Home » خضریاسین صاحب اور ڈاکٹر زاہد مغل صاحب کا مباحثہ
زبان وادب شخصیات وافکار کلام

خضریاسین صاحب اور ڈاکٹر زاہد مغل صاحب کا مباحثہ

گل رحمان ہمدرد

قرآن کے ترجمہ translation ,فہم understanding,تعلیم teaching اور تفسیر Exegesis کو لیکر گزشتہ اٹھ دس دنوں سے ڈاکٹر خضریاسین صاحب اور زاہد مغل صاحب کے مابین ایک بحث جاری ہے۔ یہ بحث بہت مفید ہے۔دونوں طرف سے مفید علمی نکات اٹھاۓ گیۓ ہیں۔اس مسئلہ میں میری اپنی پوزیشن منزلۃ بین منزلتین والی ہے۔ڈاکٹر خضریاسین صاحب کا موقف مجھے علمی اور اصولی طور پر بالکل مبنی بر حقیقت نظر آرہا ہے اگرچہ چند ایک مقامات پر ان سے اختلاف کی گنجائش موجود ہے۔ دوسری طرف زاہد مغل صاحب کا موقف ہے کہ ترجمہ اصولاََ درست ہے اس میں کسی قسم کی کوئی قباحت نہیں۔ اسی طرح بعض دوسرے لوگوں کا موقف ہے کہ ترجمہ موجودہ زمانے کی ناگزیر ضرورت ہے۔اس کے بغیر کام نہیں چل سکتا۔میری اپنی راۓ جیساکہ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں یہ ہے کہ ترجمہ ضروری ہے لیکن ترجمہ کی وہ اصولی حیثیت ہردم ہماری نگاہوں میں رہنی چاہیۓ جس کی طرف ڈاکٹر خضریاسین صاحب متوجہ کررہے ہیں۔ اسی طرح ترجمہ translation       of        text  اور تعلیمِ متن teaching      of      text میں خضریاسین صاحب جو فرق قائم کرتے ہیں ان کی فکر کو سمجھنے کےلیۓ اس فرق کا ادراک بہت ضروری ہے۔ہم نے دیکھا کہ خضریاسین صاحب کے اکثر مخالفین اس فرق کا ادراک نہیں کرپارہے ہوتے۔اسی طرح تفہیمِ متن Understanding      of        text اور تفسیرِمتن Exegesis      of       text کے مابین خضریاسین صاحب جو فرق قائم کرتے ہیں ان پر تنقید کرتے ہوۓ وہ بھی نگاہوں میں رکھنا چاہیۓ۔اس کے بغیر آپ ان کے موقف کو کبھی نہیں سمجھ سکتے۔ان کے بقول لسانیات,ہیرمیونیٹکس اور اسی طرح کے دیگر علوم میں انڈراسٹینڈنگ ایک ذہنی عمل ہے جبکہ تفسیر Exegesis متن سے ریلیٹیڈ ایک ایکٹیوٹی ہے۔۔۔۔۔۔قرآن کی تفہیم کےوہ قاٸل ہیں تفسیر کے مخالف ہیں۔تفسیر اور تفہیم کو وہ بطور اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔

المختصر یہ کہ ڈاکٹر خضریاسین کی لسانیاتی فکر کو سمجھنے کےلیۓ ان چار اصطلاحات Terminologies کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے۔ اگر لسانیات اور اسی طرح کے دیگر علوم میں یہ چار مختلف ایکٹویٹیز ثابت ہوجاتی ہیں تو ڈاکٹر خضریاسین کے موقف میں صحت کا امکان بڑھ جاتا ہے۔اور اگر یہ ایک ہی نوعیت کے کام ثابت ہوجاتے ہیں تو ان کا موقف کمزور ہوجاتا ہے۔۔۔۔
اس بحث کو پہلے لسانیاتی دائرےمیں سمجھنا چاہیۓ اور پھر مذہبی دائرے میں داخل ہونا چاہیۓ۔اس صورت میں آپ بہتر پوزیشن میں ہوں گے کہ آپ ان کی راۓ کو دلائل سے قبول یا رد کرسکیں۔اگرلسانیاتی دائرے میں بحث کو سمجھے بغیر آپ مذہبی ڈومین میں داخل ہوکر ان سے بحث کریں گےتو آپ ان کے موقف کے حق یا مخالفت میں کوئی مستند بات کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گے۔ ۔۔
ہمارے ہاں لوگ ہر بات کو دو اور دو چار کی طرح سادہ الفاظ میں دیکھنا چاہتے ہیں۔جبکہ اعلیٰ علمی مواقف قطع نظر اس سے کہ وہ صحیح ہوں یا غلط سادہ ہوتے ہیں اور نہ ان کا سمجھنا آسان ہوتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گل رحمان ہمدرد صاحب فلسفہ اور تصوف میں دلچسپی رکھنے والے اسکالر اور باچا خان یونیورسٹی چارسدہ میں فلسفہ کے استاد ہیں۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں