ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر
22 سالہ مہسا امینی کی افسوسناک موت کے بعد ایران میں ہنگامے پھوٹ پڑے، 13 ستمبر کو گشت ارشاد(اخلاقی پولیس ) کے ہاتھوں گرفتار ہونے والی ایرانی کرد دوشیزہ پولیس کسٹڈی میں تشدد کے باعث 16 ستمبر 2022کو جان کی بازی ہار گئ، آج اس واقعہ کو بارہ دن گزر چکے ہیں اور تہران میں شروع ہونے والے ہنگامے پورے ملک میں پھیل چکے ہیں ۔۔۔ایران سے باہر مغربی ممالک میں بھی ایرانی حکومت کے خلاف مظاہرے کئے جا رہے ہیں، خاص طور سے لندن میں ہونے والا مظاہرہ خون آشام تھا ۔
ان مظاہروں کو ایرانی سیکیورٹی فورسز پوری قوت سے کچل رہی ہیں، جس کے نتیجے میں اب تک 41 ایرانی قتل ہو چکے ہیں، 700 کے لگ بھگ گرفتار ہیں، جن کی جیلوں میں “خاطر تواضع ” کی جا رہی ہے ۔اور متعدد افراد زخمی ہوئے ہیں ۔
بظاہر معاملہ حجاب کا ہے۔مہسا امینی نے ۔۔۔۔جس وقت گرفتار ہوئی ہے ،حجاب تو لیا ہوا تھا لیکن ” ٹھیک سے” نہیں لیا تھا ۔ خمینی کے انقلاب کے بعد سے ایرانی خواتین پر قانونی طور پر لازم ہے کہ وہ عوامی مقامات پر مکمل حجاب میں ہوں ۔ خمینی کے زمانے میں نئے طرز کا “ایرانی برقعہ ” متعارف کروایا گیا تھا، جو آج بھی ایرانی خواتین پہنتی ہیں ۔
ایران میں 43 سال سے یہ ڈریس کوڈ لاگو ہے جس کے خلاف ایرانی آج سڑکوں پر ہیں اور بے دریغ خون بہ رہا ہے ۔
یہ رد عمل کیوں ہے؟
اس لئے کہ سو برسوں کے دوران ایران دو انتہاوں کے درمیان رہا ہے ۔پہلی انتہا یہ تھی کہ آج سے ٹھیک سو سال پہلے جب رضا شاہ کبیر(رضا شاہ پہلوی کے والد )1922 میں برطانیہ کی مدد سے اقتدار میں آئے تو انہوں نے ترکی کے مصطفے کمال اتاترک کی طرح ملک میں جدیدیت اور مغربیت کو فروغ دیا، بلکہ ایک ہی وقت میں تین ملکوں کے سربراہان مملکت نے اپنے اپنے ملکوں کو جدید مغربی تہذیب میں رنگ دینا چاہا ۔
1۔۔۔۔ترکی کے مصطفے کمال
2۔۔۔۔۔افغانستان کے امان اللہ خان
3۔۔۔۔۔ایران کے رضا شاہ کبیر
ان تینوں نے خواتین کے پردے پر پابندی لگا دی، خود اپنی بیویوں کو بے پردہ، مخلوط مجالس اور بیرون ملک دوروں پر لے کر نکلے، تینوں نے لباس کی وہ آزادی دی کہ ان ملکوں کی خواتین کا لباس سکڑتے سکڑتے اسکرٹ ۔۔۔۔۔منی اسکرٹ اور پھر بکنی تک آ گیا، تینوں ملکوں میں شراب و کباب،مخلوط محفلوں،بے پردگی اور اباحیت کا دور دورہ رہا۔ رضا شاہ پہلوی کے دور کی ایرانی عورتوں کو دیکھیں ۔۔۔۔یہ ایک انتہا تھی۔
دوسری انتہا یہ ہوئی کہ 1979میں خمینی انقلاب کے بعد اسی مادر پدر آزاد معاشرے کو قید کر دیا گیا ۔اور سخت ڈریس کوڈ نافذ کر دیا گیا ۔ اور چونکہ یہ سب کچھ “حکومت الہیہ ” کے نام پر کیا گیا لہذا اب جو رد عمل سامنے آ رہا ہے وہ مذہب سے نفرت اور بیزاری کا اظہاریہ ہے۔ ایران وہ واحد اسلامی ملک ہے جہاں theocracy ہے۔تھیوکریسی کو اسلامی نظام حکومت نہیں سمجھنا چاہئے، بلکہ یہ نری پاپائیت ہے ۔جس کے خلاف جب مغرب نے بغاوت کی تھی تو اہل مغرب الحاد کی دوسری انتہا پر چلے گئے تھے ۔یہی کچھ اب ایران میں ہو رہا ہے ۔ملکی آبادی کا ایک بڑا حصہ ایرانی حکومت کی شدید مذھبیت/ پاپائیت کو مسترد کر رہا ہے ۔
خمینی کے بعد ملک میں ایک ایسا دور بھی آیا جب خواتین کے لباس کی سختیاں نرم کر دی گئیں، ایرانی عورت بغیر ایرانی برقعے کے بھی پبلک مقامات پر نکلنے لگی البتہ اس کے لئے یہ ضروری تھا کہ لباس ساتر ہو، اور سر ڈھکا ہوا ہو ۔لہذا میں نے خود ۔۔۔۔۔جب 2013 میں میں ایران میں تھی ۔۔۔۔عورتوں کو بغیر برقعے کے شہروں میں عام پھرتے ہوئے دیکھا تھا ۔خود میں ایران کے 5 شہروں میں پاکستانی لباس میں گھومتی پھری کسی نے مجھے نا ٹوکا، البتہ جب سے نئے صدر ابراہیم رئیسی آئے ہیں عورتوں کے لباس پر پھر سے سختی شروع کر دی گئی ہے ۔”گشت رشاد ” کو خواتین کو گرفتار کرنے اور سزا دینے تک کے اختیارات دے دئے گئے ہیں ۔
عورت کا لباس کیا ہو؟ مرد کا حلیہ کیسا ہو؟ اس کی داڑھی کی لمبائی کیا ہو؟ اس کے شلوار کے پائینچے کتنے اوپر ہوں؟ یہ فیصلے حکومت کے کرنے کے نہیں۔ یہ فیصلے سماج کو کرنے چاہئیں ۔اقدار کا تعین سماج کرتا ہے، اگر حکومت کرے گی تو جبر کا پہلو سامنے آئے گا ۔
اور جبر عوام ہمیشہ برداشت نہیں کرتی!
——————————————–
ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر، شعبہ تاریخ، جامعہ کراچی کی سابق صدر اور علمی وتحقیقی مجلہ ’’الایام’’ کی مدیر ہیں۔
کمنت کیجے