والدین کا اپنی پیدا کردہ اولاد، کسی دوسرے کی گود بھرنے کے لیے اس کے سپرد کردینا بچے کے حقوق کے خلاف ایک مجرمانہ اور سنگدلانہ اقدام ہے۔ والدین کو سرے سے یہ حق ہی نہیں کہ کہ بچے کے پیدا ہونے سے پہلے یا اس کے بعد ، اسے اپنی حقیقی ممتا اور شفقت پدری سے محروم کر دیں۔ بچہ اوّل و آخر والدین کی ذمہ داری ہے۔ اسے کسی دوسرے کے حوالے سوائے اس مجبوری کے نہیں کیا جا سکتا کہ والدین دنیا میں نہیں رہے، یاوہ کسی شدید مجبوری کی بنا پر بچے کو پالنے کے قابل نہیں رہے۔اس کے باوجود بچے سے اس کے حقیقی والدین کی شناخت چھینی نہیں جا سکتی۔ یہ اس کا بنیادی حق اور اس سے اس کا جذباتی تعلق ہوتا ہے۔
یہ کوئی ایثار نہیں کہ اپنے کسی عزیز کی خالی گود بھرنے کے لیے اپنے جگر کا ٹکڑا اسکے حوالے کر دیا جائے۔ایثار اپنی ذات کے حوالے سے کیا جاتا ہے، اپنا حق چھوڑا جاتا ہے، کسی دوسرے کا حق تلف کرکے کسی تیسرے کا بھلا نہیں کیا جاتا۔
والدین بچے کی شخصیت اور پرداخت میں صرف اتنا ہی تصرف کر سکتے ہیں جو بچے کے حق میں ہو، اس کے حقوق کے خلاف کسی تصرف کا انھیں کوئی حق نہیں ۔ جس طرح وہ بچےکو قتل نہیں کر سکتے، اسے بیچ نہیں سکتے، اسی طرح وہ اسے اپنی ممتا اور شفقت سے محروم کر کےکسی دوسرے کے حوالے بھی نہیں کر سکتے۔
لے پالک بچوں کو جب یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے حقیقی والدین کوئی اور ہیں، تو یہ ان کی شخصیت کے لیے بڑی تباہ کن خبر ہوتی ہے کہ جن کو وہ اپنا ماں باپ سمجھتا رہا، وہ اس کے حقیقی ماں باپ نہیں تھے؛ اور جب وہ یہ باور کرتا ہے کہ اسے ایک “شے” سمجھ کر کسی دوسرے کے دل بہلانے کے لیے دے دیا گیا تھا،تو اسے اپنی شدید توہین کا احساس ہوتا ہے جو اس کی شخصیت کو کھا جاتا ہے۔
بے سہارا بچوں کا معاملہ الگ ہے، انھیں گود لینا، متنبی بنانا ایک نیکی کا کام ہے، مگر اس میں بھی انسانی نفسیات کے مذکورہ پہلوؤں کا لحاظ رکھتے ہوئے، خداوندِ عالم نے یہ شرط عائد کی ہے کہ بچوں کو ان کے حقیقی باپ کے نام سے، اس کی اصل شناخت ہی سے پکارا جائے۔ باپ اگر نامعلوم ہو،تو انھیں دینی بھائی قرار دیا گیا ہے، ان کی ولدیت کسی صورت تبدیل نہیں کی جا سکتی، یہ ایک جھوٹ ہے، جسے گورار نہیں کیا جا سکتا۔
اسی اصول پر مادہ تولید کاعطیہ یا حوالگی( سپرم اور ایگ ڈونیشن) کا مسئلہ دیکھنے کی ضرورت ہے۔یہ معلوم ہونا چاہیے کہ نکاح کا مطلب محض جنسی تعلق کو جواز فراہم کرنا نہیں ہے، یہ عقد، اس تعلق کے نتیجے میں وجود میں آنےوالے بچوں کی پرورش اور اس سے پیدا ہونے والےجذباتی تعلق کی ذمہ داریوں کو نبھانے کے لیے باندھا جاتا ہے۔ مرد اور عورت کے درمیان اگر رشتہءِ نکاح نہیں ہے، تو ان میں سے کسی ایک کےسپرم یا ایگ کی بارآوری سے بچہ حاصل کر کے، اس کے حقیقی والد یا والدہ سے محروم کرکے، کسی دوسرے مرد، عورت یا جوڑے کے حوالے کرنا، اس بچے کو اس کے حقیقی والد یا والدہ سے محروم کرنا ہے۔ یہ بچے کی حق تلفی ہے، جس کا اختیار کسی کو نہیں۔
البتہ میاں اور بیوی کے مادہ تولیدسے زائی گوٹ بنا کر، ادھار کی کوکھ (سروگیسی) میں اسے رکھ کر بچہ حاصل کرنا، جسے اس کے حقیقی ماں باپ کا نام اور گود ملے گی، اسے رضاعت پر قیاس کرتےہوئےدرست قرار دیا جا سکتاہے۔جس طرح رضاعی ماں کے دودھ سے بچے کی پرورش ہوتی ہے، اس معاملے میں یہ پرورش اس کےخون سے ہوتی ہے۔ رضاعی ماں کی طرح ہی سروگیٹ ماں اور اس کے خونی رشتے، بچے کے لیے محرم ہو جائیں گے۔ رہا معاملہ سروگیٹ ماں کے بچے کے ساتھ جذباتی تعلق کا، تو وہ تعلق رضاعت میں بھی پایاجاتا ہے۔اس مسئلے کا حل انسان نے نکالنا ہے۔ اسی پر مزید قیاس کرتے ہوئے یہ کہنا بھی درست ہوگا کہ رضاعت کی اجرت کی طرح سروگیسی کی اجرت لینا بھی درست ہے۔ تاہم یہ کرنا چاہیے یا نہیں، اس کا فیصلہ فرد اور سماج کو کرنا ہے۔
بیضے کا عطیہ اور سروگیسی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنا ہے کسی “روشن خیال”، بزعم خویش “مفتی ساب” نے “فتویٰ” دیا ہے کہ بے اولاد خاتون کیلئے کسی دوسری عورت کا بیضہ یا اووری ( بیضہ دانی) لے کر، بچہ پیدا کرنا جائز ہے۔ بس شرط یہ ہے کہ “ڈونر” خاتون کا اتا پتا معلوم ہو۔ اور اسے جناب نے بچہ گود لینے اور دیگر اعضاء کے عطیے یعنی آرگن ڈونیشن پر قیاس کیا ہے کہ اگر دوسرے شخص سے، خواہ مرد ہو یا عورت، اسکا گردہ لیا جا سکتا ہے تو بیضہ کیوں نہیں؟
گود لینے والی مثال تو ویسے ہی لغو ہے کیوں کہ اسکے اصول واضح ہیں اور حضرت زید رضی اللہ عنہ کی مثال کے ذریعے اللہ نے منہ بولی اولاد کے احکامات واضح فرما دئیے ہیں۔ نہ ادھر حرمت کا مسئلہ ہے، نہ وراثت کا۔
البتہ دوسرے قیاس کے بارے میں مجھے نہیں پتہ کہ مفتی ساب اسی اصول پر مرد کے سپرم کے عطیے کے بھی قائل ہیں یا نہیں۔ اور نہیں تو کیوں نہیں۔
چنانچہ کچھ گذارشات اپنے محدود علم اور جو علماء سے سیکھا ہے، اسکی روشنی میں بیان کرنے کی کوشش کرتا ہوں:
پہلی بات تو یہ یاد رکھنی چاہیے کہ جب دین کا حکم آ جائے تو سمجھ میں آئے یا نہ آئے، ماننا فرض ہے ۔۔۔۔اگر تو بندہ مسلم، یعنی سر تسلیم خم کرنے والا ہے۔۔۔البتہ لبرل یا سیکولر ہے اور عقل کو بالواسطہ یا بلاواسطہ وحی پر ترجیح دیتا ہے، یعنی غقل “پرست” ہے، تو وہ جانے اور اللہ جانے، البتہ دوسرے بہن بھائیوں کو اسکی کج فکری سے بچانا ضروری ہے۔
اب عقل کی پرستش کا ایک ایک طریقہ یہ ہے کہ اللہ کے حکم کے بارے میں کوئی خود مجتہد بن جائے اور دین کے ماہرین سارے علماء اور فقہاء کو مولوی قرار دے کر رد کر دے کہ میں مولوی والے اسلام پر نہیں چلتا، میں تو خود پڑھ کر سارے فقہی مسائل کا حل نکال سکتا ہوں۔ یہ طریقہ واردات دیسی لبرلز میں عام ہے۔
دوسری وجہ ہوتی ہے جہالت۔ کہ آپکو پتہ ہی نہیں کہ فلاں معاملے میں دین کا حکم کیا ہے اور آپ اپنی عقل سے اسکا حل نکالنے بیٹھ جائیں۔ یہ خرابی کے آغاز کا دوسرا بڑا ذریعہ ہے۔
اب معاملہ زیر بحث میں کسی دوسری عورت کا بیضہ لے کر اپنی بیوی کو “ڈونیٹ” کرنے والے اس مسئلے میں دین کا حکم واضح ہے کہ بچے کا نسب واضح ہونا چاہیے۔ اور ظاہر ہے کہ نسب میں ماں اور باپ دونوں شامل ہیں۔ اور عورت کو ایک وقت میں ایک سے زائد شادیوں کی اجازت نہ دینے کا بہت بڑا محرک بھی یہی اصول ہے کہ بچے کا نسب واضح رہے۔ تو اگر باپ کی طرف سے واضح رہنا ضروری ہے تو ماں کی طرف سے کیوں نہیں؟ ایک ایسی عورت جو آپکی منکوحہ نہیں، اسکا ڈی این اے آپ کی اولاد کا حصہ بن جائے، یعنی نکاح کی ایک بہت بڑی علت بغیر نکاح کے ہی پوری ہو جائے تو کھلے زنا میں کیا حرج ہے؟ بیضے کی طرح شرم گاہ بھی بظور عطیہ یا کرائے پر لینے کی گنجائش بھی نکال لیں۔۔۔!!!
اور پھر نسب کے معاملے میں یہاں مرد و زن کی مساوات کا لبرل، فیمنسٹ نظریہ کہاں گیا، ان “روشن خیال مفتیان” کے لیے؟ بالفرض آپ کہیں کہ بچے کو بتا دیا جائے گا کہ اسکی حقیقی ماں کون ہے، تو کیا جس عورت نے بیضہ عطیہ کیا ہے، وہ بھی بچے کو اپنا بچہ تسلیم کرے گی؟ کیا اپنی وراثت میں سے اسے حصہ دے گی؟ اور سچ تو یہ ہے کہ اس کیس میں “حقیقی ماں” کا فیصلہ ہو گا کس بنیاد پر؟ کیا 9 ماہ رحم میں پالنے والی، اپنا خون دینے والی، حمل کی پیچیدگیاں اور تکالیف برداشت کرنے والی عورت “حقیقی ماں” ہو گی یا محض چند گھنٹوں کے عمل سے اپنا بیضہ عطیہ کرنے یا بیچنے والی، جسے بعد کے حالات کا کوئی علم ہی نہ ہو؟
اسی طرح اس سے متعلقہ ایک دوسرا سیناریو ہے جس میں شوہر اور بیوی اپنا سپرم اور بیضہ کسی تیسری عورت میں رکھوائیں تو اس کو بھی علماء نے حرام قرار دیا ہے۔ اسے سروگیٹ مدرہوڈ اور جس عورت کی بچہ دانی حمل کیلئے استعمال کی جائے اسے سروگیٹ مدر کہتے ہیں۔ اور اس کی حرمت کی وجوہات یہ ہیں:
۔۔ نسب کی تعیین میں “حقیقی ماں” کا فیصلہ کس بنیاد پر ہوگا؟ محض ڈی این اے کی بنیاد پر؟
۔۔ حمل کی پیچیدگیوں، مثلاً بلڈ پریشر، شوگر اور بہت سے دوسرے متوقع مسائل سے سروگیٹ مدر کو ہونے والے طبی نقصان کا ذمہ دار کون ہو گا؟ حتی کہ کچھ کیسز میں تو حمل کی وجہ سے ماں کی زندگی بھی داؤ پر لگ سکتی ہے۔
۔۔ وراثت کا مسئلہ
۔۔ بچے کی پرورش کی ذمہ داری
۔۔ بچہ دانی، شرمگاہ کی طرح، عورت کا وہ پوشیدہ حصہ ہے جس پر سوائے اسکے شوہر کے، کسی اور کا کوئی حق نہیں۔
۔۔ کیا بہن اپنے بھائی کے بچے کی سروگیٹ مدر بن سکتی ہے؟ اگر ہاں تو کس دلیل سے اور اگر نہیں تو کس دلیل سے؟
تو نتیجہ یہ کہ اس قسم کے فقہی مسائل، جو جدید دور میں سائینس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں، ان میں اشد ضروری ہے کہ علمائے دین اور اس شعبے کے مخلص مسلمان ماہرین مل کر بیٹھیں اور مسئلے کا حل نکالیں، نہ کہ یہ کہہ کر جان چھڑا لیں کہ ہمیں مولویوں سے کچھ لینا دینا نہیں۔ میانہ روی کے دعوے داروں کو خبر ہو کہ یہ بدترین انتہا پسندی ہے۔۔۔!!!
(ڈاکٹر رضوان اسد خان)
اب زنا کو بھی حلال کردیجیۓ لگے ہاتھوں
surrogate mother والے مقالے میں اسکا تحقیقی جواب دیا گیا ہے کہ اسکو رضاعت پر قیاس نہیں کیا جاسکتا یہ قیاس مع الفارق ہے