علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں اسلامک فنانس پر سہ روزہ کانفرنس ہورہی تھی. جو دراصل اسلامک بنکاری سے متعلق ہے. میں اسلامی بنکاری سے کس قدر غیر مطمئن ہوں، میرے احباب سے مخفی نہیں.
تاہم کانفرنس میں فیصل آباد سے مولانا محمد زاہد تشریف لائے ہوئے تھے، ان کی زیارت کی نیت سے حاضر ہوا تھا. ایک سیشن میں شریک ہو کر کچھ سکالرز کے خیالات بھی سنے.
خوش آئند بات یہ تھی کہ نوجوان علماء نے اقتصادیات کے زندہ مسائل کا مطالعہ شروع کر دیا ہے اور اگر یہ جاری رہا تو جس روز اکابر پرستی کے دائرہ سے نکل کر قرآن و سنت سے براہ راست استدلال کے سائے میں آ گئے مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ راہ ہدایت کھول دے گا.
امر واقعہ یہ ہے کہ
جس ملک میں ہم دونوں وقت بھیک مانگ کر کھانا کھاتے ہیں
نہ صرف سٹیٹ بنک بلکہ عام بنکوں کا سیٹھ بھی عوام کی محنت سے راتوں رات کھرب پتی بننے کی کوشش پیہم میں ہے. اور وہ اس ضمن میں کسی شرعی ایڈوائزر کی بات سننے کو تیار نہیں،کچھ افراد اور اداروں نے ذاتی مارکیٹنگ کے لیے شرعی ایڈوائزرز کی دوکان کھولی ہوئی ہےاور کارپوریٹ سیکٹر کی خوشنودی کے لئے کسی بھی مردہ فقہی مسلک کی متعفن لاش کے اعضاء استعمال کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں سمجھتے اور عام کھاتے دار کے لیے ایڈوائزرز بھی ساہوکار ہو جاتے ہیں وہاں غیر سودی نظام کی تلاش کوڑا کرکٹ کے ڈھیر سے موتی تراشنے کے مترادف ہے.
سکالرز کو سنتے ہوئے محسوس ہو رہا تھا کہ ہر فرد ایک احساس گناہ کے بوجھ تلے بول رہا ہے اور غیر سودی نظام سے مایوس اور موجودہ نام نہاد اسلامی بنکاری کی زندگی سے ناامید ہے.
صرف دو ایک سکالرز نے اس امر پر اصرار کیا کہ موجودہ بنکاری کو منزل نہ سمجھا جائے بلکہ رہگزر جانتے ہوئےمنزل کے حصول کے لیے کوشش جاری رکھی جائے.
میری رائے یہ ہے کہ
ہر دور کی فقہ اس دور کے مسائل کو سامنے رکھ کر قابل عمل حل دیتی ہے. سیاسی اور اقتصادی میدان میں پچھلی تین صدیوں میں اتنی ترقی ہوئی کہ پچھلے ایک ہزار سال میں اس کی مثال نہیں ملتی. یہی وہ دور ہے جب فقہ اسلامی اور اس کے حاملین اصحاب کہف کی طرح دنیا سے دور غاروں میں فروکش رہے
آج کے دور کے لیے شامی اور قاضی خان غیر متعلق ہو چکے ہیں.
قرآن کا ایک اعجاز کا پہلو یہ بھی ہے کہ یہ ہردور کے لیے کتاب ہدایت ہے. ضرورت ہے کہ آج کے حالات کا مکمل ادراک کر کے براہ راست کتاب اللہ سے ہدایت لی جائے، سنت سے بطور تبیین استفادہ کیا جائے اور اخبار آحاد سے قرآن کے نسخ کے گناہ کا ارتکاب نہ کیا جائے
زر اور استعمال زر ہر فرد کی ضرورت ہے. مقاصد شریعت کی رو سے اس میں تیسیر کے پہلو کو ملحوظ رکھا جائے.
قرآن کی رو سے قرض پر اضافہ سود ہے لیکن کسی فریق پر ظلم نہ ہونے کی ضمانت کی شرط کے ساتھ نیز اکتناز دولت کو روکنے کے اقدامات لازما کئے جائیں.
یہ بھی معلوم ہے کہ بنکوں میں جمع کروائی جانے والی رقوم حفاظت کے لیے رکھوائی جاتی ہیں کوئی شخص بنک کو قرض نہیں دیتا. جب بنک اس رقم کو استعمال کر کے منافع کماتے ہیں تو کھاتہ دار کو اس منافع سے حصہ ملنا ہی عدل کا تقاضا ہے. نیز اس دھرتی پر ایسا شخص تلاش کرنا ناممکن ہے جو مضاربت یا شراکت میں دیانت کو ملحوظ رکھے اس لئے رب المال کے منافع کی شرح مقرر کر دینا ہی انصاف ہے.
الغرض مسئلے کے تمام پہلوؤں کا ازسر نو جائزہ لے کر کوئی قابل عمل حل تلاش کیا جا سکتا ہے. اسلامی بنکاری کے فریب سے نکل آنے میں ہی عافیت ہے
کمنت کیجے