موجودہ دورمیں یہ خیال عام ہورہاہے اورہندوستان کا اس تصورکوپھیلانے میں بڑاکردارہے کہ تمام مذاہب ایک ہی حقیقت (حقیقت عظمی ) تک پہنچنے کے مختلف راستے ہیں،لہذاسبھی مذاہب اصلاًسچے اوربرابرہیں۔ اکابرصوفیاءکے ہاں اس قسم کے رجحانات سے انکارنہیں کیاجاسکتااورجدید دورکے مکتب روایت کے مغربی وحدت الوجودی مسلمان اکابرین ابوبکرمارٹن لنگس،رینے گینوں) عبدالواحد یحیی)اورشیخ نورالدین (فرتجوف شوان )نے بھی اس خیال کی تبلیغ کی ۔(1)ہندوستان میں مہاتماگاندھی کا فلسفہ بھی اسی خیال کے گردگھومتاہے۔ لیکن اسلام اِس وحدت ِادیان والی فکرکومستردکرتاہے ۔اس کا اصرارہے کہ :ان الدین عنداللہ الاسلام ۔اس کے بالمقابل اسلام وحدت دین کا قائل ہے۔ یعنی خداکا پسندیدہ اوربھیجا ہوادین ہمیشہ سے اسلام رہاہے ۔اورموجودہ مختلف ادیان ومذاہب (خاص کروہ جوبراہیمی روایت کے حامل ہیں)اُسی واحدمنزل من اللہ دین اسلام کی محرف شکلیں ہیں۔وحدت دین کی بحث پر امام الہندابوالکلام آزاد نے ترجمان القرآن کی پہلی جلد میں بہت شافی ووافی روشنی ڈالی ہے۔(2)
اسلام دوسرے ادیان ومذاہب سے اس بارے میں یہ مطالبہ کرتاہے کہ وہ اپنی استناد واتھارٹی پیش کریں اوراپنی تاریخیت کوثابت کریں۔( 3 )وہ اپنے صحیفہ آسمانی اورمصدراول قرآن کریم کوبھی اِس پرکھ اوراسكروٹنی کے ليے پیش کرتاہے ۔اسلام کی بنیاد تمام ترقرآن اورسنت ثابتہ (عمل متواتر)پر ہے۔اوراس کی 14 سوسالہ تاریخ گواہ ہے کہ اس میں استنادوتسلسل کا نہایت محکم نظام پایا جا تارہا ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا دوسرے مذاہب کے اولین صحائف کا بھی یہی حال ہے۔آئيے مختصراًدیکھتے ہیں کہ اس سوال کا کیاجواب نکلتاہے۔
بائبل یہودیوں اورمسیحیوں دونوں میں مشترک ہے ۔اس کے دوحصے ہیں عہدنامہ عتیق اور دوسرے حصہ کوعہدنامہ جدید کہاجاتاہے جس کوانجیل کے نام سے بھی جانتے ہیں یہ مسحیوں کے ہاں مصدردین ہے۔ لیکن تورات وانجیل دونوں ہی تاریخی طورپر ثابت شدہ نہیں۔ کیونکہ جوتورات الواح پر لکھی ہوئی حضرت موسیٰ نے قوم کوسونپی تھی اس کواسرائیلی بالکل ہی گنوابیٹھے تھے ، بیرونی حملوں کی وجہ سے یروشلم اوران کے سارے مقدسات اورصحائف سب کچھ جل کربرباد ہوگیاتھا۔اب جوصحیفے پائے جاتے ہیں وہ بابل کی اسیری کے بعدعزراکاہن (نبی )نے اپنی یادداشت سے ترتیب ديے تھے ۔اصل تورات ان کوبھی نہیں ملی تھی انہوں نے توایام اسیری میں اپنے بزرگوں اورقوم کے اکابرسے زبانی جوروایات سنیں جوحالات حضرت موسیٰ اوردوسرے اکابرین کے ان کوسینہ بسینہ معلوم ہوئے ان کوعزرانے ترتیب دے دیا ہے ۔اب وہی تورات یہود کے پاس ہے جس کاحال وہ ہے جس کومختلف حوالوں سے علامہ شبیراحمدازہرمیرٹھی نے تفسیرمفتاح القرآن جلداول میں تورات وانجیل کے استنادپر روشنی ڈالتے ہوئے لکھاہے: : (4)
” تورات کی جسے عہد نامہ قدیم بھی کہا جاتا ہے اوّلین تالیف بخت نصر کی قید سے رہائی کے بعد عزرا کاہن نے کی تھی۔ ہوا یہ کہ شاہِ بابل بخت نصر نے جب یروشلم کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی اور پورے شہر کو کھنڈر بنا کر رکھ دیا تھا تو اسی حملہ میں وہ صندوق جس میں اصل تورات محفوظ تھی ضائع ہوگیا تھا۔ بقیة السیف یہود کو بخت نصر بھیڑ بکریوں کی طرح ہانک کر بابل لے گیا۔ وہاں یہ قوم ستر سال تک ذلیل و خوار غلاموں کی طرح رہی اور جب ایران کے نیک دل بادشاہ خورس نے اسے نجات بخشی اور دوبارہ یہ قوم یروشلم آ کر آباد ہوئی تب یعنی یروشلم کی بربادی کے تقریباً ایک سو بیالیس (142) سال بعد عزرا کاہن نے جو اس وقت یہودیوں کے سب سے بڑے عالم سمجھے جاتے تھے تورات کو مرتب کیا اور کس طرح؟ خود عزرا کا بیان ہے:
ایک آواز نے مجھے بلایا اور کہا کہ عزرا اپنا منہ کھول اور وہ کچھ پی جسے میں تجھے پینے کے لیے دیتا ہوں، سو میں نے اپنا منہ کھول دیا۔ تب دیکھو اس نے مجھ تک ایک پیالہ بھیجا۔ وہ پانی سے بھرا ہوا معلوم ہوتا تھا لیکن اس کا رنگ آتشیں تھا۔ میں اُسے لے کر پی گیا۔ اس کے پیتے ہی میرے دل میں فہم و فراست اور سینہ میں بصیرت پیدا ہوگئی اور میری روح نے میرے حافظہ کو قوی بنا دیا اور پھر جو میری زبان کھلی ہے تو بند نہیں ہوئی اور لکھنے والے چالیس دن تک بیٹھے لکھتے رہے۔ تمام دن لکھتے اور بس رات کے وقت کچھ کھاتے اور میں تمام دن لکھاتا رہتا اور رات کو بھی میری زبان بند نہ ہوتی تھی۔ چالیس دن میں انہوں نے دو سو چار (204) کتابیں لکھیں۔ (کتاب عزرا، 2: 38-44)
یہ واضح رہے کہ خود عزرا نے اصل تورات پڑھنا تو کیا شاید دیکھی بھی نہ تھی کیونکہ بوقت اسیری وہ بہت ہی کم سن یعنی پانچ یا 6 سالہ بچہ تھے۔ پس ان کے ہوش مند ہونے سے پہلے ہی تورات ضائع ہو چکی تھی، اس لیے عزرا کے پاس تورات کا جو کچھ بھی علم تھا وہ بس بابل کی قید کے زمانہ میں اپنی قوم کے بڑے بوڑھوں سے سنی ہوئی باتیں تھیں۔ اسی کے ساتھ یہ ملحوظ رہے کہ بنی اسرائیل میں حفظِ تورات کا رواج نہ تھا جس طرح کہ بحمد اللہ ہم مسلمانوں میں حفظِ قرآن کا رواج ہے، اس لیے یہ قیاس میں آنے والی بات نہیں ہے کہ عزرا کو پوری تورات بے کم و کاست یاد ہوگئی ہو۔ یقینا جو کچھ تورات کے نام سے انہوں نے اپنے بڑوں سے سن کر ذہن نشین کیا ہوگا، اس میں بہت کچھ نقص ہوگا۔ یہی ناقص تورات جو عزرا نے ذہن نشین کر لی تھی، اپنی قومی تاریخ و روایات سمیت کاتبین کو املا کی تھی اور منقول ہے کہ عزرا کے بعد نحمیاہ نبی نے بھی عزرا کی تالیف کردہ کتب میں مزید چند کتابوں کا اضافہ کیا تھا۔
مگر پھر 168 ق م میں شاہ انطاکیہ انٹونس یونانی نے بیت المقدس کو تاراج کر ڈالا اور تمام صحفِ مقدسہ کو نذرِ آتش کر دیا۔ اس کے بعد یہودا مقابی نے ان کی تالیف کی۔ پھر 70 ءمیں رومیوں نے فلسطین پر زبردست یورش کی اور ان کے بادشاہ ٹاٹیس رومی نے بیت المقدس کو بالکل برباد کر دیا نیز وہ صحفِ مقدسہ کو ہیکل سے نکال کر اپنے ساتھ لے گیا۔ وہ صحف پھر کبھی بھی یہود کے ہاتھ نہیں آئے۔ اس کے بعد متعدد علمائے یہود نے اپنے حافظہ کی مدد سے انہیں پھر مرتب کیا۔
اسی کے ساتھ یہ بھی واضح رہے کہ تورات کی اصل زبان عبرانی تھی مگر بابل میں رہ کر یہود نے آرامی زبان اختیار کر لی تھی، پس عزرا اور ان کے بعد نحمیاہ علیہ السلام نے آرامی زبان میں ہی تورات کی تالیف کی ہوگی۔ مگر موجودہ عہدنامہ عتیق کا کوئی صحیفہ ایسا نہیں ہے جس کے متعلق بالتحقیق کہا جا سکے کہ یہ عبرانی یا آرامی اصل سے مترجم ہوا ہے۔ یہ تمام صحیفے جن کا نام عہد نامہ عتیق یا قدیم ہے، یونانی زبان میں تھے۔ 394 ءمیں سینٹ جیروم نے تورات کا یونانی ترجمہ کیا تھا اور معلوم نہیں کہ اس کے پاس اصل نسخہ کس زبان میں تھا۔ 1488ءمیں اسی جیروم کے نسخہ کو طبع کیا گیا، پھر جب 1750ءمیں اس کے دوسرے ایڈیشن کا انتظام ہوا تو علما کو اس میں پہلے ایڈیشن سے بارہ ہزار جگہ اختلاف کرنا پڑا۔ یہی طبع دوم کا نسخہ ہے جو مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو کر اب رائج ہے۔“
اب جوتورات موجودہے اس میں 39کتابیں ہیں جن میں پانچ خمسہ موسوی ہیں یعنی پیدائش،خروج،احباراورگنتی ان کواسفارخمسہ بھی کہتے ہیں۔اورباقی دوسرے انبییاوصالحین وکاہنوں اوراکابرکی سوانح ہیں جن کونبییم کہتے ہیں ان میں ۲۲کتابیں شامل ہیں۔ تیسرے درجہ کی کتابوں کوکتیبیم کہتے ہیں جن میں12کتابیں ہیں،زبوربھی اسی مجموعہ میں شمارکی جاتی ہے۔اس کے بعد درجہ آتاہے سفریم کا جوکاتبان وحی کی تشریحات ہیں اورپھرہیں تنائیم یعنی عام علماءکے ارشادات ۔اس کا ایک حصہ مشناو ہے دوسراگمارہ دونوں کے مجموعہ کوتالمودکہتے ہیں۔ یہ تشریحی حصہ بھی یہودکے ہاں الہامی ماناجاتاہے اورعملی زندگی اسی پر چلتی ہے۔ یہ بھی ذہن نشین رہے کہ یہ کل ملاکر 39 کتابیں ہیں جبکہ عذراکاہن کے اپنے قول کے مطابق انہوں نے 204کتابیں لکھوائی تھیں۔ تاریخ کا لاینحل سوال ہے کہ پھربقیہ165کتابیں کیاہوئیں؟
انجیل کا حال بھی تورات سے کچھ کم غیرمصدقہ نہیں چنانچہ علامہ موصوف مزیدلکھتے ہیں:
”اب مختصراً انجیل کا حال ملاحظہ کیجیے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے حواریوں کو انجیل کے نام سے جو کتاب اللہ دی تھی وہ قطعاً مفقود ہے، حتیٰ کہ اناجیل اربعہ میں اس کا ذکر تو کیا اس کی طرف کوئی اشارہ بھی نہیں ملتا۔ جب پیروانِ مسیح نہ صرف یہ کہ کثیرالتعداد ہوگئے، بلکہ مختلف فرقوں میں بھی منقسم ہوگئے تو ہر فرقہ نے اپنی اپنی انجیل مرتب کر ڈالی۔ حسب تصریح ”انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا“ یہ انجیلیں 34 تھیں، ان سب میں ہر مو لف نے سنی سنائی باتوں کے مطابق حضرت مسیح علیہ السلام کے سوانح حیات اور خطبات و مواعظ جمع کیے تھے اور عجیب
بات یہ ہے کہ یہ اناجیل سب یونانی زبان میں تھیں۔ ان میں سے صرف ایک انجیل کے متعلق بتایا گیا ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ اور حوارین کی زبان یعنی آرامی میں تھی مگر اس کا دنیا میں کوئی نشان نہیں ملتا۔ 335 ءمیں بمقام نیقیہ علمائے نصاریٰ کی ایک کونسل منعقد ہوئی۔ اُس نے بغیر کسی وجہ و دلیل کے ان اناجیل میں سے صرف متّٰی، مرقس، لوقا، یوحنا کی انجیلوں کو معتبر اور بقیہ سب کو جعلی و غیر معتبر قرار دے دیا۔ یہی چاروں انجیلیں مع ان خطوط کے جو سینٹ پال اور حواریوں کی طرف منسوب ہیں، عہدنامہ جدید کہلاتی ہیں اور ان ہی کے تراجم دنیا میں رائج ہیں اور بے سند ہونے کی وجہ سے ان چاروں انجیلوں کی وہ علمی حیثیت بھی نہیں جو سیرتِ ابن ہشام یا مغازی و اقدی یا طبقات ابن سعد کی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ بائبل سوسائٹیز کی طرف سے شائع ہونے والا ہر نسخہ انجیل پہلے نسخوں سے کافی مختلف ہوتا ہے۔ جرمن ڈاکٹر میل نے چند نسخے جمع کرکے موازنہ کیا تو تیس ہزار اختلافات ظاہر ہوئے اور جان جیمس نے مزید تحقیق سے یہ جائزہ لیا تو یہ اختلافات دس لاکھ تک پہنچ گئے۔ تفصیل کے ساتھ یہ بات دیکھنی ہو تو انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا کا مضمون ”گاسپل“ اور انسائیکلو پیڈیا آف ریلجنز اینڈ ایتھکس کا مضمون ”بائبل“ ملاحظہ کیجیے۔(5)مسیحیوںکوغالباًاپنی اس کمزوری کا احساس ہے چنانچہ اب وہ بائبل کو نہیں کہتے بلکہ کہتے ہیں لیکن اس کے اصل مصنف ومرتب تک اس کی سندکا سوال جوں کا توں باقی ہے۔
یہ تورہاتورات وانجیل کا حال جوکہ آسمانی مذاہب کی طرف منسوب ہیں۔اب غیرآسمانی مذاہب میں سب سے بڑے مذہب ہندومت کولیتے ہیں۔
ہندودھرم کی کتابیں:
ہندودھرم کی تعریف ،اس کی اساس ،قدامت اورتاریخیت کی بحث بڑی لمبی اورمتنازعہ فیہ ہے۔اس کی تعریف بھی نہیں کی جاسکی اورتعریف کرنابڑامشکل بھی ہے ۔( 6)یہ بحث بھی بڑی دل چسپ ہے کہ ہندوکسے کہتے ہیں۔ایک قول یہ ہے کہ جواپنے آپ کوہندوکہے وہ ہندوہے۔ ہندتوکے حاملین کہتے ہیں کہ جوہندوستان میں پیداہواہواوراس کومقد س سرزمین بھی مانتاہووہ ہندوہے۔ایک خیال یہ بھی ہے کہ جونہ مسلمان ہونہ یہیودی یاعیسائی یابودھ وہ ہندوہے۔اس دل چسپ بحث کے ليے دیکھيے :ایکسل مائکل کی کتاب(7)۔
چونکہ ہندومذہب اورہندوقوم کی کوئی مستندتاریخ نہیں ۔یہاں ایساکوئی ِذوق ہی نہ تھاجس کا شکوہ جواہرلال نہرونے بھی کیاہے ۔ہندوستان کی تاریخ توجوکچھ بھی روشنی میں آئی ہے وہ مسلمانوں کی آمدسے شروع ہوتی ہے۔صرف کشمیرکی سیاسی تاریخ پر ایک کتاب راج ترنگنی ملتی ہے،اس کے علاوہ جوکچھ ہے وہ سینہ بسینہ چلی آرہی روایات اورقصے کہانیاں یااساطیرہیں۔ جیساکہ مشہورمستشرق لیبان کہتے ہیں:قدیم ہندووں کی کوئی تاریخ ہی نہیں اورنہ عمارات اوریادگاروں سے اس کی تلافی ہوتی ہے ….ہندوستان کاتاریخی زمانہ فی الواقع مسلمانوں کی فوج کشی کے بعدسے شروع ہوتا ہے اورہندوستان کے پہلے مورخ مسلمان ہیں۔(8)اس کے بعدانگریزوں نے یہاں کی پرانی تاریخ کی تفتیش کی ا وراس کوباقاعدہ مدون کرنے کی کوشش کی ۔
وید: اسی طرح ہندودھرم کے مصادراصلیہ وید ہیں یاان سے پہلے بھی ہندومذہب کا وجودرہاہے اس پر بھی لمبی بحث موجودہے۔کیونکہ گیتاجس کوموجودہ دورمیں ہندوو ں نے اپنے احیاءاورتجديد کا بڑاسرچشمہ ماناہے اوراس کی بہت ساری شرحیں لکھی گئی ہیں،ویدوں کی تعلیم کی سختی سے تردیدکرتی ہے ۔اسی طرح خداکا منکرہندوفلسفی چارواک ویدوں کا مزاق اڑاتااوران کوپشاچ (رنگین طبع )لوگوں کی تصنیف بتاتاہے ( 9(پھرویدوں کی تعدادمیں بھی اختلاف ہے تاہم عموماًچاروید مانے گئے ہیں۔ یجروید(یہی اصل ہے اسی سے بقیہ وید نکالے گئے ہیں)رگوید،اتھرویداورسام وید۔ جہاںتک ان کے مصنفین کی بات ہے تویہ بھی طے نہیں ۔ بعض کہتے ہیں کہ ان کومہارشی ویاس جی نے لکھاہے ۔اب یہ بات الگ ہے کہ ویاس بھی کئی ہیں اوریہ کوئی طے نہیں کرسکتاکہ کون سے ویاس نے لکھی ہے ۔یادرہے کہ مہابھارت نامی کتھابھی ایک مہارشی ویاس کی طرف ہی منسوب ہے۔ مگرہندودھرم کے ایک بڑے اسکالرسریندرناتھ داس گپتاکہتے ہیں کہ :ویدکوئی کتاب نہیں ہے بلکہ یہ ہندودھرم کے دوہزارسالہ لٹریچرکا نام ہے جس میں متعددرشیوں منیوں نے اپنے خیالات وافکارکوجمع کرڈالاہے۔(10 )پھرویاس جی نے جوویدلکھے وہ ضائع ہوگئے اورکہاجاتاہے کہ ان کودوبارہ رشی سرسوتی نے اپنی ماں سرسوتی ندی کے آشیروادسے لکھا۔اس ليے اسکالرگوونداس کا خیال ہے کہ :رگویدکی تدوین کے زمانہ میں ہی ویدوں کے اصلی منترکھوچکے ہیں اوران کی فقط ایک نامکمل سی یاد ذہنوں میں رہ گئی ہے۔“(11 )اسی ليے ویدوں کوسُروتی (یعنی زبانی نسل درنسل چلنی والی روایات اورحکایتوں کا مجموعہ )ماناجاتاہے۔
ویدکتنے ہیں یہ بھی نہیں معلوم ،ان کوکس نے تصنیف کیایہ بھی پردہ خفا میں ہے اوران کا زمانہ تصنیف کیاہے اس پر بھی تاریخ کوئی روشنی نہیں ڈالتی ۔اسی طرح ویدوں کی تعلیمات کا مسئلہ ہے ۔ان میں کہیں کہیں پر توحید کے نشان بھی مل جاتے ہیں،جیسے کہ کہاگیاہے : ایکم دوتیوناستی (خداایک ہی ہے دونہیں)سورگ اورنرک کے دھندلے تصورات بھی باقی لاکھوں اشعارکا یہ بھنڈارصرف قبائلی رسموں،گیتوں،یگیوں اورویجنوں(قربانیوں)کوبیان کرتاہے ۔وہ خداتعالیٰ ،اس کی صفات ،انسان سے اس کے تعلق ،خودانسانوں کے باہمی تعلق پر کوئی روشنی فراہم نہیں کرتا بلکہ وہ ایسے قبائل کی معاشرت پر دلالت کرتاہے جوخانہ بدوش زندگی سے آگے بڑھ چکے ہیں۔اس میں شہروں،دیہات اوربادشاہوں کا ذکرہے اوربعض ایسی برائیوں کا مثلاکسبیوں کا جومتمدن زندگی کی علامتیں ہیں اورزراعتی تمدن کوبتاتی ہیں۔ بہت ساری باتیں اتنی فحش ہیں کہ ان کا ذکرکرنے سے قلم بھی شرماتاہے۔
ہندویاآریہ قوم کی اصل کیاہے ۔یہ لوگ کہاں سے آئے اِس پر بھی مختلف رائیں لوگوں نے ظاہرکی ہیں۔زیادہ مضبوط قیاس یہ ہے کہ یہ قبائل وسط ایشیاسے یہاں آئے ۔ کیونکہ ان میں قدیم مصری اورایرانی ثقافت سے بہت کچھ ملتاجلتاہے ۔مثال کے طورپر ایرانی اپنے ناموں کے ساتھ آریہ مہرلگاتے تھے۔ قدیم پہلوی اورسنسکرت کے بہت سارے الفاظ ملتے جلتے ہیں۔یہاں تک کہ ویدوں کے اشلوکوں اور پارسیوں کی زنداوستاکے اشلوکوں میں بڑی مشابہت ہے۔ پارسیوں میں آگ کی پوجاہوتی ہے اورآریوں میں بھی اگنی دیوتاکو بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ ہندوکا لفظ قدیم سنسکرت یاویدک لٹریچرمیں نہیں ملتااس کی اصل زنداوستامیں یاپہلوی لٹریچرمیں ملتی ہے یاپھرعربوں کے ہاں۔اورانہیں سے یہ لفظ اخذکیاگیاہے۔(12)قیاس یہ لگایاجاتاہے کہ آریہ قبائل ایران کے خطے سے یہاں براہ ہندوکش واردہوئے اوریہاں کی قدیم آبادی دراوڑوں کوجنوب کی طرف دھکیل کریہاں آبادہوگئے ۔ایک تحقیق یہ ہے کہ آریہ دراصل سمیری قوم سے تعلق رکھتے ہیں جوشام سے لیکرمصرتک آبادتھی۔اورایک خیال یہ بھی ظاہرکیا گیا ہے کہ یہ بنی اسرائیل کے کھوئے ہوئے قبائل کی نسل ہیں جوپھرتے پھراتے ہندوستان نکل آئے تھے۔(13)
ویدوں کی شرح براہمن سمجھی جاتی ہے۔آرینک اُ ن رشیوں اورسادھووں کے حالات کا محموعہ ہیں جوشہروں کوچھوڑکرجنگلوں میں چلے گئے تھے اورتپسیاکرتے تھے۔
اپ نشد:یہ تقریبا112ہیں۔ان میں سے 50 کا ترجمہ داراشکوہ نے فارسی میں کیا تھا۔اپ نشد کوداس گپتاان لوگوں کے ليے لائحہ عمل بتاتے ہیں جوبن باس اختیارکرکے مراقبہ اورگیان دھیا ن میں مصروف ہوکرایشورگیان (معرفت خداوندی حاصل کرتے ہیں ۔(14)ویدانت کا فلسفہ جووحدت الوجود پر مبنی ہے اورشنکراچاریہ جس کے مبلغ ہیں اس کا مرجع یہی اپ نشد ہیں۔جن کے مطابق انسانی زندگی کا کمال ایسی نیندکی حالت ہے جس میں وہ زمان ومکان سے کٹ کربرہمایاذات واجب الوجوب میں پھرسے جاملے ۔ان کے مصنفین کے بارے میں حقائق کم اورقیاس آرئیاں زیادہ ہیں۔
پران :کہاجاتاہے کہ ان کی تصنیف بھی ویاس جی نے کی تھی ۔یہ شروع میں چارتھے اب ساٹھ تک ہیں۔پران سب عجیب وغریب اورفحش افسانوں کے مجموعے ہیں۔
شاشتر:عام ہندوفلسفہ کی ترجمان کتب اس کے چھ شاسترمشہورہیں(ایک ناستک (بقیہ پانچ آستک)چونکہ اس کا تعلق مذہب سے نہ ہوکرہندوفلسفہ سے ہے ۔اس ليے اس بحث سے صرف نظرکرتے ہیں۔
رامائن: رامائن ملک میں بہت مشہورہے اورمریاداپرشوتم سری رامچندرجی کی سوانح ہے جس کووالمیکی نے لکھاتھا۔تاہم مسئلہ یہ ہے کہ راماینیں بھی کوئی تین سوہیں اوران کی اصلیت کے بارے میں بھی بہت کچھ شکوک وشبہات موجودہیں ۔والمیکی کے علاوہ بودھ راماین بھی مشہورہے۔ ڈاکٹرامبیڈکررام کوکوئی تاریخی شخصیت نہیں مانتے بلکہ ایک اسطوری شخصیت قراردیتے ہیں۔( 15 )
مہابھارت اورگیتا:یہ بھی مہارشی ویاس نے لکھی ہے۔یہ اصلاًدوعم زادخاندانوں کورووں اورپانڈووں کے درمیان جنگ (جواٹھارہ دن چلی )کی کہانی ہے۔اس کا زمانہ ہندومصنفین ناقابل قیاس طورپر لاکھوں سال قدیم قراردیتے ہیں جبکہ جدیدسائنسی تحقیقات کے مطابق کرہ ارض پر متمدن زندگی کی کہانی 12-13ہزارسال سے زیادہ پیچھے نہیں جاتی ۔گیتابھی اسی مہابھارت کا ایک باب ہے جس میں سری کرشن جی جنگ کے ایک سورماارجن کواپدیش دیتے ہیں اورعمل کی طرف راغب کرتے ہیں۔
منوسمرتی ۔اسمرتی ،قانون یاشریعہ کوکہتے ہیں۔اسمرتیاں بھی بہت ہیں جن میں منوجی کی لکھی منوسمرتی مشہورہے اورذات پات کے نظام کوزبردست تقویت دیتی ہے۔منوسمرتی کوچوتھے دورکے ویدک لٹریچرمیں شمارکیاجاتاہے اورموجودہ ہندوکوڈ بل اسی پرمبنی ہے۔
اس مختصرسی بحث سے واضح ہے کہ ہندومذہب بھی تاریخ کی مکمل روشنی میں نہیں ہے اوریہ استنادواتھارٹی کی کسوٹی پر پورانہیں اترتا۔
آج کا پڑھالکھاہندوطبقہ اس بات پر بہت زوردیتاہے کہ ہندودھرم چونکہ کسی کتاب کسی نبی اورکسی شریعہ (قانون )پرمبنی نہیں اس ليے اس میں بڑاادارواد،تسامح ،وسعت نظری اورفراخ دلی پائی جاتی ہے ۔ یہ مذہب اپنی نہاد میں سیکولرہے اورمتضادلوگوں اورچیزوں کواپنے میں سمونے اورساتھ لیکرچلنے کی صلاحیت رکھتاہے ۔یہ تصوربہت سے مغربی ملحدوں کوبھی بہت بھاتاہے اوروہ اس کے اس پہلوکی بڑی تعریف کرتے ہیں مثال کے طورپر مشہورمورخ اورماہرمستقبلیات یوال نواحراری نے بھی اس کی بڑی تعریف کی ہے اورابراہمی مذاہب کے مقابلہ میں مشرکانہ مذاہب کوفوقیت دی ہے۔(16) یہ تصوربہت گمراہ کن ہے اس ليے اس نکتہ پر علمی وتاریخی بحث اوراس کی تردیدکی خاص ضرورت ہے۔
حواشی وحوالجات :
1 ۔، ملاحظہ ہواحمدجاوید صاحب کا مضمون مکتب روایت اوروحدت ادیان کے تصورپر اہم سوالاتDanish.pkپر
2۔ملاحظہ ہو:ترجمان القرآن جلداول ص 219اسلامی اکادمی لاہور
3۔مثال کے طورپروان کنتم فی ریب ممانزلناعلی عبدنا فاتوابسورة من مثلہ وادعواشہدائکم من دون اللہ ان کنتم صادقین اگرتم اس کلام کے بارے میں شک وشبہ میں ہوجوہم نے اپنے بندے پر اتاراہے تولے آواس جیسی ایک سورت بناکراوربلالوخداکے سوااپنے مددگاروں کواگرتم سچے ہو (البقرہ: 24 )اس طرح کی آیات متعدد ہیں۔
۔،تفسیرمفتاح القرآن ،سورہ آل عمران ،ص 485شایع کردہ فاو نڈیشن فاراسلامک اسٹڈیز نئی دہلی سنہ 2021)-4
5۔ایضا
6۔جواہرلال نہرو،ڈسکوری آف انڈیاص۳۵ حکومت ہندکے ذریعہ شائع شدہ
7۔Exel Mickel,Hinduism,Past and Present Oriant Longman P 12-15
-تمدن ہند،ڈاکٹرلیبان ص 144 اورجواہرلال نہروڈسکوری آف انڈیاص۷۷8
۔غلام احمدپرویزمذاہب عالم کی آسمانی کتابیںص۱۷ادارہ طلوع اسلام لاہور)9
10۔داس گپتا: A History of Indian Philosophy ص۱۱۔۲۱
11۔ایضاص249
12۔شاہ اکبرخاںنجیب آبادی مقدمہ تاریخ ِہندقدیم )
تفصیل کے ليے دیکھيے :غلام احمدپرویزمذاہب عالم کی آسمانی کتابیں ص۱۷ادارہ طلوع اسلام لاہورص-76)13
14۔ایضا ص ۹۲
15۔ملاحظہ ہو:THE RIDDLE OF RAMA BY DR. BABASAHEB B.R. AMBEDKAR
16۔ملاحظہ کریںYuval Noah Harihi Sapiens A brief History of Humankind p:239 Vintage Books London 2011
(یہ پیپر26-27جون2021 کوفیکلٹی آف تھیالوجی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ اوراسلامی فقہ اکیڈمی کے اشتراک سے عالمی مذاہب،ان کی کتابیں تعارف اورتاریخ کے موضوع پر منعقدہونے والے ویبنارمیں پیش کیاگیا)
کمنت کیجے