وہی تھی جو ونٹر انٹینسو کے پروگراموں کی تھی۔ بس دونوں میں فرق یہ تھا کہ آن لائن کلاسوں میں ہم“زوم ایپلیکیشن” کی کھڑکی سے سب کو دیکھتے اور سنتے تھے اور یہاں اس کھڑکی سے باہربالمشافہہ محاضرات اور ان پر ہونے والی بحثوں کو سننے اور ان پر گفتگو کرنے کا موقع ملا۔

مکمل ایک سمسٹر آن لائن کلاس کرنے کے بعد طے شدہ پروگرام کے مطابق ونٹر انٹینسومیں شرکت کے لیے ہم لوگوں نے قطر کا سفر کیا ۔ یہ ایک ہفتہ کا سفر تھا۔ پروگرام قطر کے بہت ہی خوبصورت اور پرشکوہ یونیورسٹی حمد بن خلیفہ میں تھا ۔یہ یونیورسٹی ایجوکیشن سٹی میں واقع ہے اوربالکل منفرد طرز تعمیر سے آراستہ ہے۔ اس کا ہر حصہ فن تعمیر کا حیرت انگیز شاہ کا رمعلوم ہوتا ہے۔اس کا بیرونی منظر جس قدر دلکش ہے، اسی قدر اس کا اندورنی منظر بھی جاذب نظر اور زائرین کی آنکھوں کو خیرہ کرنے والا ہے۔یونیورسٹی کا آڈی ٹوریم بھی جدید سہولیات سے مزین تھا جس میں سامعین کے سامنے مائک کا نظم تھا ۔ کتاب یا لیپ ٹاپ رکھنے کے لیے ڈیسک ، موبائل اور لیپ ٹاپ چارج کرنے کی سہولت بھی بہم تھی۔ ۲۵ دسمبر سے ۳٠ دسمبر تک یہ پروگرام چلا ، اس دوران وہاں کے تاریخی اور تہذیبی مقامات کو دیکھنے کا بھی موقع ملا، وہاں کی لائبریری ،اور ساحل سمندر پر واقع وسیع اور پرشوکت میوزیم کا نظارہ کیا۔ “غلامی میوزیم ”بھی دیکھا جس میں غلامی کی قدیم وجدید تاریخ، انسانی زندگی اور معاشرے پر اس کے اثرات پرموثر انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس میں ایک لائبریری بھی تھی جس میں صرف غلامی سے متعلق کتابوں کا ذخیرہ تھا۔ان سب پرمستزاد ساحل سمندر کشتی کی سیر کی اس دوران ساحل پر واقع وہاں کی خوشنما عمارتوں کے دل فریب منظر نے لطف کو دوبالا کردیا ۔وہاں کے مشہور بازار ”سوق واقف“ میں قدیم طرز کے بنے ہوئے ترکی ہوٹل میں انڈین او رایرانی پرتکلف ڈشوں کا ذائقہ بھی چکھنے کو ملا ۔ یہت سے دوستوں سے ملاقاتیں ہوئیں، لیکن یہ سب چیزیں ضمنی تھیں ،اصل تو وہ علمی ورک شاپ تھی جس کی کشش ہمیں یہاں کھینچ لائی تھی۔

حقیقت یہ ہے کہ میں نے اس پروگرام سے بڑا فائدہ محسوس کیا ۔ علم کے بہت سے گوشے کھلے ، فکر کے نئے زاویے معلوم ہوئے ۔ ہم مدارس کے فضلاءیہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں مدارس نے بہت کچھ دے دیا ہے، اب مزید کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے ۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس مقدمہ کا آدھا جز صحیح ہے اور آدھا غلط ہے ۔ مدارس نے بہت کچھ دیا ہے، یہ صحیح ہے ۔ مدارس نے ہماری تربیت کی ہے ، اسلامی مزاج بنایا ، مصادر کی طرف رجوع کرنا ،قرآن و حدیث کو زندگی میں بنیاد بنانا ،علم کے ساتھ عمل سے وابستگی کا ذوق۔ ان کے علاوہ بہت کچھ مدارس نے ہمیں سکھایا، لیکن یہ احساس کہ اب مزید کسی چیز کی ضرورت نہیں ،اور اپنے یمین و شمال کی طرف دیکھنا فضول ہے ،میرا احساس ہے کہ یہ غلط ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ عمومی تصور نہ ہو، لیکن کسی نہ کسی حد تک خود ہمارے اندر ابتداءمیں یہ تصور ضرور تھاجو بعد میں تجربہ سے غلط ثابت ہوا ،اس لیے کہ علم کی کوئی انتہاءنہیں ہے۔ مدارس کے فضلاءچیزوں کو جس انداز سے پڑھتے اور سمجھتے ہیں، دوسرے لوگ ضروری نہیں ہے کہ اسی انداز میں سوچیں اور سمجھیں ۔ جب ہم دوسرے لوگوں سے ملتے ہیں، ہمیں اپنی ہی معلومات کے نئے گوشے معلوم ہوتے ہیں ۔ امام اعمش کا مشہورواقعہ ہے کہ امام ابوحنیفہ سے ایک مسئلہ معلوم کیا گیا جس کا انہوں نے جواب دیا ۔اس پر امام اعمش نے پوچھا کہ تم نے یہ جواب کہاں سے دیا؟ تو امام ابوحنیفہ نے کہا کہ آپ نے جو روایت ابراہیم نخعی سے اور انہوں نے امام شعبی سے بیان کی ہے، اسی کی روشنی میں میں نے یہ جواب دیا۔اس پر امام اعمش نے کہا: یا معشر الفقہاء انتم الاطباء و نحن الصیادلۃ (الفقیہ و المتفقہ ۱/۴۳۴) معلوم ہوا کہ صرف فکر کے زاویے بدلنے سے بہت سے مسائل حل ہوجاتے ہیں ۔ امام اعمش کے پاس وہ حدیث تھی، لیکن ان کے پاس فکر کا وہ پیمانہ نہیں تھا ، جو امام ابوحنیفہ کے پاس تھا ۔ اس لیے جب ہم مختلف فکراور مختلف خیال لوگوں کے درمیان بیٹھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات تو ہمیں بھی معلوم تھی، لیکن اس یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے، یہ ہمیں معلوم نہیں تھا۔

مدرسہ ڈسکورسز کے پروگرام میں ہم نے یہی سیکھا کہ جب ہم دوسرے لوگوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں وسعت اور فکر میں بلندی پیدا ہوتی ہے ۔گویا کہ مدرسہ ڈسکورسز پروگرام ہماری نگاہ کو عقابی بناتا ہے،ہمارے فکر اورحوصلے کو شاہین کا جگر دیتا ہے ۔ مدرسہ ڈسکورسز کے ایک اہم استاذ ڈاکٹر شیر علی تارین ہیں جو چھ سات زبان میں مہارت رکھتے ہیں۔ پاکستانی ہیں  اور امریکہ میں اسلامک اسٹڈیز کے استاذ کی حیثیت سے ایک فرینکلن اینڈ مارشل کالج، پنسلوانیا میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔آپ اردو ، عربی اور انگلش تینوں زبان میں روانی سے بولتے ہیں ۔برصغیر میں اسلامیات کی صورت حال پر انہوں نے پی ایچ ڈی کی ہے ۔ حضرت نانوتویؒ اور حضرت حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحبؒ کی کتابوں کا اچھا مطالعہ کیا ہے ۔ ہمارے پروگرام میں حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ کی کتاب “مباحثہ شاہ جہاں پور” بھی شامل تھی۔ اس کتاب کا میں نے مطالعہ کرلیا تھا ، لیکن ڈاکٹر شیر علی تارین نے اس کتاب کا جس انداز سے تجزیہ کیا، وہ ہمارے لیے بالکل نیا تھا ۔اس سے محسوس ہوا کہ اس کتاب کے مطالعہ کے دوران ان پہلو وں کو بھی سامنے رکھنا چاہیے تھا جو ہم نے نہیں رکھا ۔ ان کے اس تجزیاتی مکالمے سے مطالعہ کا زاویہ اور نقطہ نظر معلوم ہوا  اور استدلالی منہج کے ایک نئے تجربے سے آشنائی ہوئی ۔یہ حقیقت ہے جس میں کوئی مبالغہ آمیزی نہیں ۔

مدرسہ ڈسکورسز کے روح ورواں جن کی فکر سے یہ نئی بزم آباد ہوئی ہے، وہ پروفیسر ابراہیم موسی صاحب ہیں جو دیوبند و ندوہ کے فیض یافتہ ہیں۔ اس وقت امریکہ کی نوٹرے ڈیم یونیورسٹی میں اسلامک اسٹڈیز کے پروفیسر ہیں۔ امام غزالی سے خاص مناسبت ہے۔ اس پروجیکٹ کے یہی ذمہ دار وسرپرست ہیں ۔ان کی فکر یہ ہے کہ مدراس کے فضلاءکا فکر ارتقاءہو اور جدید چیلنجزکو جدید اسلوب میں حل کرنے کی ان کے اندر صلاحیت پیداہو ۔ وہ دنیا میں ہورہے انقلابات سے واقف ہوں ۔ اسلامو فوبیا کا جو سیلاب بڑی تیز ی سے اسلام کو مجروح کررہا ہے، ہمارے فضلاءان کا مسکت جواب دے سکیں ۔ مغربی مفکرین اسلام کو کس انداز میں پڑھتے ہیں اور اسلام کو کس طرح سمجھتے ہیں، ہمارے فضلاءبھی ان سے واقف ہوں۔ ا س سے ان کی فکر کی پروازبلند ہوگی ، ذہن میں عمق ، گہرائی اور وسعت پیداہوگی ۔

ڈاکٹر وارث مظہری صاحب بھی اس پروگرام کا حصہ ہیں ، اور ہندوستانی طلبہ کو لیڈ کرتے ہیں ۔ ان کی فکر میں کافی توسع اور اعتدال ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اسلامی مفکرین ،شاہ ولی اللہ ، علامہ شاطبی ، ابن تیمیہ ، رازی وغزالی کے افکار کو کثرت سے پڑھا ہے اور جب آدمی اتنے بڑے بڑے مفکرین کو جن کی فکروں میں کافی تنوع ہو پڑھتا ہے توان کی فکر میں بھی توسع پیدا ہوجاتی ہے، اس لیے ڈاکٹر وارث صاحب کی فکر میں گہرائی کے ساتھ بلندی ہے، لیکن یہ بلندی ان کو اعتدال کی راہ سے دور لے کر نہیں گئی ہے اور نہ ہی ان کے اندر کسی قسم کی تعلی کی صفت پیدا کی ہے بلکہ ایک اجنبی اور ناشناس شخص ابتدائی ملاقات میں ان کی علمی و فکری صلاحیتوں کا اندازہ بھی نہیں لگاسکتا ہے۔

پاکستان کے مولانا عمارخان ناصر صاحب بھی اس پروگرام کی ایک اہم کڑی ہیں۔ مولانا عمار ناصر صاحب ہندو پاک میں محتاج تعارف نہیں ہیں ، ان کا رسالہ الشریعہ ہندوستان میں آن لائن پڑھے جانے والے رسالوں میں کافی مقبول ہے ۔ پاکستان میں ان کی فکر سے کافی اختلاف کیا گیاہے اورفکری اختلاف کا ہونا غلط نہیں ہے، لیکن جب یہ اختلاف فکر ی دائرے سے تجاوز کرکے شخصیت اور ذات پر آجائے تو یہ برا ہے ۔ کوئی شخص برا نہیں ہوتا ہے، اس کے نظریات اچھے اور برے ہوتے ہیں اور دلائل کی روشنی میں نظریات کی تردید کرنے کا ہر ایک کو حق ہوتا ہے، لیکن اس کی وجہ سے شخصیت کو مجروح کرنا اور ان کی اچھی کاوشوں اور سنجیدہ علمی کاموں سے بھی انحراف کرنا علمی روش نہیں ہے ۔

اس پروگرام کے حوالے سے چند اور باتیں بھی قابل ذکر ہیں:

(۱) اس پروگرام میں علمی انفتاح پایا جاتا ہے ، اسلامی مفکرین کیا کہتے ہیں اور کس انداز سے سوچتے ہیں اور مغربی مفکرین کس انداز سے سوچتے اور لکھتے ہیں، دونوں کا تقابل اس پروگرام کا بڑا دلچسپ حصہ ہے ۔ جو لوگ عربی اور انگریزی دونوں زبان پر مکمل عبور رکھتے ہیں، وہ اس کا زیادہ لطف لے سکتے ہیں ۔

(۲) جو کتابیں اس میں مطالعہ کے لیے دی جاتی ہیں، وہ زیادہ تر اسلامی مفکرین کی ہیں ، امام ابن تیمیہؒ ،امام رازیؒ، حجة الاسلام مولانامحمد قاسم نانوتویؒ ،شاہ ولی اللہؒ اور ان جیسے مفکرین کی ہیں۔ اس کے علاوہ چند مغربی مفکرین کی تحریریں بھی ہوتی ہیں، وہ بھی زیادہ تر انہی موضوعات پر جن پر اسلامی مفکرین کی تحریریں ہوتی ہیں۔ ہمارا وہ علمی وفکری سرمایہ جو ہماری نگاہوں سے اوجھل ہے یا ہم ان کتابوں سے واقف ہونے کے باوجود مصروفیات کی وجہ سے انہیں نہیں پڑھ پاتے ہیں، اس پروگرام کی وجہ سے ہمیں ان کتابوں کو بھی پڑھنے کا موقع ملااور ساتھ میں مغربی مفکرین کے سوچنے اور سمجھنے کا انداز بھی معلوم ہوا ۔

(۳) پورے پروگرام میں ہم نے دیکھا کہ سوالات قائم کیے جاتے ہیں، پھر ہر کسی کو اپنی رائے پیش کرنے اوراپنے مطالعہ کی روشنی میں آزادی کے ساتھ اپنی بات رکھنے کی مکمل آزادی ہوتی ہے ،کسی کو کسی قسم کی کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی کسی پر کوئی جبر ہوتا ہے ۔سوالات کے درمیان بعض مرتبہ ایسا ہوتاہے کہ آپ کی رائے کے مخالف کسی کی رائے آتی ہے، آپ ان کے دلائل کو بھی سنتے ہیں اس سے بڑا فائدہ ہوتا ہے ۔ ہم صرف اپنی رائے اور اس کے دلائل جانتے ہیں، مخالف کی رائے نہیں پڑھتے اور نہ ہی سنتے ہیں ،لیکن یہاںمخالف آراکو بھی سننے کا موقع ملتاہے ، اس سے تحمل اور قوت برداشت کی صفت پیدا ہوتی ہے اور ہم مخالف کی باتوں کو سننے کے متحمل ہوتے ہیں ۔ آداب اختلاف میں یہ چیز بہت ضروری ہوتی ہے کہ ہم دوسروں کی باتوں کو بھی سنجیدگی سے سنیں، ہمیں اس پروگرام میں اس کا اچھا تجربہ ہوا ۔

(۴) ذہن وفکر میں وسعت جو اس پروگرام کا اہم مقصد ہے، اس جانب بھی ہماری پیش رفت ہوئی ۔پروگرام کے دوران ایک دن ایک مغربی مفکر کی تحریر کی روشنی میں قتل مرتد کی بحث آئی ۔ہمیں احساس ہوا کہ اس موضوع کو یہاں نہیں لانا چاہیے ۔یہ ائمہ اربعہ کا متفقہ موقف ہے اور اس سلسلے میں بہت سی احادیث ہیں ، چنانچہ مناقشہ کے دوران میں نے اپنی بات بھی رکھی ۔ بہت سی آراءموافقت میں اور بہت سی مخالفت میں آئیں ۔ بات ختم ہوگئی، لیکن ہمیں تردد باقی رہا ۔اسی شام کو قطر کے مشہور عالم دین اور شیخ یوسف القرضاوی کے تربیت یافتہ شیخ محمد علی قرہ داغی کا محاضرہ ہوا جس کا عنوان تھا”الفقہ الاسلامی بین النصوص و التراث والمعاصرۃ وفقا لفقہ المیزان“۔ انہوں نے اپنے محاضرہ میں بڑی عمدہ گفتگو کی ۔ جب سوال جواب کا سلسلہ شروع ہوا تو سوالوں میں بہت سے احباب نے قتل مرتد کے متعلق ہی سوال کیا۔ اس کا انہوں نے جو متوازن اور معتدل جواب دیا، اس سے بڑا اطمینان ہوا اور محسوس ہوا کہ یہ مسئلہ کوئی نیا نہیں ہے اور ایسا نہیں ہے کہ یہاں کوئی پہلی مرتبہ ا س کو گفتگو کے لیے لایا گیا بلکہ اس پر بہت کچھ لکھا چکا ہے اور اس پر گفتگو ہوسکتی ہے اور سوچا جاسکتا ہے ۔

(۵)مذہب اور سائنس کے موضوع پر بھی محاضرہ ہوا اور اس سے بھی بڑا فائدہ محسوس ہوا۔ اس میں ایک محاضرہ پاکستان کے ڈاکٹر ادریس ازاد صاحب کا ہوا جس میں انہوں نے سائنس اور ارتقاءکے موضوع پر بڑا دلچسپ محاضرہ دیا۔ اس سے ہمیں سائنس کے نظریہ ارتقاءکو سمجھنے میں مدد ملی ۔پروگرام میں ہوئے محاضروں کے دوران ٹیسٹ ٹیوب بے بی ، کلونگ ، تبدیلی جنس ،ڈی این اے جیسے مسائل سے واقفیت ہوئی ۔یہ وہ مسائل ہیں جن کے حوالے سے سائنسی دنیا نے حیرت انگیز پیش رفت کی ہے اور آج ہمیں سماجی اور عملی میدان میں ان موضوعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہمیں اس پروگرام کے ذریعہ ان موضوعات کی حقیقت کو سمجھنے میں مدد ملی ۔

(۶)فکری موضوعات کو پڑھنا تو بہت آسان ہوتا ہے، لیکن فکری موضوعات پر گفتگو کرنا بہت دشوار گزار وادی ہے جس میں ہر کوئی آسانی سے سفر نہیں کرسکتاہے ،اس لیے کہ فکر کی تہوں میں بھی بہت سے افکار ہوتے ہیں۔ ان سے پردہ اٹھانا اور گفتگو کے دوران اس پر لب کشائی کرنا ایک مشکل ترین کام ہوتا ہے، لیکن مدرسہ ڈسکورسز کا مقصد ہی فکری موضوعات کو گفتگو کا موضوع بنانا ہوتا ہے، اس لیے اس کے ذریعہ ہمیں ایسے موضوعات پر گفتگو کرنے کاسلیقہ حاصل ہوتا ہے۔

مفتی امانت علی قاسمی

مفتی امانت علی قاسمی، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد کے شعبہ علوم اسلامیہ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں اور دار العلوم وقف دیوبند میں افتاء کی ذمہ داری انجام دیتے ہیں۔
aaliqasmi1985@gmail.com

ا کمنٹ

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں