Home » علم کا مسافر
احوال وآثار اردو کتب شخصیات وافکار مطالعہ کتب

علم کا مسافر

اُردو میں اقبالیاتی ادب کا ذخیرہ کافی وسیع ہے۔ کئی ضخیم کے ساتھ متوسط اور مختصر کتابیں اقبال کی شخصیت اور فکر کے حوالے سے لکھی گئی ہیں۔ ڈاکٹر طالب حسین سیال کی کتاب “علم کا مسافر” کا شمار مختصر کتب میں ہوتا ہے لیکن اس کی خوبی یہ ہے کہ اس میں فکر اقبال کے اہم نکات کو جامع انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ اس کتاب کو ایمل مطبوعات نے شائع کیا ہے۔
کتاب کا حرف اول ڈاکٹر ممتاز احمد صاحب نے لکھا جبکہ پیش لفظ سہیل عمر صاحب نے لکھا ہے۔ سہیل صاحب نے ڈاکٹر سیال کے انداز بیان کی تعریف کے ساتھ بتایا ہے کہ اس کتاب میں اقبال کی علمی و فکری زندگی کی تفصیلات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اقبال کی فکر کی آگاہی میں یہ کتاب کافی مفید ہے۔
ڈاکٹر سیال کی یہ کتاب آٹھ ابواب پر مشتمل ہے۔ جس میں آٹھویں باب میں دو اقبال شناس اہل علم ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی اور پروفیسر فتح محمد ملک کے انٹرویوز ہیں.
پہلے باب میں اقبال کی ابتدائی زندگی اور ان کے یورپ کے سفر کی روداد ہے۔ اقبال کے والد شیخ نور محمد صوفی منش انسان تھے۔ تلاوت قرآن سے خاصی شغف تھا۔ اس کے ساتھ صوفیاء کی مجالس میں اٹھنا بیٹھنا تھا۔ پیشے کے لحاظ سے چھوٹے سےتاجر تھے جو پہلے ٹوپیوں کا کاروبار کرتے تھے بعد میں گرم چادروں کا کاروبار کیا جس سے مناسب منافع ہوا۔ والدہ پڑھی لکھی نہیں تھی مگر کافی معاملہ فہم خاتون تھیں۔ برادری کے جھگڑوں کا تصفیہ کراتی تھی۔ عورتیں ان کے پاس زیور بطور امانت رکھواتی تھیں۔ ان کا یہ طریقہ تھا کہ محلے کی چند غریب لڑکیوں کو اپنے ہاں لے آتیں اور ان کی کفالت کرتیں۔ اقبال کی عمر چار سال اور چار ماہ تھی کہ ان کو مولانا غلام حسن کی درسگاہ میں بھیجا۔ وہاں ایک دن میر حسن آئے تو اقبال میں ان کو غیر معمولی ذہانت نظر آئی۔ ان کو جب معلوم ہوا کہ اقبال شیخ نور محمد کے بیٹے ہیں تو میر حسن نے شیخ نور محمد سے بات کر کے اقبال کو تعلیم کے لیے اپنی تحویل میں لے لیا ۔اقبال نے میر حسن کے گھر جا کر پڑھنا شروع کیا، اقبال نے میر حسن سے عربی، فارسی اردو ادبیات اور تصوف کے علوم حاصل کیے۔اقبال اپنے استاد میر حسن کا بہت احترام کرتے تھے جب ان کو ۱۹۲۳ میں سر کے خطاب کی پیشکش کی گئی تو اس وقت انہوں نے کہا کہ یہ خطاب وہ اس وقت تک قبول نہیں کریں گے جب تک ان کے استاد میر حسن کی علمی خدمات کو تسلیم کرتے ہوئے ان کو مناسب خطاب سے نہیں نوازا جائے گا۔ تو پوچھا گیا کہ میر حسن کی کوئی علمی تصانیف ہیں؟ تو اقبال نے کہا میں خود ان کی تصنیف ہوں. چنانچہ اقبال کے خطاب کے موقع پر ان کے استاد کو شمس العلماء کا خطاب دیا گیا۔
اقبال کو شروع سے کتاب بینی کا شوق تھا، اس کے ساتھ کھیل میں بھی دلچسپی تھی۔ آپ اکھاڑے میں وزرش کرتے تھے کئی دفعہ اپنے استاد کے بیٹے میر تقی سے کشتی بھی کھیلتے تھے۔ آپ کو کبوتر پالنے کا بھی شوق تھا۔ آپ کی طبعیت کافی ملنسار تھی اس کے ساتھ مزاج میں ظرافت بھی خوب تھی لوگ آپ کی مجلس سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ آپ کمال کے حاضر جواب بھی تھے۔اقبال موسیقی سے بھی لگاؤ رکھتے تھے اور اچھی آواز میں گانے والے کو خوب داد بھی دیتے تھے۔ اقبال اسلام کی صوفیانہ تعبیر سے متاثر تھے۔ ان کے اندر بھی صوفیاء کی طرح کا توسع پایا جاتا تھا۔ مختلف مذاہب کے لوگ آپ کی محفلوں کا حصہ ہوتے تھے۔
جب اقبال نے ایم اے فلسفہ میں داخلہ لیا تو وہاں ان کے استاد پروفیسر آرنلڈ تھے۔ ان سے اقبال کو بہت عقیدت تھی۔ پروفیسر آرنلڈ نے بھی اقبال کے علمی ذوق کو جلا بخشی۔ شاعری میں اقبال داغ دہلوی کے غائبانہ شاگرد تھے۔ آپ اپنی نظمیں داغ کو بغرض اصلاح بھیجا کرتے تھے جلد ہی داغ نے لکھ دیا کہ آپ کی نظموں کو اصلاح کی ضرورت نہیں۔ شروع شروع میں اقبال کی شاعری کا چرچا لاہور تک رہا مگر بہت جلد ہی اقبال نے دوسرے شہروں میں بھی اپنا مقام بنا لیا۔ اس کی بڑی وجہ اقبال کی شاعری کا موضوع تھا۔ آپ کی شاعری میں عشقِ مجازی کی آمیزش بھی تھی ، لیکن ان کی شاعری کے اصل موضوعات مشرقی تصوف، انسان دوستی ، مناظر فطرت تھے۔ وہ انسان کے اصل مسائل یعنی معاشی اور معاشرتی مسائل سے آگاہ تھے۔ اقبال ابھی ایم اے فلسفہ کر رہے تھے کہ ان کو شہرت مل چکی تھی۔ اس وقت آپ ایک مدرس کے طور پر بھی جانے چاہتے تھے۔ آپ اورینٹل کالج میں تنخواہ دار ملازم تھے یہاں آپ اقتصادیات ، تاریخ اور فلسفہ پڑھاتے تھے جبکہ گورنمنٹ کالج لاہور اور اسلامیہ کالج لاہور میں آپ نے انگریزی بھی پڑھائی۔
آپ نے مشہور صوفی شیخ عبد الکریم الجیلیؒ کے نظریہ توحید مطلق پر مقالہ لکھا۔ اس کے ساتھ آپ نے علم الاقتصاد نامی کتاب لکھی۔ اقبال معاشی مسئلہ کو بہت اہمیت دیتے تھے وہ کہتے تھے کہ انسان کی معاشی ضروریات پوری نہ ہوں تو وہ ذہنی ، جسمانی اور روحانی طور پر بھی مضبوط نہیں ہوسکتا۔ یہی حال قوموں کا بھی ہے جو قومیں معاشی طور پر خود کفیل نہیں ہوتیں وہ اخلاقی لحاظ بلندی نہیں پا سکتیں۔
اقبال کی ایم اے فلسفہ کرنے کے بعد علمی پیاس کم نہیں ہوئی بلکہ بڑھ گئی مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے آپ نے یورپ کا رخ کیا۔ مغرب میں اقبال نے خوب محنت کی۔ یہاں پر ہی انہوں نے ٹمپل یونیورسٹی سے بیرسٹری اور میونخ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی۔ آپ مغرب میں بمشکل اپنے اخراجات پورے کرتے تھے۔ لندن یونیورسٹی میں چھے ماہ عربی پڑھائی جس سے آپ کی آمدن میں اضافہ ہوا۔ لندن اور کیمبرج میں اقبال کی پروفیسر آرنلڈ کے ساتھ محفلیں جمتی تھی۔ حیدر آباد کے سید علی بلگرامی کیمبرج میں مرہٹی زبان پڑھاتے تھے۔ اکثر محافل ان کے ہاں جمتیں۔ اقبال اور پروفیسر آرنلڈ کے علاوہ سرعبدالقادر اور عطیہ فیضی ان محافل میں شریک ہوتے ۔ اقبال کا مغرب میں حلقہ احباب محدود تھا۔ انہوں نے یہاں کم دوست بنائے۔ عطیہ فیضی سے اقبال کی ہائیڈل برگ میں ملاقاتیں ہوئیں۔ اقبال نے ان کا اپنے پروفیسرز کے ساتھ تعارف کرایا۔ لندن میں بھی عطیہ فیضی اقبال کی محافل کا حصہ رہیں۔ اقبال کا زیادہ تر قیام کیمبرج میں رہا۔یہاں ایک واقعہ پیش آیا جس سے اس کتاب کا آغاز ہوتا ہے کہ برصغیر کے دورے سے آئے ہوئے ایک مشنری نے کیمبرج یونیورسٹی میں لوگوں سے گفتگو کرتے ہوئے بر صغیر کے لوگوں کو غیر مہذب اور تمدن سے عاری کہا۔ اقبال بھی اس محفل میں موجود تھے۔ جب عیسائی مشنری کی تقریر ختم ہوئی تو اقبال نے بھی بات کرنے کی اجازت مانگی تو اقبال نے عیسائی مشنری کی اس بات کو غلط ثابت کرتے ہوئے جواب دیا اور بتایا کہ میں برصغیر کا باشندہ ہوں اور ہمارے برصغیر کے لوگ تہذیب یافتہ اور متمدن ہیں اور عیسائی مشنری کی باتیں مکمل غلط ہیں۔اقبال کی تقریر کے بعد وہاں موجود لوگوں کی رائے مثبت تبدیلی آئی۔ قیام مغرب کے دوران اقبال نے اسلام اور عقل انسانی ، روحانی جمہوریت ، تصوف اسلامی اور تہذیب وتمدن پر مسلمانوں کے اثرات پر لیکچرز دئیے۔
اقبال مغرب کی علمی روایت کو بہت قدر سے دیکھتے تھے۔ ان کے علم پسندی کے کلچر کو وہ اسلامی کلچر کی توسیع کے طور پر دیکھتے تھے۔ اقبال سمجھتے تھے کہ عقل استقرائی جس کی بنیاد پر سائنس علوم کی بنیاد ہے کی مذاہب میں سب سے پہلے اسلام نے سب سے زیادہ تحسین کی ہے مگر اس کے ساتھ مغرب کے مجلسی کلچر بے زار تھے۔ اقبال مغرب کے توسیع پسندانہ عزائم کو بھی اقبال تشویش کی نظر سے دیکھتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ مغرب نے علم کی دولت کو انسانیت کی خدمت کی بجائے استعماری ہتھکنڈوں کے طور پر استعمال کیا ہے۔ وہ مغرب میں پنپنے والے سرمایہ دارانہ نظام اور وطنی قوم پرستی کے بھی خلاف تھے۔
وطنی قومیت کے اقبال شدید ناقد تھے۔ کیونکہ کسی شخص کا کسی ملک یا قوم میں پیدا ہو جانا کوئی کمال یا بدقسمتی نہیں ہے۔ یہ تصور انسانوں کے اندر بدترین تفریق ڈالتا ہے اور بے مقصد مقاصد میں اپنی توانائیاں صرف کرتے ہیں۔ وطنی قومیت کا یہ تصور اسلام کے بنیادی نظریات سے بھی متصادم ہے۔
مغرب سے واپسی پر اقبال نے وکالت شروع کی۔ مقدمات کے سلسلے میں اقبال کافی محنت کرتے تھے۔اقبال کو ایم اے او کالج علی گڑھ میں فلسفہ اور گورنمنٹ کالج لاہور میں تاریخ پڑھانے کی پیشکش ہوئی مگر آپ نے وکالت کو ترجیح دی بعد میں پنجاب حکومت کی درخواست پر گورنمنٹ کالج لاہور میں جزوقتی طور پر فلسفہ پڑھانے پر آمادہ ہو گئے۔ اس کے ساتھ اقبال مختلف انجمنوں کے رکن بنا لیے گئے جس سے ان کی مصروفیات بڑھتی چلی گئیں۔ اس وقت دنیا کے منظر نامے پر بھی بڑی تبدیلیاں آ رہی تھیں۔ روس اور برطانیہ نے ایران پر قبضہ کر لیا۔ جبکہ سلطنت عثمانیہ کے مشرقی یورپ کے علاقوں پر آسٹریا قابض ہو گیا۔ بلغاریہ نے بھی ترکی سے علیحدگی کا اعلان کر دیا۔ فرانس مراکش پر قابض ہو گیا۔ مسلمانوں کا شیرازہ بھی بکھرا ہوا تھا۔ ان سب واقعات نے اقبال کو کافی متاثر کیا۔ اس ہی زمانے میں اقبال نے اپنی مشہور زمانہ نظم شکوہ لکھی۔ اس ہی زمانے میں جنگ طرابلس کی عارضی فتح پر اقبال نے نظم کہی۔ یورپ سے واپسی کے بعد اقبال مسلمانوں کی بیداری کے لیے کافی بے تاب تھے۔ مسلم خطوں میں غربت و افلاس پر وہ بہت بے چین ہوتے تھے۔ اس حوالے سے ان کے اپنے مضمون کا ایک اقتباس جو مصنف نے نقل کیا ہے کو پڑھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کس قدر اس حوالے سے بے چین تھے۔ اقبال لکھتے ہیں
‘یہ بد قسمت قوم حکومت کھو بیٹھی ہے، صنعت کھو بیٹھی ہے، تجارت کھو بیٹھی ہے۔اب وقت کے تقاضوں سے غافل اور افلاس کی تیز تلوار سے مجروح ہو کر ایک بے معنی توکل کا عصا ٹیکے کھڑی ہے اور باتیں تو خیر ابھی تک ان کے مذہبی نزاعوں کا فیصلہ نہیں ہوا۔ آئے دن ایک نیا فرقہ پیدا ہوتا ہے جو اپنے اپ کو جنت کا وارث سمجھ کر باقی نوع انسان کو جہنم کا ایندھن قرار دیتا ہے۔ مولوی صاحبان کی یہ حالت ہے کہ اگر کسی شہر میں دو جمع ہو جائیں تو حیات مسیح یا آیات ناسخ منسوخ پر بحث کے لیے باہمی نامہ و پیام ہوتے ہیں اور اگر بحث چھڑ جائے اور بالعموم بحث چھڑ جاتی ہے تو ایسی جوتیوں میں دال بٹتی ہے کہ خدا کی پناہ۔ پرانا علم و فضل جو علمائے اسلام کا خاصہ تھا نام کو بھی نہیں ہاں مسلمان کافروں کی ایک فہرست ہے کہ اپنے دست خاص سے اس میں اضافہ کرتے رہتے ہیں’
اقبال کے مضمون کے اس اقتباس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کی غفلت اور پھر ان کے درمیان باہمی انتشار کا اقبال کو کس قدر دکھ تھا۔ اگر فرقہ وارانہ کشیدگی کو دیکھا جائے تو آج حالت اقبال کے دور کی حالت سے شاید زیادہ بری ہے۔ گوکہ صنعت و تجارت میں مسلمانوں نے کچھ ترقی کی ہے مگر جب اس کا تقابل دوسری اقوام و ممالک سے کیا جائے تو ٹھیک وہ ہی حالت بنتی ہے جس کا ذکر اقبال نے اس مضمون میں کیا ہے۔
اقبال کے تصور خودی پر چوتھے باب میں تفصیل سے گفتگو کی گئی ہے۔ اقبال نے یہ تصور مشرقی ادبیات اور مغربی لٹریچر سے مایوس ہونے کے بعد کافی غور و خوض کے بعد دیا۔ اقبال کے مطابق مشرقی ادبیات اور مغربی لٹریچر نے انسان کو اس کا درست مقام نہیں دیا۔ اقبال نے اپنا تصور خودی قرآن مجید میں مذکور قصہ آدم و ابلیس سے اخذ کیا ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنا نائب مقرر کیا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ اس کو بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ پھر اسلام کا عقیدہ توحید اور عقیدہ ختم نبوت کے بعد انسان کو رب العالمین نے فکری و نظری طور پر آزادی دی ہے۔ اگر انسان اپنے ارادہ و اختیار کو بہترین انداز میں استعمال کرے تو وہ دنیا کو ایک گلزار بنا سکتا ہے اور اگر یہی صلاحیتوں منفی مقاصد میں صرف ہوں تو یہ ہی گلزار جہنم بن کر رہ جاتا ہے۔ جب انسان عقیدہ توحید پر یقین رکھے اور آخرت کی جوابدہی اس کے سامنے ہو تو انسان اپنی توانائیاں مثبت کاموں میں لگائے گا۔ اقبال نے اپنے اس تصور کے لیے انسانی تربیت کا بھی نظام تجویز کیا ہے۔اس تربیتی نظام کے تین مراحل ہیں۔ اول اطاعت ، دوم ضبط نفس اور سوم نیابت الہٰی۔
مصنف اقبال کے تصور خودی کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
‘خودی میں آزادی کا میلان فطری ہے۔لیکن پابندیوں کے بغیر آزادی کا تصور نہیں کیا جا سکتا، آزادی خودی کو مستحکم کرتی ہے اور تخلیق کے عمل کو تیز کرتی ہے۔ لیکن پابندیوں کے بغیر آزادی کا تصور ناممکنات میں سے ہے۔ مذہب ،اخلاقیات، آئین اور قوانین کی پابندیاں خودی کی تعمیر و استحکام میں حائل نہیں ہوتیں بلکہ خودی کی توانائیوں کو منظم کر کے صحیح جہت عطا کرتی ہیں۔
خودی کا حتمی مقصد اللہ تعالی سے اپنے تعلق کو مضبوط کرنا ہے کیونکہ وہیں سے خودی اپنے وجود کا جواز پاتی ہے۔ بقول اقبال ہم سب اللہ تعالی کی زندگی میں زندگی گزار رہے ہیں کیونکہ زندگی کا سرچشمہ وہی ذات احد ہے۔ اقبال وضاحت کرتے ہیں کہ شریعت کی حدود میں رہنا مسلمان کے لیے ضروری ہے۔ اور شریعت کی حدود ہمیں ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتائی ہیں۔ ان کی اطاعت ہی دراصل اللہ کی اطاعت ہے’
ضبط نفس کا مطلب ہے دوسروں کے حقوق کی پاسداری ، اپنی خواہشات کو اخلاقی اصولوں اور آئین و قانون کی حدود میں رہ کر پایہ تکمیل تک پہنچانا۔ ضبط نفس کا مطلب ترک دنیا نہیں بلکہ قوت برداشت پیدا کرنا ہے۔ ضبط نفس مشکلات جھیلنے کا نام ہے۔
اقبال کہتے ہیں کہ سائنس کے ذریعے سے انسان خدا کے خارجی وجود کا کھوج لگاتا ہے۔ مظاہر فطرت کی تحسین اس کے جمال سے نشاط حاصل کرنا اور قوانین فطرت کا کھوج لگانا بھی عبادت ہے اور یہ سب نیابت الہی کے تحت آتا ہے۔
اقبال کے تصور خودی کی وضاحت کرتے ہوئے مصنف نے لکھا ہے کہ اس سے مراد غرور و تکبر نہیں بلکہ یہ اصطلاح عرفان ذات اور اثبات ذات کا مفہوم بیان کرنے کے لیے استعمال کی گئی ہے۔
اس کے بعد اگلے باب میں اقبال کے اصول تغیر اور اجتہاد کے بارے میں ان کی سوچ اور ان کے عالمگیر وژن کے اوپر گفتگو کی ہے۔
مصنف نے اصول تغیر پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا ہے کہ انسانی معاشرے میں تغیر کی کئی جہتیں ہیں۔ انسان اپنی نئی تمنا اور نئے مقاصد تخلیق کرتا رہتا ہے۔ اس کی زندگی وقت کے ساتھ نئے سانچے میں ڈھلتی رہتی ہے۔ ہر واقعہ ایک نیا واقعہ ہوتا ہے کسی واقعے کی پرانے واقعات سے مماثلت ہو سکتی ہے مگر یہ یکسانیت نہیں ہے۔ اقبال نے اس تغیر کی طرف توجہ مبذول کرائی۔ تبدیلی اچھی بھی ہو سکتی ہے اور منفی بھی مگر ہم واقعات کو رونما ہونے سے نہیں روک سکتے۔ یہ انسان کے کردار پر منحصر کہ وہ ان تبدیلیوں کو مثبت جہت دیتے ہیں یا پھر منفی۔ اقبال نے تبدیلی کو قبول کرنے کے بارے میں مشرق اور مغرب کے فرق کو بھی واضح کیا ہے۔ انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اہل مشرق تبدیلی کو بہت کم قبول کرتے ہیں جبکہ مغرب فوراً اس کو قبول کر لیتا ہے۔ یہ دونوں رویے درست نہیں کیونکہ تبدیلی کو قبول نہ کرنے سے آپ کے ہاں فکری جمود آتا۔ اہل مشرق کے ہاں ترک دنیا ایک خوبی ہے۔ تبدیلی کو قبول نہ کرنے کی وجہ سے ہی اہل مشرق کا سائنسی تحقیق میں حصہ نہیں ہے۔ ان کی ادبیات میں زندہ دلی اور جدوجہد نظر نہیں آتی۔
دوسری جانب اہل مغرب تبدیلی کو قبول کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔ وہ نئی فکر کو خوش آمدید کہتے ہیں اور اس کو آزمانے کا فیصلہ لیتے ہوئے نہیں ڈرتے۔ ان کا تبدیلی کو قبول کرنے کے اس رویے کا مثبت نتیجہ یہ ہے۔ آسمان کی بلندیوں میں اور سمندر کی گہرائیوں میں وہ تجربات کرنے سے نہیں گھبرائے اور پھر ان تجربات سے حاصل ہونے والی دریافتوں میں ان کا حصہ ہے۔ مگر ان مادی ایجادات کے ساتھ تبدیلی کو جلد قبول کرنے کی روش نے ان کی اقدار کو متاثر کیا۔ اس رویے کے مطابق کوئی قدر بھی مستقل نہیں ہوتی۔ اس لیے یہاں پر ایک روحانی خلاء نظر آتا ہے۔
اقبال سمجحتے تھے کہ نئی سوچ کو قبول کرنے کے بارے میں اہل مغرب کا رویہ درست ہے مگر کچھ اقدار اٹل ہوتی ہیں جن کو نیا زمانہ نہیں بدل سکتا۔ ان کو بآسانی تبدیل نہیں کیا جا سکتا اس بارے میں مشرقی معاشروں کا جیسا غیر لچکدار رویہ اپنانے کی ضرورت ہے۔
اقبال کے تصور اجتہاد پر بھی مصنف نے گفتگو کی ہے۔ اقبال عقیدہ ختم نبوت کی ایک حکمت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کے ذریعے سے امت کے لئے اجتہاد کا دروازہ مستقل طور پر کھول دیا گیا۔ ہر زمانے کے مسلمان اپنے زمانے کا جائزہ لیکر ان مسائل پر جن پر قرآن و سنت کی براہ راست ہدایت موجود نہیں، قرآن و سنت کی روشنی میں ان کا حل تلاش کرے۔ اقبال نے کہا کہ اب زمانے کے تقاضے بدل چکے ہیں۔ اجتہاد فقط دیوانی اور فوجداری معاملات میں نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ زندگی کے ہر پیش آمدہ مسئلہ میں اجتہاد کی روشنی میں مسائل کا حل تلاش کیا جانا چاہیے۔ پھر اب اجتہاد انفرادی عمل نہیں رہا بلکہ اس کو بطور ادارہ کے طور پر استعمال کرنے کی ضرورت ہے جس میں مختلف اہل علم مسائل کا اپنی اجتماعی فکر کے مطابق حل نکالیں۔ اس کے لیے اقبال کے نزدیک علماء کی شرط نہیں بلکہ مجلسِ شوریٰ میں شامل دیگر افراد بھی مسائل کے حل کے لیے اپنی تجویز دے سکتے ہیں۔ اقبال اس بڑھ کر غیر مسلموں کے تجربات اور مغربی علوم و فنون سے بھی مدد لینے کے بھی قائل تھے۔ اقبال کے اس تصور اجتہاد پر لوگوں کو تحفظات بھی ہیں۔ مگر اس کی کوئی ٹھوس عملی نظیر ہم قائم نہیں کر سکے تاکہ اس کا زیادہ بہتر انداز میں جائزہ لیا جا سکتا۔
اس سلسلے میں ایک بات جس کی وضاحت مصنف نے بھی کر دی ہے کہ اقبال اجتہاد میں قرآن و سنت کی حاکمیت کو تسلیم کرتے تھے اور اجتہاد کا مسئلہ عصری مسائل سے تھا۔ کسی چیز کو قرآن و سنت نے اگر حرام قرار دیا ہے تو اقبال بھی سمجھتے تھے کہ اس کو اجتہاد کے ذریعے حلال نہیں کیا جا سکتا
اقبال مغربی جمہوریت کے ناقد تھے اس کے مقابل انہوں نے روحانی جمہوریت کا نظریہ دیا۔ اسلام کے عدل و مساوات کا تصور جس کے بنیادی جز ہیں۔ اقبال ایسی عالمگیر دنیا دیکھنے کے خواہاں تھے جس میں علم کی حکمرانی ہو۔ جو وطنی قوم پرستی جیسی متعصب سوچ سے پاک ہو۔
اقبال کے خطبہ آلہ آباد اور تصور پاکستان پر بھی مصنف نے چھٹے باب میں گفتگو کی ہے۔ مصنف کا نکتہ نظر یہی ہے کہ اقبال نے جو تصور خطبہ آلہ آباد مسلم ریاستوں کا دیا تھا۔ پاکستان اس کی ایک شکل ہے۔ اقبال نے خطبہ آلہ آباد پنجاب ، شمال مغربی سرحدی صوبے ، سندھ اور بلوچستان پر مشتمل ایک مسلم ریاست کی بات کی جو برطانوی سلطنت کے ماتحت ہو۔ اس میں برطانوی سلطنت کے ماتحت والی گفتگو پر مصنف نے اور انٹر ویو میں ڈاکٹر فتح محمد ملک صاحب نے یہ وجہ بیان کی ہے کہ جس وقت اقبال نے یہ خطبہ دیا اس وقت سلطنت برطانیہ بہت مضبوط تھی۔ اس کے زوال کا امکان نہیں تھے۔ لہذا اقبال کا ایک ایسی فیڈریشن کا مطالبہ جو سلطنت برطانیہ کے اندر ہو حقیقت پسندی پر مبنی تھا۔ اقبال نے نذیر نیازی کو ایک خط لکھا جس میں مجوزہ اسلامی ریاست کے بارے میں بتایا کہ اس کے لیے آبادیوں کے تبادلے کی ضرورت نہیں۔ اقبال نے ۱۹۳۷ میں ایک خط قائد اعظم محمد علی جناح کو بھی لکھا جس میں انہوں نے جناح کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کرنے کے بعد لکھا
‘ہندوستان میں قیامِ امن اور مسلمانوں کو غیر مسلموں کے غلبہ اور تسلط سے بچانے کی واحد ترکیب وہی ہے۔ جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے یعنی مسلم صوبوں کی ایک علیحدہ فیڈریشن جس میں اسلامی اصلاحات کا نفاذ ہو۔ شمال مغربی ہندوستان اور بنگال کے مسلمانوں کو ہندوستان یا بیرون ہندوستان کی دوسری اقوام کی طرح حق خود اختیاری سے کیوں کر محروم رکھا جا سکتا ہے؟’
اقبال کے اس خط سے واضح ہوتا ہے کہ وہ موجودہ پاکستان کو ایک فیڈریشن کے طور پر ہی دیکھ رہے تھے۔ اقبال کے ان ہی خیالات کو بعد میں لیگ نے بھی اپنے منشور کا حصہ بنایا۔
یہاں ایک اور بات یاد رکھنے والی ہے وہ اقبال کی فکر میں اصول تغیر ہے۔ جب اقبال نے آلہ آباد میں الگ ریاستوں یا پھر برطانوی سلطنت کے ماتحت والی بات کہی تو اس وقت کے حالات اور تھے مگر بعد میں حالات میں ایسا تغیر آیا کہ فیڈریشن کا خیال زیادہ درست لگا اور پھر بعد میں جب مزید تبدیلی آئی تو آزاد مسلم ریاست کے خیال نے جنم لیا۔
اقبال عالمگیر شہرت کے حامل تھے۔ برصغیر کے خطے سے تعلق ہونے کی وجہ سے ان کی فکر اور دلچسپی کا زیادہ تر محور یہ خطہ رہا مگر وہ باقی دُنیا بالخصوص مسلم دنیا سے بھی باخبر تھے۔ جیسے کہ مصر نوجوانوں کی تنظیم کو انہوں نے پیغام دیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وفادار رہیں۔ مفتی اعظم فل سطین امین الحسینی کی دعوت پر موتمر اسلامی کے اجلاس میں شرکت کی۔ مسجد اقصیٰ میں نماز ادا کی۔ آپ کو موتمر کا نائب صدر بھی منتخب کیا گیا۔
اقبال اسلام کی صوفیانہ تعبیر کو پسند کرتے تھے۔ وہ مولانا روم کی مثنوی سے بہت متاثر تھے۔ مولانا روم کو وہ اپنا پیر و رہبر کہتے تھے۔ ان کی فکر پر سب سے زیادہ اثر مولانا روم کا ہے۔
کتاب کے آخری حصے میں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی اور پروفیسر فتح محمد ملک کے انٹرویوز ہیں جن سے تقریباً ایک جیسے سوالات کیے گئے ہیں، جس میں اقبال کی فکر اور عصر حاضر میں پاکستان کے مسائل بالخصوص دہشت گردی کے مسئلہ کے حل کے لیے فکر اقبال کی روشنی میں تجویز کرنے کا ذکر ہے۔ جس کا جواب اقبال کی توسع اور رواداری میں پایا جاتا ہے۔
ڈاکٹر سیال کی یہ کتاب مختصر ہے مگر فکر اقبال کے متعدد گوشوں پر کافی نپی تلی اور موضوع سے متعلق گفتگو کی گئی ہے۔ ایک بڑی چیز جس کی کمی محسوس ہوئی وہ حوالہ جات ہیں۔ اقبال کے خطوط یا پھر ان کی زندگی کے دیگر واقعات کو مصنف نے کن ماخذ سے اٹھایا ہے مصنف نے ان کا ذکر نہیں کیا۔ اقبال کی زندگی اور ان کی فکر سے کچھ شناسائی رکھنے کے بعد یہ بات تو یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ مصنف نے کوئی ایسی بات اقبال کی طرف منسوب نہیں کی جو فکر اقبال سے متصادم ہے مگر پھر بھی اپنی باتوں کو باحوالہ لکھ دیتے تو یہ کتاب کی اہمیت میں اضافے کا سبب بنتا۔ مجموعی طور پر کتاب مختصر اور عمدہ ہے

راجہ قاسم محمود

راجہ قاسم محمود پیشے کے اعتبار سے اکاونٹنٹ ہیں اور مختلف علمی وفکری موضوعات پر اظہار خیال کرتے ہیں۔
rajaqasimmehmood@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں