ڈاکٹر وارث مظہری
عنوان: مسئلہ تکفیر ومتکلمین: تاریخ، تحقیق،، تنقید اور تجزیہ
مصنف: مولانا ذیشان احمد مصباحی
صفحات :۴۲۲
ناشر :شاہ صفی اکیڈمی، یوپی (انڈیا)۔ ورلڈ ویو پبلشرز لاہور (پاکستان)
تکفیر کے باب میں غلو کا مسئلہ ان مسائل میں سے ایک ہے جووحدت امت کے تصور کی عملی تشکیل میں ہمیشہ سنگ گراں بن کر حائل رہے ہیں۔امت کے شیرازے کی پراگندگی کا جو شکوہ ہر عام وخاص کی زبان پرہے،اس میں سب سے اہم کرداراسی مظہر نے ادا کیا ہے۔ستم ظریفی یہ ہے کہ امت کا ہر طبقہ وحدت امت کی آرزو اپنے اندر رکھتاہے اور اس کا اظہار کرنا اپنا ملی فریضہ تصور کرتا ہے لیکن ان میں سے کوئی بھی اپنے مقابل فریق کی شرطوں کے مطابق اس سے اتحاد ویگانگت کا رشتہ قائم کرنے کے لیے تیار نہیں۔
مذہبی روایات میں تکفیر کے تصور کا نظری یا عملی سطح پرپایا جانا کوئی حیرت انگیز امر نہیں ہے۔چناں چہ اسلامی روایت بھی اس سے خالی نہیں رہی۔تاہم دوسری مذہبی روایات، مثلاً مسیحی روایت کے مقابلے میں اسلامی روایت اس باب میں زیادہ بردباری اور وسیع النظری کی حامل رہی ہے۔اگرچہ تکفیرکے مسئلے میں غلو کامظہر اسلام کی پہلی صدی میں ہی سامنے آیا تاہم امت کی اجتماعی دانش نے اسے قبول نہیں کیا اور خارجی فکر کو مسترد کردیا۔ چناں چہ اس کے بعد بہت سے بدعتی فرقے پیدا ہوئے لیکن ان کی تکفیر نہیں کی گئی، اس کے باوجود کہ ان فرقوں نے اسلامی راسخ العقیدگی کوشدید طور پر اپنا نشانہ بنایا۔بعد میں جب اس مظہر نے دوبارہ بال وپر نکالنے کی کوشش کی تو امام غزالی نے ’’فیصل التفرقۃ بین الاسلام والزندقۃ‘‘ جیسی معرکۃ الآرا کتاب لکھ کر اس پر قدغن لگانے کی کوشش کی ۔
بدقسمتی سے مسلم دنیاپر استعماری تسلط کے زیر اثراسلامی روایت جس فکری انتشار سے دوچار ہوئی، اس کے نتیجے میں تکفیر میں غلو کے مسئلےنے ایک باضابطہ رجحان اور اپنے گروہی اور سیاسی مفادات کے حصول کے آلہ کار کی شکل اختیارکرلی۔ برصغیر کی صورت حال اس تعلق سے دنیا کے دوسرے حصوں کے مقابلے میں زیادہ ابتر اور سنگین ہے کہ اس نے یہاں گروہی شناخت کی شکل اختیار کرلی ہے اور یہ اس مسئلے کا سب سے تشویش ناک پہلو ہے۔
اس موضوع پر خصوصاً ادھر چند دہائیوں کے دوران دوسری زبانوں سے قطع نظر،اردو اورعربی میں متعدد قابل مطالعہ کتابیں لکھی گئی ہیں ۔ تاہم یہ موضوع ایسا نہیں ہے کہ صرف چند کتابوں کے ذریعے اس کے حق کے اداہونے کاتصور قائم کرلیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ موضوع نازک ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت پیچیدہ اور کسی قدر ابہام کا بھی شکار ہے۔ اس مسئلے میں افراط و تفریط کی جو کیفیت پائی جاتی ہے،اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔بعض اہل علم خود کومسلم شمار کرنے والے کسی بھی فرد کی تکفیر کو جائز تصور نہیں کرتے تودوسری طرف بعض اہل علم کی طرف سے ضروریات دین کی حد کی تعیین میں اتنا مبالغہ کیا گیا ہے کہ بظا ہر امت کی ایک بڑی اکثریت اس کے تحت دائرۂ اسلام سے خارج ہوجاتی ہے ۔یہ تونظریے کا معاملہ ہے جہاں تک عملی صورت حال کی بات ہے توحقیقت یہ ہے کہ امت کا اس وقت کوئی بھی طبقہ اور گروہ ایسا نہیں جو دوسروں کی نظر میں کافر یا مشرک نہ ہو۔
زیر نظر کتاب اس پوری صورت حال کوسامنے رکھ کر لکھی گئی ہے۔اس لیے اس کتا ب کا انداز علمی بھی ہے اوردعوتی بھی۔میں نے اس کتاب میں شامل مباحث پر کسی قدر تفصیل کے ساتھ نگاہ ڈالی ہے۔چوں کہ اس موضوع سے میرا بھی تعلق رہا ہے اور اس پر میں نےخامہ فرسائی کی بھی کوشش کی ہے ، اس لیے اس حوالے سے میں کہہ سکتا ہوں کہ مصنف نے اس موضوع کے تمام ضروری مباحث کے بصیرت مندانہ مطالعے کے بعد اس پر قلم اٹھایا ہے۔اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے کسی مخصوص مکتب فکر کی بجائے مجموعی طور پر اسلامی فکر کی ترجمانی کی کوشش کی ہے۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کے کسی نقطۂ نظر سے اختلاف ممکن نہیں ، یقینا ممکن ہے ۔ لیکن اسی دائرہ بحث واستدلال میں جس دائرہ بحث واستدلال میں رہتے ہوئے یہ کتاب لکھی گئی ہے۔فکر میں توازن اور اسلوب میں سنجیدگی و شائستگی یہ دو ایسی صفات ہیں جوباذوق قارئین کے لیے کسی کتاب کوپرکشش بناتی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہ کتاب مذکورہ دونوں صفات کی حامل ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کتاب نئی بحثوں اور تنازعات کو پیدا کرنے کی بجائے ان کوختم کرنے کے لیے لکھی گئی ہے ۔کتاب پر نقد وتبصرہ ضرور آنا چاہیے لیکن اس پہلوکوپیش نظررکھتے ہوئے۔
مجھے امید ہے کہ یہ کتاب علمی حلقوں میں مقبول ہوگی اور وہ موضوع کے تعلق سے ذہنوں پرپڑے ہوئے جالوں کو صاف کرنے اور فکری دھندلکوں کو ختم کرنے میں معاون ہوگی۔
کتاب چاہیے جناب؟