ڈاکٹر خضر یسین
“روایت” کا جوہر تسلسل ہے، عارضی استحضار transitory presence ہے۔ دائمی استحضار eternal presence روایت نہیں ہوتا۔ مثلا بول چال کی زبان، کھانا کھانا، مشروب پینا، جنسی عمل، پیدائش، تجہیز و تکفین وغیرہ روایت نہیں ہے۔ کھانا کھانے کے آداب، شعر وسخن کا طرز بیان اور عقد نکاح طور طریقے وغیرہ روایت ہیں۔
“روایت” کا علمی تجزیہ و تحلیل اسے ایک قدر value مان کر کیا جائے تو پہلے یہ طے کرنا ضروری ہوتا ہے کہ بحیثیت قدر as a value یہ قدر بالذات intrinsic value ہے یا قدر بالغیر extrinsic value ہے۔ دونوں میں سے جو بھی پوزیشن اختیار کی جاتی ہے اس کے مطابق روایت کا علمی تجزیہ بارآور ہوتا ہے۔ گویا سوال اب یہ نہیں کہ روایت کی تعریف فلاں نے کیا کی ہے اور فلاں نے کیا کی ہے۔ اب سوال میرے اپنے سر پر کھڑا ہے اور مجھے اس کا جواب دینا اور جواب سے قبل جواب کے مقدمات کا شعور حاصل کرنا ہے۔
مسلمانوں کی علمی تاریخ میں “روایت” مقصود بالذات فضیلت نہیں رہی ہے۔ جب بھی اسے موضوع علم بنایا گیا ہے تو “رسالات اللہ” کی نسبت سے دیکھا اور پرکھا گیا ہے۔ دوسری اہم بات جو مسلمانوں کی علمی تاریخ میں ہمیں نمایاں نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ علمی اصول کے طور روایت صرف اس وقت مستند قرار پائی ہے جب متعین و مشخص راوی سے مروی ہو۔ گویا روایت میں صرف وہی قول و عمل قابل التفات مانا گیا ہے جو حال سے ماضی کے نقطہ آغاز تک معکوس تسلسل ثابت کر سکتا ہو۔ روایت میں ہم ماضی سے حال کی طرف اس وقت آتے ہیں جب حال سے ماضی تک کا معکوس تسلسل reverse continuity کا ریکارڈ محفوظ ہو اور مستند ہو۔
روایت کا جوہر تسلسل ہے جو وقت کی متعین آن سے شروع ہوتا ہے اور مستقبل کی کسی آن میں فنا ہو جاتا ہے۔ روایت کبھی دائم الوجود حقیقت ہوتی اور نہ دائم الاستحضار فضیلت ہوتی ہے۔ چنانچہ روایت پیدا ہوتی رہتی ہے اور ختم ہوتی رہتی ہے۔ روایت کے ساتھ وابستگی مذہبی ہو یا غیرمذہبی، حد درجہ جذباتی ہو سکتی ہے۔ روایت سے جذباتی وابستگی جب شعوری ہونے لگتی ہے تو اس پر کئی سوالات کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہی وقت ہوتا ہے جس میں پرانی روایت کی ہستی قریب المرگ ہو جاتی ہے اور اس کی جگہ نئی روایت رونما ہونے لگتی ہے۔
روایت سے جن لوگوں کی وابستگی جذباتی ہوتی ہے اور شعوری ادراک کے درجے پر وہ نہیں پہنچے ہوتے، وہ روایت کے دفاع میں سینہ تان کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور روایت کے بقا و استحکام کے لیے اپنے علمی و عملی قوی صرف کرنے میں لگ جاتے ہیں۔
وہ لوگ جو ابھی تک روایت کے شعوری ادراک کی سطح پر نہیں پہنچے اور ابھی تک ان کا شعور جذبات کے زیر اثر ہے، ان کی چاہت ہوتی ہے کہ روایت کو مقصود بالذات فضائل میں شامل منوا لیں۔ حالانکہ “روایت” مقصود بالذات فضائل میں شامل کر لی جائے تو اس کے متعلق مستند اور غیرمستند کی صفات معدوم ہو جاتی ہیں۔ جن فضائل کی صحت اور عدم صحت کا معیار ان کی اپنی ہستی سے باہر ہوتا ہے، وہ مقصود بالذات کبھی نہیں ہوتیں۔ مقصود بالذات فضائل خود آپ اپنا معیار ہوتے ہیں۔
روایت کا کنٹنٹ اپنی سچائی ثابت کرنے کے لیے روایت سے باہر ایک معیار پر پورا اترتا ہے، تب کہیں جا کر وہ سچائی کا حامل متصور ہوتا ہے یعنی مستند قرار پاتا ہے۔ اس صورت میں اسے مقصود بالذات فضائل میں شامل کرنا ممکن نہیں رہتا۔
دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ ادیب حضرات لفظوں کے معاملے میں خاصے فضول خرچ ہوتے ہیں۔ ان کی دیکھا دیکھی عام آدمی جو زبان و بیان کا واجبی ذوق رکھتا ہو، ایسے الفاظ کے استعمال میں وہ بھی بے احتیاط ہو جاتا ہے جو لغوی معنی سے نکل کر اصطلاح کا درجہ اختیار کر چکے ہوتے ہیں۔
“روایت” کا لفظ بولتے وقت پڑھے لکھے افراد اس کا درست مفہوم اور درست مدلول متعین کیے بغیر بولے چلے جاتے ہیں۔ جس لفظ کا مفہوم و مدلول آپ نے دوسروں سے ادھار اٹھانا ہے، اس کی نسبت بصیرت افروز موقف تو دور کی بات ہے، اس کے ماعلیہ، مالہ اور مافیہ سے آپ بامقصد نتیجہ اخذ نہیں کر سکتے۔
مسلمانوں میں “روایت” علمی اصطلاح کے طور پر جب بھی بولا گیا ہے تو اس کی نہ صرف وجودی اساسیات existential foundations ممتاز وہ منفرد ہوتی ہیں بلکہ اس کی غائی بنیادیں axiological foundations بھی اپنا منفرد مشار الیہ رکھتی ہیں۔
آج کے بعض مسلم دانشوروں کا خیال ہے کہ روایت ایک ایسا مظہر ہے جو ایک بیج کی طرح موافق زمین پر اگتا ہے اور پھر اس کی کونپلیں پھوٹتی ہیں پھر وہ پودا بنتا ہے اور آخر میں برگد کا پرانا درخت بن جاتا ہے۔ جس میں بھوت پریاں اور جنات کے علاوہ بعض انسان بھی قیام پذیر ہوتے ہیں۔
اب آپ اگر اس مثال میں بیج کا درجہ کسی شے کو دے سکتے ہیں تو وہ نبوت اور محتویات نبوت ہیں جو مابعد کے ادوار میں علی استقلالہ سایہ دار درخت بن گیا ہے۔ یوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا دور مبارک کے نبوت کے تمام داخلی قواء پوری طرح نشوونما یافتہ نہ ہو سکے تھے۔ وقت نے اپنی فراخ دستی سے ان قواء کو حقیقت بنا دیا ہے۔ گویا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت اب جس شکل میں ہمارے سامنے ایک سایہ دار درخت بن چکی ہے، یہ سب روایت ہے یا روایت کا وجودی ظہور ہے۔
کمنت کیجے