Home » مدرسہ ڈسکورسز: اعتراضات وتحفظات
مدرسہ ڈسکورسز

مدرسہ ڈسکورسز: اعتراضات وتحفظات

 

محمد عمار خان ناصر

مدرسہ ڈسکورسز کے پروگرام کے حوالے سے  پاکستان میں مختلف حلقوں کے تحفظات اور اعتراضات  وقتا فوقتا سامنے آتے رہتے ہیں۔ البتہ اس کا ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اب تک سامنے آنے والی باقاعدہ تنقیدات خود مدارس کی طرف سے نہیں، بلکہ  مدارس سے باہر  ان کے کچھ ’’خیر خواہ’’ حلقوں کی طرف سے   آئی ہیں جنھیں یہ اندیشہ ہے کہ  اس پروگرام کے ذریعے سے جدیدیت سے ہم آہنگ مذہبی فکر کو مدارس میں فروغ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔  خود مدارس کے حلقے سے  ابھی تک بظاہر ایسی کوئی تنقید سامنے نہیں آئی،  بلکہ مدرسہ ڈسکورسز کے پلیٹ فارم پر ہونے والے مباحث کا جو کچھ نہ کچھ ذکر  ہماری ویب سائٹ پر ہوتا رہا ہے اور تربیتی ورکشاپس کی جو روداد ہمارے شرکاء پیش کرتے رہے ہیں،  اس کی روشنی میں اہل مدارس کے ہاں اس پروگرام میں سنجیدہ دلچسپی  پیدا ہوتی ہوئی  دکھائی دیتی ہے اور نئے داخلے کے لیے  بڑی تعداد میں  مدارس کے فضلاء کی درخواستیں ہمیں موصول ہو رہی ہیں۔

مدرسہ ڈسکورسز   کے ناقدین کے اعتراضات وتحفظات کا مرکزی نکتہ  جدیدیت کے  ساتھ اس کا فکری اور امریکا کی ایک معروف مسیحی جامعہ یعنی نوٹرے ڈیم یونیورسٹی  کے ساتھ انتظامی تعلق ہے۔  یہ ایک جائز سوال ہے اور اس ضمن میں یہ وضاحت مناسب ہوگی کہ اس پروگرام کو بنیادی طور پر نوٹرے ڈیم یونیورسٹی کے جس ذیلی ادارے نے اپنے ایک پراجیکٹ کے طور پر  منظور کیا ہے، وہ Contending Modernities ہے جس کا بنیادی نظریہ یہ ہے کہ  جدیدیت نے انسانی  تاریخ میں جو افکار واحوال پیدا کیے ہیں، ان کی  ایک سے زائد تعبیرات ممکن ہیں۔  جدیدیت کی مروج اور غالب تعبیر سیکولر جدیدیت کی ہے، لیکن  اس کے متوازی   ایسے سانچے بھی  بنائے جا سکتے ہیں جو  مختلف مذہبی روایتوں پر مبنی  اور مذہبی افکار وعقائد سے ہم آہنگ ہوں اور جدیدیت کی ان مختلف تعبیرات کےمابین باہم مکالمہ بھی ممکن ہے۔  مدرسہ ڈسکورسز کے بانی  ڈاکٹر ابراہیم موسی اس ادارے کے کو ڈائریکٹر یعنی  شریک  منتظم ہیں،   اور اس پلیٹ فارم پر مسیحی  ویہودی جدیدیت کے پہلو بہ پہلو اسلامی جدیدیت  کے خط وخال کی توضیح کے لیے  مصروف کار ہیں۔   مدرسہ ڈسکورسز اسی وسیع تر ہدف یعنی سیکولر جدیدیت کے متوازی  مذہبی جدیدیت کی تشکیل  اور جدیدیت کی مختلف تعبیرات کے مابین مکالمہ کی طرف پیش قدمی کا ایک حصہ ہے اور اس پلیٹ فارم سے برصغیر کے دینی مدارس کے فضلاء  کو اس بحث میں شریک کرنا مقصود ہے۔

اس سے واضح ہے کہ  یہ  روایتی مفہوم میں مستند اور ثقہ مذہبی علماء کی سرپرستی میں اسلامی علوم سیکھنے سکھانے کا کوئی پراجیکٹ نہیں،  بلکہ ایک ایسا علمی منصوبہ ہے جس نے اسلامی روایت کا پس منظر  رکھنے والے ایک اسکالر کے فکری افق اور  مغربی تعلیمی نظام کے پیراڈائم میں  مصروف عمل  ایک کیتھولک یونیورسٹی کے  علمی وفکری افق کے ملاپ سے جنم لیا ہے۔  منصوبے کی یہ نوعیت، اس کا فکری فریم ورک اور حدود کار  بالکل واضح اور لکھے ہوئے موجود ہیں اور   موجودہ شرکاء  اس حوالے سے کسی قسم کے ابہام یا دو ذہنی  کے بغیر   اس میں شریک ہیں اور مستفید ہو رہے ہیں۔  اس فکری مقدمے اور اس سے پیدا ہونے والی تفصیلات سے اتفاق   ہرگز اس پروگرام کا حصہ بننے یا  بنے رہنے کے لیے شرط نہیں۔  شرکاء پہلے، درمیان میں اور بعد میں   اس سے اپنا اختلاف  قائم رکھ سکتے اور اس کا اظہار کر سکتے ہیں، تاہم جو حضرات  اس کا حصہ بننا چاہتے ہیں، ان پر  پروگرام کی ابتدا وآغاز  کا مذکورہ پس منظر واضح ہونا چاہیے اور انھیں ایک واضح انڈراسٹینڈنگ کے ساتھ  ہی اس میں شرکت کا فیصلہ کرنا چاہیے۔

بعض احباب کے ذہن میں یہ سوال موجود ہے کہ اس پروگرام کو مدارس کے داخلی نظام کے تحت اور مدارس کی معروف علمی قیادت کی زیر نگرانی منعقد کرنے کا طریقہ کیوں اختیار نہیں کیا گیا۔  اس حوالے سے  خود ہمارے پروگرام کے شرکاء میں دو رائیں پائی جاتی ہیں۔ اکثریت کا خیال یہ ہے کہ جس نوعیت کے حساس اور نازک مباحث یہاں چھیڑے جا رہے ہیں اور ان پر بہت ہی کھلے ماحول میں گفتگو ہوتی ہے، مدارس کا موجودہ تحفظاتی ماحول ان کو ہضم نہیں کر سکتا اور اس طرح کے پروگرام کو اس ماحول کی فکری ترجیحات کے تابع  بنانا اس کی افادیت اور نتیجہ خیزی پر سمجھوتہ کیے بغیر ممکن نہیں۔ یہ ایک بہت وزن رکھنے والا نقطہ نظر ہے۔ تاہم بعض دوستوں کی رائے میں اگر اس کو مدارس کی قیادت کی سرپرستی اور نگرانی میں منعقد کیا جائے تو اس کی افادیت کا دائرہ زیادہ وسیع ہو سکتا ہے اور ان مباحث کے لیے مدارس کے اندر  فکری داعیہ بیدار کرنے میں زیادہ مدد مل سکتی ہے۔ راقم سمیت مدرسہ ڈسکورسز کی فیکلٹی کی رائے بھی یہی ہے کہ ان مباحث کو جب تک مذہبی فکر خود اپنی ترجیح نہیں بنائے گی اور مدارس کے علمی وفکری نظام میں ان کو جگہ نہیں دی جائے گی، اس کے دیرپا اثرات مرتب نہیں ہو سکیں گے۔ تاہم اس  سمت میں کسی عملی اقدام کا  فیصلہ ارباب مدارس کو خود کرنا ہے اور ہمارا پلیٹ فارم ایسی کسی بھی پیش رفت   میں  جس نوعیت کا تعاون بھی ہمارے لیے ممکن ہو،  پیش کرنے میں خوشی محسوس کرے گا۔  مدرسہ ڈسکورسز کا بنیادی مقصد ان مباحث پر کوئی فکری اجارہ داری قائم کرنا یا ایک فریق کے طور پر کوئی پوزیشن لینا نہیں، بلکہ دینی علوم کے مراکز کو ہی  متوجہ کرنا ہے کہ وہ ان مباحث کو سنجیدگی سے اعلی ٰ علمی سطح پر   اپنا موضوع بنائیں اور مباحث کو پورے مالہ وما علیہ کے ساتھ سمجھ کر  اپنی دینی وفکری ترجیحات کے مطابق علمی مواقف کی توضیح کے عمل کا حصہ بنیں۔

اس ضمن میں ایک اہم اقدام مدرسہ ڈسکورسز کی طرف سے یہ کیا جا رہا ہے کہ ہم نے جو نصاب مرتب کیا ہے، اس کا پورا خاکہ، مطالعاتی مواد کی تفصیل،  جہاں ممکن ہو، اس مواد کے آن لائن روابط  اور مواد کی تدریس کے لیے ہماری مجوزہ ترتیب ایک مستقل ویب سائٹ پر اس طرح مہیا کی جا رہی ہے کہ جو  حضرات اپنے طور پر ان مباحث کا مطالعہ کرنا چاہیں، وہ کر سکتے ہیں۔ اسی طرح مدارس یا جامعات جو اس کورس کی افادیت کو محسوس کریں، وہ اس نصاب پر مبنی کورسز اپنے ہاں جاری کر سکتے ہیں اور اس میں حسب ضرورت حک واضافہ بھی کر سکتے ہیں۔ ہماری تجویز ہوگی کہ شعبہ ہائے اسلامیات ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح پر اور مدارس، تخصص کی سطح پر کورسز بنانے میں مدرسہ ڈسکورسز کی اس محنت سے فائدہ اٹھائیں اور ان اہم ترین مباحث کے حوالے سے ایک اعلی علمی وعقلی روایت کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کریں۔

ہمارے پروگرام کا ایک بنیادی  نکتہ یہ ہے کہ کم سے کم اس مرحلے پر  ہم سوالات کے کوئی واضح اور متعین جوابات پیش کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔  سردست ہمارا مقصد روایتی  مذہبی فکر کو اس  ڈسکورس کا حصہ بنانا ہے جس کے نتیجے میں علم جدید کے سوالات کے تناظر میں اسی طرح ایک گہری علمی وعقلی روایت جڑ پکڑ سکے جیسی دور قدیم میں یونانی فلسفے کے سوالات ومباحث کے حوالے سے ہمارے متکلمین نے قائم کی تھی۔ ان مباحث سے اعتنا اور ایک اعلیٰ علمی وعقلی ڈسکورس کو وجود میں لانا دینی لحاظ سے ایک فرض کفایہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس عمل میں کئی طرح کے عقلی رجحانات کا سامنے آنا اور کم وبیش اسی طرح کی ایک کلامی تقسیم کا پیدا ہونا ناگزیر ہے جیسی ہماری روایت میں مسلمان فلاسفہ، معتزلہ، اشاعرہ، ماتریدیہ اور سلفیہ کی صورت میں پیدا ہوئی۔ یہ تقسیم انسانی فکر کے رجحانات ومیلانات کے لحاظ سےآفاقی ہے اور ہر کلامی روایت میں اس کا ظہور ناگزیر ہے۔  ہمارے نقطہ نظر سے ان میں سے ہر رجحان روایت کی مجموعی تشکیل میں ایک منفرد کردار ادا کرتا ہے،اس لیے ہر رجحان اپنی جگہ اہم اور افادیت کا حامل ہے۔

علم جدید کے چیلنج کا سامنا پوری فکری جرات کے ساتھ کرنا اس پر خطر راستے کا انتخاب کیے بغیر ممکن نہیں۔ اس وجہ سے ہم  مختلف کلامی پوزیشنز  کے امکانات اور ان کے لیے میسر استدلالات تو زیر بحث لاتے ہیں، لیکن کسی ایک خاص  پوزیشن کی ترویج پروگرام کا مقصد نہیں، اگرچہ مختلف اساتذہ یقینا اپنے اپنے فکری رجحانات رکھتے ہیں اور  وہ بحث ومباحثہ میں ظاہر بھی ہوتے ہیں۔  اس پلیٹ فارم کو ایک وسیع تر اور فکری تنوع رکھنے والی علمی روایت  کا محرک  بنانے کے لیے ہم  یہ کوشش بھی کر رہے ہیں کہ نئے داخلوں میں متنوع مذہبی رجحانات کے شرکاء کو مدعو کیا جائے تاکہ وہ اپنا اپنا دینی پس منظر اور اپنے  اپنے فکری وسائل لے کر آئیں اور غور وفکر اور بحث ومباحثہ میں   زیادہ وسعت اور گہرائی پیدا کرنے کا ذریعہ بنیں۔

محمد عمار خان ناصر

محمد عمار خان ناصر گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ کے شعبہ علوم اسلامیہ میں تدریس کے فرائض انجام دیتے ہیں۔
aknasir2003@yahoo.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں