تصوف سادگی کا درس دیتا ہے، تصوف اخلاص عمل کا نام ہے، وہ دل کی دنیا کو بدلنے کا کا داعی ہے۔ دل کی صفائی کے اثرات انسان کے معاملات میں بھی ظاہر ہوتے ہیں، یا ظاہر ہونے چاہییں۔یہ سب اپنی جگہ،انسان جب کسی بھی وجہ سے نمایاں ہوتا ہے تو کچھ مسائل اسے ضرور لاحق ہوتے ہیں۔مگر انہیں سنبھالنا اور اس راہ سے سلیقے اور سلامتی سے گزرجانا ہی اصل کمال ہے،یہاں بڑے بڑے پھسل جاتے ہیں۔ کہیں تو حفاظتی ضرورتیں اڑے آتی ہیں،اور اکثر انسان کا نفس اس کو عامۃ الناس سے دو قدم، دو گز یا دو فٹ آگے کر دیتا ہے۔اس صورت حال کے پیدا کرنے میں اکثر تو مریدوں کا ہاتھ ہوتا ہے، کچھ صورتوں میں پیر خود بھی ایسا اہتمام فرماتے ہیں۔
مگر اس کی کی بڑی حد تک ذمے داری عوام پر بھی آتی ہے۔ وہ بھی اب چمک پسند اس قدر ہوگئے ہیں کہ تام جھام کے بغیر ان کی نظر کسی پر ٹکتی ہی نہیں۔ یہی اصل آزمائش ہے کہ بندہ چمک پر زندہ رہتا ہے، یا تصوف کی حقیقت پا لینے کے لیے ان جھمیلوں سے اپنے آپ کو آزاد کراکے مطمئن زندگی بسر کرتا ہے۔
کسی بھی شخص سے انسان کا اصلاحی تعلق قائم ہوجائے تو اس کے لئے مناسب یہی ہے کہ پھر ہر ایک سے یک سو ہو کر اس تعلق کو نبھانے کی کوشش کرے۔ لیکن اس کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ اس بزرگ کے علاوہ دنیا میں کوئی اور شخص موجود ہی نہیں رہا، یا باقی جس قدر بھی لوگ موجود ہیں ان کا درجہ اس بزرگ شخصیت سے فروتر ہے۔
اس عقیدت کی دنیا کو سب سے زیادہ نقصان مبالغہ پہنچاتا ہے اور اس میں مبالغے کی اصل بنیاد بلند وبالا القاب ہیں،جو استعمال تو محض اظہار عقیدت کے لیے کیے جاتے ہیں مگر یار لوگ انہیں حقیقت سمجھ لیتے ہیں۔ کسی بھی شخص کا پیر آج کے دور میں قطب الاقطاب سے کم نہیں ہے۔ یہ وہ مبالغہ ہے جو انسان کو جھوٹ کی سرحد تک پہنچا دیتا ہے۔ اس سے احتراز کرنا چاہیے اور یہ مشائخ کی ذمے داری ہے کہ لوگوں کو اس حد تک نہ جانے دیں اور اس حوالے سے سے اپنے نفس کو موٹا کرنے کی بہ جائے اپنی اور اپنے متعلقین کی عاقبت کو پیش نظر رکھیں۔
ہماری خانقاہوں کے لیے آج کے دور میں دو بڑے فتنے ہیں۔ ایک مبالغے پر مبنی تشہیر اور ایک حد سے تجاوز کرتی ہوئی مادیت پرستی۔
اللہ تعالی حفاظت فرمائے۔
کمنت کیجے