اس پروجیکٹ کے تحت مجوزہ نصاب میں تاریخ، فلسفہ، سائنس اور اسلامی دینیات کے منتخب متون اور مباحث شامل کیے گئے ہیں جن کے ذریعے ایسے سوالات سامنے لائے جاتے ہیں جو فضلاء کے نظری افق اور فکری دائرے کو وسیع کرنے میں معاون ہوں۔
تاریخ، فلسفہ تاریخ اور روایت
مدرسہ ڈسکورسز میں اسلامی تاریخ کا مطالعہ اس زاویے سے کیا جاتا ہے کہ اسلامی تاریخ کا فہم دنیا کی عمومی تاریخ کے سیاق میں حاصل کیا جائے، تاریخ اور علمیات کے باہمی روابط پر غور کیا جائے، اور اسلامی فکری روایت کے اس پہلو کی اہمیت سمجھی جائے کہ وہ کوئی یک رنگ چیز نہیں ہے، بلکہ علمی وعقلی مباحثات کے ایک سلسلے سے عبارت ہے جس پر متعدد اور متنوع فکری دھارے اثر انداز ہوتے رہے ہیں۔ طلبہ کو ان مختلف تہذیبی عوامل سے متعارف کروایا جاتا ہے جو اسلامی فکری روایت کے تشکیلی دور میں اثر انداز ہوئے اور وہ روایت کو علمی وعقلی مباحثات کے ایک سلسلے کے طور پر دیکھنے کے قابل ہو جاتے ہیں جو عظیم اسکالرز کے مابین کئی صدیوں اور نسلوں تک علمی اور اعتقادی اختلافات کی صورت میں رونما ہوئے۔
روایت کی تفہیم ایک لمبی رسی کی صورت میں کی جاتی ہے جو مختلف چھوٹے چھوٹے ریشوں پر مشتمل ہوتی ہے جو آپس میں جڑ کر بڑی رسی کو تشکیل دیتے ہیں، لیکن ان میں سے کوئی بھی اکیلا ریشہ ایک سرے سے دوسرے سرے تک نہیں پہنچ رہا ہوتا۔ اس تشبیہ میں بڑی رسی کی مثال مجموعہ روایت کی ہے جبکہ چھوٹے ریشے بعد دیگرے آنے والی نسلوں اور ان میں پیدا ہونے والے سیکڑوں علماء اور اسکالرز کی فکری کاوشوں سے عبارت ہیں۔
اس حصے میں مرکزی سوالات پر غور کیا جاتا ہے:
(۱) ہمیں جو روایت ورثے میں ملی ہے، اگر اس کی تشکیل مختلف قسم کے بیرونی علمی وعقلی اثرات کے تحت تشکیل ہوئی تھی تو اس تصور یا دعوے کا مطلب کیا ہے کہ خالص اسلام جیسی چیز بھی موجود ہے؟
روایت کی مثال ایک لمبی رسی کی سی ہے جو مختلف چھوٹے چھوٹے ریشوں پر مشتمل ہوتی ہے جو آپس میں جڑ کر بڑی رسی کو تشکیل دیتے ہیں، لیکن ان میں سے کوئی بھی اکیلا ریشہ ایک سرے سے دوسرے سرے تک نہیں پہنچ رہا ہوتا۔ روایت کی رسی میں چھوٹے ریشوں کی حیثیت یکے بعد دیگرے آنے والی نسلوں اور ان میں پیدا ہونے والے سیکڑوں علماء اور اسکالرز کی فکری کاوشوں کو حاصل ہے۔
(۲) اگر ماضی کے علماء ان عقلی وفکری دھاروں کے ساتھ جن کا مصدر اسلام سے باہر تھا، متحرک اور زندہ تعلق رکھتے تھے تو آج مسلمان ان سے الگ تھلگ رہنے کی کوشش کیوں کرنی چاہیے؟
(۳) اگر ماضی کی علمی روایت تخلیقی رجحانات اور باہمی جدل واختلاف سے عبارت ہے تو کیا آج بھی ایک زندہ روایت کو انھی اوصاف کا حامل ہونا چاہیے؟
(۴) اسلام کے عہدِ زریں میں جس علمی روایت کی بنیاد پڑی، اس میں دوسری تہذیبی روایتوں سے بھی استفادہ کیا گیا؛ لیکن ایسا کیوں ہوا کہ بعد کے ادوار میں یہ روایت باقی نہیں رہ سکی اور اُن تہذیبی روایتوں سے استفادہ کا رجحان منقطع ہوگیا جو غیر اسلامی دنیا میں پوری قوت کے ساتھ جاری رہیں؟
(۵) اگر روایت ہماری راہ نما ہے تو پھر آج ہم تاریخ کے متعلق جیسے سوچتے ہیں، اس کی روشنی میں روایت کے ساتھ ہمارے تعلق کی نوعیت کیا بنتی ہے؟
سائنسی ورلڈ ویوز کا تاریخی ارتقا اور فلسفہ سائنس
سائنس کی تاریخ اور فلسفہ سائنس سے طلبہ کو متعارف کرنے کا مقصد ایک تو یہ ہے کہ ان کے سامنے سائنس کے دائرے میں انسانی فکر کے ارتقا کا ایک تاریخی تناظر آ جائے اور دور قدیم سے دور جدید تک سائنسی عقلیت کے بدلتے ہوئے سانچوں کا ایک بنیادی فہم حاصل ہو جائے۔ دوسرا مقصد یہ ہے کہ وہ مذہبی فکر کے لیے سائنس کے پیدا کردہ عصری چیلنجز کا بہتر ادراک اور اس سے نمٹنے کے فکری وسائل سے کسی قدر شناسائی پیدا کر سکیں۔
سائنس کی تاریخ اور فلسفہ سائنس کے عمومی جائزہ سے طلبہ سائنسی ورلڈ ویو کی نوعیت اور سائنسی نظریات میں تبدیلی کے قوانین وضوابط کا فہم حاصل کرتے ہیں۔ طلبہ کو یہ سمجھنے میں بھی مدد ملتی ہے کہ کیسے سچائی اور حقیقت کی ماہیت سے متعلق مختلف مابعد الطبیعی مفروضات سائنسی عمل میں جلی یا خفی طورپر موجود ہوتےہیں اور جو سائنسی طرز فکر اور اس سے حاصل ہونے والے نتائج پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
مثلا جدید سائنس کائنات کے آغاز وارتقا اور کائناتی قوانین کے ساتھ ساتھ کرہ ارضی پر حیات کی ابتدا اور نشو ونما کی بھی ایک داستان بیان کرتی ہے۔ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی سائنسی دریافتوں کی روشنی میں جدید سماجی وانسانی علوم میں انسانی تاریخ کے اب تک کے ارتقا اور ممکنہ مستقبل کی بھی ایک تصویر پیش کی جاتی ہے جو حیات انسانی کی ابتدا اور تاریخی ارتقا کے حوالے سے مذہبی تصورات کے لیے بہت سے سوال پیدا کرتی ہے۔ مدرسہ ڈسکورسز کے شرکاء اس پورے تاریخی بیانیے کا بھی تفصیلی مطالعہ کرتے ہیں اور اس کی روشنی میں الہیات کو درپیش چیلنجز کا ادراک حاصل کرتے ہیں۔
سائنسی ورلڈ ویوز کے مطالعے سے طلبہ جن بنیادی سوالات سے نبرد آزما ہوتے ہیں، وہ یہ ہیں:
(۱) اگر سائنس میں قطعی اور حتمی علم جیسی چیز کا کوئی وجود نہیں تو پھر وحی کے ہوتے ہوئے، جو ہمیں یقینی علم فراہم کرتی ہے، سرے سے عقل پر اعتبار کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟
(۲) جب حقیقت کی ماہیت کے متعلق ہمارے بنیادی ترین وجدانی تصورات، جو ماضی میں علمیاتی تصورات کی بنیاد رہے ہیں، اب مسلم نہیں رہے تو مذہبی روایت کی معنویت کیسے محفوظ اور باقی رکھی جا سکتی ہے؟
(۳) ایک ایسے سائنسی ورلڈ ویو کے تناظر میں جو تمام کائناتی حقائق کی تفہیم وتوجیہ صر ف مادی اسباب کی روشنی میں کرنے پر اصرار کرتا ہے، الہیات کے بنیادی مقدمات کا اثبات کیونکر کیا جا سکتا ہے؟
(۴) حقیقت کے تمام تر مادی ہونے کے تصور اور شعور کو بھی مادے کی ایک ارتقائی صورت فرض کرنے کے مضمرات مذہب کے لیے کیا ہیں اور ان کا سامنا کیسے کیا جائے؟
(۵) سائنس کی مدد سے تسخیر کائنات میں بڑھتی ہوئی کامیابی نے انسانوں میں الحاد کے ذہنی رویے کو جو تقویت بخشی ہے، اس کے تناظر میں وجود باری کا مذہبی عقیدہ کس طرح موثر دلائل کے ساتھ پیش کیا جائے؟
(۶) تخلیق کائنات وانسان سے متعلق مذہبی بیانات اور جدید سائنسی نظریات کا ٹکراؤ کیا نوعیت رکھتا ہے اور اس پر محتاط اور ذمہ دارانہ مذہبی موقف کیا ہونا چاہیے؟
(۷) مذہب کے، نفسیاتی وسماجی ضروریات اور تاریخی حالات کی پیداوار ہونے کے دعوے کے جواب میں مذہب کے الوہی ہدایت ہونے کے اثبات کے کیا وسائل ہو سکتے ہیں؟
علم الکلام کے لیے سوالات
الہیات کے باب میں مدرسہ ڈسکورسز کا محوری موضوع اس نکتے کی تفہیم پیدا کرنا ہے کہ مذہبی حقائق وتصورات کی تفہیم وتعبیر کا سائنس اور تاریخ کے ساتھ گہرا تعلق ہے اور مذہبی متون کی تعبیر وتشریح کا سوال بھی علمیاتی نظریات اور حیات وکائنات سے متعلق کسی بھی دور میں تسلیم کیے جانے والے عمومی تصورات کے ساتھ گہرے اور پیچیدہ طور پر جڑا ہوا ہے۔ طلبہ کو بقدر امکان گہرائی میں جا کر یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ الہیات، قانون اور اخلاقیات کے دائرے میں بنیادی سوالات سے متعلق مذہبی زاویہ نظر متعین کرنے میں معاصر تصورات ونظریات سے اعتنا کیوں اہم ہے اور اس کے ساتھ کس نوعیت کی الجھنیں اور مشکلات وابستہ ہیں۔
(۱) اگر الہیات کے علم کا وحی کے علاوہ عقلی طور پر بھی اثبات ممکن ہے تو پھر وقت گزرنے کے ساتھ عقل سے متعلق ہمارے تصورات میں جو تبدیلی آتی ہے، وہ مذہبی عقائد کی عقلی تفہیم پر کس طرح اثر انداز ہوتی ہے؟
(۲) عقائد ونظریات کی تکثیریت کا کیا مطلب ہے؟ اسلامی فکر میں تکثیریت کے سوال کے حوالے سے کیا موقف اختیار کیا گیا ہے اور اس بحث میں عقل اور عقلی استدلال کے کردار کو کس نظر سے دیکھا گیا؟
(۳) اگر مذہب الوہی ہدایت پر مبنی ہے تو مذاہب کے باہمی اختلافات کی توجیہ کیسے کی جائے؟ خاص طور پر وحدت ادیان کے تصور کی صورت میں اس کی جو توجیہ جدید دور میں دوبارہ مقبول ہو رہی ہے، اس کے ساتھ کیسے معاملہ کیا جائے؟
ایک ایسے سائنسی ورلڈ ویو کے تناظر میں جو تمام کائناتی حقائق کی تفہیم وتوجیہ صرف مادی اسباب کی روشنی میں کرنے پر اصرار کرتا ہے، الہیات کے بنیادی مقدمات کا اثبات کیونکر کیا جا سکتا ہے؟
(۴) شریعت کی ابدیت کے عقیدے کو غیر معمولی تاریخی ومعاشرتی تغیرات کے تناظر میں کیسے عقلی طور پر قابل فہم بنایا جائے؟ خاص طور پر شرف انسانی، مساوات، اور آزادی رائے کے مروج تصورات کے ساتھ بعض شرعی وفقہی احکام کے تعارض کے سوال سے کیسے نبرد آزما ہوا جائے؟
(۵) لسانیات اور تعبیر متن کے جدید مباحث کے اثرات دینی متون کے فہم اور تعبیر کے حوالے سے کیا ہو سکتے ہیں اور اس تناظر میں دینی مآخذ کی حجیت کے عقیدے کو کیسے برقرار رکھا جا سکتا ہے؟