میں سب سے پہلے مولانا ڈاکٹر عمار خان ناصر کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے اس سال مدرسہ ڈسکورسز کا سمر انٹینسیو پروگرام (Summer Intensive ) پاکستان میں منعقد کیا ، اس سے بھی بڑھ کر ان کا شکریہ اس بات پر کرنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے بحیثیت استاد اور پاکستان میں لیڈ فیکلٹی کے طور پر نہایت اہم اور فعال کردار ادا کیا۔ان کے ساتھ میں ڈاکٹر ماہان مرزا صاحب کا بھی شکر گزار ہوں کہ جو اس پروگرام میں شروع دن سے میرے ساتھ ہیں اور اس کو چلانے میں اپنا بہت اہم کردار ادا کیا۔اگرچہ اس سال ڈاکٹر ماہان مرزا کی خدمات نوٹرے ڈیم یونیورسٹی کے انصاری انسٹیٹیوٹ نے حاصل کر لیں لیکن مجھے امید ہے کہ وہ آئندہ بھی اپنے وقیع علم اور وسیع تجربہ کی روشنی میں ہماری راہنمائی کرتے رہیں گے ۔ اس کے ساتھ ہی میں ہندوستان میں مدرسہ ڈسکورسز کے استاد اور لیڈ فیکلٹی ڈاکٹر وارث مظہری کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا ۔ میرا ان سے قریبی تعلق اس وقت سے ہے، جب میں نے اپنی کتاب “مدرسہ کیا ہے؟” (What is a Madrasa?)کی تحقیق کے سلسلے میں 2005 میں ہندستان کا دورہ کیا ۔ اس کتاب کا ترجمہ انھوں نے “دینی مدارس: عصری معنویت اور جدید تقاضے” کے عنوان سے کیا ہے جو ہندوپاک سے شائع ہوچکا ہے۔ اس موقع پر میں اسلامک فقہ اکیڈمی کے سکریٹری جناب مولانا امین عثمانی صاحب کا بھی شکر یہ ادا کرنا چاہوں گاکہ ان کی باعظمت شخصیت نے ہی مجھے پاک و ہند میں نوجوان علماکی اگلی نسل کی رہنمائی پر ابھارا اور اس موضوع پر سنجیدگی سے سوچنے کے لئے آمادہ کیا۔ مجھے نہیں معلوم آپ میں سے کتنے لوگ مولانا عثمانی کو مکتوب نگار کی حیثیت سے جانتے ہیں ۔ وہ اچھے مکتوب نگار ہیں اور اچھی بات یہ ہے کہ وہ نہایت پابندی کے ساتھ خط لکھنے کے عادی ہیں ۔ یہاں یہ اعتراف بجا ہے کہ ان کے متواتر خطوط نے ہی میرےضمیر کو جھنجھوڑا۔ انھوں نے ہمیشہ مجھے یہ یاد دلایا کہ دیوبند اور ندوہ جیسے عالمی اداروں سے عالمیت کی سند حاصل کرنے کے باوجود بھی طلبہ کو ہمیشہ اضافی کورس کرنےکی ضرورت رہتی ہے۔ انہوں نے مجھ پر پورے بھروسے اور اعتماد کا اظہار کیا کہ میں قدیم و جدید علو م کے امتزاج سے طلبہ مدارس کی جدید نسل کی رہنمائی کرسکتا ہوں اور روایت و جدت کا یہ دلچسپ امتزاج نہ صرف ہندستان بلکہ دیگر ممالک کے مسلمانوں کے لئے بھی بیحد سودمند ثابت ہوگا ۔
مولانا عثمانی کے ان خطوط سے الگ اور آزاد ہو کر ، میں خود بھی فکر اسلامی کی تشکیل وتجدید کے حوالے سے ہمیشہ فکرمند رہا ہوں۔ جنوبی افریقہ میں کئی سالوں کے قیام اور مسلم برادری اور تعلیمی ادارے کے ایک فعال رکن کی حیثیت سے میں نے ہمیشہ یہ محسوس کیا کہ ہمارے بیشتر علما عہد جدید کے فکری چیلنجز سے کما حقہ واقف نہیں ہیں۔ اس دنیا میں وقوع پذیر ہونے والے متنوع واقعات مجھے مسلسل پریشان کرتے رہے ہیں اور یقیناً آپ کو بھی پریشان کرتے رہے ہوں گے۔ نو سامراجی حملوں اور متعدد مقامات میں خانہ جنگیوں کے سبب مسلم دنیا کے بیشتر حصوں میں سیاسی انتشار کی صورتحال سے مسلم نوجوانوں کو اپنا مستقبل تاریک اور دھندلا نظر آ رہا ہے۔ اس تناظر میں دیکھیں تو ہمارے علما کی بہت بڑی تعداد اس پیچیدہ دنیا کے سامنے مستقبل کے روشن امکانات پیش کرنے پر قادر نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ان میں عزم و ارادے کا فقدان ہے بلکہ وہ ان سماجی حقیقتوں کو سمجھنے پر قادر اور ان سے نپٹنے کے لیے پوری طرح تیار نہیں ہیں۔
امریکہ میں جب تک میرا قیام ڈیوک یونیورسٹی میں رہا، میں مولانا امین عثمانی صاحب کے مشوروں پر عمل نہیں کر سکا۔ جب میں یونی ورسٹی آف نوٹرے ڈیم پہنچا تبھی مدرسہ ڈسکورسز کے نام سے یہ پروگرام ممکن ہو سکا۔ ایک کیتھولک یونیورسٹی ہونے کی وجہ سے نوٹرے ڈیم یونیورسٹی مذہبی اور دینیاتی معاملوں میں بیحد دلچسپی لیتی ہے۔ امریکی یونیورسیٹیوں میں مذہبی علوم پر بحث و مباحثہ بہت حد تک قابل قبول ہے۔ لیکن دینیات (theology) پر یہ اعتراض وارد کیا جاتا ہے کہ وہ اقراری (confessional)ہے جو کسی کثیر مذہبی اور کثیر تہذیبی یونیورسٹی میں تفریق و انتشار کا باعث ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ وہ لوگ ’دینیاتی جہاد‘ سے خائف ہیں۔ لیکن نوٹرے ڈیم میں دینیات پر گفتگو کا خیر مقدم کیا جاتا ہے۔ ایک طویل عرصے سے میں اس جانب توجہ دلاتا رہا ہوں کہ اچھی دینیات کا مطلب کسی شخص کا معلومات کے وسیع دائرے میں شامل ہونا اور غیرعلمی سوچ پر مبنی مذہبی دعوؤں کے سلسلے میں تنقیدی رویہ اختیار کرنا ہے۔
مدرسہ ڈسکورسز کی شروعات کا مقصد اپنی اس علمی روایت کو دوبارہ زندہ کرنا ہے جس کے ہم سب نام لیوا اور جس کے دوبارہ احیاء کے خواہاں ہیں ۔ میں نہیں سمجھتا کہ مجھ میں اس کام کے لیے کوئی خاص صلاحیت ہے لیکن میں اس کام کو پورا کرنے کا عزم بہر حال رکھتا ہوں ۔ اس سلسلے میں مفتی صدر الدین آزردہ کا یہ شعر خوب ہے۔
کامل اس فرقہ زہاد سے اٹھا نہ کوئی
کچھ ہوئے تو یہی رندان قدح خوار ہوئے
اس پروگرام میں ہم سائنس اور علم کلام پر توجہ دیتے ہیں۔ سائنس ہمیں وجود اور موجودات کی فطرت اور حقیقت کی صورت سے واقف کراتی ہے۔ خلا میں ہوائی جہاز کیسے پروازکرتا ہے، سیل فون کے ذریعے آواز کی ترسیل کیوں کرممکن ہے اور کیسے مادہ کو توانائی میں بدل کر ایم آر آئی اسکین اور ایکس ریز کے استعمال کو ممکن بنایا جاتا ہے؟ اگر ہم ان حقائق کو نہ سمجھ سکیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم جس دنیا میں رہ رہے ہیں اس کو سمجھنے کے لیے پوری طرح تیار نہیں ہیں۔ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ان حقائق کو نہ جاننا کوئی بڑا مسئلہ نہیں ، انہیں جانے اور سمجھے بغیر بھی ہم اچھے مسلمان ہو سکتے ہیں۔ تاہم سوال یہ ہے کہ پھر کیسے ہم انسانی مساوات کے اس تصورکو سمجھ پائیں گے جو ان حقائق کے نتیجے میں ابھر کر سامنے آیا ہے اور انہیں حقائق کی بنیاد پرپچھلے تین سو سالوں میں ہم ایک نئی دنیا(new cosmos)کے وارث ہوئے ہیں۔ یہ وہ درجہ وار دنیا(hierarchical cosmos)نہیں ہے جس کے ہم عادی تھے اور زمین جس کامرکز تھی، اس دنیا کو سمجھے بغیر جینیاتی انجینئرنگ (genetic engineering)اور مصنوعی انٹیلی جینس (artificial intelligence)سے متعلق کیسے ہم بامعنی فتویٰ یا رائے دے سکتے ہیں؟کیسے ہم میکانکی اور کیمیائی طریقہ علاج سے نپٹ سکتے ہیں؟ کیمیائی علاج اگرچہ کچھ نیا نہیں ، تاہم تجدیدی علاج (regenerative therapies) اور میڈیکل سائنس میں جینیات پر مبنی مداخلت (genetically-based interventions)میں دن بہ دن ترقی ہو رہی ہے اور بہت ممکن ہے کہ یہ اس وقت عام صورت اختیار کر لیں جب یہ طبی علاج معاشی عوامل کے اختلاط سے اپنے بامقصد استعمال کو آسان بنائے۔
(اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے مختلف مسلم و غیر مسلم مفکرین کے اقتباسات کی روشنی میں علم کلام ، فلسفہ ، مابعد الطبیعات کے مطالعہ میں ان دونوں کی اہمیت ، خود مابعد الطبیعات کے مطالعہ کی اہمیت ، سائنس کے وجود و موجودات کی فطرت و ماہیت بیان کرنے میں کردار کو واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے اسلامی علمی روایت کے بعض واقعات کی مدد سے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ ماضی میں مسلم دانشور جرات مند اور تخلیقی صلاحیتوں کے حامل تھے۔ انہیں اپنے گرد موجود علمی اور فلسفیانہ روایات کی مدد سے ایک نیا فکری نظام تیار کرنے میں ذرہ برابر بھی تامل نہیں ہوا۔)
آج ہمیں موجودہ چیلنج کو قبول کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے لئے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ ہم اپنی روایت کی تجدید کریں اور ایک نئی تہذیب کی تعمیر کریں۔ کسی بھی تہذیب کی بنیاد انسانوں کی قوت، شخصیت، صلاحیت اوراخلاق پر ہوتی ہے نہ کہ بندوق اور اسلحہ کی قوت پر۔ ہماری سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ ہم اسلام کے ابتدائی اور درمیانی عہد میں ہونے والے تاریخی عمل میں واقع تنوع کا خالص تاریخی شعور نہیں رکھتے۔ ہم اس زمانے کے مسلم معاشرے میں متداول اختلاف آراء و نظریات سے بھی صحیح طور پر واقف نہیں ہیں۔ ماضی کے علمی تراث کے متعلق ہمارے دعووں میں حقیقت کا عنصر بہت تھوڑا ہے، بلکہ وہ زیادہ تر مفروضات پر مبنی ہیں۔
ایک مثال سے اس حقیقت کو سمجھا جا سکتا ہے۔ مغرب میں یونانی اور رومی علمی وراثت، مغرب کی تہذیب اور عیسائیت کی ترقی کے لئے ایک بنیادی عنصر تسلیم کی جاتی ہے۔ مغرب کی ہر چھوٹی بڑی یونیورسٹی اور کالج میں ،روم و یونان کی کلاسیکی ادبیات کی تعلیم کے لئے باقاعدہ ماہر اساتذہ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں یونانی و رومی روایت و تہذیب تو دور ، اسلامی ثقافت و تاریخ کی تعلیم کا اس پیمانے و معیار پر مہیا ہونا بھی نادر و نایاب ہی ہے۔ پوری مسلم دنیا میں ایسی مثال شاذ و نادر ہی ملے گی۔ہماری دوسری سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ ہماری مذہبی اور دینیاتی فکر میں ادب و فنون کا فقدان ہے۔ اگر کبھی کوئی شعر یا نظم پڑھی جائے تو وہ صرف ’صرف و نحو‘ کے مسائل میں استشہاد کے لئے ہی پڑھی جاتی ہے، انسانی وجود ،معاشرہ اور فطر ت کے باب میں شاعری کو ہم غیرمستند ہی تصور کرتے ہیں۔ادب میں پوشیدہ معانی سے ہماری دوری نے وسعت و کشادہ ظرفی کے ساتھ سوچنے کی ہماری صلاحیت کو ختم کر دیا ہے۔ ہم میں وہ جمالیاتی شعور باقی نہیں رہا جو فن تعمیر اور فنون لطیفہ میں نظر آتا ہے۔ یہ تمام نشانیاں ایک ایسی تہذیب، ایک ایسی ثقافت اور ایک ایسی تاریخ کی ہیں جن کے معمار فکری طور پر دلسوز اور دل گداز ہوتے ہیں۔
مدرسہ ڈسکورسز میں ہماری کوشش رہتی ہے کہ ہم طلبہ کو اپنی تراث کے ان پہلووں سے واقف کرائیں اور ساتھ ہی ساتھ ان میں تاریخی اور فلسفیانہ شعور پیدا کریں۔ فلسفیانہ طرز استدلال کے فقدان نے اسلامی فکر کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ میں یہاں موجود تمام حضرات کو دعوت دیتا ہوں کہ مدارس اسلامیہ کے فکری سرمایےکے احیا میں ہمارا ساتھ دیں۔ ہمارا مقصد ان مدارس کی عظمت رفتہ کو ایک بار پھر سے واپس لانا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے ہمیں اختلاف رائے کا احترام کرنا ہوگا، اور ایک ایسا ماحول تشکیل دینا ہوگا جہاں لوگ آزادی کے ساتھ بحث و مباحثہ اور غور و فکر کی روایت کو پروان چڑھاسکیں۔ اور جیسا کہ ہمیں علم ہے کہ اجتہاد کی شکل میں تفکیر و تحقیق ہماری روایت کا حصہ رہے ہیں ۔ ایک نئی طرز کا غوروفکر ہی اس امت کے مستقبل کا ضامن ہوسکتاہے۔
وما علینا الا البلاغ
(ترتیب و تدوین : حافظ محمد رشید)
کمنت کیجے