Home » (1) وجود (وجودِ محض)، عدم اور بننا
شخصیات وافکار فلسفہ

(1) وجود (وجودِ محض)، عدم اور بننا

عمران شاہد بھنڈر
جناب محمد دین جوہر صاحب نے ابو بکر سلطان صاحب کی ایک تحریر شیئر کی ہے جو ان کے بقول میرے ”جگاڑی فلسفے کا رَد“ ہے۔ میں ابوبکر سلطان صاحب کو بالکل نہیں جانتا، نہ وہ میری فرینڈ لسٹ میں کبھی شامل رہے ہیں۔ بہرحال، جب تحریر سامنے ہے تو جاننا ضروری بھی نہیں ہے۔ میں اگلی چند سطور میں اُس تحریر کے مندرجات کا
تنقیدی جائزہ پیش کروں گا۔ یہ تحریر محض جوہر صاحب کی پیش کردہ تحریر کا رَد نہیں ہے بلکہ فلسفے کے بنیادی قضایا کو سمجھنے کے لیے بھی ناگزیر ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ فلسفے کے طالبِ علم اس کو پوری توجہ سے پڑھیں تاکہ انہیں جدید فلسفیانہ مباحث کا علم ہو سکے۔ اس سے علم الکلام کی حدود بھی متعین ہو جائیں گی۔ابو بکر سلطان صاحب نے وہی غلطی کی ہے جو ارسطو کی ”رسمی منطق“ کا ہر طالبِ علم کرتا ہے۔ یعنی وہ وجود اور عدم کے درمیان تعلق کی نوعیت کو سمجھنے میں ناکام رہے ہیں۔ میں ان کا ایک اہم اقتباس یہاں پیش کرنے لگا ہوں، جس سے ان کی ہیگلیائی جدلیات کی عدم تفہیم قطعی طور پر واضح ہو جائے گی۔ ان کی ہیگلیائی ”نفی“ کی تفہیم باطل ہے، چونکہ ان کی پوری تحریر میں یہی تفہیم گردش کر رہی ہے، اس لیے اس کی تصحیح ضروری ہے۔ سلطان صاحب لکھتے ہیں،
”ہیگل کے یہاں عدم Positive         Space ہے۔جب کہ کلام میں تو اس کا ہونا ہی محال ہے۔“
ہیگل کے فلسفے میں عدم مثبت نہیں بلکہ منفی مقولہ ہے، اور یہ عدم، وجود سے خارج میں نہیں، بلکہ وجود کے اندر عدم تعینات سے عبارت ہے۔ ہیگل کے بارے میں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ اس کی ”منطق کی سائنس“ کا آغاز ”فکرِ محض“ یا ”عقلِ محض“ سے ہوتا ہے، یعنی وجود براہِ راست خیال کا اپنا وجود ہے، مطلب یہ کہ وجود خارج میں نہیں ہے، کیونکہ آغاز میں کوئی خارج موجود ہی نہیں تھا۔ وجودِ محض وہ ہے جو آغاز میں عدم تعینات سے عبارت ہے۔ یعنی میں خارجی وجود (کائنات) کے بغیر سوچ رہا ہوں، اور میری سوچ کا وجود ہی میرا معروض ہے۔ ہیگل کہتا ہے،
Pure        Being         and           pure         nothing           are,          therefore,         the          same. What          is          the            truth           is           neither               being             nor             nothing,          but        that             being —            does             not             pass over             but              has                passed over — into             nothing,             and              nothing                into             being.          Science          of           Logic, section, 134
ترجمہ: وجودِ محض اور عدمِ محض دراصل ایک ہی ہیں۔ سچ نہ تو وجود میں ہے، نہ عدم میں، بلکہ اس میں کہ وجود عدم میں اور عدم وجود میں منتقل ہو جاتا ہے۔“
یعنی سچائی ان کے ایک دوسرے میں انضمام (Interpenetration)کرنے میں ہے۔ وجود اور عدم کا ایک دوسرے میں سرایت کر جانا ”بننے“ کا عمل ہے، اور بننا پہلا کنکریٹ مقولہ ہے، اس کی مساوات یوں ہو گی،
ٓاے (وجود یا وجودِ محض) + ناٹ اے (عدمِ یا عدمِ محض) = اے۔ اے سے مراد متعین وجود ہے جو وجودِ محض اور عدمِ محض کی نفی سے تشکیل پایا ہے۔ لہذا آغاز میں، یعنی تعینات سے قبل وجود، وجودِ محض ہے، جو کہ عدم ہے، اور عدم کیا ہے؟ عدم وجود کی صفات کی عدم تعیین ہے۔صفات کس کی ہیں؟ اے (وجودِ محض) کی، ان صفات کی عدمیت (عدم) ناٹ اے ہے۔ لہذا اے ہی ناٹ اے ہے، اور ناٹ اے ہی اے ہے۔ واضح رہے کہ وجودِ محض ایک ہے۔ اس سے ماورا، یا اس کا
خارج وجود نہیں رکھتا۔ ہیگل کے الفاظ یوں ہیں،
Pure             nothing,              therefore,              is           the            same             as          pure            being,          or           the             negation            of             all              determination.
یعنی وجودِ محض اور عدمِ محض ایک ہی ہیں، جو کہ تمام تعینات کی نفی ہیں۔ واضح رہے کہ ہیگل کسی بھی طرح کی Presupposition کے بغیر ”منطق کے اصول“ تشکیل دے رہا ہے۔ لہذا ضروری تھا کہ آغاز ”وجودِ محض یا عدمِ محض سے کیا جاتا، یعنی پہلی تعین ”اثبات“ سے نہیں بلکہ نفی سے ہوتی۔ ہیگل کے ہاں دو نفیاں ہیں: ایک وجودِ محض کی نفی، دوسری عدم یعنی نفی کی نفی، اور وجود متعین ہو جاتا ہے۔
علم الکلام میں منطقی اصول کارفرما نہیں ہوتے، اور نہ ہی علم الکلام منطقی اصولوں کا بوجھ اٹھا سکتا ہے۔ علم الکلام کو چھلانگ لگا کر ایک دیوتا، جادوگر پر پہنچنا ہوتا ہے۔ منطق میں تصورات ازخود پیدا ہوتے ہیں، یعنی ایک تصور سے دوسرا تصور برآمد ہوتا ہے، جب کہ علم الکلام میں پہلے ہی خدا اور اس کی صفات کو ”واجب الوجود“ کے طور پر فرض کر لیا جاتا ہے۔ جدلیاتی منطق میں خدا اپنی ساری اتھارٹی کھو بیٹھتا ہے۔ واضح رہے کہ میں نے جو نوٹ لکھا تھا وہ مُلّا مغل کی تحریر کا جواب تھا۔ کائنات کو ”حادث“ متکلمین کہتے ہیں، ہم کائنات کو حادث نہیں مانتے۔ ہم کائنات کے منطقی ظہور کے قائل ہیں۔ سلطان صاحب لکھتے ہیں،
”بھنڈر صاحب سے دراصل یہاں پر بڑی بھول ہوئی ہے۔ جیسا کہ انھوں نے خود بتایا ہے کہ عدم ’نہ ہونے‘ کی حالت ہے، یعنی سلبی تصور (         negative concept) ہے۔ مگر انھوں نے اسی تصورِ عدم کو positive           concept کے طور پر برتا ہے۔ گزارش ہے کہ کائنات عدم سے وجود میں نہیں آئی، یعنی یہاں temporal succession نہیں ہوئی کیونکہ وجود اور عدم ایک دوسرے کے parallel               contradictions ہیں۔ چونکہ عدم تو intelligible ہی وجود کی وجہ سے ہے، اس لیے یہ کہنا کہ پہلے عدم تھا اور پھر وجود آیا، یہ بات لغوِ محض ہے۔ کیونکہ عدم ”نہ ہونا“ ہے، تو جو شے ہے ہی نہیں اسے کسی شے کا ground کیسے بنایا جا سکتا ہے؟“
میرے لیے یہ سمجھنا بہت آسان ہے کہ نفی سے تعیین کا قضیہ ہر شخص کی سمجھ میں نہیں آتا، وجہ یہ کہ جدلیاتی منطق کو سمجھنا مذہبی ذہن کے لیے صرف ناممکن ہی نہیں، بلکہ تکلیف دہ بھی ہے، کیونکہ جدلیاتی منطق میں تعیین کسی ”مثبت تصور“ سے نہیں ہوتی، بلکہ نفی کی نفی سے ہوتی ہے، جس کی وضاحت میں اوپر کر چکا ہوں۔ موصوف کہتے ہیں کہ کائنات ”عدم سے وجود میں نہیں آئی۔۔۔۔ کیونکہ وجود اور عدم ایک دوسرے کے متوازی تضادات ہیں۔“ موصوف یہاں وجود اور عدم کو ایک دوسرے کے ”متوازی تضادات“ سمجھ کر ایک سنگین منطقی غلطی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ ”متوازی تضادات“ دو متضاد ”وجودوں“ کے درمیان میں ہوتا ہے، جہاں وہ دونوں ایک دوسرے کو خارج کرتے ہیں۔ وجہ یہ کہ دونوں ایک دوسرے کے خارج میں واقع ہوتے ہیں۔ تو کیا عدم کسی خارج میں واقع ہے کہ اسے وجود کے”متوازی“ تضاد کہہ دیا جائے؟ آغاز میں تو کوئی خارج موجود ہی نہیں ہے۔ کیونکہ خارج کا مطلب ہی یہ ہے کہ ایک اور وجود موجود ہے۔ عدم کا خارج میں موجود ہونا مضحکہ خیز ہے۔ عدم صرف وجود کی عدم صفات یا عدم تعینات سے عبارت ہے جو منطقی تسلسل میں تصورات کی تخلیق کا باعث بنتا ہے۔ہم تصورات کا وجود اور عدم کی جدلیات سے استخراج کرتے ہیں، پہلے ہی تصورات گھڑ کر نہیں بیٹھ جاتے۔موصوف مزید غلطی کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ “عدم تو قابلِ فہم ہی وجود کی وجہ سے ہے۔“ اگر یہ بات صحیح ہے تو پھر عدم، وجود کا ”متوازی تضاد“ کیسے ہو سکتا ہے؟ موصوف کہتے ہیں کہ ”جو شے ہے ہی نہیں اسے کسی شے کا گراؤنڈ کیسے بنایا جا سکتا ہے؟“ جب ”خارج“ موجود ہی نہیں تو عدم جو کہ صفات کی عدم تعیین سے عبارت ہے، وہ وجود کے اندر ہی اس کی ضد کے طور پر”موجود“ ہو سکتا ہے۔ ”موجود“ سے مراد وجودی موجودگی نہیں، بلکہ وجود کے اندر سے منطقی مقولات کا استخراج جدلیاتی حرکت کے نتیجے میں طے پاتا ہے کیونکہ آغاز میں ”باہر“ تو موجود ہی نہیں ہے کہ جہاں عدم، وجود کے ”متوازی تضاد“ کے طور پر پایا جائے۔ لہذا تضاد (عدم) وجود کے اندر پایا جاتا ہے، اور وہ تضاد وجود کے ہونے اور نہ ہونے (صفات کی عدم تعیین) میں موجود ہے۔
موصوف مزید لکھتے ہیں،
”منطقی طور پر عدم کا ہونا ہی محال ہے اور واجب الوجود کا نہ ہونا محال ہے تو یہ دونوں ایک دوسرے کے برابر کیسے ہو سکتے ہیں؟ دوسری بات یہ ہے کہ عقل صرف ان چیزوں پر judgement دے سکتی ہے کہ جن میں ہونے اور نہ ہونے کی حالت پائی جائے۔ اب عدم کا ہونا محال ہے اور واجب الوجود میں نہ ہونے کی صفت محال ہے، سو دونوں ہی عقل کے دائرہ کار سے باہر ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ بھنڈر صاحب کون سا وجود ڈھونڈتے پھر رہے ہیں؟“
یہاں سلطان صاحب نے بغیر کوئی دلیل دیے یہ فرض کر لیا ہے کہ”منطقی طور پر عدم کا ہونا ہی محال ہے اور واجب الوجود کا نہ ہونا محال ہے“ جب کہ اوپر وہ خود ہی کہہ رہے ہیں کہ عدم اور وجود”متوازی تصورات“ ہیں۔ ایک طرف وہ یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ عدم اور وجود ”متوازی تصورات ہیں“ جو کہ اس حوالے سے درست ہے کہ منطق میں عدم ایک تصور کے طور پر سامنے آتا ہے۔ تاہم وہ یہ معمولی سی بات بھی سمجھ نہیں پائے کہ اگر منطق تصورات سے بحث کرتی ہے، تو پھر منطق میں ’عدم‘ ایک اہم تصور ہے، اگر عدم ایک منطقی تصور ہے تو یہ ”محال“ کیسے ہو گیا؟
مزید کہتے ہیں کہ ”عقل صرف ان چیزوں پر ججمنٹ دے سکتی ہے کہ جن میں ہونے اور نہ ہونے کی حالت پائی جائے۔“ لہذا وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ”چیزوں“ میں ہونے اور نہ ہونے کی حالت پائی جاتی ہے۔ تو پھر ان کا یہ کہنا کہ ”منطقی طور پر عدم ہونا ہی محال ہے“ کا کیا مطلب ہوا؟ یعنی چیزوں میں ہونے اور نہ ہونے کی حالت پائی جاتی ہے لیکن منطقی طور پر عدم محال ہے؟ ہمارا کہنا یہ ہے کہ آغاز میں وجود کا ہونا اور نہ ہونا برابر ہیں۔ یہ ”وجودِ محض“ ہے جو عدم ہے، عدم لاشے ہے، اور لاشے نفی سے عبارت ہے، جبکہ نفی ایک منطقی مقولہ ہے۔ عدم کو محال کہنے کا مطلب ہے کہ ساری منطق سے نفی کے مقولے کو خارج کر دیا گیا ہے، لہذا اب صرف ”اثبات“ ہی باقی رہ گیا ہے۔ جدلیاتی منطق میں عدم ’بعد‘ میں نہیں آتا، بلکہ وجودِ محض کی صفت کے طور پر اس کے اندر موجود رہتا ہے۔ جہاں تک ”واجب الوجود“ کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں موصوف نے کسی دلیل سے یہ ثابت نہیں کیا کہ وہ ”واجب الوجود“ کیوں ہے، بلکہ صرف اپنے عقیدے کا اظہار کیا ہے۔ میں واضح کر چکا ہوں کہ کوئی بھی وجود جو ”دوسرے“ پر انحصار کرے، اور خود کفیل نہ ہو، وہ کبھی ”واجب الوجود“ نہیں کہلا سکتا۔ منطق خواہشات کے مطابق نہیں چلتی، اس منطق میں سے تصورات از خود ظاہر ہونے چاہییں۔ میں نے یہ بھی واضح کر دیا تھا کہ مادہ اور کائنات میں فرق ہے۔ مادے کو میں ”واجب الوجود“ مانتا ہوں، اور کائنات کو مادے کا Unfold ہونا تسلیم کرتا ہوں۔ Unfold ہونے کا عمل منطقی ہے، اور منطق عقل کا unfold ہونا ہے۔ عقل کی خود شعوری سپرٹ کہلاتی ہے، اور یہ سپرٹ مادے میں موجود ہے۔ جدید سائنس اسے ”توانائی“ کہتی ہے، جب کہ ہیگل اس کو سپرٹ گردانتا ہے۔ آخر میں میں کانٹ کا وہ خاکہ پیش کرتا ہوں جس میں اس نے لاشے یا عدم کی وضاحت کی ہے۔ واضح رہے کہ یہ خاکہ کانٹ کی کتاب ”تنقید عقلِ محض“ سے لفظ بہ لفظ لیا گیا ہے۔
1۔Empty           concept                without             objects
2۔ Empty              object                of             a              concept
3۔ Empty             intuition             without                object
4۔Empty              object             without             concept
CPR, A290/B346
اس خاکے سے یہ واضح ہوا کہ تصور کا خالی ہونا، اس کا مشمول نہ ہونا عدم ہے۔ ان معنوں میں خدا عدم ہے۔ جب تک ضد موجود نہ ہو شناخت ممکن نہیں ہے۔ کانٹ کے الفاظ ہیں،
If             light               be          not              given               to            the              senses             we              cannot               represent                to               ourselves              to                 darkness. CPR, A292/B348
اسی نکتے پر ہیگل کے یہ الفاظ دیکھیے،
Mere                light              is               mere              darkness.         Science            of              Logic,       Section, 36
اس سے عدم کا مفہوم مزید واضح ہو گیا ہے۔اگر ضد نہ ہو تو اندھیرا اور روشنی ایک ہی چیز ہیں۔ آغاز میں کائنات نہیں تھی، لہذا امتیاز کرنا ممکن نہیں تھا۔ اس لیے جو کچھ بھی موجود تھا، وہ منطقی طور پر عدم تھا۔ یعنی ”وجودِ محض“ میں عدم تعینات عدم وجود کے متماثل ہیں۔ عدم تعینات ’ہونے‘ کی ضد ہیں، ان کو منطقی طور پر سامنے لانا ہے، نہ کہ ہر قسم کی خالی جگہ پُر کرنے کے لیے ایک جادوگر کھڑا کر دیا جائے۔ خدا ایک مذہبی تصور ہے، نہ کہ منطقی۔ منطق میں خدا مشمولات سے عاری فقط ”لاشے“ یا ”عدم“ ہے۔اگر ابتدا میں خدا کو بطورِ ’وجود‘ فرض کرنا ہے تو اس کو شخصی خدا سے کاٹ کر کہ جو کسی نام نہاد ”ارادے“ کا حامل ہو، ایک منطقی وجود کے طور پر پیش کرنا چاہیے۔ اس طرح وہ بھی ”وجودِ محض“ کے متماثل ہو گا، جو کہ عدم ہے۔
ان منطقی اغلاط کے علاوہ موصوف نے کچھ ایسی غلطیاں بھی کی ہیں جن کو اس تحریر کو پڑھنے کے بعد بآسانی شناخت کیا جا سکتا ہے۔ میں کوشش کروں گا کہ دوسرے حصے میں ان اغلاط کو بھی واضح کر دوں۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں