Home » ۔’الخراج بالضمان‘ کا صحیح تصور
اسلامی فکری روایت فقہ وقانون

۔’الخراج بالضمان‘ کا صحیح تصور

خرید و فروخت کے ایک معاملے میں نزا ع پیدا ہوا تو فریقین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تاکہ فیصلہ ہو سکے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
أن رجلًا ابتاع غلامًا فأقام عنده ما شاء اللّٰه أن يقيم، ثم وجد به عيبًا فخاصمه الى النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم فرده عليه، فقال الرجل: يا رسول اللّٰه، قد استغل غلامي، فقال رسول اللّٰه صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ’’الخراج بالضمان‘‘.
(ابوداؤد، رقم 3510)
’’ایک شخص نے غلام خریدا۔ جب تک اللہ کو منظور تھا، غلام کچھ عر صہ اس کے پاس رہا، پھر اس نے اس میں کوئی عیب پایا تو وہ مقدمہ لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غلام بائع کو واپس لوٹا دیا۔ اس شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ، اس نے تو میرے غلام سے فائدہ اٹھایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نفع ضمان کے ساتھ وابستہ ہے۔‘‘
عربی زبان میں ’ضمان‘ کا بنیادی مفہوم ذمہ داری لینا ہے۔ اہلِ لغت اسے ’الكفالة والالتزام‘ کے الفاظ سے تعبیر کرتے ہیں ،یعنی کسی چیز کی کفالت اور اس کی ذمہ داری قبول کرنا۔ اس تناظر میں ’الخراج بالضمان‘ کا مطلب یہ ہو ا کہ جب غلام خریدار کے پاس تھا تو اس کی خوراک، دیکھ بھا ل ا ور حفاظت، سب اسی کے ذمے تھا۔ لہٰذا عدل کا تقاضا یہ تھا کہ ا س مدت کے دوران میں حاصل ہونے والا نفع بھی اسی کو ملے، کیونکہ نفع دراصل اسی ذمہ داری کا براہِ راست اور لازمی نتیجہ تھا۔
یہ روایت اپنے اصل سیاق میں محض ایک قضیے کا فیصلہ تھی، لیکن بعد کے فقہا نے اسے اپنے منہاجِ استدلال کے مطابق ایک کلی اصول کی صورت د ے دی۔ انھوں نے یہ سمجھا کہ اس روایت میں ’ضمان‘ سے مراد دراصل نقصان کی ذمہ داری ہے اور اس بنیاد پر یہ قاعدہ اخذ کیا کہ نفع کا استحقاق ہمیشہ اسی کو ہوگا جو نقصان کا بوجھ بھی اٹھائے۔ اسی تصو ر پر امام سر خسی ا ور امام کاسانی جیسے فقہا نے یہ ضابطہ قائم کیا کہ اگر کسی مالی معاملے میں نقصان کی کوئی ذمہ داری قبول نہ کی جائے تو وہ محض سرمایہ پر سرمایہ کمانے کے متراد ف ہوگا ۔اور یہ صورت ا ن کے نزدیک سود کے حکم میں ہے۔
ہمارے نزدیک یہ تعبیر دو پہلوؤ ں سے محلِ نظر ہے:
سب سے پہلے یہ کہ فقہا نے ’ضمان‘ کو صرف مالی خسارے تک محدود کر دیا ،حالاں کہ لغت کی رو سے یہ لفظ بنیادی طور پر ’’ذمہ داری لینے‘‘ کے لیے آتا ہے۔ نقصان برداشت کرنا، اگرچہ ذمہ داری کی ایک ممکنہ صورت ہے، مگر اسے ’ضمان‘ کے معنی کی حیثیت سے پیش کرنا دراصل اس کے منطقی اطلاقات میں سے ایک کو لفظ کے اصل مفہوم پر مسلط کر دینے کے مترادف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ’ضمان‘ ہر عقد کے ساتھ اپنی نوعیت کے مطابق بدلتا ا ور مختلف ہیئت اختیار کرتا ہے: قرض میں یہ د َین کی ادائیگی ہے، امانت میں کفالت اور حفاظت ہے، بیع میں وہ التزامات ہیں، جو فریقین باہمی طور پر طے کریں ا ور زیر بحث روایت میں اس کا تعلق دیکھ بھال ا و رکفالت سے تھا۔ گویا ہر معاملہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے اپنی ذمہ داری خود متعین کرتا ہے۔
لہٰذا کسی ایک عقد میں’ضمان‘ کی مخصوص صورت کو معیار بنا کر اسے تمام عقود پر منطبق کرنا اور نفع کو لاز ماً خسارے کے ساتھ مشروط سمجھ لینا نہ لغت کے مطابق ہے، نہ روایت ہی کے سیا ق سے ہم آہنگ ہے۔
دوسرا پہلو یہ ہے کہ فقہا نے ’الخرا ج بالضما ن‘ کو عقدِ مضاربت پر بھی منطبق کیا اور اس کی بنیاد پر یہ قرا ر دیا کہ سرمایہ فراہم کرنے والے (ربّ المال) پر ’ضمان‘، یعنی نقصان کی ذمہ دا ری عائد ہوتی ہے ۔ ان کے نزدیک چونکہ نفع ہمیشہ ’ضمان‘ کے ساتھ مشروط ہے، اس لیے یہاں بھی نفع کا اصل استحقاق ربّ المال کے ساتھ وابستہ ہونا چا ہیے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ مضا ربت میں دونوں فر یق اپنی اپنی نوعیت کی ذمہ داریاں اٹھاتے ہیں۔ ربّ المال کی ذمہ دا ری سرمایہ فر اہم کرنا ہے ا ور عامل کا التزا م یہ ہے کہ وہ اصل سرمایہ کو محفوظ رکھے، اسے ضیاع سے بچائے اور کاروباری عمل میں لگائے۔
چونکہ یہ ذمہ داری عامل نے قبول کی ہے، اس لیے اگر نقصان ہو تو اس کا بوجھ اسی پر آتا ہے۔ یوں نفع دراصل دونوں کی ذمہ دار یوں کے امتزاج کا فطری نتیجہ ہے۔ ربّ المال اس لیے شریک ہے کہ اس نے سرمایہ فراہم کیا ا ور عامل اس لیے کہ اس نے اس سرمایہ کی حفاظت ا ور اس کے کاروباری استعمال کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ نفع کو محض ’’نقصان برداشت کرنے‘‘ کے اصول پر موقوف کر دینا درست تعبیر نہیں، بلکہ وہ دونوں فریقین کی مختلف ذمہ داریوں کے امتزاج سے پیدا ہوتا ہے۔
اس سے واضح ہوتا ہے کہ ’الخراج بالضمان‘ کو محض نقصان برداشت کرنے کے مفہوم میں محدود کرنا نہ لغت کے مطابق ہے، نہ روایت کے سیاق سے ہم آہنگ ہے اور نہ عقود ہی کی اپنی نوعیت اور ذمہ دار یوں کے تقاضوں کے لحاظ سے درست تعبیر ہے۔

محمد حسن الیاس

محمد حسن الیاس علوم اسلامیہ کے ایک فاضل محقق ہیں۔انھوں نے درس نظامی کی روائتی تعلیم کے ساتھ جامعۃ المدینۃ العالمیۃ سے عربی ادب کی اختصاصی تعلیم حاصل کی۔معروف مذہبی اسکالر جاوید احمد غامدی کے شاگرد اور علمی معاون ہونے کے ساتھ ان کے ادارے میں تحقیقی شعبے کے ڈائریکٹر کے فرائض انجام دے رہیں۔

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں