مولانا محمد رفیق شنواری
(ڈاکٹر یوسف القرضاوی کی کتاب کے ایک باب کا خلاصہ)
ڈاکٹر یوسف القرضاوی نے اپنی کتاب ”غير المسلمين فى المجتمع الإسلامى“ میں باب پنجم میں فقہ اسلامی کے تصور ”ذمہ“پر وارد ہونے والے چند اعتراضات سے متعلق گفتگو کی ہے۔ علامہ قرضاوی نے نہایت جامعیت کے ساتھ مستشرقین کی کتب سمیت دیگر مستند اور اولین مصادر سے مثالوں اور دلائل کی روشنی میں ان اعتراضات کے جوابات دینے کی کوشش کی ہے۔ ذیل میں ان کی اس گفتگو کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے۔
۱۔ جزیہ اور فقہ اسلامی :
چند مستشرقین نے فقہ اسلامی کے تصور جزیہ کو اتنا بدنام کرنے کی وشش کی ہے کہ غیر مسلم اس کے نام تک سے خائف ہو گئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ تحقیر و تذلیل پر مبنی ٹیکس ہے جو غیر مسلموں پر اسلام قبول نہ کرنے کی پاداش میں نافذ کیا جاتا رہا ہے۔
حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جزیہ مسلمانوں پر عائد ہونے والے فریضہ جہاد اور زکوٰۃ کا بدل ہے۔ ظاہر ہے کہ غیر مسلموں پر جہاد اور زکوۃ لازم کرنا ممکن نہیں تھا تو بطور بدل ان پر جزیہ عائد کیا جاتا تھا۔ مزید یہ کہ جو بھی غیر مسلم اسلامی مملکت کے دفاع اور فوجی خدمات پیش کرتا تو اس سے جزیہ ساقط ہوتا تھا۔ ڈاکٹر قرضاوی نے سر تھامس آرنلڈ کے حوالے سے لکھا ہے کہ بعض لوگوں کا خیال ہے عیسائیوں پر جزیہ قبولِ اسلام سے انکار پر لگایا جاتا تھا، غلط ہے ؛ کیوں کہ یہ جزیہ عیسائیوں کے علاوہ دیگر مذاہب کے پیروکاروں پر بھی لگایا جاتا تھا جو اپنے مذہب کی وجہ سے فوجی خدمات انجام دینے سے قاصر رہتے تھے۔ نیز جزیہ کی علت یہ ہےکہ اس کے بدلے مسلمان حکمران ان کے مال وجان کی حفاظت کریں گے۔
یہاں بطور خاص انہوں نے سیدنا عمر فاروقؓ کے دور خلافت میں پیش آنے والے ایک واقعے کا ذکر کیا ہے کہ شہنشاہ ہرقل نے بڑا لشکر جمع کر لیا اور وقت کی تنگی کے باعث مناسب تیاری نہ ہونے کی وجہ سے مسلمان حکمران شام کے مفتوحہ علاقوں میں بسنے والے غیر مسلموں کی حفاظت کرنے سے قاصر رہے تو ابوعبیدہ بن الجراحؓ نےوہاں کے مسلم عاملوں کو عوام سے لیا گیا جزیہ واپس کرنے کا حکم دیا۔ نیز غیر مسلم عوام کو لکھا کہ جزیہ اس شرط پر لیا گیا تھا کہ ہم آپ کی حفاظت کریں گے مگر اس وقت ہم آپ کی حفاظت کرنے سے قاصر ہیں؛ اس لیے آپ کی دولت آپ کو لوٹائی جارہی ہے۔ اسی طرح انہوں نے مسلمان حکمرانوں کی جانب سے غیر مسلم عوام کے مال وجان کی حفاظت کی عدم فراہمی پر یا غیر مسلموں کی جانب سے اسلامی مملکت کے دفاع اور فوجی خدمات پیش کرنے پر جزیہ کی منسوخی کی کئی مثالیں پیش کی ہیں۔ نیز اس کے برعکس جب بھی کوئی مسلمان اپنی مملکت کے دفاع اور فوجی خدمات سے مستثنی قرار دیا جاتا تو ان پر بھی ٹیکس عائد کیا جاتا تھا۔
۲۔ ذمیوں کی گردنوں پر لگائی جانے والی مہر :
ایک اعتراض اہل ذمہ کی گردنوں پر لگائی جانے والی مہر سے متعلق ہے جس سے ایک تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ تذلیل پر مبنی ایک قانون تھا جو، ظاہر ہے کہ ظلم کی ایک قسم ہے۔ نیز یہ ایک مستقل قانون تھا جس پر تسلسل سے عمل ہوتا رہا ہے۔ حالانکہ ممتاز مستشرق اے ایس ٹریٹن کی کتاب The Caliphs and Their non-Muslim Subjects کے مطابق اس اعتراض میں بالکل وزن نہیں؛ کیوں کہ ایک تو یہ مہر جزیہ کی وصولی کے وقت لگائی جاتی تھی جو اس بات کی علامت ہوتی تھی کہ کس نے جزیہ ادا کیا ہے اور کس نے نہیں۔ جب جزیہ کی رقم ادا کرتے تو امام ابویوسفؒ نے ”كتاب الخراج“ میں لکھا ہے کہ پھرمہر توڑ دینا چاہیے۔ اس کی مثال آج کل ووٹ دہندگان کے ہاتھ پر لگائی جانے والی نشان کی طرح ہے۔ جس کا تذلیل سے کوئی سروکار نہیں؛ بلکہ مقصد صرف یہ ہے کہ کوئی دو مرتبہ نہ ڈال سکے۔ دوسرا یہ کہ ٹریٹن کے مطابق یہ نظام مسلمانوں کی اختراع نہیں تھا بلکہ مسلمانوں نے اپنے بازنطینی رومی پیروں کاروں کی پیروی میں یہ طریقہ اختیار کیا تھا۔
۳۔ ذمیوں کو خصوصی لباس پہننے کی ہدایت
بعض روایات میں ہے کہ سیدنا عمر فاروقؓ نے ہدایات جاری کی تھی کہ اہل ذمہ لباس اور گھوڑوں کی زین میں مسلمانوں کی مشابہت اختیار نہ کریں۔ مستشرقین نے اس کو بھی غیر مسلموں کی تذلیل و تحقیر پر مبنی ایک قانون قرا ر دیا ہے حالانکہ ، علامہ قرضاوی کےمطابق، یہ ایک دائمی اور مذہبی قانون نہیں تھا جس پر ہر جگہ اور ہر وقت یکساں طور پر عمل ضروری تھا۔ بلکہ اس کی حیثیت محض حکومتِ وقت کی جانب سے سماجی مصلحت کے عین مطابق جاری کی جانے والی ہدایت کی ہے جسے وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ یا مصلحت میں تبدیلی سے تبدیل یا ختم کیا جا سکتا ہے۔ چونکہ اس دور میں مذہب کی بنیاد پر لوگوں میں تمیز کیا جاتا تھا اور ایسا خود ان مذاہب کے پیروکاروں کی خواہش کے مطابق ہوتا تھا۔ شناختی کارڈ تو تھا نہیں اس لیے لباس ہی کو اس تمیز کےلیے استعمال کیا گیا۔ مستشرق ٹریٹن نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے۔ کہ لباس کے متعلق اس ضابطے سے غرض صرف عیسائیوں (مفتوحین) اور عربوں (فاتحین) کے مابین فرق کرنا تھی۔ چونکہ فتح کے وقت فریقین کے الگ الگ لباس ہوا کرتے تھے، بعد میں عربوں کی تمدن نے جب ترقی کی اور مفتوحین (عیسائیوں) نے ان جیسا لباس استعمال شروع کیا تو تمیز و تفریق کی خاطر مفتوحین عیسائیوں کو عربوں سے لباس میں مشابہت اختیار کرنے سے منع کیا گیا۔ علامہ قرضاوی کے مطابق اس قانون کی حقیقت جو بھی رہی ہو عملا اس کا نفاذ وقتی طور پر اور نہایت ہی محدود پیمانے پر ہوتا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ۹۸ہجری میں شام کے پہاڑی علاقوں میں آباد عیسائیوں جراجمہ کے ساتھ جو معاہدہ طے ہو رہا تھا تو اس میں ایک شق یہ بھی تھی کہ وہ مسلمانوں جیسا لباس پہن سکیں گے۔
مختصر یہ کہ اس قانون میں تشدد کا کوئی پہلو نہیں بلکہ محض تمیز کی خاطر اختیار کیا جانے والا سماجی وسیلہ اور ہدایت ہے جس طرح آج بھی تمام معاشروں میں دیکھاجاتا ہے کہ مخصوص گروہ، پیشے یا شہر سے وابستگی پر مخصوص لباس استعمال کیا جاتا ہے۔
۴۔ تعبیر نصوص میں غلطی
بعض لوگ قرآن و سنت کی کچھ نصوص کی نہایت سطحیت کے ساتھ تعبیر و تشریح کرتے ہوئے یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہود ونصاری اور دیگر غیر مسلموں کے خلاف اسلا م کس قدر تعصب سے لبریز مذہب ہے۔ ایسی نصوص وہ آیات ہیں جن میں کافروں سے دوستی کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ (مثلا: آل عمران: ۳۸؛ النسا:۱۴۴؛ النسا: ۱۳۸-۱۳۹؛ المائدہ: ۵۱-۵۲؛ وغیرہ) ان تمام آیات سے ان لوگوں نے یہی سمجھا ہے کہ یہ نصوص تمام غیر مسلموں کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھنے اور ان سے بدسلوکی اور مقاطعے کا حکم دیتی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ان آیات کے سیاق سباق اور شان نزول میں غور و تامل کے بعد جو نکات سمجھ میں آتی ہیں وہ حسب ذیل ہیں:
- غیر مسلموں سے اسلام سے ہٹ کر علیحدہ دین کی حامل جماعت ہونے کی اساس پر دوستی کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ یعنی ان سے ان کی دین، یہودیت، عیسائیت یا مجوسیت وغیرہ، کی حیثیت سے دوستی کرنے سے منع کیا گیا ہے، پڑوسی یا شہری کی حیثیت سے ان سے تعلق رکھنے سے نہیں روکا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک مسلمان کے دل میں صرف دینِ اسلام کی محبت ہونی چاہیے، کسی اور دین کےلیے اس کے دل میں کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے۔ یہ کام عام دنیوی امور میں بھی درست نہیں کہ نظامِ زندگی میں اگر تعلق ایک گروہ سے ہو اور ساتھ ساتھ دوسرے گروہ سے بھی ضرورت سے زائد تعلق استوار کیا جائے، اسی کو وطنیت کی اصطلاح میں غداری کہتے ہیں۔
- ان آیات میں صرف ان غیر مسلموں سے دوستی سے روکا گیا ہے جو مسلمانوں کے حق میں ایذا رساں ہوں اور اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ سے عداوت رکھے ، وہ غیر مسلم جو اللہ تعالی ، اس کے رسول ﷺ اور عام مسلمانوں سے نفرت اور دشمنی نہ پالتا ہو اس سے تعلق رکھنے کی اجازت ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: ”تم کبھی یہ نہ پاؤ گے کہ جو لوگ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والے ہیں وہ اُن لوگوں سے محبت کرتے ہوں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی مخالفت کی ہے۔“ [المجادلہ: ۲۲]۔ دوسری جگہ ارشاد ہے: ”اللہ تمہیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتائو کرو جنہوں نے دین کے مُعاملہ میں تم سے جنگ نہیں کی اور تُمہیں تُمہارے گھروں سے نہیں نکال۔االلہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ وہ تمہیں جس بات سے روکتا ہے وہ تو یہ ہے کہ تم اُن لوگوں سے دوستی کرو جنہوں نے تم سے دین کے معاملہ میں جنگ کی ہے اور تمہیں تمہارے گروں سے نکالا ہے اور تمہارے اِخراج میں ایک دوسرے کی مدد کی ہے۔ اُن سے جو لوگ دوستی کریں وہی ظالم ہیں۔“ [الممتحنہ: ۸-۹]۔
- اسلام نے مسلمانوں کو اہل کتاب عورتوں سے شادی کی اجازت دی ہے اور ازدواجی زندگی کی بنیاد باہمی سکون و مودت پر رکھی ہے ۔ اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ایک مسلمان کےلیے غیر مسلم سےمحبت کی گنجائش ہے۔ ورنہ ایک مسلمان شوہر اپنی اہل کتاب بیوی اور اس سے پیداہونے والی اولاد کی محبت سے کیسے باز رہ سکتا ہے!
تاریخ اسلام کا مطالعہ کیا جائے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ غیر مسلموں نے مسلم معاشروں میں امن وامان ، آزادی اور عزت کی زندگی بسرکی ہے۔ کچھ مستشرقین تاریخ سے اپنی مرضی کی بات کہلوانا چاہتے ہیں حالانکہ ان کا تاریخ میں کوئی وجود نہیں۔ اس کی خاطر کچھ علاقوں یا بعض مخصوس حالات میں چند بد خصلت مسلمانوں کی حرکتوں کو بنیاد بنا کر پورے مذہب اسلام کو بد نام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ ایسے بدخصلت لوگ ہر جگہ اور ہر زمانے میں پائے جاتے رہے ہیں ان کی وجہ سے پوری تہذیب کو ان کی بداعمالیوں کےلیے مورد الزام ٹھہرانا ہر گز درست نہیں۔
کمنت کیجے