Home » مسئلہ کیا ہے؟کرنا کیا ہے؟ (موجودہ صورت حال کے تناظر میں)
تاریخ / جغرافیہ تہذیبی مطالعات سماجیات / فنون وثقافت نفسیات

مسئلہ کیا ہے؟کرنا کیا ہے؟ (موجودہ صورت حال کے تناظر میں)

 پہلے تو ہمیں یہ جاننا چاہیے کہ مسئلہ ہے کیا۔مسلمانوں کی تاریخ پر سرسری نظر رکھنے والے شخص کو بھی یہ بات سمجھانے کی ضرورت نہیں کہ مسلمانوں کے حالات میں مدوجزر اللہ تعالیٰ کی تکوین اور اس کی خاص مصلحت ہے اور یہ اللہ کی اسکیم کا حصہ ہے۔اور اگر یہ اللہ کی اسکیم کا حصہ ہے تو آپ کے اور میرے کہنے سے اور حرمین میں لمبی لمبی دعائیں کرنے سے بھی اس میں تبدیلی نہیں آسکتی۔ اس لیے ہمیں پھر اس کی حکمت تلاش کرنی ہوگی۔ اس کی حکمت کے لیے بہت آسان تمثیل سمندر کے مد و جزر کی ہے۔ہمیں اپنے لیے تھوڑا سا پانی محفوظ کرنا ہو تو کسی بھی حوض میں محفوظ کر لیتے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰٰ کو اس پوری کائنات کی ساری مخلوق کے لیے قیامت تک کی خاطر پانی محفوظ کرنا تھا تو اس کے لیے سمندر کا نظام قائم کیا۔ جس کا پانی کھارا بھی ہے، اور اس میں انتہائی تسلسل اور تواتر کے ساتھ مد وجزر یعنی اتار چڑھاؤ بھی آتا رہتا ہے۔ یہ مد و جزر اس پانی کو سڑنے سے بچاتا ہے، یہی عمل نمک کا بھی ہے، وہ بھی پانی کو دیر تک محفوظ رکھتا ہے۔ پھر اسے اللہ تعالیٰ قدرتی طور پر desalination process ڈی سیلینیشن پراسس سے گزار کر دوبارہ اپنی مخلوق کے تشنگی دور کرنے کا سامان کرتا ہے ۔یہی معاملہ کائنات کا ہے۔ پانی ہی کی طرح انسانیت اور انسانیت میں موجود اسلامیت کو بھی قیامت تک محفوظ رکھنا ہے،یہ بھی اللہ تعالیٰ کی اسکیم کا حصہ ہے۔ اس لیے اس میں مد و جزر لازم ہے، تاکہ اس کی فکر اور اس کا جسم سڑنے سے بچ سکے۔

یہاں ایک اور پہلو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانی ہدایت کے لیے جہاں وحی کا سلسلہ قائم فرمایا اور انبیائے کرام مبعوث کیے، وہیں پوری انسانیت کو عموماً اور اہل ایمان کو خصوصاً غور و فکر کی بھی دعوت دی۔ جب ایک نبی مکرم کے ذریعے انسانیت کو بہ راہ راست اللہ کی ہدایت مل سکتی ہے، تو پھر عقل کو متحرک کرنے کا کیا سوال۔ یہاں بھی غور کیا جائے تو نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ اس انسانی کائنات کو اللہ تعالیٰ نے چوں کہ انسانی ہاتھ کے ذریعے ہی چلوانا ہے، اسی میں انسانیت کی آزمائش بھی مضمر ہے، اس لیے انسانی فکر اور عقل اور اس کے ارتقا کو قائم رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو ہمیشہ غور و فکر پر ابھارا ہے اور اس کی ترغیب دی ہے، تاکہ انسانی عقل استعمال ہوتی رہے اور وہ ناکارگی سے بچ سکے۔

یہ بات واضح ہو جائے تو ہمیں اس معاملے میں تردد نہیں رہتا کہ آخر امت مسلمہ ہی کیوں مسلسل مسائل کا شکار ہے اور آخر کیوں وہ ۱۴۰۰برس میں۱۴ہزار سے زائد آزمائشوں سے گزر چکی ہے۔ واضح بات ہے کہ اللہ کو مقصود ہی اسی امت کو بچانا ہے، تو اس کے لیے اہتمام بھی اسی قدر فرمایا ہے، تاکہ وہ مسلسل متحرک رہے، اور نشہ آور سکون کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ناکارگی سے محفوظ رہ سکے۔

یہیں سے یہ نکتہ بھی واضح ہو جانا چاہیے کہ یہ مد و جزر اور یہ اتار چڑھاؤ ہمیں مٹانے کے لیے نہیں، دراصل زندہ رکھنے کے لیے ہے، کیوں کہ اس کے نتیجے میں جذبات کے تلاطم سے انسان کی فکر اور عمل پر پھیلی ہوئی ناکارگی اور سستی و کاہلی دور ہو جاتی ہے۔ جب انسان کی جان پر بن جائے تو کاہل سے کاہل آدمی بھی بستر سے اٹھنے اور نیند سے بیدار ہونے پر مجبور ہو جاتا ہے، اور جون ہی انسان کو ذرا سی بھی آسودگی میسر آتی ہے تو وہ خوب لمبی تان کر سوتا ہے۔یہی انسانی نفسیات ہے۔ اس لیے موجودہ حالات مایوسی نہیں امید پیدا کرنے کا باعث بننے چاہییں۔

اس مقدمے کی روشنی میں آج کے حالات کو ہم دیکھتے ہیں تو یہ ہماری موجودہ صورت حال بھی اسی اتار چڑھاؤ کا ایک تیز نظر آتی ہے۔یعنی یہ ماضی کا تسلسل ہے، ایسی کوئی نئی بات نہیں جو امت مسلمہ کو تاریخ میں پہلی بار پیش آئی ہو۔ جب کسی بات کے بارے میں ہمیں یقین ہو جائے کہ یہ ماضی کا تسلسل ہے تو اس میں ایسی شدت برقرار نہیں رہتی جو مایوسیوں کو جنم دیتی اور ناکارگی کو پروان چڑھاتی ہے۔

اب آئیے دوسری جانب

تاریخ انسانی یہ بات بھی سمجھانے کے لیے کافی ہے کہ انسانی عروج و زوال ایک حقیقت ہے۔ہر عروج کو زوال ہے، اور ہر شب کو ایک سحر میسر ہے۔اس اعتبار سے خاص طور پر امت مسلمہ کی تاریخ کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

۱۔عہد مسرت

۲۔دور الم

در اصل یہ وہی چیز ہے، جسے ہم مد و جزر سے تعبیر کر رہے ہیں۔

یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ عہد مسرت ہو یا دور الم، دونوں ایک دوسرے کا تتمہ اور لازمہ ہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ان دونوں میں سے کوئی ایک چیز بھی مسلسل کسی قوم یا امت پر طاری رہے۔اس میں تبدیلی ناگزیر ہے اور وقت کی ضرورت۔

جب یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے کی ضد ہونے کے باوجود ایک دوسرے کا لازمہ ہیں اور انہیں بہ ہرحال تبدیل ہونا ہی ہے تو پھر ہمارے کرنے کے کام کیا ہیں۔ دیکھا جائے تو دونوں ادوار کے تقاضے الگ الگ ہیں اور دونوں ادوار کی ذمے داریاں مختلف ہیں۔

دور الم

دور الم کی بہت سی علامتیں ہیں، ان میں چند نہایت نمایاں ہیں۔ مایوسی بغاوت، عدم اعتماد، الجھن اور کنفیوژن، شک اور تردد کا رواج۔ دوسروں پر ذمے داری ڈالنا۔ یہ دور اصل میں انسان کے اندر صبر اور استقامت کا تقاضا کرتا ہے، جب کہ عام طور پر اس دور میں انسان میں فرار کی ذہنیت پروان چڑھتی ہے اور انسان ڈر اور خوف زدگی کا شکار رہتا ہے۔ ان میں سب سے نمایاں چند علامتیں یا ان پر زرا وضاحت کی ضرورت ہے۔

سب سے پہلے تو انسان یہ سمجھتا ہے کہ اب ہمارے لیے کوئی کھڑکی ایسی باقی نہیں ہیں جہاں سے ہمیں روشنی ا ٓسکے۔ اس لیے اب ہم مکمل تاریکیوں میں ڈوب چکے ہیں، اب ہمارے کھڑے ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ یہ مایوسی کئی حوالوں سے خطرناک ہے، ایک تو یہی بات کہ مایوس انسان سے کسی اچھے اقدام کی توقع ممکن نہیں۔ دوسرے مایوس شخص ناکارگی کی اس منزل کو پہنچ جاتا ہے کہ پھر وہ بجائے اس کے کہ معاشرے کو کھڑا کرنے میں اپنا کردار ادا کرے، الٹا معاشرے پر بوجھ بن کر رہ جاتا ہے۔

بغاوت

دوسری جانب بغاوت انسان کی قوت کار کو منفیت آمادہ کر دیتی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ یہ شخص مایوس شخص سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوتا ہے کہ اس کی صلاحیت مثبت اور رہنے کی بہ جائے منفی ہو کر معاشرے کے لیے خطرناک ہو جاتی ہے۔

عدم اعتماد

دور الم میں انسان حد درجے احساس کم تری میں مبتلا ہوجاتا ہے، جس کے نتیجے میں وہ خود اعتماد نہیں رہتا۔ خود اعتمادی کا نہ ہونا درحقیقت بہت سی منفی صفات کے وجود کا باعث بنتا ہے، جھوٹ، غلط بیانی، احساس ذمے داری نہ ہونا، وغیرہ اور یہ سب صفات ناکارگی کو جنم دیتی ہیں۔

اس لیے ان حالات میں معاشرے کے فہمیدہ طبقے کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ ان تمام خطرناک رجحانات کو پیدا ہونے سے بچائیں اور جس قدر پیدا ہو چکے ہوں ان کے اثرات کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔اس ضمن میں کیا کیا جا سکتا ہے اس پر چند باتیں آگے چل کر عرض کرتے ہیں۔

درست بات یہ ہے کہ اصل راستہ ان تمام ذہنی عواض سے ہٹ کر اور بچ کر نکلنے میں ہے۔

ا س لیے لوگوں تک صحیح صورت حال پہنچانے کے ساتھ ساتھ ان میں امید زندہ رکھنا اور انہیں سوچنے اور علم کرنے کے لیے درست نہج دینا اہل فکر کا کام ہے۔

عہد مسرت

درحقیقت اصل تعمیری دور عہد مسرت ہی ہے،اس دور کا واحد وظیفہ محض مسرت کو انگیز کرنا نہیں ہے،بل کہ پوری امت کو آئندہ آنے والے مسائل اور دور الم کے لیے تیار کرنا بھی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ عہد مسرت میں امت کا اکثر حصہ تفریح میں یا کم از کم ایسے مشاغل میں مصروف رہے گا جو بے شک تعمیری ہوں، لیکن آنے والے دور کی خرابیوں یا ممکنہ خرابیوں کے سد باب کی طرف اس کا ذہن نہیں جا سکتا۔عام انسانی مزاج یہی ہے اور اس انسانی مزاج اور نفسیات کو کوئی چیز تبدیل نہیں کر سکتی۔ لیکن ہر عہد میں ایسی شخصیات موجود ہوتی ہیں اور انہیں موجود ہونا چاہیے کہ وہ نوشتہ دیوار پڑھنے کی صلاحیت رکھتی ہوں،تاکہ وہ معاشرے میں نہ صرف یہ کہ ممکنہ خرابیوں کو پیدا ہونے سے روک سکیں اور جو پیدا ہو جائیں ان کے اثرات کو جتنا ممکن ہو کم کر سکیں، بل کہ عہدے الم کی آمد سے پہلے اس کی تیاریاں بھی کر سکیں، تاکہ اس عہد کا انسان ذہنی طور پر تیار ہو کر اس عہد میں داخل ہو، نہ یہ کہ اسے ایسا محسوس ہو کہ یہ عہد اچانک سے ہم پر ٹوٹ پڑا ہے۔

دور الم کی طرح عہد مسرت کی بھی کچھ خوبیاں یا علامتیں ہوتی ہیں، ان میں شکر، عاجزی و انکساری اہم ہیں۔ اس دور میں رجوع ہوتا ہے، اس کے برعکس دور الم میں فرار کی ذہنیت پروان چڑھتی ہے، انکار کا جذبہ غالب رہتا ہے۔

شکر

عہد مسرت میں شکر کے ذریعے انسان اپنے آپ کو بھی مطمئن رکھتا ہے اور پیغام خداوندی دوسروں تک پہنچانے کا جذبہ پیدا رکھ کر شکر کی حقیقت کا حصول بھی اپنے لیے ممکن بناتا ہے۔

عاجزی و انکساری

شکر کے ساتھ ساتھ احساس ذمے داری انسان میں عاجزی اور انکساری کا رویہ پیدا کرتا ہے، اوربالفرض یہ رویہ پیدا نہ ہو تو اس کی جگہ کبر اور گھمنڈ لے لیتا ہے، جو بالآخر عہد مسرت کا دورانیہ کم اور دور الم کو نزدیک کرنے میں ایک اہم عامل کے طور پر کارفرما ہوجاتا ہے۔ کرنا کیا ہے؟

اس تفصیل کے ضمن میں اشارتاً وہ تمام باتیں آچکی ہیں، جو اس عنوان کے تحت ہم بیان کرنا چاہتے ہیں، لیکن چند نکات کی صورت میں انہیں یہاں واضح لفظوں میں درج کر دیا جاتا ہے۔

۱۔سب سے پہلے تو معاشرے کے ہر ہر فرد کو یہ باور کرا دیا جائے کہ یہ حالات مد و جزر کی کیفیت ناگزیر ہے،اور ہر اتار کے بعد چڑھاؤ یقیناً ہمارا منتظر ہے۔

۲۔پھر ایسے اقدامات کیے جائیں کہ معاشرے میں پیدا ہونے والی مایوسی کا تناسب کم سے کم ہو اور مایوس افراد مایوسی کی اس کیفیت سے نکل سکیں۔

۳۔لوگوں کو یہ بتانا بھی ہماری ذمے داری ہے کہ انسانی صلاحیت اللہ کی امانت ہے اسے اسی قاعدے ضابطے کے مطابق استعمال کیا جانا ہماری لازمی ذمے داری ہے جو اللہ تعالیٰ نے متعین فرمایا ہے۔ نہ یہ کہ محض نعروں کی بھینٹ چڑھ کر اپنے وسائل اور صلاحیتوں کو برباد کر دیا جائے۔

۴۔امت وحدہ کے تصور کو ہر صورت میں قائم رکھا جائے اور ہر نوعیت کے علاقائی نعرے کو اپنے ذہن سے کھرچ کر پھینک دیا جائے،تاکہ کم از کم کے درجے میں امت کے کسی ایک حصے پر ہونے والے مظالم کو دوسرے حصہ پوری طرح محسوس کر سکے۔

۵۔باہم ایک دوسرے پر اعتماد کی فضا قائم کی جائے، نہ یہ کہ ہر شخص دوسرے شخص کو شک کی نظر سے دیکھے اور اپنے ذہن میں متعین ہدف کو ہی حتمی ہدف سمجھ کر دوسرے تمام افراد کو دشمن کا ایجنٹ تصور کرلے۔

۶۔دور الم کی ایک خاص علامت الجھن اور کنفیوژن بھی ہوتا ہے۔ اسے بہ ہر کیف دور ضرور کرنا چاہیے،لیکن جس حد تک الجھن موجود ہو اسے کسی دشمنی اور عداوت کی بنیاد نہیں بننا چاہیے۔

۷۔ایکشن یا رد عمل کا مفہوم محض عسکری مزاحمت نہیں ہے. ویسے بھی انفرادی سطح پر یہ عمل اب ممکن ہی نہیں رہا ہے. آج کی دنیا میں مزاحمت کی درجنوں شکلیں متعین ہو چکی ہیں، انہیں سمجھنا پھر ایک ٹیم ورک پیدا کرنا اور مقصد اور ہدف متعین کر کے پوری دیانت، پورے اعتماد اور پوری صلاحیت کے ساتھ اقدام کرنا۔یہ اہم ترین ضرورت ہے۔ یہ ایک تفصیلی عنوان ہے، لیکن اس کی طرف اشارہ کرنے کے لیے محض لفظ ’’سوشل میڈیا‘‘ کافی ہے۔

فی الحال اسی قدر ممکن ہو سکا ہے۔ موقع میسر رہا تو چند گزارشات پھر کبھی۔

 

 

ڈاکٹر سید عزیز الرحمن

ڈاکٹر سید عزیز الرحمن، دعوہ اکیڈمی کے ریجنل سنٹر، کراچی کے انچارج اور شش ماہی السیرۃ عالمی کے نائب مدیر ہیں۔

syed.azizurrahman@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں