Home » سائنسی رومانویت
تاریخ / جغرافیہ سائنس فلسفہ

سائنسی رومانویت

محمد حسنین اشرف

انیسیویں صدی اور بیسیویں صدی کا وسط سائنسی رومانویت سے اعتبار ہے۔ اس میں سائنس اور سائنسدانوں سے متعلق ایسی رومانویت پھیلائی گئی جس میں دونوں کو آسمان پر اٹھا دیا گیا۔ سائنسدان علم کے ایسے علمبرداروں کے طور پر سامنے آئے جو نئی دنیا کے معمار اور ایسے معمار تھے جن کا نہ تو سماج سے کوئی تعلق ہے اور نہ سماجیات کا کوئی قانون ان پر لاگو ہوتا۔ اسی طرح سائنس ایک ایسے ادارے کے طور آئیڈیلایز کیا جانے لگا جس کا پیدا کردہ علم نہ صرف آفاتی و کائناتی (یعنی یہ قوموں اور فرقوں کے بندھن سے آزاد ہے) بلکہ ہر نوعیت کی ملاوٹ سے پاک ہے۔ سائنسی طریق کار چونکہ اس علم کی بنیاد ہے تو اس طریق کار کا بھی اسی نوعیت کا چرچا ہونے لگا۔ سائنسی انقلاب اور انسانی اقدار سے پاک سائنسی علم کے نعروں نے سائنس کو لاشعوری طور پر مذہبی علم کے نوعیت کی تقدیس عطا کردی جو تمام تر انسانی بندھن لانگھ کے پوری دنیا کی میراث بن گئی۔ میٹا سائنز میں کام کرنے والے لوگوں نے تاریخ کو بار دگر دیکھنے اور سائنسی اداروں پر نگاہ کرنے کے نتیجے میں یہ توجہ دلانے کی کوشش کی سائنس کامل انسانی کاوش اور انسانی آلائشوں کے ہمراہ بھی قابل اعتماد ہے۔ اسے مذہبی چولہ پہنانے کی قطعا ضرورت نہیں ہے۔

سائنس کی آفاقیت

سائنس کو جس وحدت کے طور پر عموما دیکھا جاتا ہے۔ سائنس اس نوعیت کی وحدت نہ کبھی رکھتی ہے اور نہ اس میں یہ وحدت پائی جاتی ہے۔ اسی طرح جن مضامین سے ہم آج بہت واضح تفریق سے واقف ہیں وہ مضامین سائنسی تاریخ میں اس طرح سے نہیں پائے جاتے تھے۔ ایک زمانہ تھا اور یہ زمانہ بہت دور نہیں بلکہ انٹر وار پیرئیڈ (جنگ عظیم اول اور جنگ عظیم دوم) جب محض طبیعات، تین نوعیت کی طبیعیات میں بٹی ہوئی تھی۔ فرانسیسی فزکس، جرمن فزکس اور یہودی فزکس۔ فرانسیسی اور جرمن مخاصمت صرف مذہب اور فوجوں تک محدود نہیں تھی بلکہ انیسویں اور بیسویں صدی کے وسط تک یہ مخاصمت سائنسی میدان میں بھی تھی جس میں ایک قوم کے سائنسی حلقے دوسری قوم کے سائنسی حلقوں پر برتری لیجانے پر تُلے ہوئے تھے۔ اس میں فرق اس نوعیت کا نہیں تھا کہ “علم” تو سانجھا ہے بس یہ دیکھنا ہے کہ علم کو بہتر استعمال کون کرتا ہے۔ ہرگز ہرگز نہیں! سائنسی طریق کار میں زمین آسمان کا فرق تھا اور جو قومی سائنسی طریق کار کے مزاج کے خلاف جاتا اس کی بات کو قبول نہیں کیا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ لفظ “فیکٹ” پر مسائل تھے کہ کونسی قوم کس چیز کو سائنسی “فیکٹ” مانتی ہے اور دوسری قوم جس چیز کو فیکٹ قبول کرلیتی ہے، پہلی قوم اسے علم ماننے کو تیار نہ ہوتی تھی۔ اس دور میں فرانسیسی سائنس پائی جاتی تھی جس کے اپنے اصول تھے اور اسی دور میں جرمن سائنسی پائی جاتی تھی جس کے اپنے اصول تھے۔

آئن اسٹائن کے خلاف نازی سائنسدانوں کا مقدمہ اس قدر سادہ نہیں تھا۔ ماخ اور اس کے ماننے والے “ایمپریکل فیکٹ” کو محض فیکٹ مانتے اور اسی تک سائنس کو محدود رکھتے تھے۔ وہ اسے “جرمن فزکس” کا خاصہ مانتے تھے۔ بعد ازاں پلانک نے اس سے اختلاف کیا اور آئن اسٹائن کا اختلاف و انحراف بہت مشہور ہوگیا۔ جس کے بعد وہ آئن اسٹائن کے کام کو “فرانسیسی طبیعات” کی سازش ماننے لگے جو ان کے نزدیک “جرمن علم” کو آلودہ کرنے کی کاوش تھی۔ یہاں تک کہ ہائنزبرگ پر ان کے حملوں میں یہ بات بہت واضح شامل ہوتی کہ جرمن طبیعات تجربات پر منحصر ہے جبکہ یہ لوگ جرمن قوم کو باور کرانا چاہتے ہیں کہ سائنس تو اصلا تھیوری کی کامیابی ہے۔ تھیوری کو وہ فرانسیسی اور بعد ازاں یہودی طبیعات کا خاصہ سمجھتے تھے۔ اسی طرح فرانسیسی سپانٹینئس جنریش کی بحثوں میں اسی نوعیت کی تفریق روا رکھتے تھے۔
(یاد رہے ان ابحاث میں نوبل انعام یافتہ سائنسدان شامل رہے ہیں)

سو سائنس کو جس وحدت کے طور پر آج ہم دیکھتے ہیں یہ سائنٹفک انٹرنیشنلزم کی کارستانی ہے۔ بیسیویں صدی کے وسط میں جا کر طبیعات اور دیگر علوم کو انٹرنیشنلائز کرنے کی کاوشیں ہوئی ہیں۔ اس سے قبل یہ علوم قوموں میں بٹے ہوئے تھے اور انہیں کی میراث تھے۔ ہمارے وہ تمام ہیرو جن کو آج ہم “آفاقی” بنا کر پیش کرتے ہیں وہ اور ان کا کام اپنی قوم اور اپنے گروہ کی سربلندی کے لیے تھا۔ وہ تہذیبی نرگسیت کا شکار ہوتے ہوئے اپنے ملک اور “قومی سائنس و علم” کی ترقی کے لیے کام کر رہے تھے۔ اس لیے سائنس کو آفاقی پیش کرنے سے قبل اس تاریخ کو پیش نظر رہنا چاہیے!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محمد حسنین اشرف صاحب بیلیفیڈ یونیورسٹی جرمنی میں ایم ۔اے فلسفہ و تاریخ سائنس کے طالب علم ہیں ۔

محمد حسنین اشرف

محمد حسنین اشرف صاحب بیلیفیڈ یونیورسٹی (جرمنی) میں ایم ۔اے فلسفہ و تاریخ سائنس کے طالب علم ہیں اور میکس پلانک انسٹیٹیوٹ فار ہسٹری آف سائنس میں بہ طور ریسرچ اسسٹنٹ کام کر رہے ہیں۔

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں