Home » تشبیہ وتنزیہ اور علم الکلام
اسلامی فکری روایت کلام

تشبیہ وتنزیہ اور علم الکلام

 

قدیم سے دو بڑے عقلی مسئلے چلے آتے ہیں: وجود کیا ہے؟ شعور کیا ہے؟ کلاسیکل علم الکلام کا بنیادی مسئلہ وجود تھا جو عقل کا اول موضوع ہے۔ واجب الوجود کی طرف پیشرفت سے کلاسیکل علم الکلام عقیدے پر عقل کی جارحانہ پیشرفت روکنے میں کامیاب ہوا، اور تنزیہ کی حفاظت ممکن ہو سکی۔ وجود کے روبرو، شعور تین راستوں میں سے ایک پر سفر کا میلان رکھتا ہے: عقل کی اولین ذمہ داری یہ ہے کہ وہ انسان سمیت کثرت وجود سے مملو اس دنیا اور کائنات کی توضیح، تفہیم اور توجیہ کرنے کے قابل ہو جو وہ کسی اصول واحد کے بغیر اور زمان و مکاں کی تحدیدات کے اندر رہتے ہوئے نہیں کر سکتی۔ اس کے لیے عقل ’ماورا‘ اور ’مابعدالطبیعات‘ کا تصور سامنے لاتی ہے جیسا کہ افلاطون کے عالم امثال سے ظاہر ہے۔ ’ماورا‘ اور ’مابعدالطبیعات‘ فلسفیانہ تصورات سے کہیں بڑھ کر انسان کی خلقی طلب اور اقتضا کا مظہر ہیں۔ کلاسیکل علم الکلام میں عقلِ تسلیم غیب اور خبر غیب کے پس منظر میں واجب الوجود کا جائز عقلی تصور سامنے لا کر عقل کی قطعی قابلِ دفاع تحدیدات قائم کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے، اور علم الکلام کو تشبیہی نہیں بننے دیتی۔ تیسری صورت تحریک تنویر میں سامنے آئی جب جدید مغربی عقل کثرت کے گڑھے میں گر گئی اور ارادتاً ان تمام انسانی وسائل سے دستبردار ہو گئی جو عقل اور بے عقلی کے امتیازات کو باقی رکھ سکتے تھے۔ اس کی سب سے بڑی مثال سائنس میں فریم ورک اور پیراڈائم کی بار بار تبدیلی ہے۔ پیراڈائم کثرت یا مظاہر کی سائنسی تعیین اور تفہیم کے لیے عقل کا صوابدیدی طور پر طے کردہ تناظر ہوتا ہے جو بہت جلد لاینحل مسائل سے اٹ جاتا ہے اور پیراڈائم کی سائنسی افادیت ختم ہو جاتی ہے۔ سائنسی عقل اس کا حل یہ نکالتی ہے کہ وہ پیراڈائم کو تبدیل کر دیتی ہے۔ اس تبدیلی کا مقصد لاینحل مسائل کو پیراڈائم سے خارج کرنا ہے تاکہ ایسے ’مظاہر‘ جو عقل کی اثباتیت اور سائنسیت پر سوال اٹھائیں، ان سے آنکھیں بند کی جا سکیں۔ عقل کا عقلی ہونا صرف وجودی تناظر میں ممکن ہوتا ہے، جہاں وہ axioms بھی زیر بحث لائے جا سکیں جو خود عقل کی تشکیل کرتے ہیں۔ صرف عقلی یا علمیاتی تناظر میں عقل کا عقلی ہونا قابل دفاع نہیں ہو سکتا۔
جدید عہد میں وجود کا مسئلہ خارج از فلسفیانہ بحث ہے، اور جدیدیت کا پیدا کردہ علم سر تا سر، اپنے ادراک و اظہار اور اصول و اطلاق میں تشبیہی ہے اور تنزیہ کو انسانی شعور اور عمل سے بالفعل اور مطلقاً بےدخل کر دیتا ہے۔ ٹیکنالوجی اپنی مادیت اور سائنسی جبریت سے تشبیہ کو انسانی شعور اور عمل پر بیک آن ایک شکنجے کی طرح وارد کر دیتی ہے۔ آج کے مسلم علم الکلام کو درپیش مسئلہ وجود نہیں ہے، تشبیہی علم اور عمل کا ہے۔ یہ امر بھی ملاحظہ عالی میں رہنا چاہیے کہ تاریخ، علم اور عقل تنزیہ کے دشمن ہیں، اور جدیدیت کے پیدا کردہ تشبیہی علم و عمل سے تنزیہ کی حفاظت نہیں ہو سکتی اور نہ مسلم عقیدے کی جس کا مابہ الامتیاز یہی تنزیہ ہے۔ ہماری تمام تر خوش فہمیوں کے باوجود، تشبیہی علم کو ’اسلامائز‘ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ مسلم عقل کی بنیادی ترین ذمہ داری عصر حاضر میں تنزیہ کی علمبرداری اور حفاظت ہے جو تنزیہ کا مؤید علم سامنے لا کر ہی کی جا سکتی ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ علم الکلام کو جدید دنیا میں کارآمد بنائیں تو اس کی بنیادی ترین شرط شعور و عمل میں تشبیہی علم سے نبردآزما ہونا ہے۔
خرد ہوئی ہے زمان و مکاں کی زناری
نہ ہے زماں نہ مکاں لا الہ الا اللہ
————–
اس امر سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ کلاسیکل علم الکلام عقلی علوم سے ہے، اور اس میں عقل اور عقلیت کا ایک خاص تصور کارفرما ہے جو اُس عقل اور عقلیت سے بالکل مختلف ہے جو کہ جدیدیت کے پیدا کردہ علوم میں کارفرما ہے۔ ان میں بنیادی فرق تنزیہ اور تشبیہ سے نظری اور علمی نسبتوں کا ہے۔ اگر اس بحث کو فی الوقت ترک کر دیا جائے کہ کلاسیکل علم الکلام اور جدید سائنسی علوم میں کارفرما عقل اور عقلیت کے فروق کیا ہیں، تو ایک بات پر اتفاق ہو جاتا ہے کہ عقل کی مرکزی کارفرمائی دونوں میں یکساں ہے۔ جونہی یہ تسلیم کر لیا جائے کہ کسی علم میں عقل کی کارفرمائی مرکزی ہے تو ساتھ ہی اس نتیجے سے بچنا ممکن نہیں رہتا کہ اندراس (obsolescence) ہر عقلی علم کی تقدیر ہے۔ اہلِ نظر سے یہ امر پوشیدہ نہیں ہے کہ جدید عہد میں علم کس تیزی سے out-date ہوتا ہے اور نیا علم اس کی جگہ لے لیتا ہے، اور اس کی بنیادی ترین وجہ اس کا عقلی ہونا ہے۔ علم، عقل کا متحرک کرشمہ ہے۔ کلاسیکل علم الکلام بھی اعلی ترین سطح پر عقلی علم ہی تھا اور عین عقلی ہونے کی وجہ سے یہ مندرس ہو گیا ہے۔ ہدایت لازمانی اس لیے ہے کہ وہ عقلی نہیں ہے، عقل سے براہ راست مخاطب ضرور ہے۔ اگر ہم نے کلاسیکل علم الکلام کے بھی لازمانی ہونے کا دعویٰ کیا ہے تو یہ ہدایت پر نقب لگانے کے مترادف ہے۔ اور اگر یہ دعویٰ کیا ہے کہ اس نے ہر زمانے کے مسئلے حل کر دیے ہیں تو یہ علم الکلام کو ہدایت قرار دینے کی جسارت ہے اور یہ تسلیم کر لینا ہے کہ وہ عقلی نہیں ہے۔ افسوس کہ ہم یہ سمجھنے سے بھی قاصر ہیں کہ ہدایت کو ہم عصر شعور اور عمل سے مسلسل اور دینی شرائط پر متعلق رکھنے کا واحد ذریعہ بھی عقل ہے۔ لیکن ہماری حالتِ انکار اس قدر گہری ہے کہ شاید کسی قیامت ہی سے کوئی آنکھ کھلے تو کھلے۔
میں ذاتی طور پر وحی اور جوامع الکلم کے آجانے کے بعد علم کا کوئی جواز نہیں پاتا اور جو فلسفے بگھارتے ہیں ان سب کے قیامت کو دھرے جانے کا قوی اندیشہ ہے۔ اگر ملت اسلامیہ فرد اور معاشرے کے احوال و حالات و اعمال کے ذریعے تاریخ کو قرونِ اول کی سطح پر باقی رکھ سکتی تو کلام وغیرہ سب چیزیں غیرضروری تھیں۔ ایک حکمت کے طور پر علم کی ضرورت تاریخ کے جبر سے پیدا ہوئی ہے۔ علم، شعور میں باطل سے جنگ کی حکمت عملی ہے۔ وہ علم جو ہدایت کی مخالفت میں برسرپیکار ہے، اور وہ علم جو ہدایت کی تائید میں کوشاں ہے وہ دونوں علم ہونے میں مشترک ہیں اور آخرالامر اور مآل کار ردی کے ڈھیر پر جگہ پاتے ہیں۔ علم کبھی ہدایت ہونے پر سرفراز نہیں ہو سکتا، اور ہدایت کا تائیدی علم اپنی درست نسبتوں کے باوجود مندرس ہونے سے نہیں بچ سکتا۔ عقل اور علم پر یہی شہادت تناظر کی درستی کے لیے کافی ہے۔
کیا ہے تو نے متاع غرور کا سودا
فریب سود و زیاں لا الہ الا اللہ

محمد دین جوہر

محمد دین جوہر، ممتاز دانش ور اور ماہر تعلیم ہیں اور صادق آباد میں مدرسۃ البنات اسکول سسٹمز کے ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
mdjauhar.mdj@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں