Home » تہذیبی عروج وزوال کا فہم
تہذیبی مطالعات سیاست واقتصاد

تہذیبی عروج وزوال کا فہم

 

تاریخ کے تناظر میں دو سوال بہت اہم ہیں۔ پہلا یہ کہ اگر ایک تہذیب اپنے عروج کو پہنچ کر زوال پذیر ہو جائے اور اس کی جگہ کوئی دوسری تہذیب قائدانہ کردار ادا کرنے لگے تو کیا زوال پذیر تہذیب اپنا کھویا ہوا مقام واپس لا سکتی ہے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر ایسا ممکن ہے تو اس کے لیے کونسا رستہ اختیار کیا جائے؟ مسلمانوں میں پیدا ہونے والے اہل فکر و دانش کئی صدیوں سے پہلے سوال کا جواب اثبات میں دیتے ہوئے دوسرے چیلنج کا جواب تلاش کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ان کاوشوں میں انہیں ناکامی شاید اس لیے ہو رہی ہے کہ پہلے سوال پر اس شدت سے غور نہیں کیا گیا جو دوسرے سوال کا درست جواب دینے کے لیے ضروری تھا اور یہ ادراک بھی نہیں کیا گیا کہ یہ دونوں سوال آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ اس نکتے پر دھیان نہیں دیا گیا کہ اگر زوال پذیر تہذیب نے پلٹ کر دوبارہ عروج حاصل کرنا ہے تو اس کی شکل ماضی سے بہت مختلف ہو گی۔
نسل انسانی تاریخی قوتوں کے بال و پر کے سہارے بہت آگے جا چکی ہے، اب یہ سفر صرف آگے ہی بڑھ سکتا ہے اور جو مسافر پلٹ کر دیکھے گا وہ پتھر کا بن جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم صدیوں سے ایک ہی مقام پر جمے پتھریلی نگاہوں سے دیگر اقوام کو منزلیں مارتے دیکھ رہے ہیں۔ اس دوران اگر گھوڑے دوڑاتی ان اقوام کی ٹھوکروں نے دھکے دے کر چند قدم آگے بڑھا بھی دیا ہے تو اس میں ہمارا کوئی کمال نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ خوش فہمیوں کے نشے میں مست اسے ہم اپنی بڑی فتح سمجھ بیٹھتے ہیں۔
چونکہ مسلمانوں سے قائدانہ کردار مغربی تہذیب نے چھینا ہے اس لیے ہم اس کے زوال کی خواہش دل میں پالے رہتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ ایسا ہونے کی صورت میں انسانیت کے قافلے کی رہنمائی خود بخود ہمارے پاس آ جائے گی۔ جب روس کے ٹکڑے ہوئے تو ہم نے سوشلزم اور کمیونزم کے خاتمے پر خوشیاں منائیں اور امید کی ٹمٹماتے لو نے یقین کے اس بھانبھڑ کو جنم دیا کہ اگلی باری امریکہ کی ہے جس کے زوال کے بعد مسلمانوں کے لیے سیادت حاصل کرنے کی راہ میں تمام رکاوٹیں دور ہو جائیں گی۔
اگرچہ امریکہ ابھی تک اسی طرح اپنا وجود اور مقام برقرار رکھے ہوئے ہے تاہم اب مسلمانوں نے ابھرتے ہوئے چین سے امیدیں باندھ لیں کہ اور کچھ نہیں تو کم از کم مشرق سے ابھرتے اس سورج کی شعاعوں سے مغربی بالادستی کے تاریک بادل تو چھٹ ہی جائیں گے اور ہو سکتا ہے کہ اس کی روشنیوں سے ہماری کٹیا جگمگا اٹھے۔ سوچ کے اس انداز کو مدنظر رکھتے ہوئے غالب امکان یہ ہے کہ امریکہ کے مفروضہ زوال اور چین کی ممکنہ بالادستی کا دور اگر آ بھی گیا تو ہماری نفرتوں کا رخ چین کی جانب ہو جائے گا اور اگر ہمارا وجود قافلے کی گرد میں گم نہ ہو گیا تو اگلی چند صدیاں ہم چین کے زوال اور اس کے نتیجے میں مسلمانوں کی برتری کی امیدیں باندھے رکھیں گے۔ اس دوران شاید کوئی اور تہذیب ابھر آئے گی اور ہم اس کی محبت میں مبتلا ہو کر چین کے زوال کی حسرت پالنا شروع کر دیں۔
چین اگر ترقی کر رہا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے ہمارے برعکس ماضی کی یادوں کو سرمایہ حیات نہیں بنایا بلکہ مشرقی مزاج کے جام میں مغربی سوچ، اداروں اور کسی حد تک روایات کی شراب انڈیل دی ہے۔ اس قوم کی دوسری خاصیت یہ ہے کہ اس نے سفر کے دوران کی گئی غلطیوں پر اصرار نہیں کیا بلکہ اصل رستے سے بھٹک جانے کے بعد واپس لوٹ آنے میں کوئی حرج نہیں سمجھا۔ کمیونزم ہو یا سرمایہ دارانہ نظام، دونوں ہی مغربی تہذیب کے دو مختلف ذائقے ہیں۔ چین نے پہلے ایک رستے سے ترقی کی کوشش کی اور جب اس میں کامیابی نصیب نہیں ہوئی تو انہوں نے سرمایہ دارانہ نظام کی تراش خراش کر کے اسے اپنے معاشرے سے ہم آہنگ کر لیا۔ سیاسی نظام اور فرد کی آزادی کے حوالے سے چینی قیادت نے مغرب سے مختلف رستہ چنا۔ اس کی کامیابی کی وجہ مغرب اور مشرق کا عمومی مزاج ہے۔
مغربی معاشرے نے اپنی عمارت یونانی اور رومی تہذیب کے کھنڈرات پر تعمیر کی۔ ان دونوں تہذیبوں میں جمہوریت اور فرد کی آزادی کے بیج موجود تھے جنہیں جدید مغربی تہذیب نے ترقی یافتہ شکل دے کر اوج کمال تک پہنچایا۔ اس کے برعکس مشرق میں ہمیشہ سے سماج کو فرد پر فوقیت حاصل رہی ہے۔ چین نے اسی سماجی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے مغربی ترقی کے محرکات اپنے ثقافتی ڈھانچے میں شامل کئے۔ ابھی تک یہ تجربہ کامیاب رہا ہے۔
اس کے برعکس مسلمان مغرب سے اپنی فطری نفرت کے باعث اس سے رہنمائی حاصل کرنے سے ہچکچاتے رہے اور ہمیشہ مڑ کر اپنے روشن ماضی سے رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے یہ کاوشیں رائیگاں گئیں۔ چند روشن خیال افراد نے مغربی ماڈل کو اپنانے کا درس دیا مگر ان کی بات کو اکثریت نے رد کر دیا۔
اب وقت آ گیا ہے کہ ہم مغرب کے ساتھ ساتھ چین کی کامیابی کا جائزہ بھی لیں، ممکن ہے کہ ان دونوں تہذیبوں کی ترقی کا راز دریافت کرنے کی کوشش میں وہ انمول ہیرا تلاش کر لیں جس کی کھوج میں کئی صدیوں سے ہمارے اعلیٰ دماغ سرگرداں رہے ہیں۔

مجاہد حسین خٹک

مجاہد حسین خٹک بول ٹی وی کے ویب سائٹ ایڈیٹر ہیں۔ متنوع فکری، سماجی اور سیاسی موضوعات پر اظہار خیال کرتے ہیں۔
oaring@hotmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں