Home » عقلی الہیات کے عدم امکان پر کانٹ کی دلیل کا اجمالی جواب
شخصیات وافکار فلسفہ

عقلی الہیات کے عدم امکان پر کانٹ کی دلیل کا اجمالی جواب

عقلی الہیات کے عدم امکان پر کانٹ کی دلیل ہم نے بیان کی تھی۔ اس کے تفصیلی جواب پر ان شاء اللہ ایک تحریر لکھی جائے گی، اس کا اجمالی جواب یہ ہے کہ کانٹ کا نظریہ علم غیر ضروری و پرتکلف مفروضات پر مبنی ہونے کے علاوہ بعض سطحی و غلط مقدمات پر بھی مبنی ہے۔ اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ ذہن میں مقولات موجود ہیں جو تجربے کی شرط ہیں تب بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ الہیات کا علم ناممکن ہے۔ اس حوالے سے اس کے نظرئیے کی چار بنیادی خامیاں ہیں:

1) وجود اور ادراک کی دوئی کے مفروضے پر علم کی عمارت قائم کرنے کی کوشش میں لازمی وجودی حقائق کو اگنور کرتے ہوئے اپنے نظریہ علم میں انہیں جگہ نہ دینا۔ اس غلطی کی وجہ سے کانٹ شاھد و غائب کے مابین تعلق کو کھو دیتا ہے۔

2) ذہنی مقولات کو کوئی وجودی حقیقت یا اس کا مظہر نہ ماننا بلکہ انہیں خالی گھڑھے نما شے کہنا جبکہ ساتھ ہی کانٹ کا یہ بھی ماننا ہے کہ وہ مقولے ممیز (differentiated) ہیں۔

3) حصول علم کی کیفیت کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ شہ فی نفسہ سے متعلق نہیں ہوسکتا جبکہ خود اس کے اپنے فریم ورک میں اایسا کہنے کی کوئی قطعی دلیل موجود نہیں بلکہ اس کے برعکس بات زیادہ قرین از قیاس ہے کہ ہمیں ادراک “شے کا” ہوتا ہے نہ کہ “شے کے ادراک کا”۔

4) علت کا ایک سطحی (naive) و غلط تصور قائم کرنا کہ یہ زمانی تسلسل و ترتیب میں ڈھلی ہوئی تاثیرات سے عبارت ہے جبکہ یہ دعوی معلول کو علت فرض کرنے کی غلطی پر مبنی ہے۔

چنانچہ کانٹ کی یہ بات مانتے ہوئے کہ ذہن میں ایک ادراکی ساخت موجود ہے، الہیات پر اس کے ساتھ یوں گفتگو ہوگی:

* ہمارا دعوی: علت ہونے کا مطلب زمانی ترتیب و تسلسل میں مقدم ہونا نہیں ہے جیسے کہ کانٹ نے فرض کرلیا، کسی شے کا “زمانی ہونا” تو اس چیز کی علامت ہے کہ متعلقہ شے علت نہیں معلول یا اثر (effect) ہے کیونکہ کوئی خاص زمانی تعین ہونا از خود تخصیص ہے جو مخصص کی متقاضی ہے۔ لہذا علت کے بارے میں کانٹ کا بیان کردہ تصور غلط ہے۔ عقل کہتی ہے کہ علت زمان و مکان سے ماوراء ہو۔

* کانٹ پوچھے گا: عقل علت کے بارے میں ایسا کیوں کہتی ہے کہ وہ زمان و مکان سے ماوراء ہو؟ نیز اگر ایسی علت ہو بھی تو کیا ہم اس ماورائی علت کی حقیقت کے بارے میں کچھ جان سکتے ہیں؟

ہم کہتے ہیں: عقل ایسا اس لئے کہتی ہے کیونکہ یہ عالم حادث ہے اور حادث محتاج یعنی معلول یا اثر ہوتا ہے نہ کہ علت۔ پس علت لازماً اس سے ماوراء ہی ہوگی۔ چونکہ لازمی وجودی حقائق شاھد و غائب میں یکساں ہیں، لہذا اثر (یعنی عالم) اگر موجود ہے تو فاعل بھی یقیناً موجود ہے۔ البتہ متکلمین اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ عالم کی اس علت کی حقیقت و ماھیت ہم اس دنیا میں نہیں جان سکتے، مگر اس کی ذات کی ماھیت نہ جان سکنا اس ذات کے موجود ہونے کو جاننے میں رکاوٹ نہیں۔

* کانٹ کہے گا: میرے بیان کردہ مقولے یا ذہنی ساختیں شے سے متعلق علم نہیں دیتیں، لہذا حادث و علت کا لفظ یا ایک ذہنی تصور ہے اور یا ادراک سے متعلق فنامینا، نہ کہ خارجی شے سے متعلق امور۔

ہم کہتے ہیں: آپ کا یہ دعوی قابل قبول نہیں، ذہنی مقولات کی جانب سے جاری کردہ قضایا خارجی اشیاء کی صفات مانے بغیر قابل فہم نہیں ہوسکتے۔ پس حدوث مشاہدے میں آنے والی خارجی شے ہی کی صفت ہے نہ کہ ذھنی خیال۔ حادث عالم کا وجود اس کی علت کے وجود کو مستلزم ہے کہ اثر بدون مؤثر ہونا محال ہے اور یہ ایک بدیہی وجودی حقیقت اور علم اضطراری ہے۔ وجودی حقائق شاھد و غائب میں یکساں لاگو ہوتے ہیں، شاھد میں حادث وجود غائب کے محدث یا مؤثر وجود پر مستقل دلالت کررہا ہے جس کا انکار مکابرہ ہے۔

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں