حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ نمرود کی جو بحث قرآن میں مذکور ہے اس کے مطابق آپ علیہ السلام نے گفتگو کا آغاز اس دلیل سے کیا کہ میرا رب وہ ہے (یعنی میں اسے الہ مانتا ہوں) جو زندگی و موت عطا کرتا ہے۔ اس پر نمرود نے کہا کہ وہ تو میں بھی کرسکتا ہوں جس پر آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ میرا رب وہ ہے جو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے، تو اسے مغرب سے لے آ۔ نمرود کے جواب اور آپ علیہ السلام کی ان دونوں باتوں میں کیا ربط تھا؟ کیا آپ علیہ السلام نے پہلی دلیل چھوڑ کر دوسری کی جانب رخ کیا؟ کیا پہلی دلیل پر مخالف کی ڈھٹائی دیکھ کر آپ نے دوسری دلیل بیان کی؟ مختلف مفسرین نے اسے الگ انداز سے دیکھا ہے، تاہم امام رازی نے اس مکالمے کو ایک مربوط استدلال میں پرویا ہے جس سے اس کی معنویت واضح ہوتی ہے۔
امام صاحب کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دلیل انتہائی مناسب تھی، آپ نے فرمایا کہ خدا کی پہچان اس کے افعال سے ممکن ہے جس میں کوئی اس کا شریک نہیں اور یہ موت و حیات بھی اس کے افعال میں سے ہیں۔ زندگی و موت کے ان اثرات پر مؤثر یا تو کوئی موجب ہوگا اور یا مختار۔ اس مؤثر کا موجب ہونا محال ہے کیونکہ ایسے مؤثر کے دوام سے اثر کا دوام لازم آتا ہے، پس اس صورت میں جو زندہ ہے وہ ازل سے زندہ ہوگا اور جو مردہ ہے وہ ازل سے مردہ ہوگا اور ان کے احوال بدل نہیں سکتے۔ پس ماننا ہوگا کہ کوئی صاحب اختیار قادر ہے جو ان احوال کو بدلنے والا ہے۔ امام صاحب کہتے ہیں کہ نمرود کے بارے میں یہ فرض کرنا قرین از قیاس نہیں کہ وہ اتنا غبی تھا کہ اس استدلال کو نہ سمجھتے ہوئے اپنی جانب سے زندگی و موت دینے اور خدا کی جانب سے زندگی و موت دئیے جانے کے فرق کو سمجھ نہ پاتا۔ آپ کہتے ہیں کہ نمرود کا اعتراض اس جہت سے تھا کہ اچھا یہ بتائیے کہ آپ کا رب یہ امور کسی واسطے کے بغیر کرتا ہے یا کسی واسطے کی تاثیر سے کرتا ہے؟ اگر آپ بغیر واسطے براہ راست اس کی جانب سے حیات و موت خلق کئے جانے کی بات کریں تو اس کی کوئی دلیل نہیں، اور اگر آپ کا دعوی یہ ہے کہ وہ بذریعہ زمینی و آسمانی اسباب ایسا کرتا ہے تو ایسے افعال تو ہم بھی کرتے ہیں کہ مثلا جماع کے بعد بچے کی ولادت ہوتی ہے، زہر کھانے سے موت ہوجاتی ہے وغیرہ، تو اس طرز پر میں بھی زندگی و موت عطا کردیتا ہوں۔ اس پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ مان لیتے ہیں کہ جس مؤثر کی میں بات کررہا ہوں وہ بذریعہ زمینی و آسمانی اسباب ہی یہ اثرات ظاہر کرتا ہے جیسے مثلا سورج و افلاک وغیرہ کی حرکات سے موسم بنتے ہیں جن کے اثرات ہم پر جاری ہوتے ہیں وغیرہ، لیکن بات یہ ہے کہ ان افلاک کی حرکت کے لئے بھی ایک مدبر و مؤثر چاہئے کیونکہ یہ ماننا محال ہے کہ یہ از خود الگ الگ طرح کی حرکت میں ہیں۔ تو وہ اسباب جن کی تو بات کررہا ہے کہ ان کی تاثیر سے تو بعض افعال کرلیتا ہے، ان اسباب کی تاثیر جن زمینی و آسمانی امور پر منحصر ہے وہ تیری قدرت میں نہیں، اگر ہیں تو پھر تو سورج کو مغرب سے نکال لا اور یہ تو بھی جانتا ہے کہ تو اس سے عاجز ہے۔ پس تیری بات کی رو سے بھی ثابت ہوا کہ جو افعال تجھ سے ظاہر ہورہے ہیں، اصلاً ان کی نسبت بھی اس مدبر و مختار ہی کی جانب ہے جو ان اسباب پر مؤثر ہے جن کے ذریعے تو یہ افعال کرتا ہے۔ یوں نمرود کی دلیل ختم ہوگئی جسے قرآن نے فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ (یعنی اس جواب سے وہ ھکا بکا رہ گیا) کی کیفیت سے بیان کیا۔ اس سے واضح ہوا کہ آپ علیہ السلام نے اصل دلیل بدلی نہیں تھی بلکہ اس پر ایک معارضے کا جواب دیا تھا۔
قرآن مجید کے وہ مقامات جہاں ذات باری اور اس کی صفات پر استدلال کیا گیا ہے، ان کی تشریح امام رازی جس طرح بیان کرتے ہیں وہ آپ ہی کا خاصا ہے۔




کمنت کیجے