شہزاد حسین
بنیاد پرستی کسی قوم، مذہب یا علاقہ کے ساتھ خاص نہیں ہے، بلکہ یہ ایک ردّ عمل ہے جو مختلف حالات و واقعات کے تناظر میں جنم لے سکتی ہے۔ دنیا کے ہر کونے میں بنیاد پرستی کسی نہ کسی شکل میں پائی جاتی رہی ہے اور موجودہ دور میں بھی یہ مختلف شکلوں میں موجود ہے۔
ڈاکٹر اسکاٹ ایپل بی اور ڈاکٹر مارٹن ای- مارٹی کی پیش کردہ رپورٹ Fundamentalisms Observed میں بیسویں صدی میں اٹھنے والی مذہبی تحریکوں کا بہ غور مطالعہ کیا گیا ہے۔ چودہ ابواب پر مشتمل اس رپورٹ میں ، یہودیت، عیسائیت، اسلام، ہندومت اور دیگر مذاہب کے نام پر اٹھنے والی بنیاد پرست تحریکوں میں وصفِ مشترک کو تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مذکورہ رپورٹ میں بنیاد پرستی کی پانچ اہم نظریاتی صفات کو ذکر کیا گیا ہے؛
۱۔ بنیاد پرستی اپنی نوعیّت کے اعتبار سے ردّ عمل ہے،
۲۔ بنیاد پرستی کے حاملین پورے مذہب میں سے صرف انھی دلائل کا انتخاب کرتے ہیں جو ان کے نظریے کو تقویّت دے رہے ہوں،
۳۔ اس میں ہر شے کو اچھائی و برائی اور حق و باطل کے پیمانے میں ماپا اور تولا جاتا ہے،
۴۔ ہر بات میں قطعیّت کا لہجہ استعمال کیا جاتا ہے اور
۵۔ قرب قیامت کے عقیدہ یا دنیا کی تباہی کے زمانے جیسے نظریات کا استعمال کر کے اپنے تصوّرات کو تقویّت دی جاتی ہے۔
اس مختصر تحریر میں جہادی فکر میں موجود بنیاد پرستی کے مختلف پہلوؤں میں سے ایک پہلو پر تبصرہ کیا جائے گا، جسے عقیدۂ ولاء و براء کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
ولاء و براء سے مراد اللہ کی رِضا کے لیے دوستی اور دشمنی کرنا ہے، لہذا اللہ کی پسند کردہ ہر شے اور انسان سے دوستی کی جائے گی اور اللہ کی نا پسندیدہ ہر شے و انسان سے اعلانِ براءت کیا جائے گا۔ لہذا ما لا يتمّ الواجب إلا به فهو واجبکے تحت، ہر وہ عمل جو اس عقیدہ کو تقویّت دے، اس پر عمل کرنا لازم ہو گا اور سدّ الذرائع کے قاعدہ کے تحت، جس عمل سے اس عقیدے کی مخالفت لازم آئے، اسے ترک کرنا پڑے گا۔ موجودہ دور میں مسلمانوں کے خلاف کافروں کی مدد کرنے پر مطلق تکفیر کے فتاوی جات، غیر مسلم ممالک میں بسنے کی حرمت، غیر مسلموں کی رسومات اور تہواروں میں شرکت کی حرمت، ان کی تہذیب و اخلاق سے عدم تاثّر کی ترغیب اور ان کے لیے رحم دل جذبات نہ رکھنے اور انھیں ذلیل و خوار کرنے کی جستجو وغیرہ جیسے کئی نظریات کی بنیاد دیگر دلائل کے ساتھ ساتھ عقیدہ ولاء و براء پر ہے۔ اس نظریے کا بہ غور جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ بنیاد پرستی کی مذکورہ بالا صفات اس میں بہ طریقِ اتمّ پائی جاتی ہیں۔
بنیاد پرستی کی ایک اہم نظریاتی صفت یہ ہے کہ یہ بہ ذاتِ خود کوئی مستقل نظریہ نہیں، بلکہ یہ ایک ردّ عمل ہے۔ مثال کے طور پر موجودہ دور میں دار الحرب اور دار الاسلام کی تقسیم ختم ہو گئی ہے اور قومی ریاستیں وجود میں آ چکی ہیں۔ ان قومی ریاستوں کی سب سے اہم ترجیح اپنی قوم و ملّت ہوتی ہے۔ بعض سیاسی وجوہات کی بنا پر مسلم قومی ریاستیں غیر مسلم ریاستوں کی حمایت و مدد کرتی ہیں اور بعض اوقات مدّ مقابل کوئی مسلم ریاست یا مسلمان ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں جہادی فکر کے حاملین نظریۂ ولاء و براء کو دلیل بنا کر یہ کہتے ہیں کہ ولاء و براء کا ایک اہم تقاضا یہ ہے کہ کافروں کی حمایت میں مسلمانوں کے خلاف مدد کرنا مطلق کفر ہے، لہذا فلاں حکومت و حکم ران، جو اسلامی و مسلمان ہونے کا دعوی کرتے ہیں، اپنے اس عمل کی بنیاد پر کافر و مرتدّ ہو چکے ہیں۔ (یہاں پر مقصد اس اقدام کی حمایت کرنا نہیں ہے، بلکہ اس کے ردّ عمل ہونے کو واضح کرنا ہے۔)
بنیاد پرستی کی دوسری اہم صفت یہ ہے کہ وہ پورے مذہب یا نظریات کے مجموعہ میں سے انتخاب کر کے صرف انھی دلائل و نظریات کو پیش کرتے ہیں، جس سے ان کے نقطۂ نظر کو تقویّت ملتی ہے۔ جہادی فکر کو مذکورہ بالا عقیدہ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس فکر کے حاملین بھی ایسی نصوص و تشریحات کا انتخاب کرتے ہیں، جس سے ان کے نظریے کو جِلا ملتی ہے۔ مثال کے طور پر سورۂ مائدہ کی آیت نمبر 51 کو (جس میں اللہ فرماتے ہیں کہ تم میں سے جو کوئی کافروں سے دوستی کرے گا وہ انھی میں سے ہے)، اپنے ظاہری مفہوم پر محمول کرتے ہوئے، یہ حضرات اپنی فکر کو تقویّت دیتے ہیں، حالاں کہ علما نے اس جیسی آیات میں تاویل کی ہے۔
تیسری صفت یہ ہے کہ بنیاد پرستوں کی تقسیم میں محض دو ہی باتیں ہو سکتی ہیں؛ حق یا باطل۔ان کی تقسیم میں اس کے بجاے کوئی تیسری راہ نہیں پائی جا سکتی۔ ولاء و براء کا بھی یہی معاملہ ہے۔ مثال کے طور پر اسامہ بن لادن اپنے ایک خطبۂ میں کہتے ہیں، جسے شبهات وتساؤلات حول الجهاد في جزيرة العربمیں نقل کیا گیا ہے، کہ ’’موجودہ دور کے حکم رانوں کے ساتھ ہمارا اختلاف کوئی فرعی اور ثانوی نہیں، جس کا حل نکالا جا سکے۔۔۔ ان حکم رانوں کا حال یہ ہے کہ کافروں کے ساتھ دوستیوں کے سبب ان کی ولایت ساقط ہو چکی ہے۔ لہذا ان کی ولایت میں رہنے کا کوئی جواز باقی نہیں ہے۔’’ اس جیسی اور بھی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔
چوتھی صفت قطعیّت کا لہجہ استعمال کرنا ہے۔ جہادی فکر میں قطعیّت کے لہجے کا استعمال تو بالکل عام ہے اور یہی حال ولاء و براء کا بھی ہے۔ مثال کے طور پر محمد بن سعید قحطانی اپنے ماسٹرز کے مقالہ؛ الولاء والبراء في الإسلام میں لکھتے ہیں، ’’کلمۂ توحید کا سب سے اہم مفہوم ؛ الولاء و البراء کا عقیدہ اور اس کے تقاضے ہماری نظروں سے اوجھل ہو چکے ہیں۔۔۔ کلمۂ توحید کا عملی انطباق اسی عقیدہ کے ذریعہ ممکن ہے، لہذا جب تک ولاء و براء پر کما حقہ عمل نہ کیا جائے، روے زمین پر کلمۂ توحید متحقّق نہیں ہو سکتا۔’’
آخری صفت قربِ قیامت اور آخری جنگِ عظیم جیسے نظریات کا استعمال ہے۔ موجودہ جہادی فکر کی بنیاد ہی آخری جنگِ عظیم، دجّال و مہدی کا ظہور، کفر کا دنیا سے خاتمہ وغیرہ جیسے نظریات ہیں۔
مذکورہ تفصیل سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ ولاء و براء کے عقیدہ کی حدّ تک موجودہ جہادی فکر کو بنیاد پرست کہا جا سکتا ہے۔
کمنت کیجے