Home » اہل سنت کا مخمصہ
تاریخ / جغرافیہ کلام

اہل سنت کا مخمصہ

یزید بن معاویہ کی بیعت پر صحابہ کے اجماع کے معاملے میں سب سے زیادہ کنفیوزڈ اہل سنت ہیں۔ انھیں اجماع صحابہ کے اصول کو بھی بچانا ہے، صحابہ کی عدالت کو بھی تسلیم کرنا پے، اور ان کی یزید کی بیعت کی مذمت بھی کرنی ہے۔ چنانچہ وہ کبھی دبے اور کبھی کھلے الفاظ میں صحابہ کی مذمت کرتے ہیں یا انھیں اجتہادی غلطی کا مارجن دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ یعنی سب صحابہ نے اجماعی طور پر اجتہادی غلطی کی۔ یا انھیں مداہن مصلحت کوش قرار دیتے ہیں کہ انھوں نے حضرت حسین کا ساتھ دینے کی بجایے یزید کا ساتھ کیوں دیا۔
یہ درحقیقت کوفیوں اور بعد ازاں اہل تشیع کا موقف ہے جو اس معاملے میں یک سو ہیں کہ خدا کی طرف سے ان کے امام معصوم کا ساتھ نہ دینے کی وجہ سے سب صحابہ باطل پر تھے۔
اہل سنت کا دوسرا مخمصہ یہ ہے وہ ایک طرف کوفی شر پسندوں کو دیکھتے ہیں اور دوسری طرف حضرت حسین کو۔ وہ جانتے ہیں کہ کوفیوں کے کہنے پر، ان کے بھروسے پر، ان کے ذریعے سے، کوئی اصلاحی ایجنڈا عمل میں لانا ممکن ہی نہیں۔ پھر حضرت حسین کو دیکھتے ہیں کہ جن کا کوئی سیاسی کیریئر بھی نہیں۔ ان کی اہلیت کا علم بھی نہیں۔ مگر اس کے باوجود وہ ان کے اقدام کی حمایت کرتے ہوئے یہ خوش گمانی پالتے ہیں کہ کوئی اصلاحی ایجنڈا ان کے پیش نظر ہوگا۔
اہل تشیع یہاں بھی یک سو ہیں۔ انھیں اس سے غرض ہی نہیں کہ کوفی کیسے تھے۔ حضرت حسین کی سیاسی اہلیت کیا تھی۔ وہ مانتے ہیں کہ خدا نے حسین کو امام مقرر کیا تھا، جیسے خدا نے نبی کو نبی مقرر کیا تھا۔ اب لوگوں پر لازم تھا کہ انھیں تسلیم کریں۔ جن لوگوں نے خدا کے مقرر کردہ نبی اور امام کو تسلیم نہیں کیا وہ کافر اور گم راہ تھے۔
اہل سنت کا تیسرا مخمصہ حضرت حسین کے اقدام کا جواز تلاش کرنا ہے۔ وہ ان کے لیے کوئی اصلاحی ایجنڈا تلاش کرتے ہیں جو انھیں حضرت حسین کے بیانات میں نہیں ملتا۔ چنانچہ وہ خود اسے وضع کرتے ہیں۔ مثلا یہ کہ حضرت حسین شورائیت کے نظام کو بحال کرنے اور ملوکیت کو ختم کرنے نکلے تھے۔
یہ نہایت سادہ لوحی ہے۔ اول تو اس لیے کہ خود حضرت حسین ایسی کوئی بات بیان نہیں کرتے۔ صحابہ ان کے اقدام سے ایسا کوئی نتیجہ نہیں نکالتے، بلکہ وہ تمام صحابہ کی شورائیت کو نظر انداز کر کے کوفہ جا رہے تھے۔
حضرت حسین خود موروثی سیاست کے نمائندے تھے اور خلافت کا مطالبہ لے کر میدان سیاست اپنے والد کی وجہ سے داخل ہوئے۔ ان کے بیانات میں صرف یہ ہے کہ وہ اہل بیت ہونے کی وجہ سے خلافت کے زیادہ مستحق ہیں۔
اہل تشیع یہاں بھی یک سو ہیں۔ وہ حضرت حسین کے ذریعے سے علوی حسینی ملوکیت کے قیام کو خدا کا منشا قرار دیتے ہیں۔
اہل سنت کا چوتھا مخمصہ یہ ہے کہ حضرت حسین کے اقدام کے لیے اصلاحی ایجنڈا وضع کرنے میں یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ حکومت بے دینی کا شکار ہو رہی تھی اور حضرت حسین اسے ٹھیک کرنا چاہتے تھے۔ پھر وہ دیکھتے ہیں کہ اصلاح کرنے کی دعوت حضرت حسین سے شروع نہیں ہوتی بلکہ کوفیوں کی طرف سے آتی ہے، جو خود مفسدین ہیں۔
انھیں یہ سمجھ نہیں آتی کہ حکومت بے دینی کا شکار ہو گئی تھی تو صحابہ یزید کی بیعت پر کیون قائم تھے اور حضرت حسین کو اصلاحی اقدام سے کیوں روک رہے تھے۔
اب صحابہ کو اجتہادی غلطی کا مارجن دیں یا انھیں بزدل قرار دیں؟ اہل سنت یہاں کبھی کف لسان، کبھی اجتہادی غلطی اور کبھی کھلے اور کبھی دبے لفظوں میں تمام صحابہ کو مداہن اور مصلحت کوش قرار دیتے ہیں جنھوں نے دین بیچ دیا مگر اپنے کمفرٹ زون سے باہر نہ نکلے۔
اہل تشیع یہاں بھی یک سو ہیں۔ ان کے نزدیک حضرت حسین کے اقدام کے لیے کسی اصلاحی ایجنڈے کی پخ لگانے کی ضرورت ہی نہیں۔ خلافت ان کا حق تھا سو وہ وصول کرنے چلے تھے۔ کوفیوں نے ساتھ دیا تو کوفیوں کے ساتھ نکلے۔ اس سے کوئی غرض نہیں کہ کوفیوں کا کردار کیا تھا۔
صحابہ نے ساتھ نہیں دیا تو صحابہ ہمیشہ ہی سے غلط تھے، وہ یہاں بھی غلط تھے۔

ڈاکٹر عرفان شہزاد

ڈاکٹر عرفان شہزاد، نیشنل یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز اسلام آباد میں استاذ ہیں اور ادارہ علم وتحقیق المورد کے ساتھ بطور تحقیق کار وابستہ ہیں۔
irfanshehzad76@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں