گفتگو کا مقصود
1۔ محترم نیازی صاحب اور ڈاکٹر مشتاق صاحب کا کہنا ہے کہ احناف جنرل پرنسپلز کے جس نظرئیے کے قائل تھے امام شافعی اسے رد کرنے والے ہیں نیز آپ کے ہاں قیاس علت کا وجود نہیں نیز آپ عام کو ظنی کہتے ہیں اور اس وجہ سے آپ قاعدے کے منہج کو درہم برہم کردیتے ہیں۔ ان امور پر نیازی صاحب اپنی کتب میں شد و مد سے زور دیتے ہیں۔ اس کے پس پشت غلط فہمی کو پچھلی پوسٹ میں اس مثال سے واضح کیا گیا کہ امام شافعی جب ایک حدیث کے پیش نظر کسی دوسری حدیث کی تخصیص کرتے ہیں تو وہ قاعدے ہی کی ریفائنمنٹ کی صورت ہوتی ہے جس کے بعد پھر ایک قاعدہ حاصل ہوتا ہے جسے وہ آگے لاگو کرتے ہیں۔ اسی طرح ہم نے دکھایا کہ امام شافعی کس طرح “الخراج بالضمان” کے قاعدے کو برتتے ہوئے مزید احکام اخذ کرتے ہیں۔
2۔ تاہم برادر مشتاق صاحب نے “الرسالۃ” میں درج اس واضح قاعدے کو “لغوی معاملہ” اور “حدیثوں کے مابین رفع تعارض” ثابت کرنے کے لئے اسے کتاب کی بحث کے تناظر سے کاٹ کر اپنے نظرئیے کے مطابق پیش فرمایا ہے جس کی غلطی ہم ان شاء اللہ اس تحریر میں واضح کریں گے۔ ہماری دانست میں آپ نے یہ کاوش اس لئے فرمائی کیونکہ آپ سمجھ چکے ہیں کہ قواعد کی جس میتھاڈولوجی کو وہ امام شافعی صاحب کے ہاں معدوم ثابت کرنا چاہتے ہیں، الخراج بالضمان نیز اسی طرح دیگر مثالوں سے یہ مقدمہ جاتا رہتا ہے، لہذا انہوں نے امام شافعی کے موقف کا عنوان “احادیث کے مابین رفع تعارض” رکھنے کو ترجیح دی تاکہ یہ تاثر ملے کہ اس کا قاعدے کی تشکیل کے عمل کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ آپ نے اس پر اپنا نکتہ نظر واضح کرنے کے لئے تفصیلی بحث کرتے ہوئے بیع تصریہ (ایسے جانور کی بیع جس کے تھنوں میں اس لئے دودھ روک لیاگیا کہ قیمت زیادہ ملے) پر متعدد دیگر اہل علم کا موقف بھی نقل کرکے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ جو منہج احناف کے موقف میں جھلکتا ہے امام شافعی اس سے کوسوں دور ہیں نیز آپ ظاہریت کی حدوں کو چھونے والے علماء کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ان کی بات کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ جنرل پرنسپلز کے نظریاتی ماڈل سے “قاعدہ یا اصول اور پھر اس سے استثناء ” کا تصور جنم لیتا ہے (اس چیز کو احناف استحسان بالنص و اجماع کہتے ہیں)۔ آپ نے امام شافعی کے علاوہ متعدد دیگر اہل علم ومکاتب فکر کی آراء بھی نقل فرمائیں جن پر ہم کوئی تبصرہ نہیں کریں گے کہ یہ جاری موضوع کا حصہ نہیں، البتہ ہم ان کی بیان کردہ اس تفصیل و علمی محنت کی قدر کرتے ہیں۔ تاہم ہمیں کہنا پڑتا ہے کہ یہ تمام تر طوالت اصل موضوع کے لحاظ سے محترم ڈاکٹر صاحب کے موقف میں انہیں مفید نہیں بلکہ الٹی مضر ہے کیونکہ وہ دو غلطیاں کررہے ہیں:
الف) یہ مفروضہ قائم کرلینا کہ “اصول اور اس سے استثناء” کا وہ منہج جسے وہ حنفی منہج کی وجہ امتیاز سمجھتے ہیں، وہ گویا امام شافعی کے ہاں موجود نہیں
ب) بیع تصریہ پر امام شافعی صاحب کا موقف سمجھنے میں غلطی
اس لئے براہ راست بیع تصریہ پر گفتگو سے قبل پہلے ہم اس کے پس پشت جاری بحث کو واضح کرنا چاہتے ہیں تاکہ معلوم ہوسکے کہ جس چیز کو نیازی صاحب اور مشتاق صاحب “جنرل پرنسپلز کی میتھاڈولوجی” کا مظہر قرار دیتے ہیں، وہ تصور امام شافعی صاحب کے ہاں نہ صرف موجود ہے بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امام جصاص و دیگر مشائخ احناف نے استحسان کو تھیورائز کرتے ہوئے امام شافعی صاحب کی متعلقہ اصولی بحث سے پوری طرح فائدہ اٹھایا ہے اور ایسا ہونا معقول الفہم بھی ہے کیونکہ یہ مختلف روایات ایک دوسرے سے سیکھنے کے عمل سے مسلسل دوچار رہی ہیں۔
بحث کا تناظر درست کرلیجئے
3۔ آگے بڑھنے سے قبل گفتگو کا تناظر درست مقرر کرنا انتہائی ضروری ہے۔ محترم مشتاق صاحب نے شکوہ کیا ہے کہ ہم امام شافعی کے نظرئیے کی جزیات کو ملا کر غلط تصویر بنانے میں مصروف ہیں جس سے دو الگ نظاموں کا فرق جاتا رہتا ہے۔ نیز ہمارا موقف گویا یہ ہے کہ امام شافعی و ائمہ احناف میں ویسا ہی فرق ہے جیسا کہ امام ابوحنیفہ و صاحبین کا اختلاف نیز اس کے بعد بھلا ان دو فقہی روایات کے مابین عظیم الشان اختلافات کی توجیہ پھر کیسے ہوسکے گی؟ ہم کہتے ہیں کہ یہ شکوہ بے جا ہے کیونکہ آ پ بھی امام شافعی صاحب کی چند جزیات و مثالیں پیش کرکے ایک مہا بیانیہ (meta narrative) تشکیل دینے کی کوشش میں ہیں اور ہمیں بھی یہی شکوہ ہے کہ آپ امام شافعی کا موقف درست بیان نہیں کررہے ۔ نیز ہمارا موقف یہ نہیں کہ ان دو فقہی نظاموں میں فرق نہیں ہے بلکہ ہم یہ بحث کررہے ہیں کہ اس فرق کی توجیہہ کے لئے جو نیا زاویہ نگاہ آپ پیش کر رہے ہیں کہ:
- امام شافعی قیاس علت کے قائل نہیں تھے
- ان کے ہاں قیاس اولی و شبہ کے سوا قیاس کا تصور موجود نہیں
- وہ قیاس کے بارے میں قریب قریب داؤد ظاہری جیسے نظریات رکھتے تھے
- ان کے ان نظریات کو ان کے ماننے والوں نے بدل دیا، ان کے ہاں قاعدہ نہیں ہوسکتا
- قاعدہ ان کے سسٹم کے ساتھ ہم آہنگ ہی نہیں اور
- اسی لئے امام شافعی صاحب اور شوافع کے نزدیک “چند اچھے کلمات “سے زیادہ قاعدے کی کوئی حیثیت نہیں
ہم اس زاویہ نگاہ کے ان مقدمات کے غیر ضروری، غیر حقیقی و غیر معتبر ہونے کی بحث کررہے ہیں:
- غیر ضروری اس لئے کیونکہ ان مفروضات کے بغیر بھی ماہرین و اہل علم نے ان اختلافات کو سمجھایا ہے اور اس کی ایک مثال خود آپ کی بیان کردہ علامہ سعید الخن صاحب کی کتاب (قواعد اصولیہ میں اختلاف کا فقہی احکام پر اثر) ہے۔
- غیر حقیقی اس لئے کہ یہ فروق امام شافعی و علمائے شوافع کی کتب میں بیان شدہ حقائق کے سامنے چل نہیں پاتے
- اور غیر معتبر اس لئے کیونکہ اسلامی تاریخ میں امام شافعی کے بارے میں اس نوعیت کے تصورات ہمارے ناقص مطالعے کی حد تک معتبر شافعی علماء تو کجا حنفی (جو امام صاحب کے سخت مخالف تھے) علماء نے بھی پیش نہیں کئے ۔ جب تک ایسے حوالہ جات پیش نہیں کئے جاتے یہ نظریہ و خیالات بذات خود سوالیہ نشان کا شکار ہیں، چہ جائیکہ انہیں امام شافعی کی جزیات کا مفہوم متعین کرنے کا وسیلہ بھی بنایا جائے اور اس تفہیم کے لئے انہیں ضروری بھی سمجھا جائے۔ کیا پندرھویں صدی میں بیٹھ کر خیال کے زور پر اسلامی مناہج اصول فقہ کی تاریخ سازی کرنا درست عمل ہوگا؟
پس بحث کا یہ تناظر واضح رہنا بالکل ضروری چیز ہے۔
احناف کا تصور استحسان بالنص اور امام شافعی کی “الرسالۃ”
4۔ امام شافعی جب اپنے منہج کے مطابق ایک قاعدہ اخذ کرلیتے ہیں (جس کی مثالیں ہم نے پیش کیں) تو پھر اس کی پابندی کرتے ہوئے بسا اوقات بظاہر متعارض حدیث کو قاعدے سے استثناء بھی قرار دیتے ہیں ۔ ا س کی مثالیں “الرسالۃ” میں استحسان کے باب کے تحت آئی ہیں۔ اس باب (اور اس سے پیوست پچھلے دو ابواب) میں آپ قیاس سے متعلق چند ضروری امور واضح کرچکنے کے بعد قیاس کی اقسام اور اس کی مثالوں کی طرف آتے ہیں اور سائل کو اس کی چھ مثالیں پیش کرکے قیاس سمجھاتے ہیں۔ ان مثالوں میں آپ نے جس کمال تدریج سے کام لیا ہے وہ بذات خود خاصے کی چیز ہے اور اس کا احاطہ ہم نے اپنے آنے والے مقالے میں کیا ہے۔ اس کے بعد آپ کا سائل سوال پوچھتا ہے:
فما الخبر الذی لا یقاس علیه؟ یعنی یہ تو پتہ چل گیا کہ قیاس کیا ہے نیز یہ کیسے ہوتا ہے، اب یہ بتائیے کہ وہ کونسی نصوص و معاملات ہیں جن پر قیاس نہیں ہوسکتا، یعنی مجھے اس کا بھی اصول بتائیے؟ امام صاحب کی خوبی یہ ہے کہ پہلے آپ قاعدہ و کلیہ بیان کرتے ہیں اور پھر مثالیں لاتے ہیں، چنانچہ آپ اس کے جواب میں کہتے ہیں:
ما كان لله فيه حكمٌ منصوص، ثم كانت لرسول الله سنة بتخفيفٍ في بعض الفرض دون بعض: عُمِلَ بالرخصة فيما رخَّص فيه رسول الله دون ما سواها، ولم يُقَس ما سواها عليها، وهكذا ما كان لرسول الله من حكم عام بشيء، ثم سَن سنة تفارق حكم العام
مفہوم: جس شے کے بارے میں اللہ کا حکم منصوص ہو اور پھر آپﷺ نے بعض افراد کے معاملے میں حکم میں تخفیف کردی ہو تو اس رخصت پر اسی استثناء کے بقدر عمل کیاجائے گا جس قدر شارع نے اس کی رخصت رکھی ہے اور اس پر دیگر معاملات کو قیاس نہیں کیا جائے گا۔ یہی معاملہ تب ہوگا جب آپﷺ نے کسی شے کے بارے میں عام حکم دیا ہو پھر اس کے بعد کوئی ایسی سنت سامنے آگئی جو اس عمومی حکم کے خلاف ہو ، یعنی وہاں بھی تخفیف کو استثنا ء قرار دیا جائے گا نہ کہ اس پر قیاس کیا جائے گا
یعنی جب امام شافعی کے نزدیک ایک مرتبہ عام حکم مقرر ہوگیا تو اس کے خلاف جانے والی خبر استثناء ہوتی ہے۔ یہاں اچھی طرح نوٹ کرلیجئے کہ امام جصاص ، دبوسی و سرخسی رحمہم اللہ نے اسی تصور کا نام “استحسان بالنص” قرار دیا ہے ۔ مزید یہ کہ یہاں لفظ “حکم العام” کو بھی نوٹ کررکھئے جسے مشتاق صاحب قاعدہ عامہ کہتے ہیں اور امام صاحب اسی سے استثناء کی بات کررہے ہیں ۔
5۔ آپ کا سائل کہتا ہے کہ مجھے اس کی مثالیں دیجئے (مثل ماذا)۔ آپ اس کے بعد متعدد مثالیں پیش کرتے ہیں جن سب کا خلاصہ خوف طوالت کے سبب یہا ں دینا ممکن نہیں، صرف ایک پیش خدمت ہے جو بیع عرایا سے متعلق ہے۔ امام شافعی کے نزدیک ربا کے باب میں ربا کی علت طعم ہے جس سے آپ یہ قاعدہ اخذ کرتے ہیں کہ ہر طعم والی چیز ربوی ہے (جی ہاں، ایک قاعدہ)۔ اسی طرح اگر خشک کھجور (چھوارے ) کا گیلی کھجور کے ساتھ تبادلہ ہو جبکہ یہ بات معلوم ہو کہ خشک ہونے پر گیلی کھجور سکڑ جانے والی ہے تو آپﷺ نے اس تبادلے سے بھی منع فرمایا ہے، اور اسی طرح بیع مزابنہ سے بھی منع کیا گیا ہے جس کا مطلب معلوم چیز کو مجہول چیز کے بدلے بیچنا ہے (اس کی ایک صورت اندازے و اٹکل سے ہاتھ میں پکڑے چھواروں کا درخت پر لگی کھجوروں کے ساتھ تبادلہ کرنا ہے)۔ امام شافعی صاحب کہتے ہیں کہ یہ تینوں صورتیں ایک ہی عمومی قاعدے کے تحت آتی ہیں:
وهذا كله مجتَمِع المعاني
یعنی یہ تین احکام ایک ہی عمومی معنی یعنی علت و قاعدے کے تحت ہیں (قیاس کی بحث میں “معنی ” سے امام شافعی “علت “مراد لیتے ہیں)۔ یہاں غور کیجئے کہ آپ متعدد نصوص و احکام کو کس طرح ایک عمومی قاعدے کی طرف رجوع کروارہے ہیں۔ تاہم ایک حدیث کے مطابق آپﷺ نے بعض ضرورت مند لوگوں کو اٹکل یا اندازے سے ردی چھواروں کی اچھی کھجوروں کے ساتھ مخصوص مقدار (5 وسق )تک تبادلے کی اجازت دی (اسے بیع عرایا کہتے ہیں)۔ یہ حدیث چونکہ امام شافعی کے عمومی قاعدے سے ٹکراتی ہے، اس لئے آپ فرماتے ہیں کہ اگرچہ بیع عرایا بھی بیع مزابنہ کی صورت بنتی ہے تاہم آپﷺ کی طرف سے رخصت دئیے جانے کی وجہ سے بیع عرایا کو استثنائی صورت کے طور پر پانچ وسق تک محدود رکھا جائے گا البتہ اس پر مزید قیاس نہیں کیا جائے گا کہ یہ درج بالا صورتوں میں جاری ہونے والے عام اصول کے خلاف ہے ۔ پس آپ کہتے ہیں کہ ہم نے اس عام حکم کو دیگر مقامات پر برقرار رکھا تاکہ نہ کسی حدیث کی تردید کرنے کی ضرورت پڑے کہ آپ ﷺ کا ہر حکم واجب الاتباع ہے اور نہ ہی اس استثنائی صورت پر قیاس کرنا لازم آئے۔ اب آپ کی عبارت ملاحظہ ہو:
فرخَّصنا في العرايا بإرخاصه، وهي بيع الرطب بالتمر، وداخلةٌ في المزابنة بإرخاصه، فأثبتنا التحريم محرماً عاماً في كل شيء من صنف واحد مأكول، بعضُهُ جُزَاف وبعضه بكيل: للمزابنة، وأحللنا العرايا خاصة بإحلاله من الجملة التي حَرَّم، ولم نبطل أحد الخبرين بالآخر ولم نجعله قياساً عليه
ذرا اس عبارت میں “رخصت ” (فرخَّصنا) نیز ” محرماً عاماً ” اور اوپر گزری عبارت میں ” حكم العام ” کے الفاظ نوٹ کیجئے، انہی کے مفہوم کو مشتاق صاحب “قاعدہ فقہیہ” قرار دے رہے ہیں اور امام صاحب اسی سے استثناء کی بات کررہے ہیں۔
6۔ آپ نے عام قاعدے سے اس قسم کی استثنائی صورتوں کی مزید مثالیں بھی دی ہیں جنہیں “الرسالۃ ” میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے ۔ غور کیجئے کہ جس چیز کو نیازی صاحب جنرل پرنسپلز کی میتھاڈولوجی کا مظہر قرار دے رہے ہیں، عین وہی چیز نہ صرف یہ کہ امام شافعی برت رہے ہیں بلکہ باقاعدہ خود اس اطلاق کے پس پشت کارفرما اصول بھی بیان کررہے ہیں۔ اب اگر یہ چیز احناف کے نکتہ نظر سے قواعدی منہج کا مظہر ہے تو امام شافعی کے نظام میں آکر اس سے باہر کیسے ہوجاتی ہے؟ خود ڈاکٹر مشتاق صاحب نے بیع تصریہ (جس کا ذکر آگے آرہا ہے) پر علامہ ابن رشد کی رائے پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ قبول کیا ہے کہ یہ طریقہ کار حنفی منہج کے قریب ہے:
“منہج کے لحاظ سے ابن رشد اور امام شافعی دو الگ مقامات پر کھڑے ہیں۔ امام شافعی کے نزدیک تو الخراج بالضمان والی حدیث اور حدیث المصراۃ میں سرے سے تعارض ہی نہیں ہے، جبکہ ابن رشد الخراج بالضمان کو باقاعدہ اصول کے طور پر مانتے ہیں اور یہ بھی مانتے ہیں کہ حدیث المصراۃ سے اس اصول کی (اور کئی دیگر اصولوں کی) خلاف ورزی ہوتی ہے، لیکن حدیث کی صحت کی بنا پر وہ اسے بطورِ استثنا مان لیتے ہیں۔ منہج کے لحاظ سے یہ طریقہ حنفی منہج کے زیادہ قریب ہے اور اسے اصولِ قانون کی اصطلاح میں analytical method کہا جاتا ہے ”
جسے حنفی منہج قرار دیا جارہا ہے اس پر “الرسالۃ ” ہی کی اصولی بحثوں کا اثر ہے کیونکہ ائمہ احناف کی کتب میں استحسان سے متعلق یہ اصولی وضاحتیں مذکور نہیں۔ الغرض معلوم ہوا کہ “الرسالۃ” میں درج یہ پورا سیکشن، جو امام شافعی لائے ہی “عام قانون و استثناء” کو بیان کرنے کے لئے ہیں، اس موقف کی تردید کررہا ہے کہ امام شافعی کے ہاں قاعدے کا منہج نہیں پایا جاتا۔ اب اس پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے دوسری بات کی طرف بڑھتے ہیں، یعنی بیع تصریہ پر امام شافعی صاحب کا موقف۔
امام شافعی، بیع تصریہ و الخراج بالضمان: قاعدے و استحسان بالنص کا امتزاج
7۔ دو میں سے پہلے مقدمے کی غلطی واضح ہوچکنے کے بعد اب دوسری بات کی طرف چلتے ہیں۔ کتاب الرسالۃ میں “عام قاعدہ و اصول اور اس سے استثناء ” سے متعلق ان مثالوں کے مکمل ہونے کے بعد اور اسی تناظر ہی میں آپ کا سائل (interlocker) آپ سے پوچھتا ہے:
فاذكر منه وجهاً غيرَ هذا إن حضرك تجمع فيه ما يقاس عليه ولا يقاس؟
یعنی اگر آپ کے ذہن نشین ہو تو مجھے کوئی ایسی صورت و مثال بتائیں جس میں قیاس کرنے اور نہ کرنے کی دونوں باتیں جمع ہوجائیں؟ یعنی ایسی صورت جس میں قاعدہ عام پر بھی عمل ہو اور ساتھ ہی ساتھ استثناء (استحسان بالنص) بھی جاری ہوتا ہو؟ غور کیجئے کہ قیاس اور حنفی تصور استحسان بالنص بیان کردینے کے بعد امام شافعی ایک اور سطح کی تھیورائزیشن کے امکان کو بیان کرنے جارہے ہیں جو ان دونوں کا مجموعہ ہو۔ امام شافعی کو بلاوجہ تو عبقری شخصیت نہیں کہا جاتا!
آپ کہتے ہیں کہ اس کی مثال بیع تصریۃ ہے، جی ہاں اچھی طرح نوٹ کیجئے کہ “الرسالۃ” میں امام صاحب بیع تصریہ کو پیچھے سے چلی آنے والی “قاعدے و استثناء ” کی بحث سے متعلق اس خاص سوال کے تناظر میں لائے ہیں نہ کہ “احادیث کے مابین رفع تعارض” کے عنوان میں۔
بیع تصریہ کی صورت یہ ہے کہ اگر ایک شخص اونٹنی یا بکری کے تھنوں میں دودھ روکے رکھنے کے بعد (تاکہ جانور کے تھن خوب پھول جائیں اور خریدار کو لگے کہ یہ جانور بہت دودھ دینے والا ہے) اسے فروخت کرے، پھر خریدار عیب ظاہر ہونے پر اسے واپس کرنے لگے تو کیا تھنوں والا دودھ بھی اسے واپس لوٹانا ہے یا نہیں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ اس صورت میں خریدار کو چاہئے کہ جانور لوٹاتے ہوئے ساتھ ایک صاع چھوارے بھی اصل مالک کو ادا کردے۔ آپ کہتے ہیں کہ بظاہر یہ بات اس لحاظ سے خلاف قیاس ہے کہ اونٹنی، گائے و بکری ہر ایک کے دودھ میں فرق ہوتا ہے اور ان کی قیمت بھی یکساں نہیں ہوتی اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان سب کے تھنوں کے دودھ کی قیمت ایک صاع کے بجائے متفرق ہونی چاہئے۔ لیکن چونکہ آپﷺ نے تھنوں کے غیر معین دودھ سے متعلق یہ قاعدہ جاری فرما دیا لہذا اب ہم اسے ایک استثنائی صورت مانتے ہوئے اس پر عمل کریں گے اور اس حکم کو مزید احکام پر نہیں پھیلائیں گے۔ چنانچہ درختوں سے حاصل ہونے والے پھل اور جانور کے بچے وغیرہ ہر ایک کو “الخراج بالضمان” کے عموم پر برقرار رکھتے ہوئے غلام کی طرح دیکھا جائے گا اور ساتھ ہی ساتھ آپ ﷺ کی حدیث پر امر تعبدی کی طرح عمل بھی کیاجائے گا۔ یہاں تک قیاس اور استحسان کی صورت ہوئی، پھر آپ کہتے ہیں کہ بکری کے تھنوں کے دودھ پر تو ایک صاع چھوارے واپس کئے جائیں گے، لیکن خریداری کے وقت تھنوں مین موجود دودھ کے سوا جو دیگر دودھ بعد میں جانور سے حاصل ہوا وہ الخراج بالضمان کے تحت خریدار ہی کا سمجھا جائے گا اور نہ اسے لوٹانا ہوگا اور نہ ہی اس کی قیمت ادا کرنا ہوگی۔ گویا استثنائی حکم صرف تھنوں کے دودھ تک محدود ہے۔ غور کیجئے کہ کس خوبی سے آپ نے ایک ہی مسئلے میں قیاس کے عموم اور استثناء دونوں کی مثال پیش فرمائی:
الف) الخراج بالضمان کا عمومی حکم درختوں کے پھل وغیرہ دیگر سب امور پر لاگو رہا (فقلنا بالقياس على حديث “الخراج بالضمان ” فقلنا: كل ما خرج من ثمرِ حائطٍ اشتريته، أو وَلَدِ ماشيةٍ أو جاريةٍ اشتريتها، فهو مثل الخراج، لأنه حدث في مِلك مشتريه، لا في ملك بائعه)
ب) حدیث کی بنا پر جانور کے تھنوں والا دودھ قاعدے سے استثناء بھی ہوگیا جس پر قیاس نہیں ہوسکتا (وقلنا في المُصَرَّاة اتباعاً لأمر رسول الله، ولم نقس عليه)
ج) اور فروخت کے وقت اسی جانور کے تھنوں میں موجود دودھ کے سوا جو اضافی دودھ بعد میں حاصل ہوا اس پر “الخراج بالضمان ” کا قاعدہ عامہ بھی جاری رہا (فنكونُ قد قلنا في لبن التصرية خبراً، وفي اللبن بعد التصرية قياساً على ” الخراج بالضمان”)
8۔ تو یہ ہے اس حدیث کے بارے میں امام شافعی کا اصولی نکتہ نگاہ جو الرسالۃ میں مذکور ہے۔ البتہ مشتاق صاحب نے یہ تاثر دینے کی کوشش فرمائی ہے کہ ہم نے الخراج بالضمان کا مفہوم سمجھنے کے لئے صرف “الرسالۃ “پر انحصار کیا ہے جس سے ہم نے غلطی کھائی جبکہ امام صاحب کی کتاب “اختلاف الحدیث” میں اس حدیث کا تناظر گویا کچھ اور ہی ہے اور جسے مشتاق صاحب نے “لغت و بیان کے ظروف کے ذریعے رفع تعارض” کی روایتی کوششوں سے تعبیر کرکے قاعدے کی بحث سے کوسوں دور بتایا ہے۔ یعنی ڈاکٹر صاحب یہ کہہ رہے ہیں کہ امام شافعی اس حدیث کے تناظر میں کسی اصول و قاعدے کی بحث نہیں کررہے بلکہ محدثانہ قسم کی بحث کررہے ہیں۔ آئیے کتاب “اختلاف الحدیث” سے بھی اس حدیث کا مطالعہ کئے لیتے ہیں تاکہ معلوم ہوسکے کہ ڈاکٹر صاحب کا بیان کردہ مفہوم کس قدر امام شافعی کے موقف کی ترجمانی کرتا ہے۔ اگر درج بالا وضاحت پیش نظر ہو تو کتاب “اختلاف الحدیث ” والی متعلقہ حدیث کا مطلب بالکل واضح ہے:
«وذلك أن مبتاع الشاة أو الناقة المصراة مبتاع لشاة أو ناقة فيها لبن ظاهر، وهو غيرهما، كالثمر في النخلة الذي إذا شاء قطعه، وكذلك اللبن إذا شاء حلبه، واللبن مبيع مع الشاة وهو سواها، وكان في ملك البائع، فإذا حلبه ثم أراد ردها بعيب التصرية ردها وصاعا من تمر، كثر اللبن أو قل، كان قيمته أو أقل من قيمته؛ لأن ذلك شيء وقته رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد أن جمع فيه بين الإبل والغنم، والعلم يحيط أن ألبان الإبل والغنم مختلفة الكثرة والأثمان، وأن ألبان كل الإبل والغنم مختلفة، وكذلك البقر؛ لأنها في معناها»
اس کا مفہوم یہ ہے کہ جس شخص نے ایسی بکری یا اونٹنی خریدی جس کا دودھ تھن میں روک لیا گیا، تو اس نے دراصل ایسی بکری یا اونٹی خریدی جس کا دودھ عیاں وظاہر ہے۔ اور وہ دودھ اس کی ذات سے الگ حیثیت بھی رکھتا ہے جیسے کہ درخت کا پھل، اور یہ دودھ بکری کے ساتھ ہی سودے کا حصہ بنتا ہے جبکہ اس سے قبل وہ بیچنے والی کی ملکیت تھا۔ پس اگر خریدار نے اسے نکال لیا لیکن جونہی اسے تصریہ (دودھ روکے جانے) کے عیب کا علم ہوا اور اب وہ اس جانور کو لوٹانا چاہے، تو بکری کے ساتھ ایک صاع چھوارے بھی ادا کرے گا اگرچہ اس دودھ کی مقدار و قیمت زیادہ ہو یا کم، اگرچہ یہ بات بھی معلوم ہے کہ گائے و انٹنی وغیرہ کا دودھ مختلف ہوتا ہے کیونکہ یہ سب اسی کے معنی میں شامل ہیں۔
بتائیے کہ اس کتاب میں بیان کردہ اس حدیث میں ایسی کونسی بات ہے جو الرسالۃ کی بحث سے واضح نہیں ہوپاتی اور مشتاق صاحب کی توجیہہ کے مطابق ہے؟ مشتاق صاحب اس کا مفہوم مقرر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
“اب بظاہر اس روایت اور الخراج بالضمان والی روایت میں تعارض ہے کیونکہ وہاں یہ قرار دیا گیا تھا کہ غلام سے جو فائدہ خریدار نے اٹھا لیا وہ ضمان کے مقابل میں تھا، اس لیے وہ اس کے عوض میں کچھ نہیں دے گا؛ جبکہ یہاں یہ قرار دیا گیا ہے کہ چونکہ اس نے اس دوران میں دودھ لیا ہے، تو اس وجہ سے وہ دوسرے فریق کو ایک صاع کھجور دے۔”
جس تعارض کا ڈاکٹر صاحب ذکر کررہے ہیں امام شافعی صاحب کی بحث کا اس تعارض سے کوئی تعلق نہیں۔ جانور کا وہ دددھ جو خریدار کی ملکیت میں آنے کے بعد اس کے تھنوں میں پیدا ہوا وہ الخراج بالضمان ہی کے تحت ہے، مسئلہ صرف اس دودھ سے متعلق تھا جو فروخت کے وقت تھنوں میں تھا اور اسی لئے اس پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسے بھی لوٹانا ہوگا کہ یہ دودھ تو فروخت کرنے والے کی ملکیت میں پیدا ہوا تھا؟ اسی لئے امام شافعی فرماتے ہیں کہ “تصریہ والی حدیث میں کچھ ایسی اضافی بات بیان ہوئی جو خراج والی میں نہیں ہوئی”۔ چونکہ بحث کا پورا تناظر واضح نہیں ہوسکا تھا اس لئے ڈاکٹر صاحب کو یہ جملہ سمجھنے میں بھی چوک لگی: كان في ملك البائعجس سے آپ نے یہ سمجھا کہ ” دودھ بیچنے والے کی ملکیت سے نکلا ہی نہیں” اور اس چوک کی وجہ سے آپ کو امام شافعی صاحب کا موقف بھی بالکل انوکھی قسم کا معلوم ہوا جبکہ امام شافعی یہ فرمارہے ہیں کہ بیچنے سے قبل وہ دودھ فروخت کنندہ کی ملکیت تھا۔
الغرض اگر پورے غور و فکر سے امام شافعی کا موقف سمجھا جائے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ امام شافعی صاحب نے اس توجیہ سے “الخراج بالضمان” کے قاعدے کو ٹوٹنے سے بچایا ہے اور واضح کیا ہے کہ حدیث تصریہ میں اصل خلاف قیاس معاملہ بس وہ دودھ ہے جو سودے کا حصہ تھا اور اسی بارے میں یہ اختلاف ہوا کہ اس کے عوض میں کتنا مال لوٹایا جائے۔ اس لحاظ سے یہ پوری بحث یہ ثابت کرتی ہے کہ امام شافعی صاحب کا منہج دراصل قاعدے کی حفاظت کرنے والا ہے، نہ کہ اسے توڑنے والا کیونکہ وہ قاعدہ ہی اس طرح بنا رہے ہیں کہ حدیث سے ٹوٹ نہیں رہا۔ چنانچہ ہماری گزارش ہے کہ امام شافعی کے بارے میں جس غلط مفروضے کو اپنا لیا گیا ہے اسے ایک طرف رکھ کر ٹھنڈے دل کے ساتھ اس تفصیل کو پڑھئے اور بتائیے کہ خود آپ جسے جنرل پرنسپلز قرار دیتے ہیں اس کی پابندی کرنا اور کس چیز کا نام ہے نیز یہ کہ خود آپ کی طے خط تقسیم (جسے ہم درست نہیں سمجھتے) کی رو سے امام شافعی اس مسئلے میں لائن کے کس طرف کھڑے ہیں؟
کتاب و باب کے “عنوانات” سے استدلال
9۔ محترم مشتاق صاحب کا کہنا ہے کہ امام صاحب اس بحث کو رفع تعارض حدیث کے تحت لائے ہیں، ہم کہتے ہیں اولاً الرسالۃ کی رو سے یہ بات درست نہیں، اور اگر ایسا ہی مان لیا جائے تب بھی یہ ان کے موقف میں انہیں مفید نہیں جیسا کہ ہم واضح کرتے ہیں۔ چنانچہ امام شافعی کی اس بحث کو قاعدے سے خارج بتانے کے لئے مشتاق صاحب نے یہ استدلال فرمایا ہے:
“ایک تو باب کے عنوان پر توجہ کریں، تو معلوم ہو کہ امام شافعی یہاں الخراج بالضمان کو “قاعدہ فقہیہ” کی حیثیت سے نہیں، بلکہ حدیثِ رسول ﷺ کی حیثیت سے پیش کررہے ہیں، جو اگرچہ خبرِ واحد ہے لیکن اس کی حیثیت امام شافعی کے نظام میں فیصلہ کن ہے۔”
اس سے وہ یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ خبر واحد ان کے نظام میں فیصلہ کن ہے اور قاعدے کی کوئی حیثیت نہیں۔ اگر اس طرح عنوانات ہی سے استدلال شروع کردیا جائے تو شاید حنفی ائمہ کی طرف منسوب منہج ہی پر سوالات آ جائیں۔ چنانچہ بڑے بڑے مقدمات کو ثابت کرنے کے لئے محض ابواب کے عنوانات سے دلیل لانے کے منہج میں ہمارے نزدیک تب تک خاص معنویت نہیں پائی جاتی جب تک کوئی ٹھوس مواد نہ پیش کیا جائے، اور اگر عنوان ہی سے غرض ہے تو یہ دیکھ لیجئے کہ امام شافعی “الرسالۃ ” میں اسے کس مقام پر لائے ہیں۔
دوسری بات یہ کہ جسے حنفی استحسان کہتے ہیں، وہ آخر قیاس اور رفع تعارض کے سوا اور کس چیز کا نام ہے جیسا کہ علمائے شوافع نے یہ واضح کیا ہے اور ہم نے بھی پہلے اس پر گفتگو کی ہے؟ پس اگر اس بحث سے متعلق کسی حدیث کو “رفع اختلاف” کے عنوان کے تحت لایا جائے تو اس میں حیرانی کی کیا بات؟ ظاہری تعارض نصوص کی صورت میں جو کام کئے جاسکتے ہیں یعنی قاعدے کی ریفائنمنٹ اور قاعدے سے استثناء ، امام شافعی یہ دونوں ہی کرتے ہیں ۔
10۔ مشتاق صاحب مزید فرماتے ہیں:
“اس سے معلوم ہوا کہ امام شافعی الخراج بالضمان کو بطور general principle of law نہیں مان رہے، بلکہ بطور حدیث اسے لے رہے ہیں اور اس حدیث کے ایک اور حدیث کے ساتھ کے ظاہری تعارض کو رفع کرنے کےلیے لغت و بیان کے وہی طریقے اختیار کررہے ہیں جو دو عبارتوں کے درمیان رفع تعارض کےلیے اختیار کیے جاتے ہیں اور وہ مسلسل یہ کوشش کررہے ہیں کہ دونوں حدیثوں کے لفظ پر عمل ہو، قطع نظر اس سے کہ قانون کے عمومی اصولوں (قواعدِ فقہیہ) کا تقاضا کیا ہے؟ کیا اب بھی ہمارے فاضل دوست کےلیے یہ بات سمجھنے میں دقت ہوگی کہ ہم کیوں امام شافعی کے اصولی منہج کو theories of literal interpretation میں شمار کرتے ہیں، نہ کہ theories of general principles میں؟ ”
اب جبکہ بحث کا اصل تناظر واضح ہوگیا تو اس نتیجے اور پوچھے گئے سوال کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے اس کا فیصلہ ہم فاضل و انصاف پسند قاری پر چھوڑتے ہیں۔ یہاں ہمیں یہ بات بھی کہنا پڑتی ہے کہ امام شافعی نے تصریہ کا مفہوم واضح کرکے جس طرح الخراج بالضمان کے قاعدے کو عموم پر برقرار رکھا ہے، اس سب کو “لغوی بحث” کے کھاتے میں ڈال دینا اس لحاظ سے دلچسپ ہے کہ محترم ڈاکٹر صاحب امام شافعی سے قیاس علت کی نفی کرانے کے لئے جس فراغ دلی کے ساتھ امام شافعی کے تمام اصولی ، قواعدی و قیاسی استدلال کو “لغوی بحث” قرار دے رہے ہیں، شاید اس کے بعد مشائخ احناف کے ہاں سے بھی قیاس علت نامی شے معدوم ہوجائے۔
نیز ہم اس بات کا مفہوم سمجھنے سے بھی قاصر ہیں کہ امام صاحب اس معاملے کو قاعدے نہیں بلکہ نص کی جہت سے دیکھتے ہیں؟ جو قاعدہ یا عام حکم نص سے معلوم ہو، اسے نص کے سوا دیکھنے کا اور کونسا زاویہ ممکن ہے؟ کیا احناف نص سے جواز حاصل کئے بغیر اپنی طرف ہی سے قواعد بنالیتے ہیں؟ آخر امام شافعی کا نص کو ملحوظ رکھنا اور قاعدہ بنانا، یہ دونوں ایک دوسرے سے الگ کیسے اور کس پیمانے پر ہوگئے؟ استاد محترم نیازی صاحب اپنی کتاب “تھیوریز آف اسلامک لاء” میں یہ بتاتے ہوئے کہ قاعدہ کس طرح معلوم ہوتا ہے ان جیسے امور کا ذکر کرتے ہیں:
- قرآن کی آیت ، جیسے أَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا
- حدیث ، جیسے الخراج بالضمان
- اجماع سے وغیرہ
تو کیا اب یہ کہاجائے کہ استاد محترم قاعدے کو قاعدے کی نظر سے نہیں بلکہ نصوص و اجماع کی حیثیت سے دیکھ رہے ہیں اور اس لئے ان کے نزدیک قاعدہ حجت نہیں؟ الغرض اس استدلال کی وجہ استدلال ہمیں سمجھ نہیں آسکی۔ جب مستنبط قاعدے (یعنی قیاس ) کی بحث آئے گی اس پر تب بات کریں گے، فی الوقت تو منصوص قاعدے ہی پر بات چل رہی ہے جو الفاظ کی دلالت سے اعتبار حاصل کرتا ہے، اس معاملے میں نص کی طرف التفات کرکے اس اسے اعتبار حاصل کئے بغیر اصول بنا لینا بھلا کس کا منہج ہے کہ امام شافعی کو اس سے الگ دکھایا جائے؟
لفظ لٹرل ازم کا استعمال
11۔ پس واضح ہوگیا کہ امام شافعی صاحب “قاعدہ اور اس سے استثناء” کے طریقے پر قواعد اصولیہ سے متعلق اپنی ترجیحات کے اندر رہتے ہوئے عمل کرتے ہیں اور یہی عمل احناف اپنی ترجیحات کے مطابق کرتے ہیں۔ مثلا بیع سلم اور قرض ان کے اصولوں کی رو سے عمومی قواعد کے خلاف ہیں، تاہم احناف احادیث کی بنا پر انہیں بطور استثناء جائز کہتے ہیں۔ کیا ان کے ایسا کرنے سے ان کے ہاں قاعدے کی میتھاڈولوجی ختم ہوگئی؟ اگر نہیں، تو امام شافعی کی طرف سے خبر واحد کی بنیاد پر استثناء پیدا کرنے سے یہ کیوں ختم ہوجاتی ہے؟ یہی وجہ ہے کہ امام سرخسی نے جب امام شافعی کے موقف پر تنقید فرمائی تو یہ نہیں کہا کہ آپ تو اصول و ضوابط و قواعد کو مانتے ہی نہیں بلکہ انہوں نے امام شافعی صاحب کے اصولی استدلال کو اپنے ترجیحی اصول سے توڑا۔ اسی طرح جب شافعی حنفیوں کو جواب دیتے ہیں تو اپنے اصول و قاعدے کی فضیلت ثابت کرتے ہیں۔ اسی لئے ہمارا یہ تاثر ہے کہ جس نئے معیار کو بنیاد بنا کر اصول فقہ کے مکاتب فکر کے مناہج کا تعین کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، اس نئی منہجی اصطلاحات کا سراغ جب تک ماضی سے نہ ملے اس پر سوالیہ نشان برقرار رہیں گے۔
12۔ اصول فقہ کے مباحث میں “لٹرل ازم” کی اصطلاح کے قریب ترین اصطلاح “ظاہریت” رہی ہے جس کا مصداق قیاس کے ایک خاص مفہوم کے منکرین رہے ہیں، یعنی وہ قاعدہ و کلیہ جو نص و اجماع کے بجائے استنباط پر مبنی ہو۔ امام غزالی کے بقول قیاس کا عمل دو مقدمات سے عبارت ہے جس سے نتیجہ برآمد ہوتا ہے:
مقدمہ اولی یا کبری: ہر مسکر حرام ہے
مقدمہ ثانیہ یا صغری: بھنگ مسکر ہے
نتیجہ: بھنگ حرام ہے
قائلین و منکرین قیاس کے مابین اختلاف پہلے مقدمے کے حصول کے ذرائع و ماخذات کا رہا ہے، منصوص علت سے حاصل ہونے والے مقدمے کے منکرین قیاس بھی قائل تھے اور یہی وجہ ہے کہ قائلین قیاس جن بہت سی صورتوں کو قیاس کہا کرتے تھے، منکرین قیاس کہلائے جانے والے انہیں استدلال کی دیگر صورتوں کے تحت رکھتے تھے۔ یہ اسی طرح ہے جیسے اصولیین احناف قیاس اولی (اور اسی طرح مساوی) کو قیاس کے بجائے دلالت لفظی و استدلال مانتے تھے۔ کہنے کا مطلب یہ کہ “ظاہریت پسند” اصطلاح کا مصداق اصول فقہ میں قیاس کی ایک خاص صورت پر ہوتا ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا زبان و الفاظ کی دلالتوں سے متعلق مختلف نظریات کی بنا پر بھی کسی کو ظاہری کہا گیا؟ یعنی کیا اس بنا پر کسی کو ظاہری قرار دیا گیا کہ اس کے نزدیک عام کی دلالت قطعی ہے یا ظنی نیز کیا خبر واحد سے عام کی تخصیص ہوسکتی ہے یا نہیں؟ ہمارے ناقص مطالعے کی حد تک اصول فقہ کے مختلف مناہج پر اس لحاظ سے اس اصطلاح کا اطلاق نہیں ملتا اور ان لغوی دلالتوں کے مباحث میں ایک دوسرے سے شدید اختلافات کے باوجود کسی گروہ کو ظاہریت پسند نہیں کہا گیا۔ یاد رہے کہ قاعدے یا اصول کے حصول کے دو طریقے ہیں:
الف) عام کا شمول، جو لفظ کی دلالت کی بحث ہے
ب) قیاسی قاعدے کا شمول، جس کا ایک حصہ دلالت معقولی کی بحث ہے
چنانچہ ہمارے ہاں اول الذکر نوعیت کے اختلافات کو “ظاہریت و غیر ظاہریت” کا مصداق نہیں بنایا گیا، صرف دوسری قسم کو اس کی بنیاد بنایا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عام کے شمول سے بننے والے قاعدے کو ہر گروہ قواعد اصولیہ سے متعلق اپنی اپنی ترجیحات کے مطابق مانتا ہے۔
اگر یہ بات درست ہے تو پھر “لٹرل ازم” کی اصطلاح کو ان دونوں پر پھیلا کر ماضی کے کسی فرد یا گروہ کو “لٹرل اسٹ” قرار دینا (جیسا کہ کامن لاء کی اصول قانون کی بحثوں و اصطلاحات سے متاثر ہوکر امام شافعی کے معاملے میں ایسا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے)، اسے یقینا کسی صاحب علم کی انفرادی علمی رائے کہا جاسکتا ہے (اور ممکن ہے اس کے کچھ تعلیمی و تحقیقی فوائد بھی ہوں) تاہم اس نئی اصطلاح کو ماضی کی اصطلاح کی بازگشت نہیں کہا جاسکتا بلکہ یہ ماضی کے الفاظ کو اس کے مفہوم سے بہت زیادہ پھیلا دینا (یعنی over-read کرنا) اور پھر اس سے نئے نتائج اخذ کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب اس پھیلے ہوئے مفہوم کی بنا پر خط تمیز قائم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہ خط تمیز حقائق کی روشنی میںماند پڑجاتی ہے اور تقسیم کا وہ فائدہ نہیں دیتی جو “ظاہریت” کی اصطلاح سے کبھی مراد لی جاتی تھی۔ یہ بھی اسی کا مظہر ہے کہ ان نئے مفہومات سے جو تقسیمات جنم لیتی ہیں ان کا اعتبار ثابت کرنے کے لئے اصول فقہ کی تاریخ سے براہ راست معتبر حوالہ جات پیش کرنا مشکل ہوجاتا ہے اور نتیجتا بالواسطہ استدلال کی کوشش کرنا پڑتی ہے جو ایک نوع کی نئی تاریخ لکھنے کی کاوش معلوم ہوتی ہے۔ ظاہریت کی اس اصطلاح کے دو اور معانی بھی رہے ہیں جن پر ان شاء اللہ پھر روشنی ڈالیں گے۔
13۔ امام شافعی کے منہج کو لٹرلسٹ دکھانے کے لئے مشتاق صاحب نے چند مزید جزیات کا سہارا بھی لیا ہے جیسے جنگی قوانین سے متعلق ایک مثال۔ ہم ان جزیات میں نہیں الجھنا چاہتے، البتہ صرف یہ نشاندہی کرنا چاہتے ہیں کہ ایسی جزیات بالعکس ترتیب میں بھی دکھائی جاسکتی ہیں جس سے احناف لٹرلسٹ اور شافعی قاعدہ پسند ہوجائیں گے۔ مثلاً کیا نماز میں قہقہہ سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟ احناف کے نزدیک جواب اثبات میں ہے کہ یہ حدیث میں آیا ہے جبکہ شوافع کا جواب نفی میں ہے اور ان کے استدلال کی نوعیت یہ ہے کہ “جس چیز سے نماز سے باہر وضو نہیں ٹوٹتا وہ نماز کے اندر بھی وضو توڑنے والی نہیں”۔ گویا اس مسئلے میں حفی شوافع کے مقابلے میں لٹرلسٹ ہیں۔ اور تو اور خود محترم ڈاکٹر صاحب رؤیت ہلال کے مسئلے میں جس طرح حدیث کے الفاظ پر جوں کے توں عمل پر اصرار کرتے ہیں، چاہے کوئی اپنے تئیں کیسا ہی مصلحتی قاعدہ یا اصولی استدلال پیش کرے۔ کیا اس بنا پر ان کے مخالفین کا یہ کہنا درست ہوگا کہ ڈاکٹر صاحب تو قاعدے کو مانتے ہی نہیں؟ الغرض ہر مکتب فکر کی اپنے اپنے دائرے میں لٹرل ازم اور قاعدے کی کشمکش جاری رہتی ہے۔
لفظ “قطعیت ” کا مفہوم بتائے بغیر اس پر اصرار
14۔ مشتاق صاحب احناف کے نزدیک قاعدے کی قطعیت پر جس قدر زور دیتے ہیں اس سے یہ تاثر ابھرتا ہے گویا احناف کے نزدیک لفظ عام کے مفہوم سے بننے والا قاعدہ کوئی سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہوتی ہے جو کسی طرح گرتی ہی نہیں جبکہ معاملہ یہ ہے کہ خبر مشہور (جو خبر واحد سے چند قدم کے فاصلے پر ہے) نیز وسیع حنفی تصور اجماع (جس کے امام شافعی قائل نہیں) سے بھی یہ قاعدہ جاتا رہتا ہے اور اسی طرح احناف احادیث کو کبھی احکام کے درجے میں کمی کے انداز میں تو کبھی شرط و غیر شرط کا فرق کرکے عام کے ساتھ ایڈجسٹ کرلیتے ہیں، لہذا اس بات پر اس قدر زور حنفی موقف کی پوری ترجمانی معلوم نہیں ہوتی۔
پھر “قطعی و ظنی ” محض اضافی الفاظ ہیں جن کے معنی اس وقت تک واضح نہیں ہوتے جب تک ان کے ساتھ جڑے احکام کو واضح نہ کردیا جائے۔ مثلا :
الف) متکلمین کے نزدیک قطعی کا ایک مفہوم وہ ہے جس کے آگے سب نصوص (یعنی دلائل سمعیہ) اس معنی میں ظنی ہیں کہ ان سے اخذ ہونے والا مفہوم ان ماقبل وحی عقلی قواعد کے خلاف نہیں جاسکتا جن پر اثبات و تصدیق وحی کی بنیاد ہے۔ گویا اس دائرے میں سبھی نصوص ظنی ہیں (امام رازی کی مشہور بحث کہ “کیا دلائل سمعیہ قطعیت کا فائدہ دیتے ہیں ؟” کا پس منظر یہی تناظر ہے، یہ بحث امام باقلانی سے شروع ہوتے ہوئے آپ تک پہنچتی ہے اور پھر متکلمین کے مابین چلتے ہوئے آگے امام شاطبی کو منتقل ہوتی ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ مشتاق صاحب اس رائے کے حامل گروہ شوافع کے بارے میں یہ تصور رکھتے ہیں کہ یہ لوگ قواعدی میتھاڈولوجی کو اوون کرنے والے نہیں!)
ب ) پھر جب معاملہ نصوص کے اندر آگیا تو اب کچھ نصوص وہ ہیں جن سے ثابت ہونے والے حکم کا انکار کفر کو مستلزم ہے اور کچھ کا نہیں، اس دائرے میں اول الذکر موخر الذکر کے مقابلے میں قطعی ہیں
ج) پھر جب بات اس اول الذکر کے اعتبار سے ظنیات کے دائرے میں آگئی تو ایک مجتہد جب ان نصوص سے کسی حکم کو معلوم کرتا ہے تو جن بعض صورتوں میں اسے دلائل سے اطمینان حاصل ہوگا ان پر عمل کرنا خود اس کی ذات کے لحاظ سے قطعی ہوتا ہے کہ اگر اس پر عمل نہ کرے تو گنہگار اور عند اللہ مسئول ہوگا، اس دائرے یعنی اس حکم کے لحاظ سے یہ نصوص قطعی ہوں گی (اصول فقہ کے قطعی و ظنی ہونے کی بحث کا تعلق اس دائرے سے ہے نہ کہ اول الذکر دو اعتبارات والے دائروں سے، ورنہ جو شخص کسی فقیہ کے اصول کو نہ مانے دوسرے کے نزدیک وہ کافر ہوجائے اور اس کا کوئی بھی قائل نہیں)
د) پھر وہ اصول و مسائل جن پر وہ دوسروں کو بھی فتوی دے سکتا ہے وہ ان کے مقابلے میں قطعی ہیں جنہیں یہ حیثیت حاصل نہیں
الغرض قطعی و ظنی محض الفاظ ہیں، جب تک ان کا مفہوم واضح نہ کیا جائے قاری پر کچھ بھی تاثر قائم کروایا جاسکتا ہے اور ان کا مفہوم ان الفاظ کے ساتھ جڑے ہوئے احکام سے واضح ہوتا ہے۔ چنانچہ متعلقہ بحث میں بھی احناف کے نزدیک عام کی قطعیت کا مفہوم بس اتنا ہے کہ خبر واحد کے مقابلے میں اسے ترجیح حاصل ہے ۔ جب مساوی درجے کی نص یا خبر مشہور یا اجماع آجائے تو احناف بھی عام کے قاعدے کو ترک کرکے یا استثناء کی بات کرتے ہیں اور یا قاعدے کی ریفائنمنٹ کرتے ہیں۔ یہی کچھ امام شافعی خبر واحد کی موجودگی میں بھی کرتے ہیں، اس سے زیادہ اس بحث کی کوئی حقیقت نہیں۔ چنانچہ جب امام شافعی عام کو ظنی کہتے ہیں تو اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ آپﷺ سے ثابت شدہ صحیح حدیث کی موجودگی میں اس کا مفہوم اس عموم کا حامل نہیں ہوگا جو اس کے بغیر سمجھ آتا ہو۔
اس کےجواب میں یہ کہنا کہ حنفی اس مسئلے میں خبر واحد سے استثناء نہیں کرتے کوئی وزنی بات نہیں کیونکہ یہ بات تو پہلے ہی معلوم ہے کہ امام شافعی خبر واحد سے قاعدے کو ایڈجسٹ کرتے ہیں اور حنفی نہیں کرتے، اس میں کونسی نئی بات ہے جو آج معلوم ہوئی جسے بنیاد بنا کر امام شافعی کو قیاس علت و قاعدے کا منکر ثابت کیا جائے اور اسے ہی منہج کے اختلاف کی بنیاد بنا لیا جائے؟ دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ کیا ان کے ہاں وہ تصور پایا جاتا ہے جسے آپ حنفیوں کا امتیازی وصف ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ اس کا جواب قطعی طور پر اثبات میں ہے، ہاں یہ فرق بہرحال ہے کہ تخصیص و استثناء پیدا کرنے کا اصول جداگانہ ہے۔ لیکن امام شافعی کا یہ جداگانہ اصول اس اصولی منہج کی نفی کے ہم معنی نہیں ہے جسے “اصولیت پسندانہ زاویہ نگاہ” کہا جارہا ہے ۔ چنانچہ یہ نتیجہ ان غلط مفروضوں پر قائم ہے کہ خبر واحد کے ذریعے عام کی تخصیص کے بعد قاعدہ ممکن نہیں رہتا ، نہ امام شافعی ایسا قاعدہ بناتے ہیں نیز امام شافعی قیاس علت کے بھی قائل نہیں۔ اول الذکر دو کی غلطی ہم کافی حدتک واضح کرچکے ہیں، جب موخر الذکر پر بات ہوگی تو وہ نکتہ بھی صاف ہوجائے گا، ان شاء اللہ۔
15۔ آپ مزید فرماتے ہیں کہ:
“ہمارے نزدیک قاعدہ فقہیہ، خواہ نص میں مذکور ہو یا اسے مختلف نصوص یا نظائر سے مستنبط کیا گیا ہو، عام کی طرح قطعی دلالت رکھتا ہے اور اس وجہ سے وہ خبرِ واحد کے ذریعے تخصیص قبول نہیں کرتا جبکہ امام شافعی کے نزدیک ایک تو عام کی دلالت ظنی ہے اور پھر ان کے نظام میں خبرِ واحد کو بنیادی حیثیت حاصل ہےجس کی وجہ سے قاعدہ فقہیہ ان کے نظام میں کچھ خاص حیثیت نہیں رکھتا”
شوافع کے بارے میں یہ بات کہ قاعدہ فقہیہ ان کے ہاں کچھ خاص اہمیت نہیں رکھتا، “کچھ خاص” جیسے الفاظ محض کیفیاتی (qualitative ) نوعیت کی باتیں ہیں جن کے کچھ بھی معنی بنائے جاسکتے ہیں لہذا ان موضوعی (subjective) باتوں پر ہم کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے، صرف یہ گزارش ہے کہ قواعد کی میتھاڈولوجی کی نظریاتی بحث کی بنیادوں اور ہر ایک کے درجے کو الگ الگ بیان کرنے والے اصولیین شوافع ہی تھے۔ پھر کیا واقعی احناف کے نزدیک ہر قسم کا قاعدہ یکساں طور پر قطعی ہے، چاہے منصوص ہو یا مستنبط نیز اگر مستنبط تو استنباط کا طریقہ کیا تھا؟ ہمارے نزدیک یہ دعوی بہت زیادہ عمومیت کا حامل ہے اور پوری طرح حنفی موقف کی نمائندگی کرتا بھی محسوس نہیں ہوتا، اسے بھی اصولیین احناف کی ابحاث کی روشنی میں طے کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم فی الوقت ہم بحث کو ان تفصیلات کی طرف نہیں لے جانا چاہتے کہ یہ موضوع سے باہر ہے۔
ایک ضمنی بات
16۔ آپ ایک بات یہ بھی فرماتے ہیں کہ :
“قیاس” سے مراد عام فقہی اصول (جسے بعد میں قاعدہ فقہیہ کا نام دیا گیا ) ہوتا ہے۔ یہ بات بہت سارے ناقدین کو (ابن حزم سمیت) سمجھ میں نہیں آتی، اس لیے وہ اعتراض کرتے ہیں کہ حدیث کے خلافِ قیاس ہونے کا کیا مطلب ہوا جبکہ حدیث میں موجود حکم پر ہی تو قیاس کیا جاتا ہے اور اس وجہ سے حدیث کو تو قیاس کےلیے اصل کی حیثیت حاصل ہے! ہمارے فاضل دوست بھی شافعیہ اور معاصر عرب علماء کی کتب کے زیرِ اثر اس الجھن میں مبتلا ہیں ”
اپنی ذات کے بار ے میں ان کے اس تاثر پر تو ہم کچھ نہیں کہنا چاہتے، البتہ یہ عرض ضرور کریں گے کہ یہ بہت ہی زیادہ عمومی قسم کا دعوی ہے اور اگرچہ یہ ممکن ہے کہ بیسویں صدی کے اردو دان طبقے نیز غیر ماہرین اصول فقہ کو یہ بات سمجھ نہ آتی ہو، لیکن علامہ ابن حزم جب حدیث کے مقابلے میں اس قیاس کو رد کرتے ہیں جسے آپ قاعدہ عامہ کہتے ہیں تو وہ عین اسی چیز کو بالکل درست طور پر سمجھ کر رد کرتے ہیں جس کا احناف اقرار کرتے ہیں: یعنی عام کی دلالت کی خبر واحد پر ترجیح۔ پس علامہ ابن حزم کو اتنا انڈر اسٹیمیٹ کرنا مناسب نہیں، آپ نے علم منطق پر اس دور میں کتب لکھیں جب اس علم کے ماہرین کو انگلیوں پر گنا جاسکتا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عام کے شمول سے بننے والے قاعدے پر بات کرتے ہوئے قیاس کا لفظ الرسالۃ میں بھی مذکور ہے جیسا کہ اوپر عبارات میں گزر چکا۔
خلاصہ بحث
1۔ “اصول و استثناء” کی جس ساخت کو حنفی منہج کی خصوصیت بتایا جارہا ہے، وہ امام شافعی کی “الرسالۃ “ہی کی توضیحات کا اثر ہے کیونکہ آپ باقاعدہ موضوع بنا کر اسے برتتے ہیں ۔
2۔ الخراج بالضمان اور بیع تصریہ پر امام شافعی کی بحث لغوی اصولوں کی بنیاد پر ایک حدیث کو دوسری پر ترجیح دینے سے عبارت نہیں ہے بلکہ “اصول اور اس سے استثناء “سے عبارت ہے تاکہ اصول نہ ٹوٹے۔ پس جس اشتراک کی بنا پر علامہ ابن رشد کو لائن سے ایک طرف دکھایا جارہا ہے، اسی اشتراک کے باوجود امام شافعی کو دوسری طرف نہ دھکیلا جائے۔
3۔ امام شافعی بھی نصوص کے پیش نظر قاعدہ اخذ کرتے ہیں ، مگر نصوص کے مابین اپنے قواعد اصولیہ کی ترجیح کے مطابق بالکل اس طرح جیسے احناف اپنی ترجیحات کے مطابق کرتے ہیں۔ چنانچہ ایک کا نام قاعدے کی میتھاڈولوجی اور دوسرے کا نام لٹرل ازم رکھ دینا، یہ غیر اصولی انتخاب معلوم ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کی بنیاد پر جو خط امتیاز کھینچنے کی کوشش کی جارہی ہے وہ مواقف کو الگ کرنے کا فائدہ نہیں دیتا۔
کمنت کیجے