ڈاکٹر غطریف شہباز ندوی
برطانوی ہندوستان میں عقیدت پر مبنی اسلام اور سیاست
مولانا احمد رضا خاں بریلوی اور ان کی تحریک 1870-1920
ڈاکٹر اوشا سانیال (انگریزی)
ترجمہ: وارث مظہری
ناشر: گلوبل میڈیا پبلشر، E-42، گراؤنڈ فلور، ابو الفضل انکلیو، جامعہ نگر، نئی دہلی 110025
صفحات: 404
” Devotional Islam and Politics in British India ” is one of the best book ever written to Understand Aala Hazrat and his Movement academically written by Usha Sanyal, Colombiya University, America.
Translated by one of my closest senior friends. Dr Waris Mazhari, Assistant Professor, Deptt of Islamic Studies, Jamia Hamdard, New Delhi.
Published by : Global Media Publisher, Abul Fazl Enclave, Jamia Nagar, New Delhi
برصغیر میں اسلام براہ افغانستان آنے والے فاتحین کے ذریعہ آیانیزصوفیاء کرام کے ذریعہ جنھوں نے مقامی روایات کے اثرات بہت حد تک قبول کیے۔ یہاں اسلام چوں کہ ایران وماوراء النہر وغیرہ کی فقہی، مسلکی اور صوفیانہ روایات کے جلو میں آیا اسی وجہ سے برصغیر میں خوش عقیدگی پر مبنی اسلام کی روایات نہایت پختہ ہوتی گئی۔ انیسویں صدی میں مولانا احمد رضا خاں بریلوی اور ان کی تحریک نے اپنی تحریروں، اپنے فتاویٰ اور تقریروں نیز اپنے تلامذہ احباب اور مسترشدین کے واسطہ سے خوش عقیدگی پر مبنی اسلام کی اس روایت کی بڑی شدت سے بازیافت وتجدید کی۔ زیر نظر کتاب میں ڈاکٹر اوشا سانیال نے مولانا احمد رضا خاں بریلوی کی تحریروں، فتوؤں اور ان کی شخصیت کے تشکیلی عناصر، امتیازی پہلو اور ان کے آراء وافکار کا نہایت غیر جانب داری سے اور اصل مصادر ومراجع سے مطالعہ کیا ہے۔
ڈاکٹر اوشا سانیال ایک غیر جانب دار اور وسیع المطالعہ مصنفہ ہیں۔ انھوں نے اس تحقیق میں کس قدر جگر کاوی اور عرق ریزی سے کام لیا ہے اس کا اندازہ یوں کیا جاسکتا ہے کہ انھوں نے مولانا احمد رضا خاں اور ان کی تحریک کو براہ راست سمجھنے کے لیے اور اصل مصادر ومآخذ سے استفادہ کے لیے باضابطہ 5-4مہینے فاضل بریلوی کے علوم کے ایک ماہر مولانا یٰسین اختر مصبای کے آگے زانوئے تلمذ طے کیا۔ اس تحریک سے متعلق پاکستان اور ہندوستان کے مختلف شہروں مثلاً دہلی وبریلی اور دوسرے اہم مراکز فکر جاجاکر معلومات اکٹھا کیں۔ متعلقہ لٹریچر کا استیعاب کے ساتھ مطالعہ کیا۔ مغلق اور پیچیدہ عبارتوں کو جو عربی یا فارسی میں تھیں، پڑھا اور پھر ان تمام مآخذ ومصادر کو کام میں لاتے ہوئے بڑی محنت اور سلیقہ سے علمی واکیڈمک انداز میں اپنے نتائج تحقیق کو مرتب کردیا۔
یہ مصنفہ کی پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے جس میں تقریباً 350کتابوں ، رسائل، فتاوے اور متفرق تحریروں سے استفادہ کیا گیا ہے۔ نوبابوں اور تعارف وتشکر وغیرہ جیسی رسمی چیزوں کے علاوہ کتاب کے ہر باب میں مصادر ومراجع کا الگ الگ تذکرہ کردیا گیا ہے۔ یہ کتاب اپنے موضوع پر سیر حاصل بحث بھی ہے اور مغربی انداز تحقیق وریسرچ کا ایک نمونہ بھی جو اردو قارئین کے لیے ایک تحفہ ہے۔ میرے دوست محترم ڈاکٹر وارث مظہری نے کتاب کی اسی اہمیت کے پیش نظر اسے بڑی خوبی اور قابلیت سے اردو قالب میں ڈھالا ہے۔ ترجمہ میں اتنی روانی وشستگی ہے کہ ترجمہ پر اصل کا گمان ہوتا ہے۔ مصنفہ نے ابتدا میں سیاست اور مذہب کا مطالعہ کیا ہے اور کتاب کے اگلے ابواب کے لیے ایک پس منظر فراہم کردیا ہے جس سے قاری کے سامنے پورا موضوع آجاتا ہے اورمتعلقہ حقائق کو سمجھنا آسان ہوجاتا ہے۔ اس باب میں مصنفہ نے اٹھارویں اور انیسویں صدی میں مغلیہ سلطنت سے الگ ہونے والے کئی امراء اور نوابین کی قسمت آزمائی اور علیحدہ سلطنتوں کے قیام کے علاوہ مختلف علما، ان کی نشو نما اور اصلاحی تحریکات اور ان کے خیالات وافکار پر جامع انداز میں روشنی ڈالی ہے۔
برصغیر میں اہل سنت کی شناخت اولیاء کی قبروں اور مزارات پر ہونے والے عرسوں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مخصوص ہیئت کے ساتھ درود وسلام وغیرہ جیسے مذہبی اعمال سے ہوتی ہے۔ چناں چہ باب دوم میں اہل سنت کی مرکزی شخصیت مولانا احمد رضا خاں، ان کے اسلاف، ان کے پیرو مرشد، ان کی تعلیم اور مذہبی فکرکی تشکیل کے عوامل کا جائزہ لیا ہے۔ باب سوم اور چہارم کا مطالعہ ہمیں اواخر انیسویں صدی میں مارہرہ کے سادات برکاتیہ اور اہل سنت کی دیوبندیوں اور اہل حدیث سے الگ تشخص کے عوامل سے واقف کراتا ہے۔ کتاب کے اگلے ابواب میں بھی موضوع سے متعلق بہت سے حقائق اور معلومات کا تذکرہ ہے۔
جس دور کا مطالعہ مصنفہ نے کیا ہے اس دور میں اپنے ملفوظات اور فتاویٰ کے ذریعہ مولانا احمد رضا خاں ہی اہل سنت کے خیالات کے سب سے بڑے ترجمان نظر آتے ہیں۔ مولانا احمد رضا خاں نے علماء دیوبند کی تکفیر کی، ندوہ کی تحریک کی مخالفت کی، خلافت تحریک سے بھی ان کو بُعد تھا۔ مصنفہ کی تحقیق میں ان کی ساری بحثیں ’’اپنی شناخت کی تشکیل کے عمل سے بنیادی سطح پر وابستہ تھیں اور مقابل کی مسلم وغیر مسلم جماعتوں اوربرطانوی ہندوستان کے تعلق سے اپنے وسیع نتائج رکھتی تھیں۔
مولانا احمد رضاپورے 40سال سرگرم رہے اور اپنی تحریری اور فتاویٰ کی سرگرمیوں کے ساتھ ہی انھوں نے دوبار حج کیا اور علماء حرمین سے بھی ملاقاتیں کیں ان کے سامنے اپنے خیالات پیش کئے ان سے مذاکرات کیے اور اس طرح انھوں نے وسیع پیما نے پر اہل سنت والجماعت کی تشکیل بھی کی اور ساتھ ہی ان کے ’’غیر‘‘ کی بھی جن میں دیوبندی واہل حدیث وغیرہ شامل ہیں۔ جن کو مولانا کے پیروکار نفرت سے وہابی کہتے ہیں۔ مولانا احمد رضا اپنے زمانے کی سیاسی تحریکوں سے بالکل الگ رہے گرچہ ان کے بعض تلامذہ بعض تحریکوں میں سرگرم رہے۔ غیر سیاسی ہوتے ہوئے بھی مولانا احمد رضا خان کے افکار وخیالات کے اثرات برصغیر کے مسلم معاشرہ پر گہرے پڑے اور اس سے سیاست کا میدان بھی اچھوتا نہیں رہا۔ مصنفہ نے یہ ثابت کیا ہے کہ مولانا احمد رضا خان کے تلامذہ اور احباب ومریدین کے خیالات کا انعکاس وقت کی سیاسی، مذہبی اور مسلکی وفقہی روپر پڑا اور بڑی شدت سے پڑا۔ اس کتاب سے ان تمام امور پر کما حقہ روشنی پڑتی ہے۔ مصنفہ نے تحریک خلافت اور اس کے بعد پاکستان کے بارے میں اہل سنت کے اکابر کے خیالات کا معروضی مطالعہ بھی کیا ہے۔ کل ملاکر یہ کتاب معلومات کے لحاظ سے خاصی ثروت مند (Rich)، تحقیق کے اعتبار سے معیاری ور معروضی انداز نظر سے اپنے موضوع پر منفرد ہے۔ کتاب کی بعض فروگزاشتوں پر مترجم نے نوٹ لگایا ہے۔ بہرحال ایک اہم موضوع پر اس کتاب کے ترجمہ سے اردو لٹریچر میں اضافہ ہوا ہے۔ طباعت بھی معیاری ہے۔
کتاب کے لیے ناشر (موبائل:(09818327757یا مترجم (09990529353)سے براہ راست رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
کمنت کیجے