Home » مدرسہ ڈسکورسز » ورک شاپس » ونٹر انٹنسو 2019

ونٹر انٹنسو 2019

 

مدرسہ ڈسکورسز کا تیسرا بیچ اپنے پہلے ونٹر انٹینسو کے لیے پاک وہند کے فضلا ءکولے کر دسمبر کے آخری ہفتے میں قطر وارد ہوا۔اس کورس کا آغاز 2017 میں ہوا جس کے روح رواں ڈاکٹر ابرہیم موسیٰ صاحب (پروفیسر یونیورسٹی آف نوٹرے ڈیم۔امریکہ) ہیں۔آپ نے دارالعلوم دیوبند اور نددوۃ العلماء سے دینی تعلیم حاصل کی ،اور پھر امریکہ سے امام غزالی کے فلسفہ لسانیات پر پی ایچ ڈ ی کی۔ آپ کے ساتھ اس کورس میں پاکستان سے مولانا ڈاکٹر عمار خان ناصر اور انڈیا سے مولانا ڈاکٹر وارث مظہری صاحب بطور لیڈ فیکلٹی ہیں۔ ان کے علاوہ ڈاکٹر ماہان مرزا کی جگہ اس سال کوئٹہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے نوجوان ڈاکٹر شیر علی ترین صاحب کا مدرسہ ڈسکورسز کی ٹیم میں ایک بہترین اور عمدہ اضافہ ہوا۔ آپ برصغیر پاک وہند میں استعماری ومابعد استعماری دور کی مذہبی فکر پر عمدگی سے بحث کرتے ہیں اور روانگی کے ساتھ چھ زبانیں بول لیتے ہیں۔

مدرسہ ڈسکورسز ایک خالص تعلیمی اور تحقیقی پراجیکٹ ہے جس میں پاک و ہند سے شرکاء کو باقاعدہ ٹیسٹ اور انٹریو کے بعد ایک مکمل پراسیس کے ساتھ منتخب کیا جاتا ہے۔ حسبِ سابق اس بیچ  میں بھی تقریباً تمام فضلاء پاک وہند کے بڑے بڑے دینی جامعات سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہندوستان میں دارالعلوم دیوبند، ندوۃ العلماء ، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور پاکستان میں جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی، دارالعلوم کراچی، جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ، دارالعلوم حقانیہ، دارالعلوم غوثیہ محمدیہ اور جامعۃ الکوثر وغیرہ کے فضلاء شامل تھے۔ تمام شرکاء مضبوط استعداد کے ذہین فضلاء اور عصری علوم سے بھی آراستہ ہیں۔ میرے اعداد وشمار کے مطابق اس تیسرے بیچ میں 10 پی ایچ ڈی ڈاکٹرز، گیارہ پی ایچ ڈی سکالرز اور بہت سے  ایم فل اسکالر تھے۔ بہرحال یہ نیا گروپ اپنے ونٹر انٹینسو کے لیے پچیس سے تیس دسمبر تک کالج آف اسلامک اسٹڈیز، حمد بن خلیفہ یونیورسٹی ، ایجوکیشن سٹی قطر میں جمع ہوا  جس میں پاکستان سے چوبیس اور ہندوستان سے انیس جید علماء اور بااستعداد نوجوان فضلاء کے علاوہ نوٹرے ڈیم یونیورسٹی کی بعض انڈر گریڈیجویٹ طالبات نے بھی شرکت کی۔

ونٹر انٹینسیو میں شرکت کے لیے پاکستان سے ہماری فلائٹ علامہ اقبال انٹرنیشنل ائیرپورٹ لاہور سے روانہ ہوئی، رات تین دن بجے ہم سب بخیر وعافیت ایجوکیشن سٹی میں واقع ہوٹل پریمئیر ان میں پہنچ گئے۔ہماری آمد سے پہلے انڈین شرکاء پہنچ چکے تھے۔کوشش یہ کی گئی کہ ہر کمرہ ایک پاکستانی اور انڈین شریک ِ کورس کا مشترکہ ہوجس کا یہ فائدہ ہواکہ مختلف پس منظر رکھنے والوں کا آپس میں گہرا ربط و تعلق قائم ہوا اور ثقافتی و مذہبی افکار کا تبادلہ ہوتا رہا۔مدرسہ ڈسکورسز کے پہلے شرکاء کی طرح ہمارےورکشاپ کی میزبانی بھی دوحہ کے ایجوکیشن سٹی میں واقع حمد بن خلیفہ کے کالج آف اسلامک اسٹڈیز نے کی۔یہ ہوائی جہاز کے ماڈل کے طرز پر انتہائی دلکش ، دیدہ زیب اور جدید انداز سے بنائی گئی انتہائی وسیع وعریض عمارت ہے  جس کا ہر کونہ فن ِ تعمیر کا شاہکار ہے۔

25 دسمبر 2019 بروز بدھ ورکشاپ کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ابتدائی سیشن میں پروفیسر ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ اور ڈاکٹر شیر علی ترین نے ورکشاپ کا طریقۂ کار،اہداف اور سرگرمیوں کو واضح کیا اور بعض شرکاء کا تعارف ہوا۔چائے کے وقفے کے بعد نوٹرے ڈیم یونیورسٹی سے ڈاکٹر جوش لوپو نے پیٹر ہیریسن کی کتاب  Territories of Science and Religion  کے حوالے سے مذہب اور سائنس کے آپس میں ربط و تعلق پر بڑی عمدہ گفتگو کی  اور سوالات پیش کیے جس پر شرکاء نےتبادلہ خیال کیا۔ حسب ضرورت اردو ترجمہ کے فرائض ڈاکٹر شیر علی ترین نے ادا کیے۔ نماز اور کھانے کے وقفے کے بعد اگلی نشست میں اسی موضوع پر گروپ ڈسکشنز ہوئے اور ہر گروپ میں ایک ممبر نے ان کا خلاصہ پیش کیا۔مغرب کے بعد نشست میں ڈاکٹر وار ث مظہری اور ڈاکٹر شیرعلی ترین نے امام ابوالحسن العامری(المتوفیٰ 381ھ) کی کتاب “الاعلام بمناقب الاسلام” اور مرزا مظہر جانِ جاناں کے مکاتیب کی روشنی میں اسلامی سیاسی حاکمیت اور برتری پر لیکچرز دیے اور اس بارے میں مغربی مفکرین کی آراء پیش کر کے اس پر مناقشہ کیا گیا  کہ جانبین کے درمیان اسلام کی جو فوقیت بیان کی گئی، وہ کس حد تک آپس میں مختلف ہے۔

26 دسمبر ورکشاپ کا دوسرا دن تھا۔ کل کے محاضرات سے متعلق اایک اور دلچسپ مضمون شامل کرکے مناقشہ کو جاری رکھا گیا۔ ڈاکٹر عمار خان ناصر نے بانئ دارالعلوم دیوبند مولانا قاسم نانوتوی کے مشہور مناظرہ “مباحثہ شاہجہان پور” کا خلاصہ پیش کیا  اور ایک دلچسپ انداز میں اس مناظرے کی گفتگو سے دس سوالات غیر مرتب انداز میں شرکاء کے سامنے رکھ دیے ۔ پھر ان سوالات کو ترتیب دینے کے لیے شرکاء کو مختلف گروپوں میں تقسیم کیا گیا ۔ یہ ایک دلچسپ تجربہ تھا جس کاخاطرخواہ فائدہ ہوا اور تمام شرکاء نے اس کو سراہا۔ چائے کے وقفے کے بعد اس پر مزید بحث و مباحثہ ہوا اور بیشترشرکاء نے اس میں اپنا حصہ ڈالا۔ ظہر اور لنچ کے بعد شام تک وقفہ رکھا گیا۔ مغرب کے بعد مشہور مغربی باحث یوحانن فرائیڈمین کی کتاب “Tolerance and Coercion in Islam” پر ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ اور ڈاکٹر وارث مظہری نے اپنے ملاحظات پیش کیے کہ کس طرح Tolerance کے جدید تصور کو معیار بنا کر پیش کی جانے والی مذہبی تعبیرات کا مصنف نے تفسیر ،حدیث اور فقہ کی روشنی میں ناقدانہ جائزہ لیا ہے۔ اس پر نہایت عمدہ مناقشہ ہوا اور شرکاء کے سوالات کی حوصلہ افزائی کی گئی۔

27 دسمبر کو تیسرا دن جمعہ کا تھا، اس لیے صرف ایک سیشن رکھا گیا  جس میں ڈاکٹر عمار ناصر اور ڈاکٹر وارث مظہری نے ابوحیان توحیدی کی کتاب “الامتاع والمؤانسۃ” سے متی بن یونس اور ابوسعید السیرافی کے درمیان عربی نحو اور یونانی منطق کی باہمی افضیلت کے سوال  پر ہونے والے مناظرے  پر سیر حاصل گفتگو کی  اور شرکاء نے بھی اس پر اپناتبصرہ پیش کیا۔ اس کے بعد نمازِ جمعہ کے لیے وقفہ دیا گیا۔ جمعہ کے بعد لنچ کیا گیا اور پھر شرکاء کو قطر میوزیم آف اسلامک آرٹ کا وزٹ کرایا گیا۔ ساحلِ سمندر پر کئی ایکڑ پر پھیلی ہوئی یہ  پانچ منزلہ عمارت فنِ تعمیر کا شاہکار ہے جس میں مختلف ادوار اور مشرق ومغرب میں پھیلی مسلم ثقافتوں کی تاریخ کو نہایت عمدگی اور سلیقے سے محفوظ کیا گیا ہے۔ اس کے بعد ہمیں قطر کے مشہور بازار سوق واقف کے پاس واقع بیت جلمود میوزیم لے جایا گیا۔ اس میوزیم میں مختلف ممالک بشمول قطر میں غلامی کی تاریخ ، مظاہر اور اشکال محفوظ کی گئی ہیں۔ کچھ کمروں میں بڑی بڑی سکرینوں پر غلامی کے نظام پر مبنی ویڈیوز دکھائی جا رہی تھیں۔ یہاں ایک چھوٹی سی لائبریری بھی ہے  جہاں غلامی سے متعلق بنیادی مصادر ومراجع پر مشتمل کتابیں موجود ہیں ۔ یہاں سے ہم سوق واقف گئے۔یہ دوحہ کا سوسالہ قدیم ترین بازار ہےجو آج بھی پرانی طرز پر قائم ہے۔ یہاں ہر وقت سیاحوں اور مقامی لوگوں کا رش ہوتا ہے اور مختلف علاقوں کے لوگ اپنی روایات اور ثقافتوں کو مختلف انداز سے پیش کررہے ہوتے ہیں۔ شرکاء کے لیے اسی بازار میں واقع ایک ترکش ریسٹورنٹ “دی ویلج ” میں پرتکلف عشائیہ کا اہتمام کیا گیا۔ ڈنر کے بعد کچھ دیر کے لیے کورنیش یعنی ساحل سمندر پر گئے اور پھر ہوٹل واپسی ہوئی۔

28 دسمبر کو پہلے سیشن کا آغاز ڈاکٹر سہیرا صدیقی (ایسوسی ایٹ پروفیسر، جارج ٹاؤن یونیورسٹی ، دوحہ کیمپس) کے لیکچر سے ہوا ۔انہوں نے علم  کی تعریف اور مصادر پر بحث کی اور قانون وشریعت کا علم معرفت سے کیا رشتہ ہے، نیز جدید مسلم معاشرے میں علم معرفت کا کیا کردار ہے،اس کو عمدگی سے واضح کیا۔ اس پر بھرپور مناقشہ ہوا اور اساتذہ سمیت تقریباً تمام شرکاء نے پینل ڈسکشن کے ذریعے اپنے ملاحظات پیش کیے۔ شام کے وقت مہمان اسکالر ڈاکٹر علی محی الدین قرہ داغی کا لیکچر تھا جو اسلامی اقتصادیات کے عالمی سطح کے ممتاز اسکالر اور اس موضوع پر متعدد کتابوں کے مصنف ہیں ۔ آپ نے تفصیل کے ساتھ “الفقہ الاسلامی بین النصوص والتراث والمعاصرۃ وقفاً لفقہ المیزان” کے موضوع پر بڑی عمدگی سے بحث کی ، اور پھر بڑی فراخ دلی کے ساتھ شرکاء کی جانب سے تقریباً بیس سے زیادہ سوالات کے جوابات دیے ۔ ڈنر کے بعد شرکاء کو ساحل سمندر کورنیش کا وزٹ کرایا گیا اور  بیشتر شرکاء نے  کشتیوں میں سمندر کی سیر کی۔

29 دسمبر بروز اتوار ڈاکٹر رنا دجانی (ایسوسی ایٹ پروفیسر، الجامعہ الہاشمیہ اردن) نے اسلام اور ارتقاء کے حوالے سے ویڈیو لنک کے ذریعے تفصیلی لیکچر دیا، اور آخر میں چائے کے وقفے کے بعد بھی مسلسل ایک گھنٹہ شرکاء کے سوالات کے جوابات دیے۔شام کے وقت بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے استاذ ادریس آزاد صاحب نے سائنس اور ارتقاء کے کائناتی قوانین کے ساتھ ساتھ کرہ ارض پر حیات کی ابتدا اور نشو ونما پر اپنی پرمغز پریزینٹیشن پیش کی جس سے حاضرین کی سائنس کے حوالے سے معلومات میں بیش بہا اضافہ ہوا،اور پھرسوالات کے سیشن کے بعد اپنی شاعری سے بھی شرکاء کو محظوظ کیا۔

30 دسمبر ورکشاپ کا آخری دن تھا۔پہلے سیشن میں ڈاکٹر عمار ناصر صاحب نے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتاب اقتضاء الصراط المستقیم کی روشنی میں مسلم ثقافت اور تشبہ بالکفار پر بحث کی۔ ان کے بعد پروفیسر ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ صاحب نے ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے ایک آرٹیکل کے حوالے سے مذہب اور ثقافت کے باہمی روابط پر گفتگو کی۔ چائے کے وقفے کے بعد شرکاء نے اپنے مشاہدات اور آئندہ کے لیے تجاویز پیش کی جن کو اساتذہ کرام نوٹ کرتے اور سراہتے رہے۔ظہر اور لنچ کے بعد ایجوکیشن سٹی ہی میں واقع قطر نیشنل لائبریری کا آفیشل وزٹ کرایا گیا۔ یہ عظیم الشان لائبریری بیس لاکھ کتابوں پر مشتمل ہے۔ یہاں دینی علوم وفنون پر مشتمل کتب/مصادر ومراجع کے کئی کئی ایڈیشن دیکھنے کو ملے۔ایک خاتون نے لائبریری کے بارے میں تفصیل کے ساتھ بریفنگ دی اور یہاں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی کے بارے میں بتایا۔ تہہ خانے میں قدیم مخطوطات، نایاب کتابیں اور مکاتیب محفوظ کیے گئے ہیں۔

شام کے وقت الوداعی سیشن اور ڈنر تھا جس میں بقیہ شرکاء نے اپنے تاثرات اور تجاویزپیش کیں اور آخر میں اساتذہ کرام نے الوداعی کلمات کہے جس میں انہوں نے اسلامی فکری روایت کے اس پہلو پر گفتگو کی کہ دینی مدارس کے فضلاء کو اپنے مذہبی متون ، قدیم وجدید تراث ، الہیات اور اخلاقیات سے متعلق روایتی منہج کو فلسفہ، سائنس سے متعلق نئے علمی نظریات وافکار کی روشنی میں بروئے کار لانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری توقع ہے کہ یہ کورس علماء کرام کے اندازِ فکر میں مثبت تبدیلیوں کا ذریعہ اور محرک ثابت ہوگا۔ دینی مدارس کے ساتھ ربط وتعلق کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے رقت آمیز لہجے میں ڈاکٹر عمار ناصر نے کہا کہ مدرسہ ہماری تاریخ اور تہذیب کا کسی نہ کسی رنگ میں بچا ہوا واحد ادارہ ہے۔ہماری تاریخ وتہذیب نے جتنے ادارے قائم کیے تھے، وہ سارے مختلف حوادث کی نذر ہوچکے ہیں۔یہ ایک واحد ادارہ ہے جو کسی نہ کسی رنگ میں موجود ہے اوراسے لوگوں کا اعتمادآج بھی حاصل ہے۔ تہذیب و تاریخ میں ادارے آسانی سے نہیں بنتے،ایک ادارے کو اپنا نام بنانے اور اپنی خاص شناخت  حاصل کرنے میں صدیاں لگتی ہیں۔اس لیے اس ادارے کی قدروقیمت کو سمجھنا چاہیے اور جس علمی روایت کا یہ ادارہ امین ہے، ہمیں اس کی قدر کرنی چاہیے۔

الوداعی ڈنر کے بعد اسی رات چار بجے پی آئی اے کی پرواز سے روانہ ہوئے اور صبح 9 بجے اسلام آباد ائیرپورٹ بخیر وعافیت پہنچ گئے۔

رپورٹ: ڈاکٹر محمد سعید شفیق