از مولانا محمد علی صدیقی کاندھلویؒ
تحقیق وتخریج: ڈاکٹر انعام الحق غازی/نوید الرحمن داور
مولانا سنامی کی وفات :
اگرچہ مولانا سنامی کا سالِ وفات کچھ نے 709 ء بتایا ہے لیکن یہ درست نہیں ہے کیونکہ ضیاء الدین برنی نے تاریخِ فیروز شاہی میں مولانا سنامی کے بارے میں لکھا ہے کہ عہدِ علائی کی ساری مدت وعظ کہتے رہے اور تفسیر بیان کرتے رہے۔
ساری مدت کا مطلب یہی ہے کہ 696ء سے لے کر 716ء تک مولانا سنامی وعظ و تفسیر بیان کرتے رہے۔ دوسرے لفظوں میں مولانا سنامی 716 ءتک بقیدِ حیات رہے۔ علاء الدین کا زمانۂ حکومت بلا اختلاف سب کے نزدیک 696ء سے شروع ہو کر 716ء پر ختم ہوتا ہے۔ یہ 20 سالہ دورِ حکومت ہے۔ اس سارے زمانے میں بقول برنی مولانا سنامی وعظ و تذکیر کا کام کرتے رہے اور حیات رہے۔ اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ عین الملک ماہرو نے منشآت میں یہ بات بتائی ہے کہ:
” سلطان قطب الدین مبارک خلجی ایک بار دہلی سے باہر گیا اور دارالسلطنت بار بلدا کے سپرد کر گیا۔ دانشمندانِ دہلی نے باربلدا سے اس بات کی اجازت لے لی کہ نماز جمعہ میں جب امام سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو مقتدی بجائے ربنا لک الحمد کے اللہم ربنا لک الحمد کہے۔ مولانا سنامی کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے سلطان کو خط لکھا”۔ [1]
سلطان قطب الدین مبارک خلجی 717 ءمیں تختِ دہلی کا حکمران ہوا اور 720ء میں قتل ہوا۔ اس حساب سےمولانا سنامی کی وفات 716 ءاور 720ء کے درمیان میں ہوئی ہے۔ کیونکہ قطب الدین مبارک دہلی سے باہر 718 میں گیا ہے۔ بدایونی لکھتے ہیں:
“718ء میں قطب الدین ایک بھاری لشکر کے ساتھ دیو گیر گیا”۔ [2]
ضیاء الدین برنی تاریخ ِفیروز شاہی میں لکھتاہے کہ:
“چنانچہ 718ء میں سلطان قطب الدین امراء و ملوک کے ساتھ دیو گیر لشکر کشی کے لئے روانہ ہوا”۔ [3]
اسی زمانے میں بار بلدا کو سلطان قطب الدین نے اپنا جانشین مقررکیا ہے۔ برنی لکھتا ہے:
“وہ اپنی جوانی اور مستی میں ایسا مدہوش تھا کہ اس نے کسی بڑے سردار کو یا تجربہ کار کو دہلی میں اپنا نائب نہیں بنایا بلکہ ایک غلام بچے کو جسے علاء الدین کے زماے میں بار بلدا کہتے تھے اور جس کا نام شاہین تھا بلند مرتبہ عطا کر کے وقارالملک کا خطاب دیا اور انتہائی بے باکی کے ساتھ دہلی اور شاہی خزانے اس کے سپرد کر دیئے اور اپنی غیر موجودگی میں اسی کو اپنا نائب مقرر کر دیا”۔ [4]
اس سے صاف واضح ہوتا ہے کہ مولانا ضیاء الدین سنامی کی وفات 718ء تک نہیں ہوئی ہے بلکہ 719ء میں ہوئی ہے یعنی شیخ المشائخ کی وفات سے صرف 6 سال پہلے۔ شیخ المشائخ کی وفات 725ء ہوئی ہے۔ تاریخ کی اس روشنی میں اب یہ بات بالکل بے غبار ہے کہ مولانا سنامی کا سال وفات 719 ءہے، 709ء نہیں ہے۔
یہاں یہ بھی لطیفہ سنتے جائیے کہ ضیاء الدین برنی نے بار بلدا کے بارے میں یہ ہتک آمیز لہجہ کیوں اختیار کیا ہے۔ وجہ صرف یہ ہے کہ بار بلدا کو شیخ ضیاء الدین سنامی سے عقیدت تھی۔ ماہرو نے منشآت میں انکشاف کیا ہےکہ:
“بار بلدا مولانا ضیاء الدین سنامی سے عقیدت رکھتا تھا”۔[5]
بس ہمارے بار بلدا کا یہی جرم تھا۔ اسی جرم کی پاداش میں برنی نے اس پر ایک غلام بچہ کی بھپتی کسی ہے۔ یہ ماہرو وہی ہیں جن کو سلطان قطب الدین نے گجرات کی بغاوت کے لئے متعین کیا اور جن کو قطب الدین کے قتل کے بعد خسرو نے محمد بن تغلق کے ساتھ نظر بند کیا اور یہی عین الملک ماہرو محمد تغلق اور فیروز تغلق کے زمانے میں امیر رہے۔ کئی کتابوں کے مصنف ہیں لیکن اب صرف منشآت ماہرو ملتی ہے۔ منشآت اس دور کے نثری کارناموں میں بھی ادبی لحاظ سے بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ ان کی یہ تصریح ضیاء الدین جیسی سنی ہوئی کہانی نہیں بلکہ اُن کا آنکھوں دیکھا حال ہے۔ لہذا یہ بات بالکل بے غبار حقیقت ہے کہ مولانا سنامی قطب الدین کے دہلی سے باہر جاتے وقت بقید ِحیات تھے اور دہلی میں بار بلدا اُن کا نائب السلطنت تھا اور بار بلدا مولانا سنامی سے ارادت رکھتا تھا۔
مولانا سنامی کی وفات دہلی میں ہوئی۔ تصریح تو کہیں نہیں ملی لیکن شیخ المشائخ کا اُن کی عیادت کو جانا اور اُن کی موجودگی میں مولانا سنامی کا انتقال ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ ان کا انتقال دہلی میں ہوا اور دہلی میں ہی مدفون ہیں۔
مولانا سنامی کی وراثت ِعلمی:
مولانا ضیاء الدین سنامی نے معنوی اور مادی دونوں ورثہ چھوڑا ہے۔ معنوی ورثہ تو اُن کی وہ علمی وراثت ہے جو تصانیف کی صورت میں چھوڑی ہیں۔ اُن کے علمی ورثہ میں ہماری معلومات کی حد تک دو کتابیں ہیں۔ ایک “الفتاوی الضیائیہ” اور دوسرے “نصاب الاحتساب”۔ “الفتاوی الضیائیہ” کا ذکر مولانا عبد الحی نے نزہۃ الخواطر اور الثقافۃ الہندیہ میں کیا ہے۔
”نصاب الاحتساب” موضوعِ احتساب پر یہ مولانا ضیاء الدین سنامی کی تصنیف ہے۔ اس موضوع پر تحریری سرمایہ تو کافی ہے لیکن علمی تاریخ میں مولانا سنامی کی نصاب الاحتساب سے پہلے صرف ایک کتاب “نهاية الرتبة في طلب الحسبة” ہے۔ اس کے مصنف علامہ عبد الرحمن بن نصر الشیزری ہیں۔ یہ سلطان صلاح الدین کے زمانے میں ہوئے ہیں ۔ ان کی ایک اور کتاب “المنهج المسلوك في سياسة الملوك” ہے۔ یہ کتاب مصنف نے صلاح الدین ایوبی کو بطور سوغات پیش کی تھی۔
الشیزری کی وفات 589ء میں ہوئی ہے۔ ان کے علاوہ اس موضوع پر جو علمی سرمایہ ہے وہ نصاب الاحتساب کے بعدکا ہے۔ مثلا ابن الاخوۃ المتوفی 739ء کی معالم القرية في أحكام الحسبة اور محمد بن احمد بسام کی کتاب نهاية الرغبة في طلب الحسبة 778ء ہے۔ اس کے علاوہ کچھ متفرق کتابوں میں بھی موضوع ِاحتساب پر بحث ہے مثلا ماوردی 250ء کی کتاب الأحکام السلطانیہ اور امام غزالی کی إحیاء العلوم۔ لیکن ان کا انداز سیاسی نہیں بلکہ خالص فقہی ہے۔ بتانا یہ ہے کہ الشیزری کی کتاب چھوڑ کر نصاب الاحتساب کے علاوہ قاضی ضیاء الدین سنامی سے پہلے اس موضوع پر کوئی علمی کام نہیں ہے۔ الشیزری اگر شافعی ہیں تو مولانا ضیاء الدین سنامی حنفی ہیں۔ مصر میں میں رائے عامہ کی وابستگی اگر فقۂ شافعی سے تھی تو ہندوستان میں عام شہری زندگی فقۂ حنفی سے وابستہ تھی۔
نصاب الاحتساب کی تاریخی حیثیت:
حاجی خلیفہ نے کشف الظنون میں نصاب الاحتساب کا دو جگہ ذکر کیا ہے۔ آغازِ کتاب میں علم الاحتساب کا تعارف کراتے ہوئے مولانا ابو الخیر کے حوالے سے لکھا ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ خاص احتساب کے موضوع پر میرے مطالعہ میں کوئی کتاب نہیں ہے۔ اس پر حاجی خلیفہ نے تعاقب کرتے ہوئے لکھاہے کہ کیوں نہیں، احتساب کے موضوع پر کتاب نصاب الاحتساب ہے۔ لیکن کشف الظنون مکے محشی نے حاشیہ میں یہ بات لکھ کر اپنی کتاب سے بے خبری کا مظاہرہ کیا ہے کہ کتاب نصاب الاحتساب قاضی ضیاء الدین برنی کی ہے اور یہ ضیاء الدین برنی بغدادی ہیں۔
حاجی خلیفہ نے نصاب الاحتساب کا دوسری بار حرف نون میں ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ نصاب الاحتساب کتاب امام عمر بن محمد بن عوض کی تصنیف ہے لیکن حاجی خلیفہ نے نسبت میں غلطی کی ہے یعنی سنامی کو شامی سے تبدیل کر دیا ہے۔ اس کے بعد اسماعیل باشا بغدادی نے ہدیہ العارفین میں یہ کہہ کر علمی تاریخ سے بے خبری کا حیرت انگیز مظاہرہ کیا ہے کہ کتاب نصاب الاحتساب عز الدین عمر بن محمد بن عمر کی تصنیف ہے اور یہ قدس شریف کے رہنے والے تھے۔ مصر میں قاضی القضاۃ رہے ، حنفی تھے اور 696ء میں ان کا انتقال ہوا ہے۔ یہ نمونہ ہے عرب علما کی ہندوستان کے علما سے بے خبری کا۔ لیکن ہندوستان کے سارے مؤرخ اور سارے اہلِ علم اس پر متفق ہیں کہ نصاب الاحتساب مولانا ضیاء الدین سنامی کی تصنیف ہے۔ شیخ المشائخ عبد الحق دہلوی نے اخبار الاخیار میں، الشیخ محمد علی تھانوی نے کشاف اصطلاحات الفنون میں ، نواب صدیق حسن خان نے أبجد العلوم میں ، مولانا عصمت اللہ سہارنپوری نے رسالۂ سماع میں، مولانا عبد الحی نے ثقافۃ الہند اور نزهۃ الخواطر میں بتایا ہے کہ نصاب الاحتساب مولانا ضیاء الدین سنامی کی کتاب ہے۔ مختلف فتاوی میں بزرگوں نے اسی حوالہ سے کتاب کا ذکر کیا ہے۔ مولانا شاہ عبد الغنی مجددی نے اس کا ترجمہ کیا ہے۔ بہر حال علمی تاریخ میں یہ ایک حقیقت ہے کہ نصاب الاحتساب مولانا سنامی کا قلمی شاہکار ہے۔
نصاب الاحتساب کا تاریخی پس منظر؛
یہ تو ہے نصاب الاحتساب کی تاریخی حیثیت۔ لیکن یہاں یہ سوال بے حد اہمیت رکھتا ہے کہ یہ کتاب مولانا سنامی نے کیوں لکھی ہے، اس کے لئے لکھنے کا داعیہ کیا تھا؟ کیا یہ صرف علمی شوق کا نمونہ ہے یا اس کی پشت پر وقت کی ضرورت اور پیش پا افتادہ حالات کا تقاضا تھا؟
اس سوال کا جواب عین تاریخ کی روشنی میں تلاش کرنا ہو گا۔ اتنی بات کو تو سب جانتے ہیں کہ علاء الدین خلجی نے اپنی احتسابی کاروائیوں ، معاشی اصلاحات اور امنِ عامہ کے قیام کے لئے مسلسل کوشش کی ہے۔ اس نے ایسے حالات پیدا کر دیئے تھے جن میں اسلامی مدنیت کا پودا ہندوستان میں پھل پھول سکا۔ فی الواقع عہدِ علائی اسلامی ہند کی تاریخ کا عہدِ شباب تھا۔ اس دور میں زندگی کے جس شعبے پر نظر ڈالئے شگفتگی ، اُمید اور اُمنگ کا ایک عجیب عالم نظر آتا ہے۔ بلکہ بعض اوقات تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تمام اسلامی دنیا کی آرزوئیں اور تمنائیں دہلی میں سمٹ کر آگئی ہیں۔
یہ صحیح ہے کہ یہ ماحول یکبارگی پیدا نہیں ہوا، بلکہ بتدریج رونما ہوا۔ ایک دور وہ بھی تھا کہ علاء الدین بقول برنی:
“اپنے امورِ جہاں داری میں نہ کسی سے کوئی مسئلہ پوچھتا اور نہ کوئی روایت دریافت کرتا”۔[6]
بادشاہ ہونے پراس کے دل میں یہ خیال جم گیا کہ ملک داری اور جہاں داری ایک علیحدہ کام ہے اور احکام ِشریعت وروایت ایک الگ کام ہے۔ بادشاہی احکام کا تعلق بادشاہ سے ہے اور احکام ِشریعت کا تعلق قاضیوں اور مفتیوں سے ہے۔
یہی دور گذر رہا تھا کہ ایک روز علاء الدین خلجی نے مولانا مغیث کو بلایا اور کہا کہ میں تجھ سے آج کچھ باتیں پوچھنا چاہتا ہوں۔ جو بات سچ ہے وہ مجھ سے کہنا۔ قاضی مغیث الدین نے ماضی کے پیشِ نظر کہا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میری موت قریب آ گئی ہے۔ علاء الدین خلجی نے پوچھا کہ تمہیں یہ خیال کیوں آیا؟ عرض کیا کہ مجھ سے اسلامی مسائل دریافت کریں گے۔ میں حق بات کروں گا۔ وہ آپ کو ناگوار ہو گی، اس کے نتیجے میں میری موت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس پر علاء الدین نے کہا کہ میں تمہیں قتل نہیں کروں گا۔ میں جو کچھ دریافت کروں سچ سچ کہو۔ [7]
اس کے بعد ساری گفتگو تاریخِ فیروز شاہی میں پڑھو۔ حالات میں اس کے بعد جو تبدیلی آتی ہے وہ تاریخ کے طلبہ کے لئے کوئی راز کی بات نہیں۔
بدلے ہوئے حالات خیر المجالس اور فتوح السلاطین میں پڑھو تو معلوم ہو گا کہ اس دور کے بارے میں رائے عامہ کیا تھی؟ امیر خسرو نے ا علاء الدین کی مذہبی دلچسپیوں کا نہایت بلند آہنگی سے ذکر کیا ہے۔ مطلع الانوار میں ہے:
شاہ محمد کہ بتائیدر ائے کر د قوی شرع رسول خدائے[8]
خزائن الفتوح میں بھی علاء الدین کے گیت گائے ہیں۔ خواجہ امیر حسن علاء سنجری عہدِ علائی کے مشہور شاعر اور بزرگ تھے۔ شیخ المشائخ کےحلقۂ ارادت میں داخل تھے۔ موصوف نے جگہ جگہ علاء الدین کی دین داری اور دین پروری کی تعریف کی ہے اور سلطان کو دین پرور ، دین پناہ، اسلام پرور جیسے القاب سے مخاطب کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں:
بجان جملہ اسلامیاں خورم سوگند
کزو ست بر ہمہ اسلام منت جانی[9]
عصامی محمد بن تغلق کے زمانہ کا مؤرخ ہے اور شاعر بھی ہے۔ اس نے اپنی کتاب فتوح السلاطین میں علاء الدین کی تعریف کی ہے اور اس کو شاہ دین پرور بتایا ہے:
بہ عہدش کسے خبر غم ِدین نخورد
بہ دورش کس ا ز غم شکایت نہ کرد[10]
حالات میں اس قدر تبدیلی آئی کہ رائے عامہ کو یہ بھی یاد نہ رہا کہ علاء الدین کا پہلا دور کیا تھا۔
علاء الدین خلجی نے حکومت میں اسلام کی سربراہی اور برتری کے لئے جو جدو جہد کی اور امیر خسرو نے اس سلسلے میں اس کی مساعی کا ذکر جس انداز سے کیا ہے اس سے سلطان کے مقاصد پر کافی روشنی پڑتی ہے۔ اس کا اولین مقصد یہی تھا کہ تمام خراب اور سرکش عناصر کو دبا کر ایسے معاشرے کی تشکیل کی جائے جو ایک مضبوط اسلامی نظام قائم کرنے میں ممدو معاون ہو ۔ اگر قاضی مغیث الدین سے اس کی گفتگو اس کے رجحانات و افکار کی کسی حد ترجمانی کر سکتی ہے تو ان جملوں پر غور کرنا چاہئے:
“میں خدا تعالی سے اپنی مناجات میں کہتا ہوں کسی چور یا زانی یا شراب خور نے میرا کیا بگاڑا ہے جو میں اس کو سزا دوں۔ اس کے باوجود جو میں اس کو سزا دیتا ہوں تو صرف پیغمبروں کے نقش قدم پر چلنے کی غرض سے دیتا ہوں”۔[11]
صاف بتا رہا ہے کہ حکومت کے سیاسی نظام ِقانون کو نبوت کے نقش قدم پر قائم کرنا اور چلانا میرا مقصد اور غرض ہے۔ شراب کا انسداد، اصحابِ اباحت پر سختی، طوائفوں کے نکاح، جادو گروں کو سزائیں، اقتصادی نظام کی اصلاح، رشوت کا انسداد اسی مقصد کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اس نظام کا قائم کرنا آسان ہے مگر اس کا قائم رکھنا بے حد مشکل ہے۔ قائم رکھنے کے لئے علاء الدین نے محکمۂ احتساب قائم کیا۔ اس محکمہ کے ذریعے احکام ِشریعت کا احترام دینی شعور کی پختگی اور مذہبی رواداری کے جن جذبات کی رونمائی ہوتی ہے وہ تاریخ کا ہر طالب علم جانتا ہے۔ محکمۂ احتساب کی سربراہی مولانا ضیاء الدین سنامی کو سونپی گئی۔ اسی وقت مولانا نے محکمہ کے سربراہ ہونے کی حیثیت سے محکمۂ احتساب میں کام کرنے والوں کے لئے احتساب کے آداب و دقائق پر یہ کتاب نصاب الاحتساب لکھی جو بعد کی حکومتوں کے لئے مشعل ِراہ بنی۔ بلکہ اس موضوع پر اسلامی قانون کا بہت بڑا علمی سرمایہ بن گئی۔ اس کے بعد فقہ کی جس قدر کتابیں لکھی گئی ہیں سب نے احتساب کے موضوع پر نصاب الاحتساب سے فائدہ اٹھایا ہے۔
[1] ۔ انشاى ماهرو منشأت، عین الدين عین الملك عبد الله بن ماهرو ، بہ تصحيح شيخ عبدالرشيد ، نظرِثانى ،محمد بشير حسين، انتشاراتِ تحقیقاتِ پاکستان، 1965، ص: 46
[2] ۔ منتخب التواریخ، عبد القادر بدایونی، تدوین، محمد احمد فاروقی، شیخ غلام علی ایند سنز، ، 196 لاہور، ص: 111
[3] ۔ تاریخ فیروز شاہی از ضیاء الدین برنی بہ تصحیح سر سید احمد خان، سر سید اکیڈمی، علی گڑھ، 2005ء، ص: 389
[4] ۔ ا مرجعِ سابق، ص: 389
[5] ۔ تاریخِ فیروز شاہی از ضیاء الدین برنی بہ تصحیح سر سید احمد خان، سر سید اکیڈمی، علی گڑھ، 2005ء ، ص: 45
[6] ۔ تاریخ فیروز شاہی از ضیاء الدین برنی بہ تصحیح سر سید احمد خان، سر سید اکیڈمی، علی گڑھ، 2005ء ، ص: 289
[7] ۔ تاریخ فیروز شاہی از ضیاء الدین برنی بہ تصحیح سر سید احمد خان، سر سید اکیڈمی، علی گڑھ، 2005ء، ص: 290
[8] مطلع الانوار بحوالہ، سلاطینِ دہلی کے مذہبی رجحانات، خلیق احمد نظامی، مطبوعہ الجمعیۃ پریس، دہلی،1958، ص: 260
[9] ۔ دیوان حسن سنجری، بحوالہ سلاطینِ دہلی کے مذہبی رجحانات، خلیق احمد نظامی، مطبوعہ الجمعیۃ پریس، دہلی،1958، ص: 260
[10] ۔ فتوح السلاطین، مولانا عصامی، ایجوکیشن پریس، 1938، ص: 293
[11] ۔ تاریخ فیروز شاہی، ص: 296
کمنت کیجے