ڈاكٹر محمد اكرم ندوى
مولانا عبيد الله سندھى (1289/1872 – 1363/1944) بر صغير كے مايۂ ناز مجاہد علماء ميں تھے، علمى اور تحريكى ميدانوں ميں آپ نے جو كارہائے نماياں انجام دیے ہيں، ان كى مثال نادر الوجود نہيں تو كم ضرور ہے ۔
آپ كے متعلق مسلسل غلط فہمياں پھيلائى گئيں، اور آپ كى كردار كشى روا ركھى گئى، يہى وجہ ہے كہ آپ پر انصاف پسندانہ مضامين كم مليں گے، عام علماء وطلبہ كى طرح ميرے اندرون پر بھى آپ كى منفى تصوير ثبت تھى، چند سال پہلے ميرے دوست مولانا ظہور الحسينى صاحب نے مجھے آپ كى عربى كتاب (التمهيد) دى، جب يہ كتاب ميں نے پڑھى تو حيرت سے ميرى آنكھيں كھل گئيں، آپ كے متعلق بد گمانى دور ہوئى، اور مجھے آپ كى شخصيت عصر حاضر كے چوٹى كے مفكرين ومحققين میں نظر آئى، اس كے بعد ميں نے سوچا كہ آپ كا صحيح تعارف پيش كرنا ايك علمى ودينى فريضہ ہے، ره ره كر يہ خيال آتا رہا كہ كہيں تعصب پسند اور تنگ نظر لوگ مجھ پر حملہ نہ شروع كرديں، الله تعالى نے مجھے ہمت عطا كى، اور ميں نے تردد كو ايك جانب كيا، الحمد لله اسى عزيمت كے اثر سے يہ مضمون سپرد قرطاس كر رہا ہوں ۔
آپ كى كتاب (التمهيد لتعريف أئمة التجديد) اصلاح وتجديد كى تاريخ اور متاخرين كى اسانيد پر ايك نادر كتاب ہے، اس كے سر ورق پر مولانا قارى محمد طيب رحمۃ الله عليہ كى تحرير ہے: “يہ كتاب ايك تاريخى اور علمى وسياسى مرقع ہے، جو حضرت مولانا عبيد الله سندھى رحمہ الله كے افكار صالحہ كا ثمره ہے، اس كے جلد سے جلد طبع اور شائع ہونے كى ضرورت ہے، احقر نے بھى اس كى ايك نقل كتب خانہ دار العلوم ديوبند كے لئے كرائى ہے ۔ محمد طيب مہتمم دار العلوم ديوبند وارد حال كراچى 5 نومبر سنہ 1955ع ۔
مولانا ابو سعيد غلام مصطفى قاسمى سندھى كى تحقيق سے التمهيد پہلى بار سنہ 1396 مطابق سنہ 1976م ميں لجنۃ احياء الادب السندى كى جانب سے شائع ہوئى، كتاب متوسط سائز كے تقريبا پانچ سو صفحات ميں ہے، اس ميں مختلف ابواب ہيں، جو كتاب كے موضوع سے مربوط ہيں، اس ميں مقدمہ ابن خلدون، شاه ولى الله دهلوى كى حجۃ الله البالغۃ، ابو الخير مكى، نواب صديق حسن خان، اور شيخ عبد الوهاب مكى وغيره كى كتابوں سے جگہ جگہ استفاده كيا گيا ہے۔
اس كتاب ميں سب سے زياده مفصل اور عقيدت آميز تذكره آپ كے استاد شيخ الہند مولانا محمود الحسن كا ہے، ان كے علمى مقام پر سير حاصل گفتگو ہے، ان كى سندوں كو پورى كتاب ميں پھيلايا گيا ہے، شيخ الہند كى قائدانہ صفات مثلا اخلاص، ايثار اور قوت عمل پر خصوصى زور ہے، يہى وه صفات ہيں جن كى وجہ سے انہوں نے دنيا كى سب سے بڑى طاقت سے بے خوف وخطر مقابلہ كيا۔ ايك دوسرى جگہ آپ اپنے استاد كا ذكر كرتے ہوئے فرماتے ہيں: “ہم نے ان كو موت سے اتنا بے خوف ديكھا ہے كہ ہم دنيا كے كسى مربى كو ان كے برابر نہيں مان سكتے، اس لئے ہمارى طبيعت ميں فخر ہے كہ ہمارا استاد دنيا كا سب سے زياده بے خوف بزرگ تھا، جس جماعت كا رہنما ايسا ہو، اور جس كے نوجوان افراد ايسے ہوں جيسے ہم نے ديكھے ہيں وه دنيا ميں ناكام نہيں ره سكتے” (مجموعۂ تفاسير امام سندھى ص 335-336 ) ۔
اس كتاب سے معلوم ہوتا ہے كہ مولانا عبيد الله سندھى فقہى مسلك كے باب ميں توسع پسند تھے، ان كے افكار وخيالات انقلابى تھے، دوسرے مسالك كے علماء سے ان كے قريبى تعلقات تھے، ان كا طريقۂ بود وبوش علماء ومشائخ كے روايتى طريقہ سے قدرے مختلف تھا، نہ سر پر عمامہ اور نہ ٹوپى۔ ننگے سر رہنے كى ان كے پاس معقول وجہ تھى۔ مولانا سعيد احمد اكبر آبادى مرحوم رقمطراز ہيں: “مولانا ہميشہ ننگے سر رہتے تھے، ايك مرتبہ میں اور مولانا دلى كى جامع مسجد كے جنوبى دروازه كے نيچے كھڑے ہوئے تھے كہ ميں پوچھ بيٹھا: مولانا آپ ہميشہ ننگے سر رہتے ہيں، اس كى كيا وجہ ہے؟ فورا لال قلعہ كى طرف اشاره كركے كچھ غصہ اور كچھ حسرت كے ملے جلے لہجے كے ساتھ فرمايا: ميرى ٹوپى تو اس دن سے اتر گئى جس دن كہ يہ لال قلعہ ميرے ہاتھوں سے نكل گيا۔ اب جب تك مجھ كو واپس نہيں مل جاتا ميرى غيرت اجازت نہيں ديتى كہ ميں ٹوپى سر پر ركھوں” (بيس بڑے مسلمان ص 411-412) ۔
شيخ الہند كے تمام شاگرد ايثار وقربانى ميں ايك جيسے نہ تھے، جبكہ مولانا سندھى اپنے استاد كے طريقہ سے ہٹنے كے لئے تيار نہ تھے، نتيجہ يہ ہوا كہ ايك جماعت نے ان كى مخالفت كى، اور ہندوستان كے عام علماء بھى اس جماعت كے پروپيگنڈه ميں آگئے، مولانا عبيد الله سندھى نے شيخ الہند كے شاگردوں كے مختلف مواقف كى تشريح خود بڑے اچھے انداز ميں كى ہے:
“مولانا شيخ الہند كو ماننے والى جماعت تين حصوں ميں تقسيم ہوگئى:
ايك جماعت تو وه ہے جو حضرت مولانا شيخ الہند كے پروگرام كو صحيح مانتى ہے، اور ان كے ساتھ شريك كار ہوئى ہے ۔
دوسرى جماعت وه ہے كہ ان كے پروگرام كو صحيح تو مانتى ہے، ليكن يہ لوگ كام نہ كرسكے، اور كمزورى كا عذر پيش كرنے لگے، اور اپنے آپ كو مجرم كے طور پر پيش كرنے لگے، يہ دونوں لوگ ايسے ہيں جيسے رسول الله صلى الله عليه وسلم كے زمانہ ميں ايمان والى جماعت تھى ۔
تيسرى قسم كے وه لوگ ہيں جو اپنے قول وفعل سے حضرت مولانا شيخ الہند كے پروگرام كو غلط ثابت كرتے ہيں، اور مدعى ہيں كہ ہم مولانا شيخ الہند كے شاگرد ہيں، اور ان كے علوم كے حامل ہيں۔ يہ جماعت ايسى ہے جيسى رسول الله صلى الله عليه وسلم كے زمانہ ميں منافقين كى جماعت تھى۔ اب ہم يہ كہتے ہيں كہ يا تو يہ ماننا پڑے گا كہ نعوذ بالله مولانا شيخ الہند جاہل اور مفسد تهے، انہوں نے مسلمانوں كو غلط راستے پر ڈال ديا، اور ان كو بہت نقصان پہنچايا۔ اگر مولانا شيخ الہند كو حق پر مان ليا جائے تو ان كے اتباع ميں سے جو ان كى مخالفت كرتے ہيں اور فكرًا ان كے خلاف تلقين كرتے ہيں وه ان كے مكذب ہيں۔ يہ نہيں ہوسكتا كہ شيخ الہند كا مسلك بھى ٹھيك ہو اور ان كے خلاف دعوت دينے والى جماعت راستى پر ہو۔ اس قسم كے لوگوں كو ديوبندى جماعت كى ليڈرشپ سے عليحده كرديا جانا چاہئے، جب تك يہ منافقت پيدا كرنے والے لوگ ذمہ دارى كے مناصب پر قابض رہيں گے، مخلصين آگے بڑھ كر كامياب نہ ہوسكيں گے۔ آج ہمارا بس نہيں چلتا كہ ہم ان كو جماعت سے نكالنے ميں كامياب ہوجائيں، مگر جب ہمارا بس چلے گا ان كو ملك سے خارج كرنے، جيل میں قيد كرنے، يا موت كى سزا دينے سے بھى گريز نہيں كريں گے”(مجموعۂ تفاسير امام سندھى ص 336-337 ) ۔
مولانا عبيد الله سندھى شيخ الہند كے قسم اول كے صادق وامين شاگردوں اور معتمد عليہ اصحاب ميں سے تهے، تحريك وعمل كے ميدان ميں ان كى قربانياں اور ان كى كاميابياں قابل توجہ ہيں، سياسى واجتماعى جہاد كے ساتھ علوم ميں بھى آپ بلند مقام پر فائز تهے، شاه ولى الله دهلوى رحمۃ الله عليہ كے افكار كا مطالعہ شايد ہى كسى نے ان كى طرح كيا ہو، انہوں نے سالہا سال تك حجۃ الله البالغۃ كا درس ديا، افسوس كہ بعد ميں كچھ لوگوں نے اس فكرى كتاب كو محض ايك فقہى مجموعہ بناديا ۔
حديث ميں بھى آپ كو غير معمولى دسترس حاصل تھى، متاخرين كى سندوں اور اجازتوں پر عبور تھا ، شايد اس فن ميں وه شيخ احمد ابو الخير عطار مكى مؤلف (النفح المسكي) ، اور علامہ عبد الحى حسنى مؤلف (نزهة الخواطر) كے بعد سب سے آگے ہيں ۔
اس كتاب ميں مولانا شيخ الہند محمود حسن ديوبندى كے بعد سب سے زياده عقيدتمندانہ تذكره مولانا رشيد احمد گنگوہى رحمۃ الله عليہ كا ہے جن سے آپ نے سنن ابو داود كا بڑا حصہ تفقہ كے ساتھ پڑھا ليكن اجازت نہيں لى (ص 11-12)، ان سے خصوصى استفاده كيا، فقہ وحديث ميں ان كى عظمت كو سراہا اور ان كو شاه محمد اسحاق دہلوى كے مثل قرار ديا۔
بعد ميں آپ نے اہل حديث كے امام شيخ نذير حسين محدث دہلوى رحمۃ الله عليہ كے بخارى وترمذى كے دروس ميں شركت كى، اور فرمايا كہ اہل عصر كے لئے ان كى اجازت عامہ مجھے شامل ہے، ميں نے ان كے شاگردوں كى صحبت اور تصانيف سے بہت استفاده كيا، پھر چند نام بلند وبالا القاب كے ساتھ لكھے: الشيخ الإمام عبد الجبار الغزنوي، الشيخ الأجل الأستاذ المحقق عبد الله الغازيفوري، الشيخ الصالح محمد بن بارك الله اللاهوري، الإمام المحقق ابو الطيب شمس الحق العظيم آبادي، الشيخ ابو سعيد محمد حسين اللاهوري، نيز لكھا كہ ميں نے الأمير القنوجي صديق بن حسن البوفالى كى تصانيف سے بھى استفاده كيا جن كا ميلان علمائے يمن كى جانب زياده تھا” ص 13-14 ۔
اس كے بعد شيخ حسين بن محسن الانصارى اليمانى كا تذكره كيا، ان سے مسلسلات، فقہ شافعى وغيره اخذ كى، اجازت عامہ لى، اور حديث سے تعامل كے سلسلہ ميں ان كا طريقہ سيكھا، اور كہا كہ ميں نے ان سے صحيح بخارى، فتح البارى، امہات السنۃ اور نيل الاوطار كے كچھ حصے پڑھے۔ ان سے ميں نے بہت استفاده كيا، ميں نے ديكھا كہ وه حافظ ابن حجر پر ايسا ہى اعتماد كرتے ہيں جيسا ميں امام ولى الله دهلوى پر كرتا تھا، ان كى صحبت ميں ميں نے ان لوگوں كا طريقہ اچھى طرح سمجھا جو صحيح بخارى كو مقدم ركھتے ہيں” ص 24.
دوسرے شيوخ جن سے آپ كو اجازت ہے درج ذيل ہيں:
شيخ عباس بن جعفر المكى، شيخ علي بن ظاهر الوترى، شيخ عبد الجليل بن عبد السلام براده المدنى، شيخ تاج الدين عبد الستار بن عبد الوهاب الهندى المكى، شيخ محمد صديق السندي، شيخ احمد ابو الخير عطار مكى، شيخ ابو الشرف عبد القادر بن محمد معصوم بن عبد الرشيد بن الامام احمد سعيد الدهلوى، ، حافظ عبد الحي الكتانى، شيخ عبد الكريم البائلي (ان كے بارے ميں كہا ہے: “وكان ديوبنديا متصلبا “ص 12)، شيخ عبد الرزاق كابلى، شيخ ابو السراج غلام محمد دينپورى، شيخ ابو الحسن امروتى، سيد ابو التراب رشد الله بن الامام رشيد الدين، وغيره، ان حضرات كى سنديں جگہ جگہ بيان كى ہيں.
كتاب ميں مصنف نے افغانستان، تركى، روس اور عالم عرب كے اپنے اسفار كى تفصيل بيان كى ہے، مختلف ممالك كے علماء سے ملنے اور استفاد كا اثر يہ ہوا كہ آپ كے اندر اعتدال وجامعيت كا رسوخ ہوا،اسى لئے آپ نے طلبہ وعلماء كو انصاف سے كام لينے، تعصب سے دور رہنے كى تاكيد كى ہے، احاديث ميں جمع وتطبيق كى دعوت ہے، خاص طور سے شاه ولى الله دهلوى كے طريقۂ كار كى جگہ جگہ تحسين ہے، دوسرے مسالك كے علماء كا بھى پورے احترام سے ذكر ہے، مثلا مولانا نذير حسين محدث دہلوى كو بار بار شيخ الاسلام لكھا گيا ہے، اسى طرح علامہ حسين بن محسن كو بھى بار بار شيخ الاسلام كے لقب سے ياد كيا گيا ہے، ايك جگہ (ص 23) انہيں مجتہد بھى كہا گيا ہے، ايك جگه (ص 3) سيد احمد شہيد كے لئے يہ القاب استعمال كئے گئے ہيں: المهدي الهندي امير المؤمنين السيد احمد الدهلوي الشهيد”، اس ميں سب سے دلچسپ چيز ان كے لئے مہدى كے لقب كا استعمال ہے ۔
اس كتاب ميں بہت سے قيمتى مباحث ہيں اور محققانہ ذيلى فوائد ہيں، مثلا ايك جگہ (ص 354) نصيحت كى ہے كہ ائمۂ حنفيہ كے ساتھ امام سفيان ثورى كو بھى شامل كيا جائے، اس طرح حنفى مسلك تمام اہل عراق كى نمائندگى كرے گا، اور اگر دليل متقاضى ہو تو سفيان ثورى كے قول كو ترجيح دينے ميں تامل نہ كرے، اس طرح بہت سے تكلفات وتشويشات سے نجات ہو جائے گى” ۔
آپ نے مغل شہنشاه اورنگ زيب رحمۃ الله عليہ كى سند بھى بيان كى ہے، اور اسے “أمثل سلاطين الهند السلطان محيي الدين محمد عالمكير الدهلوي رئيس الفقهاء الحنفية” كے لقب سے ياد كيا ہے، اور ايك دوسرى جگہ (ص 18) پر اسے الإمام المجدد السلطان عالمكير” كہا ہے ۔
ميرى خوش نصيبى ہے كہ مجھے مولانا عبيد الله سندهى رحمۃ الله عليہ كے دو اجازت يافتہ شاگردوں سے اجازت حاصل ہے، ايك مولانا جلال الدين الجمالي، دوسرے مولانا فضل حق الراشدي السندي، مولانا عبيد الله سندى سے بيك واسطہ روايت ميرى عوالى اسانيد ميں سے ہے، ولله الحمد ۔
خلاصہ يہ كہ مولانا عبيد الله سندھى رحمۃ الله عليہ كى شخصيت اور ان كے افكار كو سمجھنے كے لئے اس كتاب كا مطالعہ بنيادى اہميت كا حامل ہے، اس كے پڑھنے سے علماء كے اندر توسع پيدا ہوگا، فكر ميں گہرائى آئے گى، اور علوم پر محققانہ نگاه ڈالنے ميں مدد ملے گى، الله تعالى ہميں اہل علم كى سچى محبت نصيب كرے اور تعصب سے محفوظ ركھے ۔
ڈاكٹر محمد اكرم ندوى، حدیث اور تاریخ حدیث کے ممتاز اسکالر اور السلام انسٹی ٹیوٹ، برطانیہ کے پرنسپل ہیں۔
akramnadwi@alsalaminstitute.org
کمنت کیجے