ڈاکٹر خضر یسین
تصوف میں جسے روحانی واردات یا religious /spiritual experience کہا جاتا ہے، وہ کیا چیز ہے؟
اس کا جواب ہے مجھے کچھ معلوم نہیں یہ کیا چیز ہے۔ میں نے ایسا کوئی تجربہ کیا ہے اور نہ میرے دل میں اس کی تمنا پیدا ہوئی ہے۔ لہذا سردست میں اس پوزیشن میں نہیں ہوں کہ اس تائید کر سکوں یا تردید کر سکوں۔ البتہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو کچھ اللہ کی طرف سے نازل ہواہے اسے سچ مانتا ہوں اور صدق دل سے سچ مانتا ہوں۔ میرا ذاتی احساس ہے کہ آنجناب علیہ السلام کی زبان مقدس سے زیادہ بڑا قابل اعتماد وسیلہ روئے زمین پر ممکن ہے اور نہ ایک صاحب ایمان کے دل میں یہ خیال پیدا ہو سکتاہے۔ مجھے یقین ہے کہ میرا ایمان بالنبی ایسا نہیں ہے جسے میں اپنے عرصہ حیات میں تجرباتی سچ experimental truth ثابت کر سکتا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ جس سچ کو مجھے روحانی تجربے [کشف] کی بنیاد پر ثابت کرنے کی ضرورت ہو، وہ سچ ایمان بالنبوة کہلانے والے حقائق میں شامل کیے جانے کے لائق نہیں ہوتا۔ ایمان بالنبوة “ما انزل اللہ علی نبیہ” کو اس طرح سچ ماننے کا نام ہے کہ میں اپنے اندر یہ حاجت بھی محسوس نہ کروں کہ اسے کشف و شہود کے ذریعہ سچ ثابت کرنے کی کبھی مجھے ضرورت پیش آ سکتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان بالغیب “تنزیل من رب العالمین” کو ایسا ماننا ہے جسے دنیوی زندگی میں ثابت کرنے کی کبھی ضرورت پیش نہ آئے۔ واقعہ یہ ہے کہ کسی انسان کے بس میں یہ نہیں ہے کہ وہ کشف کے زریعہ ان حقائق کا ادراک کر سکے نبیﷺ کو بحثیتِ رسول جن کا ادراک ہوا۔
مسلم معاشرت جب ایمانی زوال میں پڑی تو دو طبقات اس زوال کو روکنے یا اس کی رفتار کم کرنے کے لئے سامنے آئے۔ ایک طبقہ متکلمین کا تھا جس نے دعویٰ کیا کہ ایمانی حقائق عقلی دلائل سے ثابت کیے جا سکتے ہیں۔ باالفاظِ دیگر ان کا دعویٰ یہ تھا کہ انسانی عقل میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ ان حقائق کا عقلی ادراک کر سکے جو وحی کے ذریعہ رسول کو عطا ہوئے ہیں۔ دوسرا طبقہ صوفیاء کا تھا جس نے عقلی دلائل کو یہ کہہ کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا:
پائے استدلالیاں چوبیں بود
پائے چوبیں سخت بے تمکیں بود
صوفیاء نے عقلی استدلال کے بجائے کشف و شہود کو اہمیت دے کر ایک نئے قسم کے تجربے کی طرف دعوت دی۔ یہ تجربہ روحانی تجربہ religious experience کہلاتا ہے۔ اس تجربے میں صوفیاء کے بقول وہ عقائد جو پہلے ایمان بالغیب ہوا کرتے تھے اب مشاہداتی حقیقت experimental truths بن کر سامنے آ جاتے ہیں یا مشہود ہو جاتے ہیں۔
اس حقیقت کو کبھی نظرانداز نہیں کرنا چاہئے،مذہبی تجربے کی ضرورت مسلم معاشرت میں زوال سیرت کا نتیجہ تھی۔ اس کا حل ایمان بالغیب کو عقلی دلائل کی پشت پناہی میں تھا اور نہ غیب کو شھود بنانے میں تھا۔ اس کے برعکس “ایمان بالغیب” کو مذہبی واردات بنانے مضمر تھا۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان بالغیب خود ایک روحانی تجربہ ہے۔ اس تجربے میں جس یقین سے انسان سرفراز ہوتا ہے وہ عقلی دلائل اور حسی مشاہدے سے زیادہ حتمی، قطعی اور یقینی ہوتا ہے۔
مسلمانوں کی معاشرت میں ایک تاثر کسی طرح در آیا تھا کہ ایمان بالغیب انسان ایسی انائے عاقل کے لئے نقص یا کمی ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان بالغیب اس کے شایان شان نہیں ہے۔ اس غلط تاثر نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان بالغیب کو ایمان بالعقل یا ایمان بالشھود بنانے کی تمنا پیدا کر دی، جس کے نتیجے میں علم کلام theology اور صوفیانہ تجربہ mystic experience کے دو مختلف اور باہم متصادم منہج و مکاتب سامنے آئے جو درحقیقت عقلی اور وجدانی منہج و مکاتب تھے اور ان کا باہمی تنازعہ بھی وہی تھا جو عقلیت اور حسیت کے مابین صدیوں سے چلا آتا ہے۔
ایمان بالغیب” خود ایک روحانی حال religious experience ہے۔ روئے زمین پر اس سے بہتر “روحانی واردات” mystic experience ممکن نہیں ہے۔ ایمان کے غیب کو شھود بنانے کی لاحاصل کوشش میں لوگوں نے عمریں برباد کر لیں۔ اس کوشش کے خاطر خواہ نتائج اس لیے پیدا نہیں ہوئے کہ یہ کوشش نبی علیہ السلام پر مضمر ایمان بالغیب پر عدم اعتماد کی چغلی کرتی ہے۔
تفسیر اور فقہ کی طرح علمِ کلام اور تصوف کے علوم کے اساسات بھی کتاب و سنت سے براہِ راست متصادم نہ سہی تاہم انہوں نے مستقل مناہج فکر و عمل ہونے کے باعث امت کا شیرازہ بکھیرنے خصوصی کردار ادا کیا ہے۔ تفسیر، فقہ، کلام اور تصوف کو نبوت کی توسیعی شکلیں بنا لی گئی ہیں۔
نبوت کماھی پر قناعت کرو تو سمجھ آئے۔
مرا اگرچہ بہ بتخانہ پرورش دادند
چکید از لب من آنچہ در دل حرم است
السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
انتہائی ادب کے ساتھ عرض کروں گا کہ صوفیاء جس روحانی تجربے کا ذکر اپنے کتابوں میں کرتے ہیں، وہ ہر گز یہ نہیں جن کا آپ نے ذکر فرمایا ہے۔