
گل رحمان ہمدرد
وحدت ادیان کی بحث میں ایک اہم مسئلہ ایمان بالرسالت کا آجاتا ہے۔مولانا ابوالکلام آزاد نجات کےلیۓ ایمان بالرسول(کسی ایک رسول پر ایمان) کے قائل نہیں ہیں بلکہ ایمان بالرسل(تمام انبیاء پر ایمان ) کے قائل ہیں یعنی نجات کےلیے تمام انبیاء پر ایمان لانا ضروری ہے۔کسی ایک کا جان بوجھ کر انکار سب انکار متصور ہوگا ۔
پہلے آپ مولانا آزاد کا موقف سنیں پھر میں اس موقف کی باریکیاں آپ کو سمجھاؤں گا۔
وہ لکھتے ہیں: “اس کی(یعنی قرآن کی)دعوت کی بنیادی اصل یہ ہے کہ وہ دنیا کے تمام رہنماؤں(پیغمبروں)کی تصدیق کرتا اور سب کو ” ایک ہی سچائی ” کا پیامبر قرار دیتا ہے۔وہ کہتا ہے :پیروانِ مذاہب کی سب سے بڑی گمراہی تفریق بین الرسل ہےیعنی ایمان اور تصدیق کے لحاظ سے خدا کےرسولوں میں تفریق کرنا ،کسی ایک کو ماننا اور دوسروں کو جھٹلانا یاسب کو ماننا کسی ایک کا انکار کردینا ۔اسی لیۓ اس نے جابجا اسلام کی راہ یہ بتلائی ہے : لانفرق بین احدمنھم و نحن لہ مسلمون (“ہم خدا کےرسولوں میں سے کسی کو بھی دوسروں سے جدا نہیں کرتے(کہ کسی کو مانیں اور کسی کو نہ مانیں)ہم تو خدا کے آگے جھکے ہوۓ ہیں اسکی سچائی کہیں بھی آئی ہو اور کسی کی زبانی آئی ہو،ہمارا اس پر ایمان ہے)” (,ام الکتاب،صفحہ ،146)
اوپر کے اس اقتباس میں بریکٹ کے اندر کے الفاظ بھی مولانا آزاد ہی کے ہیں۔اس اقتباس میں دو نکات بہت ہی لائق توجہ ہیں۔
١۔نجات کے لیۓ ایمان بالرسالت ضروری ہے۔
٢۔لیکن کسی ایک رسول پر ایمان لانا کافی نہیں بلکہ ”تمام رسولوں“ پر ایمان لانا نجات کے لیۓ ضروری ہے۔تفریق بین الرسل کفر ہے۔تمام انبیاء ” ایک ہی زنجیر“ کی مختلف کڑیاں ہیں۔کسی ایک رسول کا انکار سب کا انکار متصور ہوتا ہے۔کسی شخص نے اگر تاریخِ انسانی کے کسی ایک پیغمبر کا بھی انکار کیا تو اسکی نجات ممکن نہیں ہوگی۔
یہ ان کے موقف پر مبنی محض ایک اقتباس ہے۔اسی طرح کے دیگر اقتباس ان کی تفسیر میں جابجا ملتے ہیں۔اسی طرح غلام رسول مہر کے نام ایک خط میں انہوں نے اپنا موقف تفصیل سے بیان کیا ہے۔میرے پاس اس وقت ان کی تفسیر موجود نہیں اور غلام رسول مہر صاحب کے نام خط بھی موجود نہیں ورنہ میں اس سےتفصیلی اقتباسات نقل کرتا۔بہرحال ان کی کتاب ام الکتاب میں ان کا موقف مختصر طور پر موجود ہےجو میں نے اوپر نقل کردیا ہے اور مولانا آزاد کا بنیادی موقف یہی ہے جو اس مذکورہ بالا اقتباس میں بیان ہوا ہے۔باقی تفصیلات ہیں۔ اوپر کے اقتباس میں انہوں نے جو موقف بیان کیا ہے بظاہر یہ عام سی بات معلوم ہوتی ہے ۔لیکن یہ کوئی عام بات نہیں ہےبلکہ اس کے ذریعہ سے درحقیقت انہوں نے ایمان بالرسالت کے مسئلہ میں مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں کو ایک ہی صف میں کھڑا کردیا ہے۔
وہ کیسے؟ مولانا آزاد کا موقف یہ ہے کہ نجات کےلیۓ کسی ایک رسول پر ایمان لانا کافی نہیں ہے بلکہ خدا کے بھیجے ہوۓ تمام انبیاء پر ایمان لانا ضروری ہے۔یعنی وہ نجات کےلیۓ ”ایمان بالرسول“ (کسی ایک ہی رسول پر ایمان لانے ) کو کافی نہیں سمجھتے بلکہ ”ایمان بالرّسُل“ (تمام انبیاء پر ایمان لانے کے )کو لازمی سمجھتے ہیں۔ان کے مطابق تفریق بین الرسل کفر ہے۔تمام انبیاء ” ایک ہی زنجیر“ کی مختلف کڑیاں ہیں۔کسی ایک کا انکار سب کا انکار ہے ۔ یہاں سب سے پہلا سوال خود مسلمانوں کی نجات کے متعلق پیدا ہوجاتا ہے؟کیونکہ وہ جو روایات کے مطابق ایک لاکھ چوبیس ہزار کے لگ بھگ پیغمبردنیا میں آۓ ہیں ,مسلمان ان سب کو جانتے ہیں اور نہ پہچانتے ہیں۔بدھا اور مہاویر اور سری رام پیغمبر تھے یا نہیں ؟زاراتست اور سقراط اور کنفیوشس پیغمبر تھے یا نہیں؟۔ہم نہیں جانتے۔اب اگر ہم انکے رسول ہونے کا انکار کردیں اور وہ واقعی رسول ہوں تو ہمارا کیا بنے گا؟ہماری نجات ممکن ہوگی یا نہیں؟,اس کا جواب یہ ہے کہ ظاہر ہے خدا نے قرآن میں کہا ہے کہ میں کسی پر اسکی اہلیت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا,تو امید ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ اس عذر کی بناء پر کہ دیگر انبیاء کو پہنچاننے میں وہ کنفرم نہیں تھے رعایت کی جاۓ گی۔
اگرمسلمان سابق انبیاء میں سے کسی کو رسول کی حیثیت سے نہ پہچانیں تو ان کے ساتھ رعایت کی جاۓ گی تو پھر انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ دیگر مذاہب والے بھی اگر ہمارے پیغمبر ﷺ کو رسول کی حیثیت سے نہ پہچانتے ہوں تو ان کے ساتھ بھی رعایت کی جاۓ۔اپنی اسی کتاب “ام الکتاب” میں ابوالکلام نے موقف اختیار کیا ہے کہ خدا کی ربوبیت اور رحمت عالمگیر ہے ۔ اگر اسکی رحمت عالمگیر ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پھر جو رعایت مسلمانوں کے ساتھ کی جاۓ گی وہی رعایت دیگر مذاہب والوں کے ساتھ بھی کی جاۓ۔یہ خدا کے پیمانہء عدل وانصاف کے منافی ہے کہ وہ کسی خاص امت کے ساتھ رعایت برتے اور دوسری امتوں کےساتھ اسی غلطی کی بنیاد پر اور اسی عذر کی بنیاد پر رعایت نہ کرے۔اسلیۓ اس باب میں رعایت اگر کی جاۓ گی تو تمام مذاہب کے پیروکاروں کےساتھ یکساں طور پر کی جاۓ گی نہ کہ صرف مسلمانوں کے ساتھ۔ یعنی جو رعایت مسلمانوں کو دی جاۓ گی بالکل وہی رعایت دیگر امتوں کو بھی دی جاۓ گی ۔ خلاصہ یہ ہوا کہ نجات کےلیۓ تمام پیغمبروں پر ”عمومی ایمان“ لانا تمام مذاہب کے پیروکاروں کےلیۓ ضروری ہے۔تخصیص کےساتھ پہچان کر ایمان لانا دنیا کے انسانوں کےلیۓ مختلف سماجی ونفسیاتی وعلمی و معلوماتی کمی کی اور کئی دیگر وجوہات کی وجہ سے بڑا مسئلہ ہے۔جان بوجھ کرکسی رسول کا انکار تو یقیناََ کفر ہے۔لیکن اگر کسی نے کسی کو رسول کی حیثیت سے پہچانا ہی نہ ہو(جیسا کہ مسلمان بدھا ,سقراط,کفیوشس ,حضرت لقمان,اور زاراتست کے بارے میں نہیں جانتے کہ وہ رسول تھے یانہیں)تو ایسی صورت میں رعایت کی جاۓ گی اور یہ رعایت تمام امتوں کے ساتھ کی جاۓ گی کسی ایک امت کے ساتھ نہیں۔وجہ یہ ہے کہ کسی ایک امت کے ساتھ رعایت کرنا اور دوسروں کےساتھ رعایت نہ کرنا خدا کےاس عالمگیر قانون ربوبیت و رحمت اور اس کے عدل وانصاف کے خلاف ہے۔




کمنت کیجے