مولانا وارث مظہری
صحیح مسلم اور مسند احمدمیں ایک اہل مغرب(اہل الروم) کے بارے میں ایک اہم حدیث وارد ہوئی ہے جومسلمانوں کے لیے نہایت چشم کشا اور فکر انگیز ہے:
قَالَ الْمُسْتَوْرِدُ الْقُرَشِيُّ عِنْدَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ سَمِعْت رسول اللہﷺ يَقُول: تَقُومُ السَّاعۃ وَالرُّومُ أکثَرُ النَّاسِ فَقَالَ لَہُ عَمْرٌو أَبْصِرْ مَا تَقُول فقَالَ: أَقُولُ مَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللہﷺ قَالَ لَئِنْ قُلْتَ ذَلکَ: إِ ن فیہمْ لَخِصَالاً أَرْبَعًا:إِنَّہم أَحْلَمُ النَّاسِ عِنْدَ فِتْنَۃٍ وَأَسْرَعُہُمْ إِفَاقَۃً بَعْدَ مُصِيبَۃ وَأَوْشکہم کرۃ بَعْدَ فَرۃ وَخَيْرہُمْ لِمِسْکِينٍ وَيَتِيمٍ وَضَعِيفٍ وَخَامِسَۃ ٌ حَسَنَۃٌ جَمِيلَۃٌ وَأَمْنَعہُمْ مِنْ ظُلْمِ الْمُلُوک۔
’’حضرت مستورد قرشی ؓنے عمروبن العاص ؓ کے سامنے یہ حدیث نقل کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت اس حال میں قائم ہوگی کہ اہل روم(اہل مغرب) اکثریت میں ہوں گے۔حضرت عمر بن العاص ؓ نے انہیں ٹوکا کہ کیا کہتے ہو ـذرا سوچ لو!۔ انہوں نے فرمایا کہ میں وہی کہتا ہوں جو میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے۔اس پر حضرت عمرو ابن العاص ؓ نے فرمایا کہ اگر بات یہ ہے تواہل روم کے اندر چار اہم صفات پائی جاتی ہیں۔(جوانہیں اس لائق بناتی ہیں)۔
۱۔وہ صبر آزما حالات یا آزمائش کی گھڑی میں سب سے زیادہ صبروبرداشت کا رویہ اختیار کرنے والے ہیں۔۲۔کسی مصیبت کے پیش آنے کے بعدوہ بہت جلداس کے نفسیاتی اثر سے باہر نکل آتے ہیں۔۳۔وہ پلٹ کر حملہ کرنے والے لوگ ہیں(جلدی اپنی شکست قبول نہیں کرتے )۴۔یتیموں ،مسکینوں اور کمزوروں کے حق میں وہ سراپاخیرہیں۔اور پانچویں(اضافی) اچھی صفت یہ ہے کہ وہ لوگوں کو بادشاہوں کے ظلم وستم سے روکنے والے لوگ ہیں۔( مسلم:۲۸۹۸باب تقوم الساعۃ والروم اکثر الناس)
صحیح مسلم کی یہ روایت مسلمانوں کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی قوم کی فتح وکامرانی کے پس پشت جوعوامل کارفرما ہوتے ہیں ان میں سب سے اہم اس قوم کی اپنی امتیازی خصوصیات ہوتی ہیں۔اس روایت میں ایک صحابی جلیل کی زبان سے جوپہلی صفت مذکورہوئی ہے وہ اہل روم یعنی اہل مغرب کے اندر پائی جانے والی صبروبرداشت کی صفت ہے ۔واقعات بتاتے ہیں کہ مسلمانوں کے ایک بہت بڑے طبقے میں اب یہ صفت عنقا ہوتی جارہی ہے۔دوسری صفت سے بھی اہل مغرب کا متصف ہونا ایک مشاہداتی حقیقت ہے۔ غور کرنے کی بات ہے کہ مثال کے طور پر مسلمان ا ب تک مسلم اسپین سے محرومی کورورہے ہیں۔ دشمنوں کی ہرآہٹ ان کے اندر یہ احساس جگاتی ہے کہ ان کا دین، ان کا عقیدہ ،ان کی تہذیب وثقافت، سبھی خطرے میں ہیں۔ اس طرح کارزارحیات میں ان کی یہ انفعالیت پسندی کی نفسیات انہیں جوش عمل سےباز رکھتی ہے۔ماضی کا ہر وہ واقعہ جس میں انہیں شکست وناکامی حصے میں آئی ہو، انہیں نوحہ وماتم پرمائل کرتی اور فکر تعمیر کے بجائے ماتم تخریب پر ابھارتی ہے۔ جس واقعہ پر سینکڑوں سال گزرگئے قوم کے شعرا وواعظین نے قوم کواس کے نفسیاتی اثر سے باہر نکلنے نہیں دیا۔یتیموں اور کمزوروں کی خبر گیری کے حوالے سے جس صفت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس کو مغربی معاشرے میں نافذ سوشل جسٹس یا سماجی انصاف کے تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اور اس کے مقابلے میں مسلم ممالک میں سماجی انصاف کی صورت حال کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔ آخری صفت جسے اس روایت میں ’’خوب صورت نیکی یا وصف‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے ، اس کو اقتدار پرست اورمطلق العنان بادشاہوں کے ظلم وستم سے عوام کومحفوظ رکھنے کی اہل مغرب کی طویل جد وجہد کے آئنے میں دیکھا جاسکتا ہے۔
مغرب کی مدح خوانی بالکل مقصود نہیں ہے کہ اس کے اندر پائی جانے والی خامیاں بے شمار ہیں۔ بس اس حدیث کی طرف قارئین کی توجہ مبذول کرنا مقصود ہے۔ بات یہ ہے کہ اس نوع کی احادیث وآثار جو ہمیں تزکیہ اخلاق و تربیت نفس کی دعوت دیتی اور موجودہ ماحول میں خود احتسابی پرمائل کرتی ہیں، فقہی احکامات سے تعلق رکھنے والی طولانی بحثوں اوراختلافی قیل وقال میں دب کر رہ گئی ہیں۔
کمنت کیجے