شریعت میں مطلقہ خواتین کے لیے عام حالات میں عدت کے طور پر تین ماہواریاں گزارنے کو لازم قرار دیا گیا ہے۔ تاہم طلاق کی صورت میں عدت کی بنیادی علت استبراء رحم ہے، یعنی یہ اطمینان کر لینا کہ عورت کے پیٹ میں شوہر کا بچہ نہیں ہے۔ یہ علت خود اللہ تعالیٰ نے بیان کی ہے اور بتایا ہے کہ اگر خواتین کے پیٹ میں بچہ ہو تو انھیں اس کو چھپانا نہیں چاہیے۔ (ولا یحل لھن ان یکتمن ما خلق اللہ فی ارحامھن۔ الاحزاب) چنانچہ اگر بیوی بوقت طلاق حاملہ ہو تو بچے کی پیدائش پر ہی عدت مکمل ہوتی ہے۔ اسی طرح اگر میاں بیوی کی ملاقات سے پہلے ہی طلاق دے دی جائے تو سرے سے کوئی عدت گزارنا لازم ہی نہیں۔ (فما لکم علیھن من عدۃ تعتدونھا۔ الاحزاب) طلاق کی صورت میں استبراء رحم کا مقصد ایک ماہواری سے بھی حاصل ہو جاتا ہے، تاہم شوہر کو رجوع کا موقع دینے کے لیے اس مدت کو تین ماہواریوں تک وسیع کر دیا گیا ہے۔
عدت طلاق کی اس بنیادی علت کی روشنی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد صورتوں میں یہ وضاحت فرمائی ہے کہ اس مقصد کے لیے ایک ماہواری کا گزرنا کافی ہے اور فقہاء نے بھی اسی بنیاد پر مزید کئی صورتوں میں ایک ماہواری کو عدت قرار دیا ہے۔
مثال کے طور پر اگر عورت نے شوہر کو مالی ادائیگی کر کے طلاق حاصل کی ہو یعنی خلع لیا ہو تو چونکہ اس صورت میں شوہر کو رجوع کا حق نہیں ہوتا، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خلع لینے والی عورت کے لیے ایک ماہواری گزارنا عدت کے لیے کافی ہے۔ (ترمذی، ابوداود، نسائی) فقہاء کا ایک بڑے گروہ اسی حدیث کو فقہی حکم کی بنیاد بناتا ہے۔
اسی طرح جو خواتین جنگی قیدی بن کر مسلمانوں کے ہاتھ آئیں، ان سے بطور باندی استمتاع کرنے یا آزاد کر کے ان سے نکاح کرنے کے لیے بھی ایک ماہواری کو ہی عدت قرار دیا گیا ہے۔ ابو سعید خدریؓ کی روایت میں ہے: لا تُوطَأُ حَامِلٌ حتى تَضَعَ، ولا غَيْرُ ذَاتِ حَمْلٍ حتى تَحِيضَ حَيْضَةً (ابوداود، مسند احمد)
جن مختلف اوقات میں صحابہ کو متعہ یعنی عارضی نکاح کی اجازت دی گئی، روایات کے مطابق ایسی خواتین کے لیے بھی عدت کی مدت ایک ماہواری ہی مقرر کی گئی۔ (مصنف عبد الرزاق)
فقہاء نے بھی اسی پر قیاس کرتے ہوئے کئی مختلف صورتوں میں ایک ماہواری کو عدت کی مدت قرار دیا ہے۔ مثلاً کوئی غیر مسلم خاتون بغیر نکاح کے کسی کے ساتھ رہ رہی ہو اور پھر اسلام قبول کر کے کسی مسلمان کے ساتھ نکاح کرنا چاہے تو فقہاء کا ایک گروہ اس کے لیے ایک ماہواری گزارنے کو کافی قرار دیتا ہے۔ اسی طرح امام ابن تیمیہؒ کی ایک معروف رائے جس میں وہ جمہور فقہاء سے اختلاف کرتے ہیں، یہ ہے کہ تیسری طلاق کے بعد، جب شوہر کو رجوع کا حق نہیں ہوتا، ازروئے علت ایک ہی ماہواری کا گزرنا کافی ہے۔
ان مختلف نظائر سے یہ عمومی فقہی اصول اخذ کیا جا سکتا ہے کہ تین ماہواریاں پوری کرنے کی ہدایت اصلاً احتیاط کے پہلو سے نیز شوہر کو رجوع کا موقع دینے کے لیے دی گئی ہے۔ اگر علیحدگی کی نوعیت ایسی ہو کہ اس میں شوہر کو رجوع کا حق نہ ہو تو عدت کو تین ماہواریوں تک ممتد کرنا ضروری نہیں۔ ایسی صورت میں ایک ماہواری سے استبراء رحم کر لینا بھی کافی ہوگا۔
واللہ اعلم
کمنت کیجے