حافظ حسن علی
فیض الباری شرح صحیح البخاری مشہور زمانہ محدث علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ علیہ کی وہ درسی تقریر ہے جسے انکے مایہ ناز شاگردمولانا بدر عالم میرٹھی رحمہ اللہ نے قلمبند کیا ہے ۔ اس شرح میں حضرت شاہ صاحب کے کئی ایسے انمول علمی افادات موجود ہیں جو دیگر کتب حدیث میں نہیں پائے جاتے ۔ بہتر تعبیر میں انہیں شاہ صاحب کے اصولی اجتہادات کے بہترین نتائج سے بھی موسوم کیا جاسکتا ہے ۔ جنہیں شاہ صاحب نے نصوص شرعیہ کے غائر مطالعہ کے بعد مستنبط کیا ہے ۔ ان انمول علمی افادات میں شاہ صاحب کے بیان کیے دو اصول بہت اہمیت و وقعت کے حامل ہیں جنہیں شاہ صاحب نے نصوص شرعیہ کے بیچ پائے جانے والے ظاہری تعارض کو رفع کرنے واسطے استعمال کیا ہے ۔ اور جن دونوں اصولوں کی کما حقہ وضاحت و صراحت زیر نظر مضمون میں مطلوب ہے ۔
اقامت مراتب کا اصول
نصوص شرعیہ کے باہمی ظاہری اختلاف کو رفع کرنے واسطے حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک بہترین اصول پیش کیا ہے کہ بعض اوقات شارع کیطرف سے قصداً نصوص میں باہم اختلاف پیدا کیا جاتا ہے تاکہ مدارج و مراتب پر دلالت ہو سکے۔ مثال اسکی یہ ہیکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قضائے حاجت کے دوران استقبال و استدبار سے منع فرمایا ۔ مگر حضرت ابن عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا مشاہدہ ہیکہ انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خود کعبے کی طرف استدبار کرتے دیکھا ۔ اب مذکورہ دونوں روایات کی معنوی عقدہ کشائی محدثین و فقہاء نے مختلف معیارات و مناہج کی روشنی میں پیش کی ۔ مگر حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ چونکہ استدبار کا معاملہ بنسبت استقبال کے اخف و اھون ہے۔ لہٰذا شارع نے اس نکتہ کی طرف توجہ دلانے کی خاطر ایک مرتبہ خود استدبار پر عمل کیا ۔ تاکہ معلوم ہو جائے کہ جس شدت و حدت کیساتھ استقبال سے نہی وارد ہوئی ہے اس شدت کے ساتھ معاملہ استدبار سے نہی وارد نہیں ہوئی ۔
حضرت شاہ صاحب مزید فرماتے ہیں کہ بصورت قول شارع کیطرف سے اگرکہہ دیا جاتا کہ معاملہ استدبار معاملہ استقبال کی بنسبت اخف ہے تو عوام الناس فرق مراتب کو ملحوظ رکھے بغیر بالکلیہ معاملہ استدبار سے احتراز ہی کو ترک کر دیتے ۔
کیونکہ اجمالی تعبیر ترغیب و تحریص میں زیادہ مؤثر ثابت ہوتی ہے ۔ بر خلاف تفصیلی تعبیر کے کہ جہاں تفصیل بیان کر دی جاتی ہے اور مراتب و مدارج کا فرق کھول کر بیان کر دیا جاتا ہے وہاں شے کا ترغیبی پہلو کمزور ہو جاتا ہے ۔ اور عوام اسپر عمل ترک کر دیتے ہیں ۔ پس لہٰذا اگر چہ استدبار استقبال کے مقابلے اخف ضرور ہے مگر کیونکہ استدبار سے ایک درجہ احتراز بھی ضرور مطلوب ہے اسلیے شارع نے مبہم انداز بیان اختیار کیا ۔
پھر حضرت شاہ صاحب نے یہی توجیہ مسئلہ فخذ میں بھی اختیار کرتے ہوئے نصوص کے باہمی اختلاف کو رفع کیا کہ جہاں بعض نصوص اسفل فخذ گھٹنے کے شامل ستر ہونے پر جبکہ بعض اسفل ستر گھٹنے کے شامل ستر نہ ہونے پر پر دلالت کر رہی ہیں۔ حضرت شاہ صاحب نے ان روایات کی توجیہ بھی یوں بیان کی کہ اسفل فخذ اعلیٰ فخذ کے مقابلے اخف ہے ۔ اور اسی باعث اسفل فخذ کے بارے دونوں طرح کے دلائل بر خلاف اعلیٰ فخذ کے ملتے ہیں ۔ کیونکہ شارع کو اختلاف مراتب و مدارج پر دلالت کرنا مقصود تھا ۔ چنانچہ فیض الباری شرح صحیح البخاری جلد دوم کی عبارت کچھ یوں ہے ۔
“وقد مر ذكرها في الأبواب السابقة مفصلا ، فرأسُ الفَخِذِ عورةٌ أيضا، كما أن أصلها إلا أنها أخف بالنسبة إلى الأصل، ولذا تجد فيها الدلائل في الطرفين، فبعضها يدل على أنها عورة وبعضها يدل على أنها ليست بعورة بخلاف أصل الفخذ فإنك لا تجد دليلًا يشعر بعدم كونها عورة …
وكأني أريد أن الاختلاف في الأدلة قد يكون من جهة الشارع قصدًا، ولا يكون من الرواة، وهذا حيث يريدُ صاحب الشرع بيان المراتب فإذا لم تكن عنده مراتب في جانب الأمر أو النهي لم تعط مادةٌ تدلُ ،بخلافه، وإذا كانت فيه مراتب بعضها أخف من بعض وأراد فيہ توسيعا يؤديه بعرض الكلام ولا يأخذه في الخطاب، لأنه لو اخذه في الخطاب فات الغَرَض وهو العمل، فإنه إنما يبقى ما دام الإجمال، وإذا جاء التفصيل ذهب العمل، ولذا نرى العوام يسبقون على العلماء في العمل، فإنهم لا يفرّقون بين الفرائض والسنن والنوافل، فيؤدُّونَها على أخذه شاكلة واحدة.
وأما الذين يعلمون أن النوافل في طوعه كلما شاء فعل، وإذا لم يشأ لم يفعل، فإنهم تفترُ هِمَمُهم، وتتقاعدُ عَزَايْمُهُم، فَيُفْقَدُ العمل. فإذا كان حال التخفيف في الخطاب ما قدعلمت ولم يكن بد من بيان حقيقة الأمر أيضًا، احتاج إلى التنبيه عليه بنحو من . الكلام وجوانبه وأطرافه، بدون أخذه في العبارة وطريقه أن تَرِدَ الدلائل في الطرفین فیوجد الاختلاف ولا يحصل الجزم بجانب فيجف الأمر، وهذا أيضًا نحو بيان إذا لم يرد التصريح ”
فیض الباری شرح صحیح البخاری جلد اول کے مقدمے میں بھی اس بارے کلام کیا گیا ہے۔ جسکے بارے جامع کا بیان ہے کہ اس نے ان نکات و جزئیات کو مقدمہ میں مع چند اضافات جمع کیا ہے جنہیں حضرت شاہ صاحب مبادی میں ذکر کرتے تھے ۔
مقدمہ میں مذکور ہے کہ اصولیین و فقہاء نے اقامت مراتب کی بحث کو اجاگر نہیں کیا ۔ اصولی روایت میں عموم و اطلاق کے بارے بحث کی گئی ہے ۔ جبکہ اقامت مراتب کی بحث کو در خور اعتناء نہیں سمجھا گیا ۔ حالانکہ اقامت مراتب کا باب عموم و اطلاق سے الگ ایک منفصل باب ہے ۔
کیونکہ عموم کے باب میں شمولیت و عدم شمولیت کی بحث ہوتی ہے جس سے نص کے مسمی و مفہوم میں داخل افراد کی تشخیص و توضیح مراد ہوتی ہے جبکہ اقامت مراتب کے باب میں مسمی نص کے تحت آنے والے افراد کے باہمی تعلق بارے بحث کی جاتی ہے ۔ اور اس امر کو واضح کیا جاتا ہے کہ مسمی نص کے مختلف افراد میں سے کونسا فرد کس درجے میں مطلوب و مقصود ہے ۔ مقدمہ میں اقامت مراتب کی بحث کو مزید منقح کرتے ہوئے قرآن مجید میں حائضہ کے بارے وارد ہونے والے حکم اعتزال کو مثال کے طور پر پیش کیا گیا ۔
اور واضح کیا گیا کہ اس باب میں انظار فقہاء کافی مختلف ہیں ۔ کیونکہ کچھ کے نزدیک اعتزال سے اعتزال کا مرتبہ اخیرہ مراد ہے کہ بایں طور محض موضع الدم سے احتراز و اعتزال برتنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ جبکہ کچھ کے نزدیک مرتبہ متوسط مراد ہے کہ بایں طور ان ایام میں تحت السرہ عورت سے انتفاع و استمتاع حاصل کرنے کو ممنوع قرار دیا گیا ہے ۔بہرحال اس امر میں اتفاق ہیکہ اعتزال و اجتناب کا مرتبہ علیا جسپر یہود عمل پیرا تھے قطعاً مراد نص نہیں اگرچہ ظاہری الفاظ اس پر دال ضرور ہیں ۔
فیض الباری شرح صحیح البخاری جلد اول مقدمہ کی عبارت کچھ یوں ہے ۔
فاعلم أن إقامة المراتب في مسمى اللفظ ليس من باب العموم فإنه يكون في الأفراد والا من باب الإطلاق، فإنه يجري في الأوصاف والتقادير الممكنة الاجتماع على اصطلاح أهل المعقول في الكلية الشرطية، وقد تعرّض الأصوليون إليهما ولم يذكروه، وهذا باب ثالث وهو تعيين المرتبة المقصودة من مراتب المسمى إذا كانت فيه مراتب متعددة، فإنه قد يعتبر بعض جميع المراتب وقد لا يعتبر، وذلك نحو جملة: (إنما جُعِلَ الإمام ليؤتم به، لا يُدْرَى أنه على سائل القدوة عند الشافعية بالموافقة في الأفعال فقط، أو على فروع تضمن الحنفية بالبناء على صلاته، وقد بسطه الشيخ في(( كشف الستر»، وأوضح الأمثلة وسهلها . قوله تعالى: (فَاعْتَزِلُوا الية في المحيض) [البقرة: ۲۲۲] لأن الاعتزال عَرَضَ عريض من الاعتزال عن البيوت إلى الاعتزال عن موضع الطَّمْثِ، وقد دارت أنظار الأئمة في أن المقصود منها المرتبة الأخيرة، وهي الاحتراز عن موضع الدم فقط، أو المتوسطة التي من السرة إلى الركبة، فاحفظ هذه المباحث النادرة، لا تكاد تجدها في مطاوي الكتب، ومن ادعى فليأتنا ببيان، ولله الحمد أولاً آخراً.
حضرت شاہ صاحب مسئلہ نواقض الوضوء میں بھی اقامت مراتب کے قائل ہیں ۔
چنانچہ آپ “أو لامستم النساء” کی تشریح کرتے لمس نساء کو ایک کلی متشکک قرار دیتے ہیں ۔ اور جماع کو لمس نساء کا مصداق اولی قرار دیتے ہیں ۔ جبکہ محض مس مراة بصورت ید کو بھی لمس نساء کا ادنیٰ درجہ قرار دیتے ہوئے اس سے وضوء کے استحباب کے قائل ہیں ۔
چنانچہ فیض الباری شرح صحیح البخاری جلد دوم کی عبارت ہے ۔
“ففي «الفتح» في باب الجمعة: أن الجمعة فريضةً وآكد من الفرائض الخمس، فأقام المراتب بين الفرائض أيضًا، وجعل بعضها أكد من بعض. وإنما صرح به الشيخ ابن الهمام لمسئلة ذكرها في القُدُوري وهي من صلى الظهر في منزله يوم الجمعة قبل صلاة الإمام ولا عُذْرَ له كره له ذلك وجازت صلاته، ويُتوهَّمُ منها عدم فرضية الجمعة عندنا، فصرح بأن الجمعة فرض قطعي عندنا، بل أكد من سائر الفرائض .
وكذلك في البحر»: أن الفاتحة واجبة والسورة أيضًا ،واجبةٌ إلا أن الفاتحة أوجب، فهذه نقول تدل على عبرة المراتب عندهم، وهذه هي الحقيقةُ التي سرت عليها مسألة . والاستقبال، والاستدبار، والنواقض الخارج من السبيلين وغير السبيلين و مس المرأة ومس الذكر”
پس معلوم ہوا کہ بعض اوقات نصوص شرعیہ میں اختلاف و افتراق اغراض شرعیہ کے اختلاف کے بسبب پیدا ہوتا ہے ۔ اور ایسا اختلاف شارع کیطرف سے قصداً و حقیقتاً نصوص کے بیچ پیدا کیا جاتا ہے تاکہ مدارج و مراتب پر کافی دلالت ہو سکے۔
جنسیت کا اصول
رفع تعارض واسطے دوسرا اصول حضرت شاہ صاحب یہ بیان فرماتے ہیں کہ بعض اوقات نصوص شرعیہ میں کسی امر سے اس بناء پر نہی وارد ہوتی ہے کہ اس شے کی جنس و نوع میں قبح کا پہلو غالب ہوتا ہے ۔ لہٰذا عموماً قولی احادیث میں مذکور نکتہ کے پیشِ نظر اس شے کو ممنوع قرار دے دیا جاتا ہے ۔ مگر بعض اوقات اس نوع کے کسی خاص فرد میں قبح کا وہ پہلو مفقود و معدوم ہوتا ہے ۔ جسکی بناء پر عام نصوص میں اس کے بارے نہی وارد ہوتی ہے ۔ لہٰذا اس خاص فرد کی رعایت رکھتے ہوئے بعض خاص نصوص میں اسکی اجازت بھی دے دی جاتی ہے ۔ جس سے ظاہری اختلاف رونما ہوتا ہے ۔
شاہ صاحب اسکی مثال یوں بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موجودگی میں بچیوں نے بموقع عید دف بجا کر اشعار پڑھے ۔ جسپر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں منع نہیں فرمایا ۔ مگر ایک دوسری حدیث میں جب چند بچیاں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے دف بجا رہی تھی کہ اچانک حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نمودار ہوئے جسپر وہ بھاگ گئی۔ تب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا کہ شیطان عمر سے بھاگ اٹھتا ہے ۔
جس سے معلوم ہوا کہ دف عمل شیطان ہے ۔
حالانکہ اگر دف عمل شیطان ہے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ بمطابق پہلی روایت کے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے سامنے ان بچیوں کو دف بجانے کی اجازت کیوں عطا فرمائی جو بموقع عید آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے دف بجا رہی تھیں ؟
شاہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ بعض امور سے نہی اس بناء پر وارد ہوتی ہے کہ انکی انجام دہی میں عموماً مبالغہ کیا جاتا ہے ۔ اور اغلب احوال میں وہ امور کئی قبائح و رذائل کیطرف متعدی ہوتے ہیں ۔ لہٰذا اس لیے عام نصوص میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے منع فرما دیتے ہیں ۔ لیکن اگر ایک خاص مقام پر ایک خاص ہیئت میں ان امور میں سے کسی امر کی انجام دہی جملہ رذائل و قبائح سے احتراز برتے ہوئے کی جائے تو اس خاص مقام و اس خاص ہیئت کی رعایت رکھتے ہوئے شارع کیطرف سے اجازت بھی دے دی جاتی ہے ۔ پس عمل دف کی مثال بھی کچھ ایسی ہی ہے کہ جب اغلب احوال میں عمل دف کئی نقائص و قبائح کا حامل تھا تو اس خاطر قولی احادیث میں تشریع عام کرتے ہوئے اس سے ممانعت فرمائی ۔ لیکن جب ایک مقام پر ایک خاص ہیئت میں عمل ان عمومی قبائح سے خالی تھا جو عموماً اس دوران مجتمع ہوتے ہیں ۔ تو اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خصوص فرد کا لحاظ رکھتے ہوئے منع نہیں فرمایا ۔
کیونکہ اس خاص وقت میں جب بچیاں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے دف بجا کر اشعار پڑھ رہی تھیں اسوقت نہ تو اشعار عشقیہ تھے۔ اور نہ ہی مزید کسی فتنہ کا اندیشہ تھا ۔
پس لہٰذا شارع کے اس عمل کو”تقرير الاجازة مع اظهار الكراهة” کے عنوان معنون کرنا چاہیے ۔ چنانچہ فیض الباری شرح صحیح البخاری جلد دوم کی مندرجہ ذیل عبارت کچھ یوں ہے ۔
“وهكذا في واقعة أخرى مثلها حتى جاءه عمر رضي ا الله عنه ، وَرَأَيْنه القينه على الأرض وقعدن فحينئذ قال النبي ﷺ: إن الشيطان يفر من عمره.
وأشكل على الناس قوله، فإنَّ التدفف لو كان من الشيطان كما يدل عليه قوله هذا كيف أغمض عنه، ولو كان مباحًا كما يدل عليه إغماضه كيف جعله من فعل الشيطان آخرا .
وحله أنَّ الشيء قد يكون قدرّ منه حلالاً ويَنْجَرُّ إلى الحرام بالإفراط والتفريط فما كان حراما باعتبار أغلب الأحوال يحكم عليه الشرع بكونه من الشيطان باعتبار الجنس وحاله الأغلب، وإن لم يتحقق بحسب خصوص المقام فالتَّدَفه وإن كان حلالا . في بعض الأحوال كهذا التدفف الذي ضُرِبَ به بين يدي النَّبي لأجل معنى صحيح مع فقدان معنى محرم لكنه لما كان حرامًا في أغلب الأحوال لانعدام هذه الاحتفافات نَسبه إلى الشيطان.
و حاصل صنيعه تقرير الإجازة مع إظهار الكراهة، وهو الذي يناسب منصب النبوة، فإنه لو نهى عنه مطلقا لانعدمت الإباحة وصار حرامًا ولم تبق مرتبة منه جائزة ولو لم يُكره ولم يُظهر الكراهة أيضا لجاز بدون كراهة أيضًا، فكل ما كانت مباحة في نفسها باعتبار بعض الشرائط ومكروهة باعتبار انجرارِهَا إلى الحرام في الأغلب يرد فيها النهي باعتبار الجنس مع الإغماض عنها عند خُلُوها عن الإفراط والتفريط،”
خلاصۃ القول
پس مذکورہ بالا بحث سے ثابت ہوتا ہے کہ نصوص شرعیہ کے بیچ پائے جانے والے تعارض و اختلاف کو رفع کرنے واسطے اغراض شرعیہ کا بھی عمیق مطالعہ کرنا چاہیے ۔کیونکہ بعض اوقات نصوص شرعیہ میں پائے جانے والے اختلاف کا تعلق اغراض شرعیہ کے ساتھ ہوتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حافظ حسن علی ادارہ علوم اسلامی سترہ میل سے فارغ التحصیل اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں ایم-فل علوم اسلامیہ کے طالب علم ہیں ۔
کمنت کیجے