Home » تشکیک کا قافلہ اور عشق کا حُدی خواں
اسلامی فکری روایت تہذیبی مطالعات شخصیات وافکار فلسفہ

تشکیک کا قافلہ اور عشق کا حُدی خواں

ابو الحسین آزادؔ

ڈیکارٹ وہ شخص ہے جس سے مغرب نے تشکیک کا فن سیکھا۔ ڈیکارٹ نے ہر چیز پر شک کیا، کائنات پر، اِس کے مظاہر پر، ریاضی اور منطق پر حتی کہ اپنے وجود پر۔کہ پتا نہیں یہاں کچھ ہے یا نہیں؟ اُس نے اپنے یقین کا پورا شاہی قلعہ گرادیا اور اپنے سارے علم کو جھٹلا دیا۔ پھر نئے سارے سرے سے یہ ساری عمارت استوار کی۔ ڈیکارٹ نے کہا: اب میرے پاس جو بھی یقین ہے وہ میری ذاتی ملکیت ہے اور میری محنت کی کمائی ہے۔اب میں ایسا یقین لے کر آیا ہوں جس میں ادنی برابر بھی شک کی گنجائش نہیں ، جو ”خالص عقل“ کی مُحکم بنیادوں پر استوار ہے۔
لیکن اِس سب کے باوجود ڈیکارٹ دوسرے لوگوں کو شک کی راہ پر نہیں لگانا چاہتا تھا۔ اُس نے کہا میں دوسروں کو یہ تلقین نہیں کررہا کہ وہ بھی شک کا یہی طریقہ اختیار کریں اور اپنی تمام تر یقینیات کو جھٹلا کر نئے سرے سے سچائی کی تلاش میں نکل پڑیں۔خدا نے ہر شخص کو میرے جیسا کم قسمت نہیں بنایا۔ کرنے کو اور بہت کام ہیں۔ اِس لیے کہ عمارتیں گرانا تو بہت آسان ہے لیکن اُنھیں بنانے کے بہت صبر، ہمت، مہارت اور محنت کی ضرورت پڑتی ہے اور یہ ضروری نہیں کہ یہ متاعِ گراں مایہ ہر شخص کو میسر ہو:
”ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے آپ کو اتنا ہوشیار سمجھ رہے ہوتے ہیں جتنا وہ ہوتے نہیں۔وہ فیصلہ کرنے میں خود کو جلد بازی سے نہیں روک سکتےاور اپنے تمام خیالات کو منظم طریقے سے چلانے کے لیے(مطلوبہ) صبر کا مظاہرہ نہیں کر سکتے ۔اگر اِنھیں ایک دفعہ مسلّمہ اصولوں پر شک کرنے اور عمومی راستے کو چھوڑنے کی آزادی مل گئی تو یہ کبھی خود کو اُس صراطِ مستقیم پر برقرار نہیں رکھ پائیں گے جس پر اِنھیں (شک کا منہج اختیار کرنے کے بعد) چلنا چاہیے تھا اور یوں یہ پوری زندگی گمراہی میں گزار دیں گے۔“ (Discourse       on         the         Method       pg. 7)
یقین کی عمارت کے گرانے کے بعد پوری زندگی شک کے صحرا میں نہیں گزاری جاسکتی۔ پہلے آپ کو بنی بنائی عمارت مل گئی تھی لیکن اَب آپ کو اپنی دنیا آپ تعمیر کرنا ہوگی۔ اپنی پوری عقل اور پورے شعور کو نئے سرے سے تعمیر کرنا ہوگا۔ غزالی کی طرح تیرہ سال جنگلوں کی خاک چھاننا ہوگی اور ڈیکارٹ کی طرح برس ہا برس ایک تنگ و تاریک کمرے میں ”فلسفۂ اولی پر مراقبے“ کرنا ہوں گے۔کیا ہر شخص اِس کی ہمت رکھتا ہے؟ حضرت تھانوی نے نئے ذہن سے گلہ کرتے ہوئے کہا تھا: ”اول کوتاہی یہ ہے کہ شبہات باوجود یہ کہ روحانی امراض ہیں مگر اُن کو مرض نہیں سمجھا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے ساتھ وہ برتاؤ نہیں کیا گیا جو امراضِ جسمانیہ کے ساتھ کیا جاتا ہے۔“ (الانتباہات المفیدہ، ص: 8)بھلا اُس شخص کی حماقت کی بھی کوئی حد ہے جس نے پورا محل گرایا اور پھر کٹیا تک تعمیر نہ کی!
خاص طور پر وہ جو چند کتابیں، یا خاص طرح کا ادب اور تاریخ (بلکہ اکثر تومحض فیس بُکی ملحدین کی پوسٹیں)پڑھ کر اپنی تہذیب، اپنے ایمان اور اپنے دینی شعور سے اعلانیہ دستبردار ہوکر اندھا دھند شک کے کنویں میں کود پڑتے ہیں۔ حالاں کہ آگے وہ تیراکی کی ابجد سے بھی واقف نہیں ہوتے۔یوں عمربھر کے لیے شدید قسم کے وجودی اور شعوری صدمے سے دوچار ہوجاتے ہیں۔
جدید متشکّک دراصل اِس غلط فہمی کا شکار ہے کہ انسان کے اندر محض عقلی شعور ہے۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ اِنسان بس ریاضی کا فارمولہ ہے ۔ وہ یہ اہم سچائی بھول جاتا ہے کہ عقلی شعور کے ساتھ ایک وجدانی شعوربھی ہے۔ علم کی حد سے آگے بھی ایک جہانِ معنی ہے۔ طبیعی زمان و مکان سے ماورا بھی ایک کائنات ہے جس کی تقویم میں عصرِ رواں کے سوا اور بھی بہت سے بے نام زمانے بہہ رہے ہیں اوردل کوکبھی کبھی پاسبانِ عقل کی انگلی چھوڑکر اپنے زور پر بھی محشر خرامیاں کرنے دینا چاہیے۔
امرِ واقعہ یہ ہے کہ شک کی راہوں پر چل کر واپس لوٹنے کے بعد ڈیکارٹ نے جب اپنا نیاقصرِ یقین تعمیر کیا تو وہ بھی سارا عقل کی بنیادوں پر اُستوار نہیں تھا۔ پچھلی صدی کا ایک بڑا فلسفی ڈیکارٹ سے اِس بات کا شکوہ کرتا ہے کہ اُس نے جس شاندار طریقے سے یقین کی عمارت کو گرایا اُس شاندار طریقے سے وہ تعمیر نہیں کر سکا:
The     constructive      part       of        Descartes’s        theory        of         knowledge        is       much        less        interesting        than        the         earlier         destructive       part. (Russell: The History of Western Philosophy, pg. 566)
رسل کو یہ گلہ ہے کہ تخریب کے بعد جب ڈیکارٹ تعمیر پہ آیا تو مسیحی علم الکلام کے اُصولوں کو جوں کا توں لا کھڑا کردیا۔ حالاں کہ اگر ڈیکارٹ کا اپنا وجود تک قابلِ تشکیک ہو سکتا ہے تو یہ مسیحی کلامی (Scholastic) اصول (جس سے ڈیکارٹ نے خدا کے وجود کو ثابت کیا) کیسے ہر طرح کے شک و شبہ سے بالاتر ہو سکتا ہے کہ ”مسبّب کبھی بھی اپنے سبب سے زیادہ کامل نہیں ہوسکتا۔“ ؟
An       effect        can        never        have          more         perfection         than        its         cause. (Ibid)
رسل کا شکوہ بجا ہے لیکن بات بالکل بے غبار اور واضح ہےکہ سارا معمہ محض عقلی داؤ پیچ سے حل ہو ہی نہیں سکتا۔ ڈیکارٹ کو جس حقیقت کے اظہار میں تامل تھا اور اُس کے لیے وہ مسیحی کلامی اصولوں کے استعارے تراش رہا تھا وہ غزالی نے ڈنکے کی چوٹ پر کہہ دی۔ غزالی نے تشکیک کے صحرا کی خاک اُس وقت چھانی تھی جب ڈیکارٹ کی پوری تہذیب نے ابھی دیوارِ دبستاں پر ب الف لکھنا بھی شروع نہیں کیا تھا: ”مجھ پر دو ماہ ایسے بیتے کہ میں زبانِ حال سے سوفسطائیوں کے مذہب (تشکیک) پر تھا۔پھر خدانے مجھے اس مرض سے شفا دے دی اور میرانفس صحت و اعتدال کی حالت کی طرف لوٹ آیا۔ ۔۔۔ اور مجھے یہ شفا منظم دلیل یا مرتّب کلام کی بدولت نہیں ملی بلکہ اُس روشنی کی بدولت ملی جو خدا نے میرے سینے میں فروزاں کی۔ وذلك النور هو مفتاح أكثر المعارف، فمن ظن أن الكشف موقوف على الأدلة المحررة فقد ضيق رحمة الله تعالى الواسعة. (المنقذ من الضلال:ص115)
”یہ روشنی ہی اکثر معارف کی کنجی ہے اور جو سمجھ رہا ہے کہ علم صرف لکھی ہوئی دلیلوں سے حاصل ہوتا ہے تو اُس نےتو خدا کی وسیع رحمت کو تنگ کردیا ہے۔“

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ابوالحسین آزاد صاحب جامعہ دارالعلوم کراچی کے فاضل ہیں ۔آج کل مختلف عربی کتب کے تراجم کی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں